حجۃ الاسلام آغا سید مہدی شاہ المو سوی المعر وف (نری آغا )/ تحریر اشرف حسین صالحی
حالات زندگی حجۃ الاسلام آغا سید مہدی شاہ المو سوی المعر وف (نری آغا )مرحوم
حجۃ الاسلام آغا سید مہدی شاہ مر حوم خطہ بلتستان کے نامو ر عا لم دین گز رے ہیں۔ آپ با نی خانقاہ معلی گمبہ سکردو میر سید ابرا ہیم کی اولا د سے تھے۔ آپ کا شجر ہ نسب کچھ پشتوں کے بعد ابو الکرا مات میر مختا ر اخیا ر علیہ الر حمۃ سے ملتا ہے۔
جو بلتستان میں مذہب اما میہ اثنا عشری کے نامور مبلغ گزرےہیں ۔ آغا سید مہد ی شاہ مر حوم تقر یبا 1890ءمیں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے وا لد سے حا صل کی ۔پھر مختلف مراحل کے بعد آپ نجف چلے گے۔ان کے نجف اشرف کے پہلے دور کی تاریخ وسال نہ مل سکا۔ تاہم خاندان کے بزرگوں کے مطابق وہ 25 سال کی عمر میں نجف اشرف تشریف لے گے۔ یہ تقریبا 1315 ھ بنتا ہے اور واپسی1330ھ ہے ۔چند سال بعد پھر آپ نجف گئے۔ یہ دور جناب آیت اللہ آغا سید ابو الحسن اصفہانی کا دور تھاچنا نچہ مزید سات سال تعلیم حاصل کی اور پھر بھائی کو نجف اشرف میں براۓ حصول تعلیم چھوڑا اورخود واپس بلتستان تشریف لاۓ اورعلاقہ نرو میں ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی جسےبعد ازاں اہلیان گمبہ سکردوکے پر زور اصرار پرگمبہ سکردومنتقل کیا گیا کیو نکہ گمبہ سکردومیں بوا فضل شاہ کے مرحوم ھونے کے بعد کوئی اور عالم دین موجود نہیں تھے لیکن ان کی زندگی نے وفانہ کی 1346کے اوائل میں بلتستان تشریف لاۓ اور1368ھ میں60 سال کی عمرمیں وفات پائی لیکن اسی مختصر دورمیں انہوں نے بہت شہرت پائی ۔آپ وعظ ونصائح اور مصائب اہلبیت کے بیان میں اتنے مشہورتھے کہ ان کے وفات کے 50 سال بعد بھی عمررسیدہ اوربزرگ لوگ ان کی فصاحت وبلاغۃ کویادکرکے افسوس کرتے تھے اوران کا کہنا تھا کہ ان کے پاے کا عالم و عارف ابھی تک بلتستان کے علا قہ سکردو میں پیدا نہیں ھوا۔ان کے نجف اشرف کے پہلے دور کا تاریخ وسن نہ مل سکاتاہم خاندان کے بزرگوں کے مطابق وہ 25 سال کی عمر میں نجف اشرف تشریف لے گے یہ تقریبا 1315 ھ بنتا ہے اور واپسی1330ھ ہے ۔اور نجف اشرف کادوسرا 1338ھ تا1348ھ ہے کیونکہ ان کے کتب ورسائل منطق وغیرہ پر یہ عبارت درج ہے (این کتاب از مرزا حسین کتب فروش نجف اشرف خریدم)اس عبارت کےساتھ جوتاریخ ہےوہ 1338ھ تا1348ھ وغیرہ ہے ۔آپ ایک عالم باعمل،صاحب کرامات شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے نجف اشرف سے واپسی کے بعد اپنے والد ماجد کے نقش قدم پرچلتے ہوۓ نر غوڑو اور نر بوچونگ کے مواضعات میں مذ ہب امامیہ کی تبلیغ کی اور آج آپ کی سعی کے مسلسل باعث ان علاقوں کے تمام کے تمام لوگ شیعہ اثنا عشری ہیں ۔آپ نے انجمن امامیہ بلتستان کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور پہلی مرتبہ بلتستان کے تمام علماء کے لےء ایک پلیٹ فارم مہیا کیا لیکن اسے حلات کی ستم ظریفی کہےکہ یہ تنظیم آپ کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگئ ۔عمر کے آخری ایام میں وہ انجمن علماء بلتستان کے صدر بھی رہے ہے۔ آپ علماءبلتستان میں اس لےء بھی ممتاز ہیں کہ آپ نے بلتستان کی جنگ آزادی کی کامیابی کے لےء بڑھ چڑھ کر حصہ لیا باالخصوص اس وقت جب سکردو چھاونی پر قبضے کی ناکام کوشش کے بعد جب محاصرے نے طول پکڑا اور گلگت سے آے ہوے مجاہدین آزادی مقامی لوگوں کی جانب سے عدم تعاون سے دلبر اداشتہ ہوکر واپس ہوے تو نے راجہ سکردو ،وزیر شمشیر، شیخ محمد حسین اوردیگر عمائدین کے ہمراہ جگہ جگہ جا کر لوگوں آزادی کے ثمرات سے آگاہ کیا اور مجاہدین آزادی سے تعاون پر مائل کیا جس کے نتیجہ میں مجاہدین کو واپسی پر آمادہ کرنے کے لےء ایک وفد روانہ ہوا جو اپنے ساتھ آغا سید مھدی شاہ موسوی کی جانب سے بحثیت صدر علماے ء امامیہ بلتستان ایک خط بھی لے کر ۔ انہی بزر گان کے قول کے مطا بق مجا ہدین کے مشہور معمار (اپوعمرو نرو پا)نے ایک دیدہ زیب عمارت تعمیر کی جو کہ بلتستان کی قدیم طرز تعمیر کا اعلی نمو نہ تھی جو مذکورہ خانقاہ کی تعمیر نو کےلے ء کھدایئ کے دواران منہدم ہو چکی ہے ۔لیکن آج بھی آپ کا مزار عقیدت مند وں کی حا جت روائی کا وسیلہ ہے ۔آپ ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ علم قضا وت (آیۃ اللہ العظمی سید ابو الحسن اصفہانی نے آپ کو قضا وت کی سند عطا کی جو ابھی آپ کےبھتیجے سید مبا رک علی شاہ المو سوی جو آج کل نجف اشرف میں تحصیل علم میں مشغول ہیں)،علم الانساب،قیافہ شنا سی کے علم کے علاوہ ماہر جنات وعملیات بھی تھے بلتستان کے طول وعرض سے لوگ آپ کے پاس آتے تھے اور انکی دعا وں کی بدولت صحت یاب ہوکر جاتے تھے
آپ کی ثقافتی کارکردگی
الف : آپ نے انجمن امامیہ بلتستان کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور پہلی مرتبہ بلتستان کے تمام علماء کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا لیکن اسے حالات کی ستم ظریفی کہئےکہ یہ تنظیم آپ کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگئی ۔عمر کے آخری ایام میں آپ انجمن علماء بلتستان کے صدر بھی رہے ہیں۔
ب : آپ علماءبلتستان میں اس لیے بھی ممتاز ہیں کیونکہ آپ نے بلتستان کی جنگ آزادی کی کامیابی کے لیےبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ بالخصوص اس وقت جب سکردو چھاونی پر قبضے کی ناکام کوشش کے بعد جب محاصرے نے طول پکڑ لیا اور گلگت سے آئے ہوئے مجاہدین آزادی مقامی لوگوں کی جانب سے عدم تعاون سے دلبر داشتہ ہوکر واپس ہوئے تو آپ نے راجہ سکردو ،وزیر شمشیر، شیخ محمد حسین اوردیگر عمائدین کے ہمراہ جگہ جگہ جا کر لوگوں کو آزادی کے ثمرات سے آگاہ کیا اور مجاہدین آزادی سے تعاون پر مائل کیا۔ جس کے نتیجے میں مجاہدین کو واپسی پر آمادہ کیا۔
ت : آپ ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ علم قضا وت (آیۃ اللہ العظمی سید ابو الحسن اصفہانی نے آپ کو قضا وت کی سند عطا کی ہے۔
آپ کےشاگرد
بلتستان کے وہ علماء جنہو ں نے آپ سے علم کسب کیا ان میں سے مشہو ر : آغا حسن الموسوی مرحوم حسین آباد، آغا سید احمد علی شاہ موسوی مر حوم سابق مشیر برائے امور کشمیروشمالی علاقہ جات نغولی سپنگ سکردو،آغا حسن موسوی امام بارگاہ کلان سکردو ،شیخ محمدمرحوم شگری کلان،شیخ ابراہیم تنجوس،شاعر اہلبیت سید ناصر الدین ناصر مرحوم گمبہ سکردو، آغاعبداللہ شاہ موسوی مرحوم کچورا جیسے مشہور علماء گزرے ہیں۔ جبکہ آپ کے شاگرد شیخ رحیم اللہ شگری کلان اور شیخ محمد حافظ کا مونکی الحمد للہ بقید حیا ت ہیں۔
حالات زندگی جناب حجۃ الاسلام آغا سید محمد علی شاہ مرحوم (المعروف نری آغا)مرحوم
جناب آغا سید محمد علی شاہ مرحوم (المعروف نری آغا)1902 میں پیدا ہوئے ۔آپ کےوالد ماجدسید محمد موسوی بھی معروف عالم دین اورمبلغ گزرے ہیں۔ جن کی کاوشوں سے موضع نرکے تمام علاقوں میں مذہب حقہ کو فروغ حاصل ہوا اوراس مشن کی تکمیل آپ اور باقی آنے والوں نے کی۔ اس سے پہلے ان علاقوں کے لوگ نور بخشی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور آج اہلیان “نر” اپنے مذہبی اعتقادات کے لحاظ سے پورے خطہ بلتستان میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے برادر بزرگ سے حاصل کی۔ پھر آپ نے نجف کے جید علماءاور مجتھدین باالخصوص آیۃ اللہ العظمی سید ابو الحسن اصفھانی اور عبد الکریم حا ئری سے کسب فیض کیا اور مختلف علوم میں مہارت حاصل کی ۔ آپ اپنے برا در بزرگ آغا سید مہدی شاہ کی وفات کے بعد بیک وقت گمبہ سکردو اور نر کےمیر واعظ تھے ۔آپ نے 84 سال عمر پائی اور اپنے بڑے بھائی آغا سید مہدی شاہ کی طرح دوراں تقریر بیمار ہوئے اور کچھ دن بعد 1986 ءمیں نرو میں رحلت فرمائی اور نرو میں ہی مدفون ہیں۔ آج بھی عاشورا کاجلوس آپ کےمزار کا طواف کرکے آپ کی خدمت کوخراج تحسین پیش کرنے کےبعد اختتام پذیر ہوتاہے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید