تازہ ترین

حکمرانو، احتیاط راہ نجات ہے/ تحریر محمد حسن جمالی 

 احتیاطی تدبیر ہر مشکل کو آسان بنادیتی ہےـ ہماری سیاسی ،اقتصادی، ثقافتی، فردی اور اجتماعی زندگی کے اکثر مشکلات ومسائل عدم احتیاط کی پیداوار ہوتے ہیں، جیسے بہت سارے لوگ احتیاط کا دامن چھوڑنے کے سبب جسمی و روحی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ان پر کینسر جیسا خطرناک جان لیوا مرض لاحق ہوجاتا ہے ،اسی طرح کھبی ملک کے حکام اور ذمہ داروں کی بے احتیاطی کے باعث ناقابل جبران خسارہ قوم کے حصے میں آتا ہے ،اسی لئے عقلمند لوگ اپنی زندگی کے تمام ادوار میں احتیاط کو بڑی سنجیدگی سے اہمیت دیتے ہیں، کیونکہ وہ اس حقیقت پر باور قلبی رکھتے ہیں کہ احتیاط راہ نجات ہےـ

شئیر
86 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4113

  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدم احتیاط کا سبب کیا ہے؟ جواب واضح ہے کہ اس کا سبب غفلت ولاپرواہی ہےـ غفلت، انسان، ملک اور قوموں کی ترقی وپیشرفت کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتی ہےـ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو مفلوج کردیتی ہے ـ یہ ایک ایسی خطرناک شئی ہے جو قوموں کو تباہ اور مملکت کا شیرازہ بکھیر دیتی ہےـ  غافل لوگ تحرک کے بجائے جمود ورکود کا شکار ہوجاتے ہیں ـ اس بری صفت کے حامل افراد کسی کام کے نہیں ہوتے، ان سے کسی چیز کی توقع رکھنا عبث ولغو ہے، ایسے لوگ دوسروں کو نقصان تو پہنچائیں گے مگر وہ نفع نہیں پہنچاسکتے ـ

 ماضی میں پاکستان کے غافل حکمرانوں کی بے احتیاطی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک اور قوم کا بہت نقصان ہوا ہے جس کی مثال جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہےـ اس سلسلے میں نیوز ایکسپریس کے کالم نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان  کے ۱۰ نومبر ۲۰۰۱۸ کو شائع ہونے والے کالم کے درمیانی حصے پر توجہ کرنا کافی ہوگاـ وہ لکھتے ہیں: جنرل ضیاء الحق نے جب ملک کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپریل 1979ء کو پھانسی دی تھی تو پاکستان پوری دنیا میں تنہا رہ گیا تھا۔ امریکا کی خفیہ تنظیم سی آئی اے نے افغانستان میں نور محمد تراکئی کی کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کا پروجیکٹ شروع کیا ۔ جنرل ضیاء الحق نے اس پروجیکٹ میں شمولیت اختیارکی۔جنرل ضیاء الحق نے اس پروجیکٹ میں شرکت کے لیے بعض مذہبی جماعتوں کو شامل کیا۔ سی آئی اے کے تھنک ٹینک نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے جہاد کو برآمد کرنے کی حکمت عملی تیارکی، یوں افغانستان میں یہ پروپیگنڈا زور شور سے ہوا کہ افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے قیام سے مسلمانوں کو خطرہ ہے۔اس صورتحال میں بااثر وار لارڈز کو افغانستان چھوڑنے پر آمادہ کیاگیا، یوں ان وار لارڈز کے ساتھ ان کے قبیلے کے افراد بھی ہجرت کر کے پاکستان میں داخل ہوئے۔ مسلمان ممالک میں مذہبی انتہاپسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا اور انھیں جہاد کے لیے افغانستان بھیجا جانے لگا، اسامہ بن لادن سمیت بہت سے جنگجو پشاور اور اسلام آباد اورکوئٹہ میں آباد ہوئے اور افغانستان منتقل ہوئے۔حکومت نے مذہبی انتہاپسندی کو نسل در نسل منتقل کرنے کے لیے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلیاں کیں اور سائنس، سماجی سائنس، تجارت غرضیکہ ہر شعبے میں انتہاپسند داخل ہوئے۔ مدارس کا پورے ملک میں جال بچھا دیا گیا۔ اربوں ڈالر کی امداد نے مدرسوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا۔  افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی اور پھر سوویت یونین کے عالمی نقشے سے غائب ہونے کے بعد اب جہاد کا رخ امریکا کی طرف ہوا۔ افغانستان میں ملا عمر کی خلافت قائم ہوئی اور اسامہ بن لادن، ملا عمر کے اتالیق مقرر ہوئے، افغانستان میں بھیانک طرز حکومت کا تجربہ ہوا۔نائن الیون کے بعد ان مذہبی انتہاپسندوں نے پاکستان میں کمین گاہیں قائم کیں۔ جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلے کیا تو یہ انتہاپسند ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ یہی وجہ تھی کہ مذہبی دہشت گردی شہر شہر پھیل گئی مگر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں ان مذہبی انتہاپسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ شروع ہوا، پاکستان سے ہجرت کرنے والے ایک عالم کینیڈا سے واپس آئے اور اسلام آباد میں پہلا دھرنا ہوا۔تحریک انصاف والے اس دھرنے کے سب سے زیادہ حمایتی بنے۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ملک بھر میں جنون اور خوف کی فضا بنی۔ دائیں بازو کی جماعتیں بشمول مذہبی تنظیمیں اس فضا کو تقویت دیتی رہیں۔ پنجاب انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی سے ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ہوا مگر ڈاکٹر طاہر القادری انتہا پسند قوتوں کی ہر مسئلے پر نکل کر حمایت نہیں کرتے تھے اس بناء پر معاملہ بہت زیادہ اجاگر نہ ہوا۔

تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں بھی جنرل ضیاءالحق کی خارجہ غلط پالیسی تکرار ہونے کے واضح اشارے دیکھنے کو مل رہے ہیں ـ سعودی عرب کے دوسرے دورے سے پہلے تک عمران خان نے جگہ جگہ یہ اعلان کرتے رہے کہ ہم یمن کے مسئلے پر غیر جانبدار رہیں گے، مشرق وسطی کے تنازعات میں ہم شریک نہیں ہوں گےـ چنانچہ انہوں نے اپنے اس طرح کے اعلانات اور نیا پاکستان بنانے کا قوم سے وعدہ کرکے عوام کو اعتماد میں لیا اور بالآخر انہیں کی حمایت اور ووٹ کے ذریعے وہ اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئےـ ملک کا وزیر اعظم بننے کے بعد بھی مسئلہ یمن کے حوالے سے وہ اپنے سابقہ عزم پر ڈٹے رہنے کا مختلف جگہوں پر، جلسوں میں اظہار و اعلان کرتے رہے ،لیکن وزیر اعظم صاحب نے جب سعودی عرب کا دوسرا دورہ کیا ہے اور اس سے قرضے کی مد میں خطیر رقوم وصول کئے ہیں تب سے یمن جنگ کے بارے میں ان کا ارادہ یکسر طور پر بدلتا دیکھائی دے رہا ہےـ ہمیں سعودی ریال کے برے اثرات مشاہدہ کرنے کو مل رہے ہیں ـ

 عمران خان نے سعودی سفیر محمد مطہر العشبی سے ملاقات کے دوران دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا کہ منصور ہادی کو دوبارہ برسراقتدار لانے کے لئے سعودی عرب جو کوشش کررہا ہے ہم اس کی بھر پور تائیید کرتے ہیں اور پاکستان اس حوالے سے پوری طرح اپنی حمایت جاری رکھے گا ـ اس کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہتا ہے کہ یمن جنگ میں ثالثی کردار ادا کرنے کا برملا اظہار کرنے والے عمران خان سعودی عرب کی جانبداری کرکے ایک بار پھر خارجہ پالیسی میں پاکستان کی ناکامی کا منہ دنیا کو دکھانے کے درپے ہیں ـ یاد رہے کہ یمن کے مظلوم عوام پر سعودی عرب فقط اسرائیل کی خشنودی حاصل کرنے کے لئے ناجائز طور پر مظالم کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں ـ سعودی عرب کی حمایت کرنا ظالم کی حمایت ہے جو ظالم کی حمایت کرتا ہے وہ بھی ظالم کی صف میں شامل ہوتا ہے ـ

 اگر تین سال سے سعودی عرب اہل یمن کے غریبوں کو خون ناحق کے سمندر میں غرق کررہے ہیں تو ایسا نہیں کہ اللہ تعالی اس ظلم سے بے خبر ہے بلکہ مختلف آیات قرآنی کے مطابق اللہ ظالموں کو مہلت دیتا ہے  سورہ ابراہیم  آیت ۴۱ میں خدا فرماتا ہے: ولا تحسبن الله غافلا عما یعمل الظالمون انما یؤخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار ـ خبردار خدا کو ظالمین کے اعمال سے غافل نہ سمجھ لینا کہ وہ انہیں اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں خوف سے پتھراجائیں گی ـ سورہ ہود آیت ۱۱۳ میں فرمایا: ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ومالکم من دون الله من اولیاء ثم لا تنصرون  اور خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کر تاکہ جہنم کی آگ تمہیں چھولے گی اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست نہیں ہوگا اور تمہاری مدد بھی نہیں کی جائےگی ـ

 ہمارے خیال میں تحریک انصاف کی حکومت کو آنکھیں کھول کر اس غلط فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور جنرل ضیاءالحق سمیت ماضی کے حکمرانوں کی خارجہ غلط پالیسیوں کے نتیجے میں قوم و ملک کو پہنچے ہوئے خسارے اور نقصانات سے درس عبرت لیتے ہوئے ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیاں مرتب کرنے میں احتیاطی تدبیر اختیار کرنا چاہئے ـ یمن جنگ جیسے حساس مسئلے میں جارح سعودی عرب کی حمایت کرنا کسی بھی صورت میں پاکستان کے مفاد میں نہیں ـ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے،  پاکستانی قوم ظالم کی حمایت کرنے کو جمہوریت کا جنازہ نکالنے کا مترادف سمجھتی ہے ـ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو کم از کم اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے انصاف سے مسائل اور معاملات کو نمٹانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یمن جنگ کے حوالے سے بالکل غیر جانبدار رہ کر ثالثی کردار ادا کرتے ہوئے یمن جنگ کی آگ بجھانے میں بھرپور تعاون کرنا چاہئے ـ بس ہم اپنے حکمرانوں سے اتنا عرض کریں گے کہ حکمرانو، احتیاط راہ نجات ہے ـ 

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف 

گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی 

ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں 

قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے 

ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو 

کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے 

اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی 

ظالم کی کوئی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم 

ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے 

پھلتی نہیں ہے شاخ ستم اس زمین پر 

تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے 

کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی 

یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے 

یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے 

(ساحر لدھیانوی)

مسئلہ یمن پر ہمارے اہل قلم کچھ لکھیں یا نہ لکھیں ہم تو اس موضوع پر قلم اٹھانے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں 

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے 

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *