تازہ ترین

قراء سبعہ اور ان کی خصوصیات

علم قراٴت قرآن علوم اسلامی میں سے قدیم ترین علم ہے۔

اس علم کی پےدائش نزول قرآن کےساتھ ہوئی ۔ نزول قرآن کاوقت قراٴت میں کوئی اختلاف موجود نہیں تھا۔ یہ اختلاف راویوں کے اجتہاد کے سبب پیدا ہوا۔ امام باعقر علیہ السلام فرماتے ہیں ,, القرآن واحد نزل من واحد ولکن الاختلاف یجیٴ من قبل الرواة“ قرآن ایک ہے اور ایک خدا کی طرف سے ناز ل ہوا ہے لیکن اختلاف قراٴت، راویوں کی طرف سے ہے۔

شئیر
43 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4209

قراٴت قرآن میں اختلاف کا بنیادی سبب صدر اسلام کے رسم الخط میں نقطہ ،حرکت، ،علامت اور شد وجزم کا نہ ہونا ہے۔ چونکہ اس زمانے میں عربوں کے نزدیک رسم الخط ابتدائی مرحلہ طے کررہا تھا لہٰذا عرب خط کے فنون و رسوم سے آشنا نہ تھے۔

اس بنیاد پر اکثر اوقات ایک کلمہ اپنے اصلی تلفظ کے خلاف لکھا جاتا تھا اور تمام حروف نقطوں کے بغیر لکھے جاتے تھے مثلا سین اور شین کے درمیان کتابت میں فرق نہیں ہوتا تھا لہٰذا یہ پڑھنے والے پرموقوف تھا کہ وہ شواہد کی بنا پر تشخیص دے کہ یہ حر ف سین ہے یا شین ،تاء ہے یا ثاء۔علاوہ از این قرآن مجید کے کلمات حرکات سے خالی تھے۔

ان حروف پر کوئی علامت نہیں لکھی جاتی تھی لہٰذا قاری کلمہ کے وزن اور حرکت کے بارے میں مشکل میں پڑجاتے تھے مثلا قاری نہیں جانتا تھا کہ کلمہ,, اعلم “فعل امر ہے یا فعل مضارع متکلم کا صیغہ ہے اس اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عربی رسم الخط سریانی زبان سے لیا گیا تھا۔اور سریانی زبان میں کلمہ کے درمیان الف نہیں ہوتا اسی لئے کوفی رسم الخط مین کلمات کے درمیان الف ممدودہ نہیں لکھتے تھے۔ان کے علاوہ ایک اور سببب عرب قبائل کے درمیان لہجہ کا اختلاف تھا مثلا عرب قبائل میںسے بعض نستعین کو نون کی فتح کے ساتھ اور بعض نون کے کسرہ کے ساتھ تلاوت کرتے تھے۔اس بنا پر مختلف شہروں میں قرائت قرآن میں اختلاف ایک فطری امر تھا ۔ پھر اسلامی مملکت کی سرحدیں بڑھتی چلی گئیں۔ اسلامی فتوحات کے دوران اسلامی مراکز میں سے ہر ایک نے کسی ایک مورد اعتماد قاری کی قرائت کو قبول کرلیا ۔نتیجہ کے طور پر پچاس سے زیادہ قرئتیں وجود میں آگئیں۔جن میں سے بعد میںسات معروف ہوگئیں۔

سب سے پہلے جس شخص نے علم قرائت پرکتاب لکھی امام سجاد علیہ السلام کے شاگرد ابان بن تغلب تھے۔ پھر تیسری صدی ہجری میں ابوبکر بن احمد مجاہد نے بغداد میں قیام کیا اور علم قرائت کے تمام علماء ،مکہ، کوفہ، بصرہ وشام سے ان سات قاریوں کا انتخاب کیا۔

جو قراء سبعہ کے نام سے مشہور ہیں۔ البتہ واضح رہے کہ قرآن مجید میں مادہ الفاظ کے لحاظ سے تواتر ثابت ہے۔ اور قرآن کے الفاظ و کلمات میں تمام دنیا کے مسلمانوں کا اتفاقنظرہے۔ اختلاف فقط بعض کلمات کی تلاوت کے طریقوں کے بارے میں ہے کہ یہ اختلاف بہت جزئی ہے اور اس سے ایات قرآن کے اصل معنی پر لطمہ وارد نہیںہوتا ۔ یہاں پر ایک وضاحت ضروری ہے کہ قرائت قرآن کی اکثر کتابوں میں حدیث,, ان القرآن نزل علی سبعة احرف“ سے استنباط کیا گیا ہے کہ قرآن انھیں سات قرائتوں میں ناز ل ہوا ہے۔ حالانکہ یہ بات شیعہ نقطہ نظر سے باطل ہے اور ائمہ معصومین(ع) نے اس کی صریحا نفی کی ہے فضیل بن یسا سے روایت ہے ,, قلت لابی عبد الله ان الناس یقولون ان القرآن نزل علی سبعة احرف ،فقال کذبوا اعداء الله ولکنه نزل علی احرف واحد من عند الله الواحد“

راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابوعبداللہ سے عرض کیالوگ کہتے ہیں کہ قرآن ساتھ حرفوں (قرائتوں) پر نازل ہوا ؟ آپ نے فرمایا : دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ قرآن ایک حرف (قراٴت ) پر ایک خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ یہ روایت شیعہ وسنی کتب میں نقل ہوئی ہے ۔شیعہ محققین کے نزدیک قطع ضعف اسناد کے یہ روایت قراء سبعہ سے کوئی ارتباط نہیں رکھتی۔ اس حدیث کی تشریح میں معروف قول یہ ہے کہ احرف سے مراد مطون قرآن ہیں ۔ یعنی قرآن ایسی کتاب ہے کہ اس سے متعدد معانی سمجھے جا سکتے ہیں ۔

ایک معنی ظاہری ہے اور دوسرے معانی مخفی ہیں۔ پھر آیت متعدد معانی اپنے اندر رکھتی ہے۔ اگرچہ عام لوگوں پر یہ پوشیدہ ہیں۔ لیکن اما م معصوم ان معانی سے آگاہ ہوتا ہے۔ لیکن بعض علماء کے نزدیک اس حدیث میں حرف سے مراد لہجہ ہے نہ قراٴت ۔ پیغمبر اکرم کے زمانہ میںعرب قرآن کی تلاوت مختلف لہجوں میںکرتے تھے۔ ہر قبیلہ اپنے لہجہ میں قرآن کی تلاوت کرتا تھا ۔ پیغمبر نے اس طرح سب کی تصدیق فرمائی ہے اس حدیث میں سبعہ کنائی عدد ہے۔البتہ ائمہ معصومین نے فراوان حدیثوں میں لوگوں کوحکم دیا ہے کہ قرآن کی خالص عربی کی صورت میں تلاوت کریں۔نیز انھیں متداول قرائتوں کی پیروی کرنے کی وصیت فرمائی ہے۔ امام صادق (ع) سے حدیث نقل ہوئی ہے فرماتے ہیں کہ ,, اقرء کما یقرء الناس“ یعنی عمومی اور متداول قرائت کی پیروی کرو۔ شیعہ علماء کے فتاویٰ کے مطابق نمازمیں انھیں سات قراٴت میں سے کسی ایک کے مطابق ہونی چاہئے۔

اس وقت تمام مصاحف قرآن جس قرآت پر توفق کرتے ہیں۔ اور ثبت ہوئے ہیں وہ عاصم کی قراٴت ہے کہ ابوعمر حفص نے اس کو عاصم سے روایت کیا ہے یہ قراٴت در اصل امیرالمومنین علیہ علیہ السلام کی قرآت ہے، چونکہ عاصم نے قراٴت ابوعبداللہ الرحمٰن سلمی سے یاد کی ہے۔جوکہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے شاگرداور ان کی قراٴت کومشکل کرنے والے ہیں۔ پس عاصم امیر المومنین کی قراٴت کا راوی ہے اسی وجہ سے عاصم کی قراٴت صحیح ترین اور اصیل ہے۔ حفص عاصم سے نقل کرتا ہے کہ عاصم نے کہا جو کچھ قراٴت میں سے میں نے تجھے پڑھایا ہے یہ وہی ہے جو میں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے حاصل کیا ہے اور اس نے اس کو حضرت علی این ابی طالب علیہ السلام سے حاصل کیا ہے۔

قراء سبعہ :

۱(نافع بن عبدالرحمٰن نافع بن عبدالرحمٰن الاصفہانی متوفی(۱۶۹ھ)یہ قراٴت کی مختلف صورتوں پر تسلط رکھتا تھا اس نے قرآن ابومیمونہ کو تلاوت کرکے سنایا تھا علاوہ از این ستر تابعین کو بھی اس نے قرآں سنایا ، بہت سے علماء نے اس کی قراٴت کی تعریف کی ہے۔ اور قابل اعتماد پایا ہے لیکن حدیث کے معاملے میں اس کو ثقہ نہیں جانتے ہیں۔

۲)عبداللہ بن کثیر مکی :یہ ایرانی تھا، اہل مکہ کے لئے امام قراٴت تھا، تابعین میںشمار ہوتا ہے ،اس نے ابوایوب انصاری وانس بن مالک اوربعض دوسرے صحابہ کو پایا ہے ۔ ابن ندیم نے اسے دوسرے طبقہ کے قراء میں شمار کیا ہے۔ یہ شخص فصیح، باوقار،بلند قد اور امام جماعت تھا۔

۳)عاصم بن بہدلہ ابی النجود الاسدی متوفی ۱۲۷ھ اس کی کنیت ابوبکر تھی کوفہ میں قراء کے امام تھے ۔قرآن کو بہت خوبصورت آواز میں پڑھتے تھے۔ عاصم نے قراٴت ابوعبد الرحمٰن بن حبیب سلمی سے یاد کی۔ جو کہ قطعی طور پر شیعان علی (ع) میںسے تھے،اور انھوں نے علم قراٴت حضرت علی علیہ السلام سے حاصل کیا تھا۔ اس لئے ان کی قراٴت کو فصیح ترین قراٴت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے دوسرے استاد زرین حبیش تھا۔انھوں نے قراٴت عبداللہ بن مسعود وعثمان بن عفان سے پڑھی تھی۔ عاصم نے چوبیس صحابہ کی صحبت سے فیض حاصل کیا ہے ۔

۴( حمزہ بن حبیب کوفی متوفی۱۵۶ھ : آپ عاصم و اعمش کے بعد کوفہ میں قراٴت کے امام تھے۔ یہ عابد،متقی، فقیہ، قاری، حافظ حدیث، ونہایت خاضع انسان تھے۔ ان کی قراٴت کی سند حضرت امام صادق علیہ السلام و ابوالاسود دویلی کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام تک پہونچتی ہے۔

۵)ابوعمر بن العلاء البصری متوفی ۱۵۴ھ : اس نے قراٴت کو ابن کثیر و مجاہد اور سعید بن جیبرسے اخذ کیا ہے اور انھوں نے ابن عباس و برابان کعب اور ان دونوں نے حضرت رسول خدا سے سیکھی تھی، ابوعمر اپنے زمانے میں شعر وعربی اور قرآن میں بزرگ علماء میں شمار ہوتا تھا۔

۶( ابوعمرا عبداللہ بن عامر الشامی متوفی ۱۱۸ھ یہ شخص تابعین میں سے ہی ان قراء سبعہ میں فقط یہ اور ابوعمر عرب تھے ۔ابن عامر نے قراٴت قرآن کاعلم ابودرداء صحابی سے انھوں نے رسول خدا سے حاصل کیا تھا۔

۷ ( ابوالحسن بن حمزہ معروف کیسائی متوفی ۱۸۹ھ:یہ شخض فقہ، عربی اور قرآن میں بہت قابل تھا، بہت سی کتابوں کو اس کی طرف نسبت دی گئ ہے۔ بعض مورخین اس کو شیعہ جانتے ہیں۔ اس نے علم قراٴت کو حمزہ بن حبیب و محمد بن ابی لیلی سے اخذکیا ہے۔

بشکریہ http://www.erfan.ir/urdu/85389

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *