الحاج شیخ غلام نبی نجفی کے مختصر حالات زندگی/تحریر: اکبر حسین مخلصی
آپ علاقے گلتری کے موضع تھلی میں 1925ء کو علاقے کی متدین سرکردہ شخصیت حسین علی کے گھر پیدا ھوئے۔
آپ کے والد گرامی موضع تھلی میں خاندانی طور پر دینی تعلیمات کے پرچارک سمجھے جاتے تھے اور علاقے میں مقامی سطح پر دینی مبلغین کی عدم دستیابی کو
علاقے کی فکری و معاشرتی پسماندگی کا بنیادی سبب جانتے تھے۔
اس بنیادی مشکل کے حل کے لیے اپنے نور چشم کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کر نے کا فیصلہ کرتے ہیں تاکہ دینی تعلیمات کی ترویج اور فروغ کی بدولت عوام کی دینی ضروریات کو پورا کر کے معاشرتی پسماندگی کے اسباب کا سدّباب کیا جا سکے۔
یہ عمل ان کی مذھبی عقیدت، دینی جذبے اور فکری دور اندیشی کا پتا دیتا ھے۔
آپ بچپن سے ھی ذھانت اور فکری متانت جیسی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تھے جو آپ کے اندر علوم دین کے حصول جیسے اعلی ہدف کی سنجیدہ تڑپ کو مہمیز کرنے میں معاون ثابت ہوئیں۔
ابتدائی تعلیم:
مایہ ناز علمی شخصیت حجة الاسلام والمسلمین مرحوم شیخ محمد علی المعروف ماسٹر شیخ اور حجة الاسلام والمسلمين مرحوم شيخ حسين نجفي آف مٹیال کے حضور زانوے تلمذّ تہہ کیا۔
شیخ محمد علی لکھنوی ( آپ امروھہ مدرسہ الواعظین لکھنو سے سلطان الفاضل اور علی گڑھہ یونیورسٹی سے ایم اے فاضل کی سند یافتہ شخصیت تھے) جیسی نبّاض شخصیت نے آپ کی علمی استعداد کو درست سمت عطا کرتے ھوئے آپ کو اسلامی علوم کے مرکز نجف اشرف کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی۔
نجف اشرف میں:نجف اشرف میں چار سال تک جوار امیر المومنین (ع) میں چشمہ زلال بابِ شہرِ علم سے سیراب ھوتے رھے۔
وطن واپسی: آپ جوار امیر المومنین ع میں تحصیل علم کے دوران ہی تبلیغ دین جیسے اہم شرعی وظیفے کی انجام دہی کے لیے واپس اپنے وطن لوٹنے کا عزم بالجزم کر چکے تھے۔
علاقے میں خالص دینی ثقافت کا فروغ اور اس کے درست تحفظ کے لیے عملی اقدام ایک ایسا درد تھا جو آپ کو اپنی جنم بھومی کھینچ لایا۔
آپ نے پوری زندگی اس درد کو بانٹنے کے لیے وقف کردی جبکہ کراچی جیسے پر آسائش شہر میں ذاتی مکان رکھنے کے باوجود گلتری جیسے برف زار کو ترجیح دینا ہی بتاتا ہے کہ آپ جوار امیرالمومنین ع میں کیے ہوئے اپنے وعدے کو ایفائے عہد کی زندہ مثال بن کر نبھاتے رہے۔
علاقے میں خدمات:
گلتری بالخصوص شنگو شگر میں عوام کی دینی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کیں۔
آپ نے علاقے کی جیواکنامک پوزیشن کو سامنے رکھتے ھوئے معروضی پہلووں پر تبلیغی ارتکاز رکھا تاکہ خالص دینی ثقافت کے تابندہ ارکان کو مقامی رسم و رواج کی غیر صحت مندانہ آمیزش سے محفوظ رکھا جا سکے اور دین کے بنیادی اصول عوام کی معاشرتی زندگی پر پوری طرح حاکم رہ سکیں۔
مقالے کی طوالت کے پیش نظر ذیل میں دو اہم خدمات کی طرف اشارہ قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ھوگا۔
(1) : دیرپا نتائج کی حامل بنیادی حکمت عملی:
آپ کی دوراندیش نگاہیں علاقے کے موسمی عوامل کے سبب تبلیغ کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کے مستقل حل پر مرکوز رہیں۔
جس کے لیے آپ نے دور رس نتائج کے حامل بنیادی نوعیت کے اقدامات کیے۔
آپ کا بنیادی ہدف عوامی لیول پر روزمرّه کے دینی مسائل کی درست تبیین و تفہیم کے لیے مقامی سطح پر مستقل مبلغ یا آخوند کی تربیت تھا جس کے حصول کے لیے آپ سال میں دو مرتبہ پورے علاقے کا تفصیلی دورہ کرتے اور ہرگاوں میں چند دن قیام فرما کر مقامی آخوند کی بھرپور راہنمائی فرماتے تھے۔
(2) : مبتلاء به مسائل کے حل کے لیے براہ راست اقدام۔
علاقائی سطح پر قدرے پیچیدہ اور مبتلاء به شرعی مسائل جیسے نکاح،طلاق اور ارث وغیرہ کا حل و فصل اور متنازعہ صورت میں فوری انصاف کی فراہمی آپ کی نگاہ میں انتہائی اہم مگر سنگین شرعی وظیفہ تھا جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آپ کو براہ راست کردار ادا کرنا پڑتا تھا۔
چونکہ علاقے میں علماء کی عدم دستیابی کے باعث قحط الرجال کا سماں تھا۔
خاص کر سردیوں کے برفانی موسم میں تو یہ فریضہ دوچند ہوجاتا، مگر آپ نے یہ وظیفہ ممکنہ حد تک کمال خوش اسلوبی سے انجام دیا۔
آپ اس سنگین وظیفے کی ادائیگی کے لیے اپنے دورہ جات میں خصوصی اہتمام کرتے تھے تاکہ عوام کو بروقت دینی راہنمائی میسر آ سکے۔
آپ کے تبلیغی دورہ جات کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ آپ جسمانی نقاہت کے باوجود علاقے کے یخ بستہ زمستانی موسم میں بھی کرابوش سے لے کر فلٹکس اور گلتری آخری داس تک سفر کرتے اور عوام کی دہلیز تک دینی خدمات بہم پہنچاتے رہے۔
گویا آپ کے دل میں عشق علی (ع) کی بوذرانہ کِسک تھی جو آپ کو برف پوش کوہساروں کے باسیوں میں تعلیماتِ اھل بیت (ع) پھیلانے کا عزم پیہم بخش رہی تھی۔
اسی درد اور احساسِ مسئولیت کے باعث آپ ساری زندگی علاقے میں دینی راہنمائی جیسے طاقت فرسا وظیفے کو با کمالِ استقامت انجام دیتے رھے.
شرعی وظیفے کی انجام دہی میں آپ اس قدر مخلص تھے کہ مادّی آسائشات کی چمک دمک آپ کے پائے استقلال میں لغزش تک نہ لا سکی۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے کراچی میں موجود مکان کو علاقے میں تبلیغ دین جیسے شرعی وظیفے کی راہ میں رکاوٹ جان کر کسی مستحق کو ھبہ کر دیا، تاکہ شہری زندگی کی آسائش آپ کے عزم کو کمزور نہ کر سکے۔
آپ اپنی بےلوث دینی خدمات کے باعث تاریخِ گلتری کے پرچمدارانِ تعلیمات اهل بیت (ع) کی صف میں امر بن کر تا ابد زنده و تابندہ رہیں گے۔
وفات۔:
آپ 3 جون سنہ2012ء بمطابق 13 رجب المرجب1433 ھجری کو خالق حقیق سے جا ملے۔
گویا جوار امیر المومنین (ع) سے تبلیغ دین کا درد کچھہ اس انداز میں ملا کہ زندگی بھر اس کو عاشقانہ بانٹتے ہوئے روز ولادت امیر المومنین ع کو راھی جوار ابدی امیر المومنین ھوئے۔
خدا رحمت کند آں عاشقان پاک طینت را
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید