مشرق وسطی سے امریکا کی پسپائی / تحریر: ایس ایم شاہ
اقتدار کی ہوس نے انسان کو انسانیت سے کوسوں دور پہنچا دیا ہے۔ ساتھ ہی دن بہ دن اس میں شدت آتی چلی جارہی ہے۔ یہ ایک ایسا نشہ ہے جس کی لت لگنے کے بعد نہ کسی پر رحم آتا ہے، نہ کسی کے رونے کی آواز اس پر اثر انداز ہوسکتی ہے، نہ آئے روز اس کے سامنے سے اٹھنے والے جوانوں کے جنازے اس کے دل کو پگلا سکتا ہے۔ نہ ان جوانوں کے جنازوں پر بین کرنے والی بوڑھی ماؤں کی آہوں اور سسکیوں سے ان کے دلوں پر پڑے پردے چھٹ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ سنت الہی رہی ہے کہ جس نے بھی ظلم و بربریت کی داستان رقم کردی ہے اسے تاریخ میں دوسروں کے لیے نشانہ عبرت بنا دیا گیا ہے۔ اس کی ایک طویل فہرست ہے جس سے مستضعفین جہاں کے لیے ایک امید کی کرن نظر آتی ہے کہ ظلم و بربریت کی آخری حد تک پہنچنے کے بعد وہ ظالم اللہ کی گرفت سے کبھی نہیں بچے گا اور مظلوم ہمیشہ کے لیے مظلوم بنا بھی نہیں رہے گا بلکہ اکثر اوقات وہ اپنی زندگی میں ہی ان ظالموں کی تباہی کا منظر دیکھ لے گا۔

عصر حاضر میں اس جنگ میں امریکا سب سے آگے ہے۔ سپر طاقت بننے اور اسے برقرار رکھنے کے نشے نے اسے تمام انسانی و اخلاقی اقدار کو پامال کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس وقت امریکا کی مثال اس جنگلی بھیڑیے کی سی ہے جو مختلف جگہوں سے دوسرے حیوانات کو چیرپھاڑ کرکے لاکر اپنے بچوں کو کھلاتا ہے۔ اس کے بچے خوش ہوتے ہیں اور ظاہری طور پر دیکھنے والا بھی اسے اچھا ہی سمجھ بیٹھتا ہے۔ لیکن اسے نہیں معلوم کہ اس کی ماں نے کہاں کہاں سے خون بہاکر اس تک یہ خوراک پہنچایا ہے۔ آج بعض افراد یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ امریکا میں لوگ امن و امان اور آسائش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شاید انھوں نے کبھی سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ امریکا کتنے ملکوں کے باسیوں کو خون کے دریا میں نہلا کر وہاں کی معدنیات اور دوسرے قدرتی وسائل پر اپنے پنجے گاڑ کر اپنے شہریوں کو کھلا رہا ہے، دوسروں کا امن خراب کرکے اپنے ہاں امن برقرار کر رکھا ہے۔ دوسروں کے پیٹ سے کاٹ کر اپنے شہریوں کو کھلا رہا ہے۔ دوسروں کے گھروں میں صف ماتم بچھا کر خود اپنے ہاں خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے۔کیا اسی کا نام ترقی و تمدن ہے؟!
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے اپنی فوجیوں کےانخلا اور افغانستان سے بھی اپنی فوج کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اچانک امریکی صدر نے اتنا بڑا اعلان کر دیا ہے؟ اسی اعلان سے پہلے ہی امریکی ڈکٹیشن پر سعودی عرب یمن میں چار سالوں سے مسلسل بمباری اور قتل عام کا سلسلہ روکنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے اچانک جنگ بندی پر آمادہ ہوگیا ہے۔ امریکی صدر کا دعوی یہ ہے کہ ہم نے شام میں داعش کو شکست دی ہے لہذا اب مزید یہاں رہنے کی ضرورت نہیں۔ داعش کا باپ کہ رہا ہے کہ ہم نے داعش کو شکست دی ہے۔ ساتھ ہی ایسا گیم کھیلا کہ ترکی صدر رجب طیب اردغان نے ان سے فون پر رابطہ کیا اور انہیں مطلع کیا کہ اب شام میں داعش کا خاتمہ ہوا ہے۔ اس پر امریکی صدر نے جواب میں کہا کہ پھر ہم اپنی فوج واپس بلا لیتے ہیں۔ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد ترکی صدر نے کرد نشین علاقے میں متوقع فوجی آپریشن کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔ کیا یہ سارے معاملات بس فون پر ایک گفتگو میں ہی طے پائے اور ٹرمپ نے بلا تامل اتنا بڑا فیصلہ کر دیا؟! در حقیقت معاملہ بالکل برعکس ہے۔ امریکا کا ہدف یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ اسرائیل کو محفوظ بنایاجائے۔ کیونکہ سب سے زیادہ اسرائیلی بارڈر شام سے ملتا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت اس کی مخالف رہی ہے۔ گریٹر اسرائیل کے ہدف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس نے داعش کو وجود میں لایا۔ اتحادیوں سمیت امریکا اور اسرائیل نے ہر طرح سے ان کی بھرپور مدد کی۔ سات سال تک یہی سلسلہ جاری رکھا۔ سیرین فوج، حزب اللہ لبنان، ایرانی القدس برگیڈ وغیرہ نے بھرپور مزاحمت کی۔ ادھر روس بھی فضائی حملوں کے ذریعے داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا۔ یہاں تک کہ ۷۰فیصد سے زیادہ علاقوں پر شامی برسر اقتدار بشار الاسد کی حکومت کا رٹ دائر ہوا۔ باقی ۲۳فیصد کرد نشین علاقے بھی داعش کے خلاف برسرپیکار ہوئے۔باقی صرف ۷فیصد پر امریکی اور داعش کی رسائی رہی۔ امریکا کو احساس ہوا کہ اگر اب بھی اپنی فوج نہ نکالی جائے تو مقاومتی فوج انہیں خود نکل جانے پر مجبور کرے گی۔ لہذا اب بھی وقت ہے کہ کسی بہانے سے یہاں سے خلاصی پیدا کی جائے۔ سات سال تک کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد امریکی اور اسرائیلی مفادات پہلے سے زیادہ خطرے میں پڑ گئے۔ اب امریکا نے دیکھا کہ اگر اسرائیل کی خاطر مزید فوج یہاں رکھی جائے تو ہماری تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں۔ لہذا یہاں اختیاری طور پر امریکا نے اپنی فوج نکالنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ مجبور ہوکر اعلان کرنا پڑا ہے۔تاکہ نام نہاد بچی کھچی آبرو بھی نہ چلی جائے۔ اب اسرائیلی صدر اور سعودی وزیر خارجہ سمیت تمام اتحادی چلا رہے ہیں کہ اچانک امریکا نے نکلنے کا فیصلہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ عادل الجبیر نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ہم اپنی فوج وہاں بھیجنے کے لیے امریکا سے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کو ابھی تک یہ احساس نہیں کہ ہم نے چار سال تک امریکا کے کہنے پر یمن کے مسلمانوں کا قتل عام کیا لیکن آخر کار شکست و ذلت کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ شام میں داعش پر اتنا سرمایہ لگایا وہ سب بھی خاک میں مل گیا، پھر بھی دنیا کے سامنے اپنا بھرم رکھنے کے لیے اب مزید امریکی ڈکٹیشن پر عمل پیرا رہنے کا اظہار کر رہا ہے۔ دوسری جانب امریکا نے افغانستان سے بھی سات ہزار تک اپنی فوج کم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ بھی اس کا اختیاری فیصلہ نہیں بلکہ عرصہ دراز سے افغانستان سے اسے لینے کے دینے پڑ رہے ہیں۔ ساتھ ہی طالبان نے مذاکرات کے ضمن میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ امریکا کو افغانستان سے نکلنا ہوگا۔ یہاں بھی امریکا کو شکست کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ علاوہ ازیں امریکا کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پاک و ہند کے درمیان روابط کو کمزور کیا جائے تاکہ دونوں ممالک سے اپنے مفادات حاصل کیے جاسکیں، ایک طرف سے وہ انڈیا کو جدید ترین اسلحے فراہم کر رہا ہے تو دوسری طرف آئے روز پاکستان پر الزامات کی بارش برسا رہا ہے۔ ساتھ ہی پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے میں بھی امریکا نے روڑے اٹکا کر ابھی تک اسے عملی ہونے نہیں دیا اور افغانستان میں زیادہ سے زیادہ انڈیا کا اثر و رسوخ بڑھا کر پاکستان کے لیے خطرات میں مزید اضافہ کیا۔ یہ سب کچھ اس کی بھول ہے۔ ہماری پاک فوج ہمہ وقت ان داعشیوں اور طالبانیوں کی ہر حرکت پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ ہماری آئی ایس آئی دنیا کی نمبر ون ایجنسی ہے۔امریکا کسی کا بھی وفادار نہیں۔ یہ ہمیشہ دوسروں کو نقصان پہنچانے میں اپنی بھلائی سمجھتا ہے۔ اسی ایجنڈے نے اسے عراق میں بھی ناکامی سے ہمکنار کیا ہے، یمن میں بھی ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ہے، شام سے بھی رسوا ہوکے نکلنا پڑا ہے، افغٖانستان سے بھی ذلیل ہوکر نکلنا ہی پڑے گا۔ آخر کار پوری دنیا پر اپنا تسلط جمانے اور سب کو اپنا زیر نگیں رکھنے کی ناکام کوشش ہی امریکا کی تباہی کا سبب بنے گی۔ پوری دنیا کے مظلوم لوگوں کا خون رنگ ضرور لائے گا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اب مزید امریکا پر اعتماد نہ کرے۔ ہمسایہ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط بڑھائیں، داعش اور دوسرے دہشتگردوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تبادل اطلاعات کرتے رہیں۔ مسلم ممالک کے سے اتحاد اور امریکا سے بے نیاز رہنے میں ہی ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے۔
Attachments area
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید