تازہ ترین

اعْجَبُوا لِهَذَا الْإِنْسَانِ، يَنْظُرُ….. نہج البلاغہ صدائے عدالت/ اثر: محمد سجاد شاکری

درس نمبر 8

وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام : اعْجَبُوا لِهَذَا الْإِنْسَانِ، يَنْظُرُ بِشَحْمٍ وَ يَتَكَلَّمُ بِلَحْمٍ وَ يَسْمَعُ بِعَظْمٍ وَ يَتَنَفَّسُ مِنْ خَرْمٍ.

امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’تعجب کرو انسان پر جو چربی سے دیکھتا ہے، اور گوشت (کے لوتھڑے) سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے، اور سوراخ سے سانس لیتا ہے۔‘‘

شئیر
46 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4336

 حصہ اول: شرح الفاظ 

۱۔ اعْجَبُوا: تعجب کرو۔ ۲۔ يَنْظُرُ: دیکھتا ہے، نگاہ کرتا ہے۔ ۳۔ شَحْمٍ: چربی۔ 

۴۔ يَتَكَلَّمُ: بولتا ہے، بات کرتا ہے۔ ۵۔ لَحْمٍ: گوشت۔ ۶۔ يَسْمَعُ: سنتا ہے۔

۷۔ عَظْمٍ: ہڈی۔ ۸۔ يَتَنَفَّسُ: سانس لیتا ہے۔ ۹۔ خَرْمٍ: سوراخ۔

 حصہ دوم: سلیس ترجمہ 

امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

’’تعجب کرو انسان پر جو چربی سے دیکھتا ہے، اور گوشت (کے لوتھڑے) سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے، اور سوراخ سے سانس لیتا ہے۔‘‘

 حصہ سوم: شرح کلام 

عظیم شخصیات کی ایک پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی توجہ دیتے ہیں جنہیں عام لوگ بے اہمیت سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس فقط بڑی بڑی چیزوں اور اشیا کی ظاہری حالت پر توجہ مرکوز کرنے والے عموما کوئی کارنامے انجام والی شخصیت نہیں ہوتے۔ مثلا تیز سماعت اسے کہتے ہیں جو سو میٹر کے فاصلے سے بھی دو بندوں کی سرگوشی کو سن سکے، ورنہ اپنے برابر میں کسی کی چیخ کا سن لینا تو کوئی کمال نہیں ہے۔

امیر بیان حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اس فرمان میں ایسے ہی ایک جذاب نکتے کی طرف ہماری توجہ کو مبذول کرایا ہے۔ جسے ہم ظاہرا اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں لیکن اس کی گہرائی میں جا کر غور وغوص سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں بہت ہی اہمیت رکھتی ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک الگ دنیا ہے۔ 

 ۱۔ آنکھ 

مولا فرماتے ہیں:

’’ تعجب کرو انسان پر جو چربی سے دیکھتا ہے‘‘

آج سے چودہ سو سال پرانے انسان سے آنکھ کی تعجب انگیز خلقت اور اس کی شگفت انگیز صلاحیتوں کے بارے میں اس سے زیادہ سادہ زبان میں بات نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی لئے مولا نے اس وقت کے لوگوں کی توجہ ظاہرا چربی کا ٹکڑا نظر آنے والی آنکھ کی صلاحیتوں کی طرف توجہ مبذول کرایا کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے اسی چربی کے ٹکڑے کے ذریعے سے ہی دیکھتا ہے۔ 

آج جب انسان نے علم و سائنس میں ترقی کی اور انسان کے ڈھانچے میں موجود مختلف اعضاء پر مستقل ریسرچز انجام دیا تو تب پتہ چلا کہ واقعا انسان کے بظاہر چھوٹا نظر آنے والے اس عضو کی وسعت اور اس کی صلاحتیں کتنی زیادہ ہیں۔ 

ظاہری طور پر انسان کی آنکھ گول اور سامنے سے کچھ ابھری ہوئی ہوتی ہے جو کاسہ سر یا کھوپڑی میں سامنے کی جانب ہڈی سے بنے ہوئے حلقہ چشم میں رکھی ہوتی ہے اس پیالہ نما حلقہ میں خون کی رگیں اور دیگر دماغ سے آنے والی رگیں ہوتی ہیں۔ ایک اوسط چشم کا قطر ایک انچ سے بھی کم ہوتا ہے۔ آنکھ کے بالکل سامنے پپوٹے لگے ہوتے ہیں جس کی حرکت پر روشنی کی آمد کا انحصار ہوتا ہے اسی روشنی کی آمد سے تمام چیزوں کی شکلیں چشم میں بنتی ہیں۔ اور اس سے بھی تعجب آور آنکھ کا اندرونی حصہ ہے کہ محققین کے مطابق آنکھ کی اندرونی بناوٹ میں تین قسم کی تہہ پائی جاتی ہیں۔ جو یہ ہیں صلبہ  (Sclera)سب سے اوپر والی تہہ، مشیمیہ (Choroid) درمیانی تہہ، شبکیہ (Retina)اندورنی تہہ۔ اسی لئے میڈیکل کے شعبے میں آنکھ کے لئے مستقل اسپیشلسٹ ادارے ہوتے ہیں۔ جن میں فقط آنکھ کا علم، اس سے متعلق بیماریوں اور علاج و معالجات پر تحقیقات انجام دیا جاتا ہے۔ اور یہاں سے فارغ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز فقط آنکھ سے متعلق بیماریوں کے علاج میں اپنی زندگی صرف کرتے ہیں۔

 ۲۔ زبان 

مولا فرماتے ہیں:

’’تعجب کرو انسان پر جو گوشت (کے لوتھڑے) سے بولتا ہے‘‘

ظاہرا تو یہ زبان انسانی بدن کے بعض دیگر اعضاء کی طرح گوشت کا ایک لوتھڑا ہے لیکن یہ گوشت کا لوتھڑا ایک خاص نظم کا پابند رہ حرکت کرنے سے ہی آواز ایجاد ہوتی ہے اور الفاظ کی ادائیگی ممکن ہوجاتی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی سا بھی نظام میں خلل ایک انسان کو زبان کی موجودگی کے باوجود بولنے سے محروم کر دیتا ہے۔

 ۳۔ کان 

مولا فرماتے ہیں:

’’تعجب کرو انسان پر جو ہڈی سے سنتا ہے‘‘

کان جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا ایک حسی عضو ہے جو سننے کا کام کرتا ہے یعنی یہ آواز کے لیے ایک وصولہ (receiver) کے طور پر کام کرتا ہے اور آواز کے ارتعاش کو دماغ تک پہنچانے کا ذریعہ بن کر سماعت کا احساس اجاگر کرتا ہے۔ آواز کے لیے حسی عضو کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ، کان توازن اور وضع (posture)  برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دونوں کانوں تک آواز کی رسائی میں جو مختصر مدت کا اختلاف پایا جاتا ہے یہ مختصر تفاوت انسان کو آواز کی جہت تشخیص دینے میں مدد دیتا ہے۔ اور کان کو بھی تین مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں سے ہر ایک کی مزید تقسیم بندیاں ہیں۔

 ۴۔ نظام تنفس 

مولا فرماتے ہیں:

’’تعجب کرو انسان پر جو سوراخ سے سانس لیتا ہے‘‘

جانداروں کے جسم میں پائے جانے والے حیاتیاتی نظاموں میں سے وہ نظام کہ جو عمل تنفس میں حصہ لینے والے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے ، نظام تنفس (respiratory system) کہلایا جاتا ہے علم تشریح کے اعتبار سے اس نظام میں ناک ، بلعوم ، حنجرہ و رغامی ، قصبہ ، قصیبات اور پھیپھڑے شامل ہیں۔ اسی نظام کے تحت انسان آگسیجن لیتا اور ہائڈروجن چھوڑتا ہے۔ 

 نظام خلقت میں تفکر، راہ خدا شناسی 

کائنات میں جگہ جگہ تعجب آور اور شگفت انگیز موجودات پائے جاتے ہیں جن میں غور و فکر کرنے سے انسان کو خدا کی عظمت و بزرگی اور اپنی ناتوانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ نظام ہستی کی طرف سوال آمیز نظر انسان کو اس نطام کے خالق تک رہنمائی کرنے کا باعث بنتا ہے۔ 

نظام خلقت اور اس کے خوبصورت نظارے ایسی کھلی کتاب ہے جس کا ہر صفحہ خالق حکیم کے وجود پر روشن دلیل ہے۔ لہذا مفسرین کے مطابق خداوند عالم نے بھی اپنی محکم کتاب قرآن مجید کی تقریبا۷۵۰ آیات میں نظام خلقت میں توجہ و تفکر کے ذریعے اپنی شناخت و معرفت کا سفر طے کرنے کا دستور دیا ہے۔ 

مولا امیر المومنین بھی انسان کو اسی روش کے مطابق خدا اور مخلوق خدا دونوں کی شناخت کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں۔ تاکہ خدا کے علم و قدرت اور انسان کی نادانی و کمزوری دونوں کا اندازہ ہو سکے۔

واقعا جائے تعجب ہے کہ

یہی آنکھ جسے انسان بہت ہی سادہ سمجھتا ہے خدا نے کتنی ظرافت سے اسے خلق کیا ہے۔ جسے انسان بڑی بے احتیاطی سے استعمال کرتا ہے اگر خدا چاہے تو ایک دھول سے اس کی بینائی کی قدرت کو چھین لے۔ 

وہ زبان جسے وہ بڑی بے دردی سے استعمال کرتا ہے چاہے تو خدا معمولی سا خلل اس نطام میں پیدا کرے اور اسے گونگا بنا دے۔ 

وہ کان جس سے وہ ہر جائز و ناجاہز کام لیتا ہے خدا چاہے تو معمولی حشرے کے ذریعے اسے سماعت سے محروم کر دے۔

جس نظام تنفس سے سانسوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ باقی ہے، خدا چاہے تو ایک گھونٹ پانی یا ایک لقمہ کھانے کے ذریعے نہ فقط اس کے نطام تنفس کو درہم برہم کردے بلکہ اسے ہمیشہ کے لئے سانس کی نعمت سے ہی محروم کردے اور وادی عدم کا مسافر بنادے۔

پس اے انسان!

کب تک خدا کی قدرت و توانی اور علم و حکمت کا انکار کرتے رہو گے؟

کب تک انا ربکم الاعلٰی (میں سب سے بڑا رب ہوں) کا نعرہ بلند کرتے رہو گے؟ 

کب تک اپنی ناتوانی چھپاتے پھروگے؟ 

کب تک خدا کی درگاہ سے بھاگتے پھرو گے؟

کب تک بھٹکتے رہو گے؟

کب تک۔۔۔؟

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *