تازہ ترین

سوانح حیات، امام محمد باقر علیہ السلام

امام محمد باقر علیہ السلام

امامت و ولایت کے پانچویں درخشاں آفتاب کی سوانح حیات

پانچواں آفتاب، آسمانِ امامت کے اُفق پر همیشہ کے لئے روشن و منوّر هوا، ان کی پوری زندگی علوم و معارف سے سرچشمہ تھی اسی وجہ سے انھیں باقر العلوم کے لقب سے یاد کیا جاتا هے،

شئیر
46 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4486

چونکہ آپ علوم کی مشکلوں کو حل کرتے، معرفت کی پیچیده گتھیوں کو سلجھاتے تھے اور ظلم و جور و جہالت کی تاریکیوں اور گھٹاٹوپ اندھیرے میں مہجور و پوشیده اسلامی اقدار کو دورباره حیاتِ نو عطا کرتے اور انھیں آشکار کرتے تھے ۔ آپ (ع) کی ولادت باسعادت اس زمانے میں هوئی جب امتِ اسلام میں ظالم و جابرحکمرانوں کی حکومت تھی اور طرح طرح کے دینی افکار پائے جاتے تھے آپ (ع) کی ولادت معرفت کا پیغام لائی اور خالص اسلام کو حیات نو عطا کی ۔

موجودہ مقالہ میں مقالہ نگار کی کوشش یہ هے کہ پانچویں امام (ع) کی سوانح حیات کے تشنہ کام افراد کو مختصر طورپر ان کی پاک و پاکیزه سیرتِ زندگی سے سیراب کرے ۔

امام محمد باقر (ع) کی ولادت:

حضرت باقر العلوم ابوجعفر (ع) کی ولادت مدینہ منوّره میں هوئی ۔ اکثر مورخین کے نظریہ اور روائی کتابوں کے مطابق آپ کی ولادت سنہ۵7 ھ، میں هوئی هے ۔[1] روایتوں کی مذکورہ نقل سے پتہ چلتا هے کہ امام محمد باقر (ع) اپنے جدّبزرگوار حسین بن علی (ع) کی شهادت کے وقت کربلا میں موجود تھے اور ان کی عمر تین سال کی تھی۔[2] لیکن آپ (ع) کی ولادت کے دن اور مہینہ کے سلسلہ میں مؤرخین کے اندر اختلاف پایا جاتا هے ۔ بعض افراد ان کی ولادت کو تین صفر سنہ۵7 ھ، جانتے هیں ۔[3] اور بعض لوگ ۵/صفر سنہ ۵7 ھ،[4] اور کچھ مؤرخین یکم رجب المرجب بروز جمعہ سنہ۵7 ھ،[5] اور بعض دوسرے افراد نے یکم رجب بروز دوشنبہ یا سہ شنبہ سنہ۵7 ھ، جانا هے ۔[6] لیکن اکثر محققین نے پہلے نظریہ کو قبول کیا هے ۔

امام محمد باقر (ع) کا اعلیٰ نسب:

امام محمد باقر (ع) کا نسب ماں باپ دونوں کی طرف سے نبوّت کے پاک و پاکیزه شجره طیّبہ سے ملتا هے آپ علوی خاندان میں سب سے پہلے مولود هیں جن کا سلسلہ نسب امامت کے دو سمندر (یعنی حسن بن علی (ع) اور حسین بن علی (ع)) ملتا هے۔[7] آپ کے والد علی بن الحسین، زین العابدین (ع) اور مادر گرامی ام عبدالله، فاطمہ، امام حسن مجتبیٰ (ع) کی بیٹی هیں۔[8] امام محمدباقر (ع) کی مادرِگرامی صداقت و پاکیزگی کا ایک ایسی نمونہ تھیں جس کی وجہ سے آپ کو صدّیقہ کے لقب سے نواز گیا ۔[9]

حضرت امام باقر (ع)اپنی والده ماجده کے اوصاف میں اس طرح بیان کرتے هیں: ایک دن میری مادرِ گرامی ایک دیوار کے پاس تشریف فرما تھی۔ اچانک نظر پڑی تو دیکھا دیوار شگافتہ هوکر گر رهی هے اور عنقریب وه خراب هوجائے گی۔ میری ماں نے دیوار پر هاتھ رکھا اور کہا: تجھے محمد مصطفیٰ (ص) کی قسم دے کر کہتی هوں، تجھے خدا نے ابھی گرنے کی اجازت نہیں هے ۔ دیوار اپنی جگہ پر رک گئی یہاں تک کہ جب میری ماں وهاں سے هٹ گئیں اس کے بعد وہ دیوار گری۔[10]

نام، کنیت اور القاب:

حضرت(ع) کا اسم مبارک محمد، کنیت ابوجعفر۔[11] اور ان کے القاب باقر، شاکر، هادی اور امین تھے آپ کا سب زیاده مشهور لقب باقر تھا جس کا تذکره اکثر تاریخی منابع میں وضاحت کے ساتھ آیا هے۔[12] حضرت کے اس لقب سے ملقّب هونے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں آیا هے:

آپ علمی مشکلات کو شگافتہ کرتے اور اس کی پیچیده گتھیوں کو سلجھاتے تھے ۔[13]

حضرت کے علوم و معارف کی کثرت کی وجہ سے آپ کو باقر کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔[14]

زیاده سجده کرنے کی وجہ سے آپ کی پیشانی گشاده هوگئی تھی۔[15]

کلی قوانین کے متن سے احکام الٰہی کا استنباط کرتے تھے ۔[16]

امام محمد باقر(ع) کی ازواج:

تاریخ میں امام محمد باقر(ع) کی دو بیویوں بنام ام فروه بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر اور ام حکیم بنت اسید بن مغیره ھثقفی،اور دو (ام ولد) کنیزوں کا ذکر ملتا هے ۔[17]

امام محمد باقر(ع) کی اولاد:

امام محمد باقر(ع) کی سات اولاد تھیں جن کے اسمائے مبارک درج ذیل ھیں جعفر بن ­محمد الصادق (ع)، عبدالله، ابراهیم، عبیدالله، على، زینب و ام­ سلمہ ۔

البتہ بعض کتابوں میں امام (ع) کی چھ اولاد کا تذکره کیاگیا هے اور ان کا کہنا هے کہ عبیدالله نام کا آپ کا کوئی فرزند نہیں تھا۔[18] اور کچھ لوگوں نے بیان کیا هے کہ امام محمد باقر(ع) کے دو بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ درحقیقت زینب اور ام سلمہ یہ دو نام ایک هی بیٹی کے تھے۔[19]

امام محمد باقر(ع) کی علمی سرگرمی:

خلیفہ دوم کے دور میں حدیث کے نقل پر پابندی لگائی گئی اسی کے ساتھ ساتھ جعلی و گڑھی هوئی حدیثوں کی نشر و اشاعت سبب بنی کہ لوگ راهِ راست و هدایت سے دور هوتے جائیں۔ (لوگوں کی لاعلمی اس وقت اور زیادہ عروج پر پہنچی جب اسلامی فتوحات کا آغاز هوا اور حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان کی اتباع میں لوگ بھی دنیاداری، فتوحات، ظاهری امور کی چمک دمک نیز مالی مسائل میں مصروف هوگئےتھے جس کی وجہ سے دینی تربیت اور علمی فعالیّت کو لوگ چهوڑتے چلے جارهے تھے)۔[20]

امام محمد باقر(ع) اور اس کے بعد امام صادق (ع) کے دورِ امامت میں بنی امیہ کی حکومت اور حکمرانی کے آخری آیام گزر رهے تھے اور بنی عباس خلافت پر قبضہ جمانے اور هڑپ کرنے کی فکر میں لگے هوئے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے درمیان یہ شگاف کا زمانہ اسلامی معاشره کی ثقافت و تہذیب کے رشد کا مناسب موقع هوسکتا تھا ۔

“شیعہ فقهی و تفسیری منابع و مآخذ میں سرسری طورپر ایک نظر ڈالنے سے یہ چیز بخوبی سمجھی جاسکتی هے کہ شیعہ، اخلاقی اور تفسیری روایتوں کا ایک بہت بڑا حصہ امام محمد باقر(ع) سے منقول هے۔ وسائل الشیعہ اور تفاسیر کی کتابیں جیسے بحرانی کی تفسیر البرهان اور فیض کاشانی کی تفسیر صافی جن میں فقهی مسائل کے بیان، آیات قرآنی کی وضاحت اور ان کے شانِ نزول سے متعلق کثیر تعداد میں روایتیں حضرت (ع) سے مروی هیں۔ اس کے علاوه کافی مقدار میں امیرالمؤمنین (ع) اور جنگ صفین کے بارے میں تاریخی اخبار و روایات امام محمد باقر(ع) سے نقل هوئی هیں ۔ اسی طرح حضرت (ع) سے اخلاقیات سے متعلق گرانقدر اور پُرمغز جملے نقل کئے گئے هیں، امام (ع) کے دهن مبارک سے نکلے هوئے بہترین و خوبصورت کلمات قصار، حضرت (ع) کے روحانی و باطنی کمالات کا پتہ دیتے هیں”۔[21]

معاشره و سماج میں اسلامی اخلاق کے پھیلانے میں امام محمد باقر (ع) کی واضح سرگرمیوں کے نمونموں کے سلسلہ میں متعصّب اور کینہ پرور لوگوں سے حضرت (ع) کے مبارزه کی طرف اشاره کیا جاسکتا هے۔ امام محمد باقر(ع) دنیوی نعمتوں سے استفاده اور بہرہ مند هونے کو زهد و پرهیزگاری کے مخالف نہیں جانتے تھے ۔

 امام محمد باقر(ع) کی گردن پر دینی و اسلامی رهبری تھی اسی کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے ثقافتی و اجتماعی مسائل سے متعلّق فعالیت انجام دیا کرتے تھے اور بہت سے سرگرم شاگردوں کی تربیت کرکے اسلامی علاقوں میں روانہ کیا کرتے تھے، درج ذیل شخصیتیں جیسے جابر بن ­یزید جعفی، محمد بن ­مسلم، ابان ­بن ­تغلب و ابوبصیر اسدی وغیرہ نے مکتب امام باقر (ع) سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اسی طرح ابن­ مبارک، زهری، اوزاعی، ابوحنیفہ، مالک، شافعی، زیاد بن ­منذر و بلاذری وغیرہ جیسے افراد بھی حضرت کے راویوں میں شمار ھوتے ھیں۔[22]

دروس کے قائم کرنے سے امام محمد باقر (ع) کے چار مقاصد و اهداف مدّنظر تھے:

1- تمام چیزوں کے متعلّق اسلامی آراء و نظریات کو پیش کرنا، خاص طور سے مختلف مذاهب کے علماء و دانشمندوں کی طرف سے جو سوالات کئے جاتے تھے، اس طرح کے مطالب باعث هوا کرتے تھے کہ دین اسلام کے پیروکار اپنے دین میں ثابت قدم رهیں اور غیر مسلمانوں کو اسلام کی برتری و فوقیّت کا اعتراف کرنا پڑتا تھا ۔ امام محمد باقر(ع) کے پاس مختلف عقائد و آراء کے جو افراد آتے تھے حضرت ان لوگوں سے مناطره کرتے تھے اور لوگوں نے بھی علم عقائد و کلام سے متعلق حضرت سے بہت سے مطالب سیکھے هیں ۔[23]

2- فقهی، کلامی، تفسیری، تاریخی اور اخلاقی امور سے متعلق جو انحرافات اور غلطیاں اموی حکومت کی طرف سے وجود میں لائی گئی تھیں یا وه چیزیں سنت نبوی سے الگ تھیں، حضرت انھیں واضح طورپر صحیح انداز میں بیان کیا کرتے تھے ۔

3- دینی معارف کے مختلف ابواب کو کھولنا جن کو بیان کرنے سے اس زمانے کے اسلامی حکمرانوں کی طرف سے ممانعت اور پابندی لگائی گئی تھی، اور ان امور سے متعلّق علم و آگہی حکمرانوں کے سیاسی نظام کی بنیادوں کو متزلزل کر دیتی تھی ۔ امام صادق (ع) سے منقول ایک حدیث میں آیا هے: “بنی امیہ نے لوگوں کو ایمان سے متعلق بحثوں کو سیکھنے میں آزادی دے رکھی تھی لیکن وه چیزیں جو شرک کا باعث هوتی تھیں ان کی تعلیم سے روکتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر کبھی لوگوں کو شرک آمیز کاموں کے کرنے کا حکم دیں تو لوگ اس کی (قباحت و حرمت کو) سمجھنے سے قاصر رهیں “۔[24]

4- بعض اسلامی دانشمندوں کا انتخاب اور ان کی تربیت و پرورش امام باقر (ع) کے دستور العمل کے مطابق کرنا اور انہیں اسلامی بزرگ شهروں میں بھیجنا تاکہ حضرت (ع) کے نظریات کے اعتبار سے صحیح اسلامی خدمات انجام دیں، جس کے نتیجہ میں اهلبیت پیغمبر (ص) کے خلاف عرصہ دراز سے بنی امیہ کی سازش اور پرپیگنڈوں کو ناکام کرنا تھا اور اسی کے ساتھ اهلبیت علیہم السلام کے ماننے والے بعض لوگوں کی غلوآمیز افکار کو ختم کرنا وغیره تھا جو حضرت (ع) کے اقدامات کے بڑے اهم پہلو هیں ۔[25]

امام (ع) کے سیاسی اقدامات اور سرگرمیاں:

امام محمد باقر(ع) اهلبیتِ پیغمبر (ص) کی اهم شخصیت اور شیعوں کے پانچویں امام هیں، فطری طورپر بنی امیہ کی حکومت کے مخالف بہت سے لوگ آپ کی طرف مائل تھے اسی وجہ سے حکومت آپ پر نظر بہت کڑی رکھتی تھی۔ البتہ امام حسین (ع) کی شهادت کے بعد جو حالات پیش آئے تھے، اس کی وجہ سے امام باقر (ع) زیاده تر تقیہ کی صورتِ حال کو اختیار کرتے تھے اور اپنے نظریات کو درس کی صورت میں بیان کرتے تھے ۔

اسی بناپر حضرت کی تمام سرگرمیاں اور زندگی کے جزئیات، تاریخی منابع میں لکھی نہیں جاسکی هیں، آپ کے سیاسی اقدامات کافی حد تک پتہ نہیں چل سکے ۔ اس کے باوجود کچھ روایتوں سے پتہ چلتا هے کہ امام باقر (ع) سیاسی مسائل میں اپنے کچھ معیار و اصول کے مطابق عمل کرتے تھے اور سیاسی واجتماعی مسائل کے پیش آنے پر ماننے والوں کی رهنمائی کرتے اور بعض اوقات حکمرانوں کی بھی هدایت کرتے تھے ۔ مثال کے طورپر اسلامی مآخذ میں آیا هے کہ هشام بن عبدالملک نے حج کے زمانے میں مسجدالحرام میں طواف کرتے هوئے امام باقر(ع) کو دیکھا کہ لوگ ان کے اردگرد جمع هیں اور سوال کررهے هیں ۔ لوگوں کی محبت اور ان کے آس پاس جمع هونے کی وجہ سے اس کی نظریں آپ کی طرف مرکوز هوگئی، لهذا اپنے اطرافیوں سے حضرت (ع) کا نام پوچھا اور جب لوگوں نے بتایا کہ وه محمد بن علی (ع) هیں، تو حیران هوکر کہا: وهی جن کے عراق کے لوگ دلداده هیں یا (عراق کے لوگوں کے امام هیں)۔[26] ایک روایت میں آیا هے کہ هشام نے گویا اسی حج کے زمانے کے بعد امام باقر (ع) کو ان کے بیٹے امام صادق (ع) کے ساتھ شام بلایا، امام (ع) نے وهاں پہنچ کر تمام حاضرینِ مجلس کو سلام کیا، وهاں کی رسم و رواج کے مطابق اموی خلیفہ هشام کو امیر المؤمنین کہہ کر سلام نہیں کیا اور بغیر اجازت کے بیٹھ گئے ۔ هشام نے غصّہ میں ملامت کرتے هوئے کہا: آپ (ع) لوگوں کو اپنی امامت کی دعوت کیوں دیتے هیں ۔ وهاں بزم میں موجود حاضرین نے بھی منصوبہ کے مطابق اسی طرح کا برتاؤ کیا ۔ اس وقت امام (ع) نے واضح طورپر اهلبیتِ پیغمبر (ص) کی دین میں منزلت و مقام  آشکار کیا نیز لوگوں کی هدایت کے ذمہ دار هونے کو بھی بیان کیا اور اشارہ کیا کہ بنی امیہ کی حکومت بہت جلد ختم هونے هے۔ هشام نے پہلے آپ (ع) کو قیدخانہ میں ڈالا، لیکن بعد میں آزاد کرنے اور مدینہ منوره بھیجنے پر مجبور هوا۔[27] ان دونوں واقعے سے نتیجہ نکلتا هے اهل بیت علیہم السلام کی امامت کی دعوت دینے اور ان کے مقام و منزلت کو بتانے سے دین میں ان کے کردار سامنے آتے هیں اور اموی خلافت کا باطل هونا واضح هوجاتا هے یعنی اس کا غاصب هونا سمجھ میں آتا هے جس کو هشام امت میں اختلاف سے تعبیر کیا کرتا تها، اس سلسلہ میں امام محمد باقر(ع) کی تحریک بڑے وسیع اور ناقابل انکار پیمانے پر رهی هے اور حدّ اقل بعض اسلامی علاقوں میں بہت هی مؤثّر  و کارآمد رهی هے ۔

امام محمد باقر(ع) کے کچھ فضائل:

 امام (ع) کی حیات طیّبہ تمام یکتا پرستوں اور بلندوبالا اخلاق کے حامل انسانوں کےلئے شرافت و کرامت کا مکمل آئینہ هے، حضرت (ع) کے ممتازترین اوصاف و کمالات میں آپ کے اندر تمام خوبیوں کی جامعیّت هے ۔

علم کی طرف توجہ و انہماک، انھیں اخلاقی و معنوی فضائل سے غافل نہیں کرسکے تھے، اور معنوی چیزیں، عبادات اور بندگی میں مصروفیت ان کو مادی زندگی، سماجی تعلّقات اور معاشره کی اصلاح سے باز نہیں رکھ سکتے تھے ۔

الف: زهد و تقویٰ کی بلندی کے باوجود کام اور کوشش:

امام محمد باقر (ع) کے زمانے میں ایک مشهور و معروف زاهد محمد بن منکدر تھا جو طاؤس یمانی، ابراهیم بن ادهم اور دوسرے لوگوں کی طرح صوفی مسلک کی طرف رجحان رکھتا تھا وه نقل کرتا هے:

 میں سخت گرمی کے دنوں میں ایک دن مدینہ منوره کے اطراف میں ایک سمت کسی کام سے جارها تھا، اچانک اس سخت گرمی میں میری ملاقات محمد بن علی (ع) سے ملاقات هوگئی تو دیکھا کہ اپنے دو غلاموں کی مدد سے کسب معاش کے کاموں میں مصروف هیں، میں نے اپنے آپ سے کہا: قریش کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ اتنی سخت گرمی میں طاقت فرسا کام کررهے هیں اور دنیا کی فکر میں لگے هیں! خدا کی قسم میں ان کے پاس جاؤں گا اور موعظہ و نصحیت کروں گا ۔ میں حضرت (ع) کے پاس گیا اور ان سے سلام کیا، درحالیکہ وه خستہ حال تھے اور جسم سے پسینہ بہہ رها تھا،میرے سلام کا جواب دیا، میں نے موقع کو غنیمت جانتے هوئے ان سے کہا:

“خداوند عالم آپ کے کاموں میں برکت دے! آخر کیوں کر آپ جیسی بزرگ شخصیت اتنی سخت گرمی اور ایسے حالات میں طلبِ مال اور دنیا کی فکر میں رهے! سچ بتائیں اگر اس حالت میں آپ کو موت آجائے تو آپ کیا کریں گے؟! “

امام محمد باقر (ع) نے اپنے هاتھوں کو روکا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا:

“خدا کی قسم اگر اس حالت میں مجھے موت آجائے تو یقین جانو کہ پروردگار عالم کی اطاعت و فرمانبرداری میں موت آئے گی ۔ کاموں میں سعی و کوشش کرنا خود خدائے متعال کی اطاعت هے کیونکہ یہی کام هیں جن کی وجہ سے میں اپنے کو تم اور تمہارے جیسے لوگوں سے بے نیاز بناتا هوں (تاکہ دست نیاز و حاجت کسی کی طرف نہ پھیلاؤں) میں اس وقت خدا سے خوف زده هوں گا جب میری موت الله کی معصیت و نافرمانی میں آئے”۔[28]

ب: سماج میں اصلاحی اور موثر اقدام:

امام محمد باقر (ع) اس بات پر توجہ رکھتے تھے کہ کسبِ معاش کے سلسلہ میں سعی و کوشش کرنا ضروری ھے تاکہ لوگوں سے بے نیاز رهیں اور عملی طورپر اس میدان قدم بھی اٹھایا، لیکن اپنی زندگی صرف کسبِ معاش میں وقف نہ کی، بلکہ حضرت کا اصلی مقصد سماج میں موثر اقدام کرنا تھا، جیسا کہ اس پہلے بیان کیا جاچکا هے، امام باقر (ع) نے اپنے زمانے میں معاشره و سماج کے لئے بڑی عظیم و گرانقدر علمی و عملی تاثیر چھوڑی هے۔ اسلامی معاشره میں امام باقر (ع) کے اهم کردار کے بیان کے متعلق بس اس نکتہ کی یاد دهانی کافی هے، علماء کا اتفاق هے کہ سلسلہ فقهاء کے ابتدائی دور میں لوگوں میں فقیہ ترین افراد کی تعداد چھ شخصیتوں پر مشتمل هے اور ان چھ لوگوں کا شمار امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) کے اصحاب اور شاگردوں میں هوتا هے۔[29]، حسن بن علی الوشاء[30] کا کلام جو امام رضا (ع) کے معاصرین میں سے هے خود اس مدّعا پر ایک روشن دلیل هے وه کہتا هے: میں نے مسجد کوفہ میں 900/نوسو حدیث کے مشائخ و اساتید کو درس دیتے هوئے مشغول پایا جبکہ وه تمام بزرگ اور اساتید، امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) سے احادیث نقل کررهے تھے۔[31]

ج: مرجع خلائق اور سوالوں کے جوابات:

ابوبصیر کہتے هیں: امام باقر (ع) مسجد الحرام میں تشریف فرماتے تھے اور ان کے دوستوں میں سے کافی لوگ شمع کے گرد پروانوں کی طرح جمع تھے، اسی وقت طاؤس یمانی کچھ لوگوں کے همراه میرے یاس آیا اور پوچھا: وه لوگ کس کے اردگرد جمع هیں؟

میں نے جواب دیا: محمدبن علی بن الحسین باقر العلوم (ع) تشریف فرما هیں اور لوگ ان کے گرد حلقہ بنائے بيٹھے هوئے هیں ۔

طاؤس یمانی نے کہا: مجھے بھی ان سے کام هے اس کے بعد حضرت (ع) کے پاس گیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا اس کے بعد کہا: اگر آپ کی اجازت دیں تو میں بھی آپ سے کچھ پوچھوں؟ امام باقر (ع) نے فرمایا: هاں اجازت هے پوچھو![32] طاؤس یمانی نے اپنے سوالوں کو بیان کیا اور امام (ع) نے اس کے سوالوں کا متقن جواب دیا ۔

د: ناداروں و محتاجوں کی امداد:

امام محمد باقر(ع) کے متعلق لکھا گیا هے: یہ بات بالکل نہیں سنی گئی کہ کسی نے حضرت کے سامنے اپنی ضرورت و حاجت کو بیان کیا هو اور اس کی ضرورت پوری نہ هوئی هو یا نہیں میں جواب ملا هو ۔

امام محمد باقر (ع) همیشہ یہ تاکید کرتے تھے کہ جب بھی حاجتمند تمہارے پاس آئیں اور یا تم انہیں پکارو تو ان کو پکارنے میں اچھے ناموں اور الفاظ کا استعمال کرو۔[33] اور برے الفاظ و اوصاف سے آواز نہ دو، ان کی بے احترامی نہ کرو ۔

امام صادق (ع) فرماتے هیں:

 میرے والد ماجد کی حالت مالی اعتبار سے اپنے تمام رشتہ داروں سے اچھی نہیں تھی اور ان کے اخراجات باقی لوگوں سے سنگین تھے، اس کے باوجود هر جمعہ کو نیازمندوں و غریبوں کی امداد کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: جمعہ کے دن راهِ خدا میں خرچ کرنا بڑی اهمیت کا حامل هے جس طرح خود جمعہ کا دن دوسرے تمام دنوں سے بہتر اور افضل هے۔[34]

ھ- دوستوں کے متعلق سخاوت و مہربانی:

عمرو بن دینار اور عبدالله بن عبید کہتے هیں: هم لوگ جب بھی امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں ملاقات کے لئے جاتے تھے تو وه تخفہ تحائف، لباس اور مالی امداد کیا کرتے اور فرمایا کرتے تھے: هم نے یہ چیزیں پہلے سے تمہارے لئے مہیّا کر رکھی هیں۔ [35]

اسود بن کثیر کہتے هیں: میں تہی دست مجبور هوگیا لیکن دوستوں نے میری امداد نہیں کی، میں امام محمد باقر (ع) کی خدمت حاضر هوا اور اپنی پریشانی، نیازمندی، دوستوں کے امداد نہ کرنے اور ان کی بے رخی کی شکایت کی، حضرت (ع) نے مجھ سے فرمایا: “وه اچھا بھائی نہیں هے جو ثروت و دولت کے هوتے هوئے تمہاری خیریت پوچھے اور تمہارا خیال رکھے لیکن جب تم تہی دست و ضرورتمند هوجاؤ تو وه تم سے قطع تعلّق کرلے اور تمہارے پاس نہ آئے!” اس کے بعد امام (ع) نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ سات سو درهم میری خدمت میں حاضر کرے، امام (ع) نے فرمایا: اس رقم کو اپنی ضروریات میں خرچ کرو، جب ختم هوجائے اور تمہیں ضرورت هو تو مجھے اطلاع دو ۔[36]

و- اجتماعی تعلّقات میں صبر و شکیبائی:

سماج و معاشره میں انسان کے موثر و مفید اقدام کی اصل شرط یہ هے کہ وه صبر و تحمّل سے کام لے، یہ خصوصیت امام محمد باقر (ع) کی حیات طیّبہ میں بلندترین مرتبہ پر دیکھی جاسکتی هے ۔

اس اهم خصوصیت کو امام (ع) کی زندگی میں جاننے کے لئے اس حدیث کا نقل کردینا کافی هے: ایک غیر مسلم (نصرانی) آدمی کی ایک دن امام (ع) سے ملاقات هوئی، وه آدمی نامعلوم کس بناپر حضرت (ع) سے کینہ و دشمنی رکھتا تھا جس کی وجہ سے اس نے آپ کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور امام باقر (ع) کے نام کو تھوڑا سا بگاڑ کر کہا: آپ بَقَر هیں! امام (ع) اس کے بجائے کی ناراض هوں اور اس کا سخت ردِّ عمل ظاهر کریں، بڑے اچھے انداز میں اور اطمینان سے فرمایا: میں باقر هوں ۔

وه نصرانی شخص جو اپنی اس گستاخی سے اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکا تھا اور انہیں غصّہ نہیں دلاسکا، اس نے کہا: آپ ایک کھانا پکانے والی عورت کے بیٹے هیں! امام (ع) نے فرمایا: یہ تو ان کا هنر اور فن تھا (اور ان کے لئے کوئی بری چیزی نہیں هے) اس نصرانی نے اس سے زیاده گستاخی کرتے هوئے کہا: تم ایک سیاه فام و بد زبان عورت کے بیٹے هیں!

 امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: “اگر تم سچ کہہ رهے هو اور میری ماں کی جو صفت بیان کررهے ویسی تھیں تو میں خدا کی بارگاه میں دعا کرتا هوں کہ انہیں معاف کردے اور اگر تم جھوٹ بول رهے هو اور بے بنیاد بات کر رهے هو تو خدا سے دعا کرتا هوں کہ وه تمہیں بخش دے”!

یہ وه موقع تھا کہ جب اس نصرانی نے امام محمد باقر (ع) کے حیرت انگیز حلم و بردباری کا مشاهده کیا، اور سوچا امام (ع) لوگوں میں اتنی اهم و باوقار شخصیت کے مالک هوتے هوئے جبکہ اتنے عظیم علمی و اجتماعی مرکز میں سینکڑوں شاگرد آپ کے درس سے استفاده کرتے هیں، قریش و بنی هاشم کے درمیان بلند مقام و منزلت رکھتے هیں اور ان لوگوں کی حمایت بھی حاصل هے ان سب چیزوں کے هوتے هوئے، بجائے اس کے کہ کوئی ردِّ العمل دکھائیں اور اس کی بدزبانی کے مقابلہ میں اس کی ملامت و سرزنش کریں، حضرت ایک صبر و بردباری کے پہاڑ کی طرح بڑے سکون و اطمینان سے کھڑے هوکر اس سے گفتگو کررهے هیں، اچانک اس نے اپنے ضمیر کی عدالت میں خود کو شکست یافتہ اور محکوم پایا، جس کے نتیجہ میں فوراً اپنی کہی هوئی باتوں کی معافی مانگی اور اسلام قبول کرلیا۔[37]

ز- دوستوں سے صمیمی محبت و لگاؤ:

امام (ع) کے ایک دوست ابوعبیده کہتے هیں: میں ایک سفر میں امام محمد باقر (ع) کے همراه تھا، سفر کے دوران پہلے میں اپنی سورای پر سوار هوتا تھا اس کے بعد امام (ع) اپنے مرکب پر سوار هوتے تھے (یہ اتنہائی درجہ عزّت و احترام کا پاس و لحاظ تھا) جس وقت سواری سے اتر کر ایک دوسرے کے پاس بیٹھے تھے تو اس طرح پیش آتے تھے اور حالات معلوم کرتے کہ گویا اس سے پہلے هم لوگوں کی ملاقات نہیں هوئی تھی اور کافی دنوں کے بعد هم نے ایک درسرے کو دیکھا هے، میں نے حضرت (ع) کی خدمت میں عرض کیا:اے فرزند رسولِ خدا (ص)! آپ دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ اس طرح رهن سہن اور لطف و محبت سے پیش آتے هیں جبکہ میں دوسرے کسی کو ایسا نہیں پاتا هوں، یقیناً اگر دوسرے لوگ بھی پہلی ملاقات میں اپنے دوستوں سے اس طرح پیش آئیں تو یہ عمل بہت هی قابلِ قدر اور اهمیت کا حامل هوگا۔

امام محمد باقر (ع) نے فرمایا:

“کیا تم نہیں جانتے هو کہ مصافحہ کی کتنی اهمیت هے ؟ مومنین جب بھی ایک دوسرے سے مصافحہ کریں اور اپنے دوست کا هاتھ دبائیں تو ان کے گناه درخت کے پتوں کی طرح جھڑ جاتے هیں اور ان دونوں پر خداوند عالم کا لطف و کرم هوتا رهتا هے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے الگ هوجائیں “۔

ح- گھر والوں کے ساتھ محبت و مہربانی:

اولاد اور تمام گھر والوں کے ساتھ محبت و مہربانی کو تمام تر دینی و الهٰی چیزوں کی رعایت کرتے هوئے فقط مکتب و سیرت اهلبیت علیہم السلام میں سب سے بہتر اور صحیح انداز میں دیکھا جاسکتا هے، جو لوگ مکتب اهل بیت علیہم السلام سے دور هیں، وه چاهے کسی دین کے تابع نہ هوں یا وه لوگ جو دین کے تابع هیں لیکن انہوں نے دین کو اهل بیت (ع) کے علاوه کسی اور سے لیا هے، وه افراد عواطف اور اقدار کے درمیان توازن قائم کرنے میں افراط و تفریط کے شکار هوئے هیں ۔

کچھ لوگ امام (ع) کی خدمت بابرکت میں حاضر هونے کےلئے حضرت کے بیت الشرف میں داخل هوئے، اتفاق کی بات هے کہ امام محمد باقر (ع) کا ایک چھوٹا بیٹا مریض تھا اور ان لوگوں نے حضرت (ع) کے چہرے پر غم و اندوه کے آثار دیکھے، امام (ع) اپنے بیٹے کی بیماری سے اس قدر پریشان تھے کہ انہیں بالکل چین و سکون نہیں مل رها تھا ۔ جو لوگ حضرت کی خدمت میں شرفیاب هوئے تھے انہوں نے اس حالت کو دیکھ کہا: اگر اس بچہ کو کچھ هوجائے (مثلاً انتقال هوجائے) تو ممکن هے امام محمد باقر (ع) بہت زیاده پریشان اور رنجیده و غمگین هوں اور ایسا عکس العمل ظاهر کریں جس کی هم ان سے توقّع نہیں رکھتے هیں ۔ وه لوگ اسی فکر میں تھے کہ اچانک گریہ و شیون کی آواز سنائی دی، جس سے ان لوگوں کو معلوم هوگیا کہ بچہ کا انتقال هوگیا اور اس پر گریہ کیا جارها هے، لیکن وه لوگ امام محمد باقر (ع) کے برتاؤ اور رویّہ بے خبر تھے اتنے میں دیکھا کہ امام گشاده روئی کے ساتھ ان کے سامنے آئے، اس کے برخلاف جیسا کہ ان لوگوں نے سوچا اور امام (ع) کو اس سے پہلے جس حالت میں دیکھا تھا، مہمانوں نے کہا: جب هم آپ کی خدمت میں شرفیاب هوئے تو آپ کو پریشانی و اضطراب کی حالت میں دیکھا اور هم کو بھی آپ کی حالت دیکھ کر صدمہ هوا! امام (ع) نے فرمایا:

“هم اس بات کو پسند کرتے هیں کہ همارے اعزّاء و اقارب صحیح و سالم رهیں، انہیں کوئی رنج وغم نہ هو، لیکن جب خدا کا حکم آجاتا هے اور اس کی قضا و قدر آجاتی هے تو هم اسے قبول کرلیتے هیں اور اس کی مشیئت کے سامنے سراپا تسلیم و راضی رهتے هیں”۔[38]

ط- مومنین کے اجتماعی حقوق کا احترام:

زراره کہتے امام باقر (ع) قریش کے ایک آدمی کی تشییع جنازه میں حاضر هوئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا، تشییع جنازه کرنے والوں کے درمیان عطاء نامی شخص بھی موجود تھا، اسی دوران مصیبت زدہ افراد میں سے ایک عورت نے نالہ و فریاد کی آواز بلند کی، عطاء نے اس داغ دیده عورت سے کہا: یا تم خاموش هوجاؤ، یا میں واپس چلا جاؤں! اور اس تشییع جنازه میں شریک نہیں رهوں گا، لیکن وه عورت خاموش نہیں هوئی، وہ گریہ و زاری کرتی رهی اور عطاء بھی تشییع جنازه کو ادهورا چھوڑ کر واپس چلاگیا۔

میں نے عطاء کے اس واقعہ کو امام (ع) کی خدمت میں بیان کیا (اور حضرت کے ردِّ عمل کا منتظر تھا لیکن) امام (ع) نے فرمایا:

“راستہ چلتے رهو، هم اسی طرح جنازه کی تشییع کرتے رهیں گے، اس لئے کہ اگر هم ایک عورت کے بے موقع چیخنے اور گریہ و زاری کی وجہ کسی حق کو چھوڑ دیں (اور ایک صاحبِ ایمان کے متعلق اجتماعی وظیفہ پر عمل نہ کریں) تو هم نے ایک مردِ مسلمان کے حق کو نظر انداز کردیا هے” ۔

زراره کا بیان هے: تشییع کے بعد جنازه کو زمین پر رکھا اور اس پر نماز پڑھی گئی، دفن کے مراسم انجام دیئے جار هے تھے اس دوران مصیبت زدہ شخص نے آکر امام باقر (ع) کا شکریہ ادا کیا اور حضرت (ع) سے عرض کیا: آپ اس سے زیاده راستہ چلنے کی طاقت نہیں رکھتے هیں، آپ نے هم پر لطف و کرم کیا اور تشییع جنازه میں شرکت فرمائی، میں شکرگزار هوں اب آپ تشریف لے جائیں!

زارره کہتے هیں: میں نے امام (ع) کی خدمت میں عرض کیا: اس وقت صاحبِ عزا نے آپ کو واپس هونے کی اجازت دے دی، بہتر هے هم واپس هوجائیں، اس لئے کہ میں آپ کی خدمت بابرکت سے استفاده کرنا چاهتا هوں اور کچھ سوالوں کے جواب آپ سے دریافت کرنے هیں، امام (ع) نے فرمایا:

“تم اپنا کام کرتے رهو، میں صاحبِ عزا کی اجازت سے نہیں آیا هوں کہ اس کی اجازت سے واپس هو جاؤں، مردِ مؤمن کی تشییع کا اجر و ثواب هے جس کی وجہ سے میں آیا هوں، انسان جب تک تشییع جنازه میں شریک رهے گا، مؤمن کا احترام کرے گا، وہ پروردگار عالم سے اس کا اجر و ثواب حاصل کرتا رهے گا”۔[39]

ی ۔ لوگوں کے مالی حقوق کا پاس و لحاظ:

 ابوثمامہ کہتے هیں: میں نے امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر هوکر عرض کیا، میں آپ پر قربان هوجاؤں، میری خواهش هے کہ مکہ میں قیام پذیر رهوں، لیکن میں مرجئہ فرقہ۔[40] کے ماننے والے ایک شخص کا مقروض هوں، اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا هے؟ “کیا یہ بہتر هے کہ میں اپنے وطن پلٹ جاؤں اور اپنا قرض ادا کردوں یا اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے هوئے کہ وه ایک باطل فرقہ کا پیروکار هے جس کی وجہ سے اس کے قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرکے مکہ میں  مقیم رهوں”؟۔

امام (ع) نے فرمایا: اس شخص کے پاس جاکر اپنے قرض کو ادا کرو اور کوشش کرو اس طرح زندگی بسر کرو کہ موت کے وقت اور پروردگار سے ملاقات کے موقع پر کسی دوسرے کا حق تمہاری گردن پر نہ هو، اس لئے کہ مومن کبھی بھی خیانت نہیں کرتا هے۔[41]

ک ۔ شریفانہ جمال و زینت کی رعایت:

 ائمہ معصومین علیہم السلام زمانے کے شرائط اور اجتماعی ذمہ داریوں کے تناسب کا خیال رکھتے هوئے زندگی بسر کررهے تھے، امام علی (ع) کے حالات میں ملتا هے کہ حضرت اپنے دور حکومت و حاکمیت میں اپنے جوتے کو سلتے تھے اور ساده ترین و معمولی قیمت کا لباس پہتنے تھے لیکن حضرت (ع) اپنی زندگی کے طور طریقہ کو سبھی کے لئے تجویز نہیں کرتے تھے، آپ فرماتے هیں: “میں چونکہ حاکم هوں اس لئے میرا کچھ خاص وظیفہ هے اور میرے لئے ضروری هے کہ سماج کے سب سے نچلے طبقہ کی طرح زندگی بسر کروں تاکہ وه لوگ میری اس حالت کو دیکھ کر اپنی زندگی سے راضی و خوشحال رهیں “۔

لیکن چونکہ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام نے حکومت نہیں کی اور ایک خاص اجتماعی شرائط کے ساتھ زندگی گزار رهے تھے لہذا بعض اوقات معمولی و کم قیمت  اور پیوند لگے کپڑوں سے استفاده کرنے کی وجہ سے ان کی اجتماعی موقعیت کی تضعیف اور شیعوں کی توهین کا سبب هوتا تھا اس کا اثر منفی پڑتا تھا بنابر این اپنے وظیفہ کی بنیاد پر معاشره کے صحیح آداب کی رعایت کرتے هوئے سماج میں شرافت مندانہ جمال و زینت کا اهتمام کرتے هوئے زندگی بسر کررهے تھے ۔ امام باقر (ع) نے اپنے محاسن کی اصلاح کی کیفیت کے متعلق، اصلاح کرنے والے کی رهنمائی کرتے هیں۔[42] اپنے لباس کے انتخاب کرنے میں عزت، شرافت اور شائستہ زینت کو نظر میں رکھتے هیں! جیسا کہ بعض اوقات لباسِ فاخر اور پوستین کا لباس پہنتے تھے۔[43] نیز لباس کے لئے بہترین، جاذبِ نظر اور اچھے رنگوں کا انتخاب کرتے تھے۔[44]

امام باقر (ع) کی شهادت:

حضرت امام باقر (ع) اپنے والدِ ماجد امام زین العابدین (ع) کی شهادت کے بعد 19/انیس سال دس مہینہ زنده رهے اور اس پوری مدّت میں امامت کے عظیم وظائف و ذمہ داریوں، اسلامی تہذیب و ثقافت کی تعلیم، شاگردوں کی تربیت و تعلیم، اصحاب اور لوگوں کی رهنمائی، لوگوں کے درمیان اپنے جدّ بزرگوار کی سنّت کو نافذ کرنے، غاصب نظامِ حکومت کو صحیح راستہ کی جانب توجّہ دلانے اور لوگوں کو حقیقی رهبر و امامِ معصوم کی معرفت کی طرف هدایت کرتے رهے، کیونکہ روئے زمین پر صرف یہی پیغمبر اکرم (ص) کے حقیقی جانشین و خلیفہ هیں اور اس وظیفہ پر عمل کرنے میں ایک لمحہ کے لئے بهی غفلت نہیں برتی هے، امام باقر (ع) ایک زمانے تک اسلامی سماج و معاشره کی اجتماعی خدمات انجام دیتے رهے نیز ترویج علم، تبلیغ دین اور عبادت و بندگی پروردگار کرتے هوئے ۷/سات ذی الحجہ سنہ114ھ، کو درجہ شهادت پر قائز هوئے۔[45] اور آپ کے جسم اطهر کو جنّت البقیع کے قبرستان میں (امام زین العبادین (ع) کے پہلو میں) سپرد لحد کیاگیا۔

البتہ آپ (ع) کی شهادت کے سال سے متعلق دوسرے نظریات بھی پائے جاتے۔ کچھ مؤرخین نے شہادت کا سنہ117ھ،[46]اور بعض نے سنہ118ھ[47]، اور ایک جماعت نے جن کی تعداد بہت کم ھے انہوں نے مندرجہ ذیل برسوں کا ذکر کیا ھے سنہ116ھ[48]، اور سنہ113ھ[49]،اور سنہ11۵ھ[50]،اور سنہ111ھ[51]، لیکن زیادہ تر تاریخی منابع میں آپ (ع) کی شہادت کے متعلق سنہ114ھ[52]، کا ذکر کیا گیا هے۔

 

[1] ۔ دلائل الامامة، ص194؛اصول كافى، ج2، ص372؛ ارشادمفید، ج2، ص۵6؛ مصباح المتهجد، ص۵۵7؛اعلام الورى،ص2۵9؛ مناقب ابن­شهر آشوب،ج4، ص210؛روضةالواعظین،ج1،ص207؛ كفایة الطالب، ص4۵۵؛ وفیات الاعیان، ج4، ص174۔

[2] ۔ سبائك­الذهب، ص74؛ عیون­المعجزات، ص7۵؛ اخبارالدول و آثار الاول، ص11۔

[3] ۔ كشف­الغمة، ج2،  ص318؛ الفصول المهمة، ص211؛ مصباح كفعمى ص۵22؛ نورالابصار شبلنجى،ص142۔

[4] ۔ تذكرةالائمة، لاهیجى، 12۵۔

[5] ۔ دلائل­الامامة، ص94؛ مصباح­المتهجد، ص۵۵7؛ اعلام­الورى، ص2۵9۔

[6] ۔ اعیان­الشیعة،ج1، ص6۵0۔

[7] ۔ مناقب ابن­شهرآشوب، ج4، ص208؛عمدةالطالب، 138 ـ 139؛نورالابصار، مازندرانى ،ص۵1۔

[8] ۔ بعض تاریخی منابع نے ام ­عبدالله، فاطمه کو بتایا ھے جو بنت حسن مثنى (حسن ­بن حسن) ھیں جیسے: تذكرةالخواص، ص302؛ وفیات­الاعیان، ج4، ص174؛ لیکن اکثر تاریخی منابع نے انہیں امام حسن مجتبى(ع) کی بیٹی شمار کیا ھے مانند:تاریخ یعقوبى، ج2،  ص320؛ فرق ­الشیعة، نوبختى، ص61؛ دلایل ­الامامة، ص9۵؛ اصول كافى،ج2، ص372؛ اثبات ­الوصیة، ص1۵0؛ اعلام ­الورى، ص2۵9؛ تذكرة الخواص، ص302؛ البدایة و النهایة، ج9، ص309؛ اخبار الدول و آثار الاول، ص111۔

[9] ۔ دلائل­ الامامة، ص9۵۔

[10] ۔ عیون ­المعجزات،ص7۵؛ اثبات ­الهداة، ج۵، ص270؛ بحار الانوار، ج46، ص217؛ نور الابصار مازندرانى، ص44؛ الانوار البهیة، ص11۵۔

[11] ۔ مثیر الاحزان جواهرى، ص237؛ تاریخ ابن­خلكان، ج2، ص23؛ تاج­ الموالید طبرسى، ص39؛ المعارف، ص21۵؛ سیر اعلام النبلاء، ج4، ص401۔

[12] ۔ سبائك ­الذهب، ص74؛ عیون­ الاخبار ابن ­قتیبه، ج1، ص312؛ ارشاد مفید، ج2،  ص1۵6؛ تذكرة الخواص، ص302؛ مرآة الجنان، ج1، ص248؛ تاریخ ابن ­وردى، ج1، ص248؛ روض­الریاحین، ص67؛ الصواعق المحرقة، ص210؛ شذرات ­الذهب، ج1، ص149۔

[13] ۔ تاریخ یعقوبى،ج2،ص302؛سیر اعلام النبلاء، ج4، ص402؛ الفصول ­المهمة،ص211؛ شذرات ­الذهب، ج1، ص149۔

[14] ۔ تاج­ الموالید، ص39؛ كشف­ الغمة، ج2،  ص318؛ تذكرة الخواص، ص302؛ اعیان ­الشیعة، ج1، ص6۵0۔

[15] ۔ تذكرة الخواص، ص302؛ اعیان ­الشیعة، ج1، ص6۵0۔

[16] ۔ البدایة و النهایة، ج9، ص309۔

[17] ۔ “ام­ ولد” اس کنیز کو کہا جاتا ھے جو اپنے آقا سے صاحب اولاد ھوئی ھو۔

[18] ۔ طبقات ابن­سعد، ج۵، ص236؛ تذكرة الخواص، ص306۔

[19] ۔ اعلام­ الورى، ص26۵؛ كشف­الغمة، ج2، ص322؛ الفصول ­المهمة، ص221؛ بحار الانوار، ج46، ص36۵۔

[20] ۔ رسول جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، انتشارات انصاریان، با تعاون دفتر تحقیقات و تدوین متون درسی وابستہ بہ مرکز جہانی علوم اسلامی،ص 294۔

[21] ۔ حوالہ سابق، ص 302۔

[22] ۔محمد تقی مدرسی، زندگی وسیمای امام محمد باقر(ع)، ترجمہ:محمد صادق شریعت،ص 32۔

[23] ۔ ارشاد مفید، ج2، ص163۔

[24] ۔ اصول کافی، ج2، ص41۵-416۔

[25] ۔ کشى، ص223-228۔

[26] ۔ اصول کافی، ج 8، ص120؛ ذهبى، ج 4، ص40۵؛ ارشاد مفید، ج 2، ص163-164۔

[27] ۔ اصول کافی، ج 1، ص471۔

[28] ۔ ارشاد مفيد، ج2، ص1۵9؛ مناقب، ج4، ص201؛كشف الغمة،ج2، ص330؛ الفصول المهمة، ص213؛ بحار الانوار، ج46، ص287۔

[29] ۔ المناقب، ج2، ص29۵؛ ائمتنا، ج1، ص3۵1۔

[30] ۔ حسن­ بن ­على الوشاء جو مذھب امامیہ کی اھم شخصيتوں اور امام رضا(ع) کے اصحاب میں سے ھیں نجاشى نے ان کے بارے میں لکھا ھے «كان من وجوه هذه الطائفة» و «كان عينا من عيون هذه الطائفة»۔ اعيان ­الشيعة، ج۵، ص19۵۔

[31] ۔ اعيان الشيعة، ج۵، ص194۔ 

[32] ۔ بحار الانوار، ج46، 3۵۵۔

[33] ۔ احقاق ­الحق، ج12، ص189۔

[34] ۔ بحار الانوار، ج46، ص29۵؛ الانوار البهية، ص122؛ اعيان­ الشيعة، ج1، ص6۵3۔

[35] ۔ بحار الانوار، ج46، ص287؛ كشف­ الغمة، ج2، ص334۔

[36] ۔ ارشاد مفید، ج2، ص146؛ روضة الواعظين، ج1، ص204۔

[37] ۔ مناقب، ابن­ شهر آشوب، ج4، ص207؛ بحار الانوار ج46، ص289۔

[38] ۔ عيون ­الأخبار، ابن ­قتيبه، ج3، ص66؛ بحار الانوار، ج11، 86۔

[39] ۔ بحار الانوار، ج46، ص301۔

[40] ۔ مرجئہ فرقہ منجملہ ان فرقوں میں سے ھے جو جعلی اور گمراہ فرقہ ھے جس پر عقیدہ رکھنے والے اس قدر عمل کے پابند نہیں ہیں اور ایمان کے دعویٰ پر ھی خوش نظر آتے ھیں اور معصومين کی روایتوں میں ان لوگوں مورد لعن و نفرين قرار دیا گیا ھے: الفرق بين الفرق، مترجم 14۵۔

[41] ۔ علل ­الشرايع، ص۵28؛ بحار الانوار ج103، ص142۔

[42] ۔ بحار الانوار، ج46، ص299۔

[43] ۔ طبقات ابن­ سعد، ج۵، ص321؛ سير اعلام­ النبلاء، ج4، ص407۔

[44] ۔ بحار الانوار، ج46، ص292۔

[45] ۔ فرق الشيعة، ص61؛ اعلام الورى؛ میں ذی­ الحجہ کے مہینہ کے بجائے، ربيع الاول کا ذکر ھوا ھے ؛ ص 2۵9۔

[46] ۔ تاريخ يعقوبى، ج2، ص320؛ تذکرة الخواص، ص306؛ الفصول المهمة، ص220؛ اخبار الدول و آثار الاول، ص11؛ اسعاف الراغبين، ص19۵؛ نور الابصار، مازندرانى، ص66۔

[47] ۔ کشف الغمة، ج2، ص322؛ وفيات الاعيان، ج4، ص174؛ تاريخ ابى­ الفداء، ج1، ص248؛ تتمة المختصر، ج1، ص248؛ اعيان ­الشيعة، ج1،  ص6۵0۔

[48] ۔ المختصر فى اخبار البشر، ج1، ص203؛ تتمة المختصر، ج1، ص248۔

[49] ۔ مرآة الجنان، ج1،  ص247 ۔

[50] ۔ کامل ابن­ اثير، ج۵،  ص180۔

[51] ۔ مآثر الانافة فى معالم الخلافة، ج1، ص1۵2۔

[52] ۔ طبقات الکبير، ج۵، ص238؛ اصول کافى، ج2، ص372؛ تاريخ قم، ص197؛ ارشاد مفيد، ج2، ص1۵6؛ دلائل­ الامامة، ص94؛ تاج­ المواليد، ص118؛ مناقب، ج4، ص210؛ سير اعلام النبلاء، ج4، ص409؛ الانوار البهية، ص126؛ تاريخ ابن ­خلدون، ج2، ص23؛ عمدة الطالب، ص137؛ شذرات ­الذهب، ج1، ص149۔

بشکریہ http://www.ardebili.com/ur/Sireh/View/7/ 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *