قرآن کریم میں بیان هوئے سات آسمانوں کے کیا معنی هیں؟
سات آسمانوں کے معنی کیا هیں؟ کیا اس کے معنی یه هیں که فضا و آسمان کی سات تهیں هیں یا اس کے معنی یه هیں که جنت کی سات سطحیں هیں؟ یعنی بهشت سات سطحوں پر مشتمل هے؟
ایک مختصر
آسمانوں اور کهکشانوں کے بارے میں سائنسی لحاظ سے پائے جانے والے ابهامات کے پیش نظر، قرآن مجید میں بیان کئے گئے سات آسمانوں کے بارے میں قطعی طور پر کوئی نظریه پیش نهیں کیا جاسکتا هے، بلکه اس سلسله میں احتمال و گمان کی صورت میں چند نظریه پیش کئے جاسکتے هیں ـ لیکن اس نکته سے غافل نهیں رهنا چاهئے که قرآن مجید کا مقصد انسان کی معنوی تربیت و هدایت هے اور قرآن مجید کا سات آسمانوں و زمین، سورج اور زمین کی حرکت وغیره کے بارے میں اشاره ان کی حقیقت کے علاوه خداوند متعال کی لافانی قدرت کی نشاندهی اور خدا کو پهچاننے کی راه کو هموار کرنا اور خلقت کے بارے میں تفکر و تدبر کرنے کے لئے زمینه آماده کرنا هے ـ اس کے علاوه قرآن مجید کے بعض علمی مطالب کےلئے زمانه اور تجربی علم میں ثابت هونے کی ضرورت هے اور اگر سائنس نے قرآن مجید کے علمی مسائل میں کوئی نظریه پیش نه کیا تو وه قرآن مجید کے نظریه کے باطل هونے کی دلیل نهیں هے ـ
تفصیلی جوابات
سات آسمانوں کے مقصود کو واضح کرنے کے لئے ضروری هے که هم ذیل میں چند نکات بیان کریں:
پهلا نکته: قرآن مجید میں، سات جگهوں پر واضح[1] طور پر دو جگهوں پر کنایه [2] کی صورت میں سات آسمانوں کی بات کی گئی هے اور ایک جگه پر بظاهر سات زمینوں کا ذکر کیا گیا هے ـ[3]
دوسرا نکته: لغت میں سماء (آسمان) کا مقصد:
لغت میں “سماء”، “سمو” کے ماده سے بلندی کے معنی میں هے،[4] حتی بعض اهل لغت نے دعویٰ کیا هے که هر بلندی نچلے حصه کی به نسبت آسمان هے اور هر نچلا حصه اس کی بلندی کی به نسبت زمین هے ـ[5]
تیسرا نکته: قرآن مجید میں آسمان:
قرآن مجید میں لفظ “سماء” (آسمان) اور اس کے مشتقات تین سو دس بار آئے هیں اور دو معنی مین استعمال هوئے هیں:
الف ـ مادی آسمان:
قرآن مجید نے بهت سی جگهوں پر لفظ سماء (آسمان) اس کے مادی معنی میں استعمال کیا هے که ان کے متعدد مصداق و معانی اراده هوتے هیں، من جمله:
1ـ آسمان اوپر کی جهت کے معنی میں ” الم تر کیف ضرب الله مثلاً کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء”[6] ” کیا تم نے نهیں دیکھا که الله نے کس طرح کلمه طیبه کی مثال شجره طیبه سے بیان کی هے جس کی اصل ثابت و اور اس کی شاخ آسمان تک پهنچی هوئی هے ـ”
2ـ آسمان، زمین کے اطراف کی فضا کے معنی میں : “ونزلنا من السماء ماءً مبارکاً “[7] ” اور هم نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا هے ـ”
3ـ آسمان، سیاروں اور ستاروں کی جگه کے معنی هیں: “بابرکت هے وه ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں چراغ اور چمکتا هوا چاند قرار دیا هے ـ”[8]
ب ـ معنوی معنی میں آسمان:
قرآن مجید میں بهت جگهوں پر لفظ سماء (آسمان) کو اس کے معنوی معنی میں استعمال کیا گیا هے، ان سے بھی متعدد مصداق اور معانی اراده هوتے هیں من جمله:
1ـ آسمان، مقام قرب اور مقام حضور کے معنی میں که جو عالم کے امور کی تدبیر کی جگه هے: ” وه خدا آسمان سے زمین تک کے امور کی تدبیر کرتا هے ـ”[9]
2ـ آسمان ایک عالی اور حقیقی [10] موجود کے معنی میں: “اور آسمان میں تمھارا رزق هے اور جن باتوں کا تم سے وعده کیا گیا هے ـ”[11]
چوتھا نکته: سبع (سات) کا مراد کیا هے؟
لفظ سبع (سات) عربی میں دو صورتوں میں استعمال هوا هے:
الف ـ سات، ایک مشخص و معین عدد کے معنی هیں جو ریاضیات میں استعمال هوتا هے ـ
ب ـ کثرت کی علامت کے معنی میں، کیونکه بعض اوقات عربی میں “سات” کا لفظ استعمال هوتا هے اور اس کے کنایه کے معنی (زیاده تعداد اور کثرت) مراد هوتے هیں ـ
پانچواں نکته: “سات آسمان ” کے لفظ سے قرآن مجید کا مقصد
مفسرین نے لفظ “سات آسمان” کے بارے میں کئی احتمال بیان کئے هیں:
الف ـ اگر سات، حقیقی عدد کے معنی میں هو تو اس صورت میں مندرجه ذیل احتمالات قابل تصور هیں:
1ـ ستاروں اور سیاروں سے بھرے سات آسمان جن میں سے هر ایک کره زمین کے آسمان کے مانند هے ـ[12] سات مشابه دنیا کے وجود کا احتمال هے جو ابھی کشف نهیں هوئے هیں ـ
2ـ فطرت کے سات پست مراتب وجودی کے مقابل میں قرب و حضور کے سات عالی و معنوی مقام (سات آسمان[13])
ب ـ اگر”سات”، کثرت کے معنی میں هو تو اس صورت میں مندرجه ذیل احتمالات قابل تصور هیں:
1ـ بهت سے آسمان (کثرت و سیارات وغیره کا مجموعه) پیدا کئے هیں ـ اور بهت سی زمینیں (زمین کے مانند خاکی کرات) پیدا کئے هیں ـ که یه سب فضا میں تیرتے اور معلق هیں ـ
2ـ آسمان کے بهت سے فضاوں کو پیدا کیا هے اور زمین کے اندر بهت سے طبقات یا زمین کے ٹکڑوں اور ممالک کو پیدا کیا هے ـ
3ـ بهت سے عالی مخلوقات معنوی مراتب و مقامات قرب و حضور پیدا کئے هیں ـ نتیجه یه که، هماری عدم معرفت اور کافی اطلاعات نه رکھنے کے پیش نظر اور آسمانوں اور کهکشانوں کے بارے میں سائنسی نظریات کے مطابق پائے جانے والے شبهات کے پیش نظر هم قرآن مجید میں بیان کئے گئے سات آسمانوں کے معنی کے بارے میں کوئی قطعی نظریه پیش نهیں کرسکتے هیں اور اس سلسله میں تمام نظریات احتمال اور گمان کی صورت میں پیش کئے جاتے هیں ـ[14] لیکن اس نکته کو نه بھولنا چاهئے که قرآن مجید کا مقصد انسان کی معنوی تربیت اور هدایت کرنا هے اور قرآن مجید کا سات آسمانوں اور زمین، سورج اور زمین کی حرکت وغیره کے بارے میں اشاره ان کی حقیقت کے علاوه خداوند متعال کی لافانی قدرت کی نشاندهی اور خدا کو پهچاننے کی راه کو هموار کرنا اور خلقت کے بارے میں تفکر و تدبر کرنے کے لئے زمینه آماده کرنا هے ـ اس کے علاوه قرآن مجید کے بعض علمی مطالب کے لئے زمانه اور تجربی علوم میں ثابت هونے کی ضرورت هے اور اگر سائنس نے قرآن مجید کے علمی مسائل میں کوئی نظریه پیش نه کیا تو وه قرآن مجید کے نظریه کے باطل هونے کی دلیل نهیں هے ـ مزید مطالبعه کے لئے مندرجه ذیل کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے:
1ـ “پزوھش در اعجاز علمی قرآن”، تالیف : محمد علی رضائی اصفهانی ج، 1 ص 134
2ـ “معارف قرآن” تالیف محمد تقی مصباح یزدی، ص 234
3ـ “تفسیر نمونه”، ناصر مکارم شیرازی ج 1، ص 165 [15]
1بقره، 29: اسراء: مومنون، 86: فصلت، 12ـ
[2] ملک، 3: نوح، 15ـ
[3] طلاق، 12 ” الله الذی خلق سبع وسماوات و من الارض مثلھن یتنزل الامر بینھن ” (3) الله وهی هے جس نے ساتوں آسمان کو پیدا کیا هے اور زمینوں میں بھی ویسی هی زمینیں بنائی هیں ـ
[4] التحقیق می کلمات القران الکریم، حسن مصطفوی، (انتشارات وزارت فرھنگ و ارشاد اسلامی، ج 1، تھران، 1371 ش) ج 5، ص 254ـ
[5] مفردات، راغب اصفھانی، المکتبھ الرضویھ، تھران، 1332 ش، ماده سماء ـ
[6] ابراھیم، 24 ـ
[7] ق، 9 ـ
[8] ” تبارک الذی جعل فی السماء بروجا وجعل فیھا سراجا و قمرا منیراً” (سوره فرقان، 61)
[9] ” یدبر الامر من السماء الی الارض ” (سوره سجده، 5)
[10] ملاحظه هو: معارف قرآن، استاد مصباح یزدی، (انتشارات در راه حق، قن، 1367 ش)، ص 234: و ملاحظه هو ” پزوھش در اعجاز علمی قرآن” دکتر محمد علی رضایی اصفھانی، انتشارات مبین، رشت، ج 1، 1380، ج1، ص 134 ـ
[11] ” وفی السماء رزقکم و ما توعدون” (ذاریات، 22)
[12] التحقیق فی کلمات القرآن الکریم ایضاً، ج 1، ص 165، مفردات راغب، ماده ارض
[13] ملاحظه هو: المیزان، علامه طباطبایی، نشر اسراء قم، ج 16،ص 247 و ج 19،ص 327ـ
[14] ملاحظه هو: تفسیر الجوھر، طنطاوی جوھری، دار الفکر، بی تا، ج 1 ، ص 46:ملاحظه هو: بزوھش در اعجاز قرآن، دکتر محمد علی رضایی اصفاھانی، ھمان، ج 1، ص 126 ـ 132ـ
[15] ملاحظه هو : سایٹ پایگاه مرکذ فرھنگ و معارف قرآن ـ
دیدگاهتان را بنویسید