تازہ ترین

آیت تطہیر پر ایک اجمالی نظر/تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

قرآن مجید کی سورہ احزاب آیہ ۳۳ میں اللہ تعالی نے اہل بیت علیہم السلام کو ہر قسم کی پلیدگی اور رجس سے پاک رکھنے کا ارادہ فرمایا ہے ۔شیعہ علماءائمہ معصومین علیہم السلام کی عصمت کے اثبات کے لئے اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔(إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكمُ‏ تَطْهِيرًا(۱اللہ کا ارادہ توبس یہ ہے کہ تم سے ہر برائی کودوررکھے اور تمہیں اس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جس طرح پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

شئیر
27 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4730

کلمہ (رجس ) سے مراد ہر قسم کی فکری اور عملی پلیدی منجملہ شرک، کفر، نفاق اور جہل و گناہ پر مشتمل ہے۔چونکہ کلمہ رجس کا متعلق حذف ہوا ہے اور ساتھ میں الف ولام استغراق بھی داخل ہوئی ہے جو جنس اور طبیعت رجس کے نفی ہونے کا فائد ہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ جملہ( ویطّہرکم تطھیراً ) بطور تاکید آیا ہے اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ(لیذہب عنکم الرجّس ۔۔)ہر قسم کی معنوی آلودگی اور گناہ خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ ؛ ان تمام پلیدیوں کو نفی کیا ہے پس اللہ تعالی نے اہل بیت اطہار کو ہرقسم کی آلودگیوں سے پاک رکھنے کا ارداہ کیاہے جس کا لازمہ عصمت ہے ۔
حضرت عائشہ سےمروی ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جس وقت رسول اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیر کساء علی ، فاطمہ اور حسنین علیہم السلام کو جمع کیا تھا ۔یہی بات ترمذی اور مسند احمد میں بھی ہے۔ تفسیر طبری میں ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ جناب ام سلمہ نے زیر کساء آنے کی درخواست کی تو رسول اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے لیکن چادر میں تمہاری گنجائش نہیں ہے ۔ بعض مفسرین نےیہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ آیت ازواج پیغمبر کے تذکرہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہے تو ان کے خارج کرنے اور دیگرافراد کے مراد لینے کا جواز کیا ہے ؟ لیکن اس کا واضح جواب یہ ہے کہ :
اولا:سیاق سند نہیں ہوا کرتا اس لئے کہ قرآن کوئی تصنیف یا تالیف نہیں ہے کہ اس میں ان باتوں کا خیال رکھا جائے ۔اس میں بے شمار مقامات ایسے ہیں جہاں ایک تذکرہ کے بعد دوسرا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر پلٹ کر وہیں پہنچ جاتی ہے ۔
ثانیا :آیت تطہیرکا عنوان اہل بیت ہے جو ازواج اور نساء سے مختلف عنوان ہے ۔
ثالثا: یہ کہ روایات صریحہ وصحیحہ کےہوتے ہوئے سیاق سے استدلال کرنا عقل و منطق کے خلاف ہے ۔
یاد رہے کہ کلمہ(إنما) حصر اور قصر کے لئے استعمال ہوتا ہے لہذا خداوند متعال کا اہل بیتعلیہم السلام کی نسبت جو ارادہ ہے وہ ایک خاص ارادہٴطہارت ہے یعنی یہاں ارادہ تکوینی مراد ہے نہ کہ ارادہ تشریعی کیونکہ ارادہٴتشریعی کے ذریعے جو طہارت حاصل ہوتی ہےوہ کسی کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتی جیسے وضو ،غسل اور تیمم کے احکام کے بیان کے بعد ارشادہوتا ہے :(مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَ لَكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُم)۳خدا تمہیں کسی طرح کی زحمت نہیں دیناچاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ بنا دے۔ اسی طرح زکات کےبارے میں ارشاد فرماتا ہے : (خُذْ مِنْ أَمْوَالهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيهِم بهِا)۴پیغمبر: آپ انکےاموال میں سے زکوۃ لے لیجئےتاکہ آپ اس کے ذریعے انہیں پاک و پاکیزہ بنائیں۔
ارادہ ٴتکوینی اورارادہ ٴتشریعی کے درمیان فرق یہ ہےکہ خداوند متعال نے ارادہٴ تشریعی کے ذریعے جو چیزیں انسانوں سے چاہی ہیں انہیں انسان کےاختیار میں رکھا ہے اور ممکن ہے کہ انسان اس چیز کا انتخاب نہ کرے۔بالفاظ دیگریعنی ارادہٴ تشریعی کے برعکس کام کرنا ممکن ہے۔ بعبارت دیگر ارادہٴ تشریعی وہی ہدایت تشریعی ہے جہاں ہادی ہدایت کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے لیکن چونکہ انسان مختار و آزاد خلق ہوا ہے اس لئے ممکن ہے کہ وہ خوشبختی کا راستہ انتخاب کرے یا بدبختی کا راستہ جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:(إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا(۵یقینا ہم نے اسے راستے کی نشاندہی کی ہے۔اب چاہےوہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ہو جائے ۔ارادہٴ تکوینی اور ہدایت تکوینی ایصال الی المطلوب ہےجس میں تخلف ممکن نہیں ہے جیسے(إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُون(۶اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارداہ کرے کہ ہو جاتووہ شے ہو جاتی ہے۔
مذکورہ مباحث سے مندرجہ ذیل نتائج حاصل ہوتےہیں:
الف: خدا نے اہل بیت پیغمبر علیہم السلامسے ہر قسم کی آلودگیوں کو ارادہٴ تکوینی کے ذریعے دور فرمایا ہے ۔
ب:خدا کا ارداہٴ تکوینی حتما انجام پاتا ہے۔چونکہ خطا اورمعصیت معنوی آلودگی شمار ہوتی ہیں لہذا اہل بیت پیغمبر علیہم السلامہر قسم کے گناہوں سے مبراو منزہ ہیں ۔ بنابریں ہم مندرجہ ذیل نکات کے ذریعہ اہل بیت علیہم السلام کے مصداق کو معین کر سکتے ہیں:
1۔مذاہب اسلامی میں سے کسی بھی مکتب فکر کے نزدیک پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج اورآپ ؐ کے خاندان کے دوسرے افراد سوائےحضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور انکے شوہر اور فرزندوں کے عصمت کے درجے پر فائز نہیں۔ شیعہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہااور ان کے ہمسر اور فرزندوں کو معصوم سمجھتے ہیں لہذا شیعہ مذہب کے نظرئیے کو قبول نہ کرنے کی صورت میں آیت تطہیر کا کوئی مصداق نہیں ہے اور یہ آیت تطہیر کی دلالت کے برخلاف ہے ۔
۲۔آیت تطہیر سے پہلےاور بعد کی آیتیں ازواج پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمسے مربوط ہیں چنانچہ ان آیات میں جمع مونث کی ضمیر استعمال ہوئی ہے جیسے (ان کنتن تردن الله …….) (من یات منکن بفاحشة……)(و قرن فی بیوتکن ..)(واذکرن ما یتلی فی بیوتکن …..)جبکہ آیت تطہیر میں جمع مذکر کی ضمیر استعمال ہوئی ہے جیسے ( عنکم … یطهرکم ..)لہذا یہ آیت ازواج پیغمبر پرمنطبق نہیں ہوسکتی لیکن یہ شیعوں کے نظرئیے کے ساتھ قابل تطبیق ہے کیونکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے علاوہ باقی افراد{حضرت علی ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام سب مذکر ہیں اوریہاں جمع مذکر کی ضمیر کااستعمال ادبی لحاظ سے صحیح ہے کیونکہ ان کی اکثریت مذکر ہے ۔
۳۔آیت تطہیر کی شان نزول میں جتنی حدیثیں نقل ہوئی ہیں ان میں حضرت علی علیہ السلام ،حضرت زہراء سلام اللہ علیہا،امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اہل بیت کا مصداق قرار دیا گیاہے۔حضرت ام سلمہ ؓنے پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سےپوچھا : کیا میں بھی اہل بیت میں سے ہوں اور آیت تطہیر کے حکم میں شامل ہوں؟ آپ ؐنے فرمایا:( انک الی خیر)۷تم راہ راست پر ہو ،لیکن انہیں اہل بیت میں شامل نہیں کیا ۔ اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے نقل ہے :پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلمسیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھے اور امام حسن ،امام حسین،حضرت فاطمہ زہراء اور حضرت علی علیہم السلام چادر کے نیچے موجود تھے۔ اس وقت آپ ؐنے فرمایا 🙁 إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكمُ‏ تَطْهِيرًا(اللہ کا اردہ توبس یہ ہے کہ تم سے ہر برائی کودوررکھے اورتمہیں اس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جس طرح پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔۸اسی طرح آیت تطہیر کے پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم،حضرت زہراءسلام اللہ علیہا،حضرت علی علیہ السلام اور حسنینعلیہماالسلام کی شان میں نازل ہونے کے بارےمیں تقریباسترسےزیادہ حدیثیں موجودہیں۔اہل سنت نےتقریباچالیس احادیث حضرت ام سلمہ،حضرت عائشہ،ابو سعیدخدری،ابن عباس ،عبداللہ بن جعفر ،وائلہ بن اسقع ،حضرت علی علیہ السلامامام حسنعلیہ السلاماور دوسرے افراد سے نقل کی ہیں۔اسی طرح شیعہ کتب حدیث میں تقریبا تیس احادیث حضرت علی علیہ السلام ،امام زین العابدینعلیہ السلام، امام محمدباقر علیہ السلام،امام جعفرصادق علیہ السلام،امام رضا علیہ السلام،ابوذر ،ابولیلی ،ابو الاسود دوئلی اور دوسرے افراد سے نقل ہوئی ہیں ۔۹
۴۔ اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن کثیر، نے اپنی تفسیر میں “آیت تطہیر” کی تفسیر کرتے ہوئے امام حسن مجتبی علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے اور کہا ہے: امام حسن علیہ السلام نے بر سر منبر فرمایا ہے: “ہم ہی وہ اہل بیت ہیں جن کے حق میں خدا نے آیت تطہیر نازل فرمائی ہے۔ابن کثیر امام سجادعلیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے ایک شامی مرد سے فرمایا: “ہم ہی اہل بیت کا مصداق ہیں۱۰۔
آیت تطہیر میں ارادہٴ تکوینی مراد ہے اور ارادہ تکوینی میں تخلف ناممکن ہے۔ اسی لئے اہل بیتعلیہم السلامکا ہرقسم کی آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ ہو نا ایک قطعی اور تخلف ناپذیر امر ہے لیکن یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی عصمت کا غیر اختیاری ہونا ان کے افعال کے غیر اختیاری اور اجباری ہونے پر دلالت کرتا ہے جو ان کے لئے کمال محسوب نہیں ہوتا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ارادہ تکوینی سے مراد اہلبیت علیہم السلام کا گناہوں اور دوسری آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ ہونا ہے لیکن ان کے پاک و پاکیزہ ہونے اور افعال کے اختیاری ہونے میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ عصمت کے کچھ خاص اسباب ہیں جنہیں خداوند متعال نے ائمہ اطہار علیہم السلام کے اختیار میں دے دیا ہے ۔ ائمہ اطہار علیہمالسلام خداوند متعال کی عظمت اور گناہوں کے عواقب و آثار کے بارے میں قطعی علم رکھتے ہیں۔ لہذا اس مخصوص علم کے ذریعے وہ خداوند متعال کی اطاعت کرنے اور گناہوں سے دور رہنے کا ارادہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ہر قسم کے گناہوں سے پاک و پاکیزہ رہتے ہیں ۔ یہاں اس بات سےکوئی فرق نہیں پڑتا کہ خداوند متعال یہ مخصوص علم ابتداء میں ہی کسی کو عطا کرےیا یہ کہ بعض اعمال بجا لانے کی بدولت انہیں عطا فرمائے ۔یعنی یہ علم اکتسابی ہو کیونکہ جو چیزیہاں اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ مقام عصمت ائمہ معصومینعلیہم السلام کی ذات اور حقیقت کو دگرگوں نہیں کرتا اور انسان ہونے کے ناطے ان سے گناہ کا سرزد ہونا ممکن رہتاہے لیکن مقام عصمت پر پہنچتے ہی یہ امر ناممکن ہو جاتا ہے یہ حقیقت پرہیزگار افراد کے اندربھی قابل ملاحظہ ہے۔بطور مثال ایک متقی و پرہیزگار انسان کسی کو عمدا قتل نہیں کرتا یعنی وہ اس قسم کا گناہ انجام دینے کے معاملے میں معصوم ہے یعنی تقوی کی مضبوط قوت اسے اس کام سے روکتی ہے اگرچہ انسان ہونے کے ناطے اس سے اس قسم کے افعال کا سرزد ہونا ممکن ہے ۔ یا مثلا زہر کے خواص سے اطلاع رکھنے والا ماہر و حذاق طبیب یا شخص کبھی بھی زہریلے مادے کو تناول نہیں کرتا حالانکہ وہ اس زہریلے مادے کو کھا سکتا ہے لیکن اس کا علم اور اس کے فکری اور روحانی آگہیاں اسے ایسا نہیں کرنے دیتیں اور وہ اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ اس کام سے چشم پوشی کرتا ہے۔اسی طرح والدین عام حالت میں کبھی بھی اپنے بیٹے کو قتل نہیں کرسکتے اس قسم کا کام ان سے سرزد ہوناممکن نہیں ہے اگرچہ انسان ہونے کے ناطے اس قسم کےافعال ان سے سرزد ہو سکتے ہیں لیکن ماں باپ کی محبت اور عواطف انہیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ اس قسم کےدلخراش کاموں کاتصور بھی نہ کریں چہ جائیکہ اسے قتل کریں ۔۱۱
حوالہ جات:
۱۔احزاب ،33۔
۲۔صحیح مسلم ،ج2 ،ص 116 -انوار القرآن ،علامہ ذیشان حیدرجوادی۔
۳۔مائدہ ،6۔
۴۔توبہ:103۔
۵۔انسان،3۔
۶۔یسین،82 ۔
۷۔اسباب النزول ،ص 239۔
۸۔صحیح مسلم،24،1813 ،کتاب فضائل الصحابۃ۔
۹۔آیت تطہیر کی تفسیر جاننے کے لئے ان کتابوں کی طرف مراجعہ کریں:تبیان،ج،8ص 340۔مجمع البیان، ج4،ص357۔المیزان ،ج16،ص309 – 313۔اور کتاب آیۃا لتطہیر، تالیف شیخ محمد مہدی آصفی ۔
۱۰۔ابن کثیر دمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج 6، تحقیق: محمدحسین شمس الدین، 1419ق.، ص 371.
۱۱۔المیزان ،ج 11 ،ص163۔

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *