اجتماعی روابط کی اصلاح میں ایمان کا کردار
انسان بعض دوسرے جانداروں کی طرح اجتماعی طبیعت پر پیدا کیا گیا ہے۔ فرد اکیلا اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا۔ زندگی ایک کمپنی یا سوسائٹی کی صورت میں ہونی چاہئے جس میں حقوق و فرائض کے اعتبار سے ہر ایک حصہ دار ہو افراد میں ایک طرح کی تقسیم کار ہو۔ شہد کی مکھیوں […]
انسان بعض دوسرے جانداروں کی طرح اجتماعی طبیعت پر پیدا کیا گیا ہے۔ فرد اکیلا اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا۔ زندگی ایک کمپنی یا سوسائٹی کی صورت میں ہونی چاہئے جس میں حقوق و فرائض کے اعتبار سے ہر ایک حصہ دار ہو افراد میں ایک طرح کی تقسیم کار ہو۔ شہد کی مکھیوں میں ذمہ داریوں اور کام کی تقسیم ان کی سرشت اور فطرت کے حکم پر ہوتی ہے ان میں کام سے انکار یا نافرمانی کی طاقت نہیں ہوتی۔ ان کے برعکس انسان ایک آزاد اور خود مختار جاندار ہے اپنے کام کو ذمہ داری اور مسئولیت کے عنوان سے انجام دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اگرچہ دوسرے جانداروں کی ضروریات اجتماعی ہیں لیکن یہ اپنے جبلی و طبیعی امور کی انجام دہی پر مجبور ہیں۔ انسان کی ضرورتیں بھی اجتماعی ہیں۔ بغیر اس کے کہ ویسے جبلی تقاضے اس پر حکم فرما ہوں۔ انسان کی جبلی و فطری اجتماعی خواہشات اس کے اندر ایک “تقاضے” کی صورت میں ہوتی ہیں جنہیں تعلیم اور تربیت کے سائے میں پروان چڑھنا چاہئے۔
صحیح و سالم اجتماعی زندگی وہی ہے کہ افراد ایک دوسرے کے لئے قوانین حدود اور حقوق کا احترام کریں۔ عدل و انصاف کو ایک مقدس امر جانیں ایک دوسرے سے مہر و محبت سے پیش آئیں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کریں جسے خود نہیں چاہتے اسے دوسروں کے لئے بھی نہ چاہیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور اطمینان رکھیں دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر ان کے لئے روحانی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ ہر شخص اپنے کو معاشرے کا ذمہ دار اور معقول فرد سمجھے۔ کھلے بندوں جس تقویٰ و پاکدامنی کا مظاہرہ کرتا ہے اپنی انتہائی خلوت میں بھی اسی تقویٰ و پاکدامنی کو تھامے رکھے۔ سب لوگ بغیر کسی لالچ کے ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کریں۔ ظلم و ستم کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں ظالم اور فاسد لوگوں کو من مانی نہ کرنے دیں اخلاقی قدروں کا احترام کریں ہمیشہ ایک جسم کے اعضاء کی مانند متحد و متفق رہیں۔
یہ مذہبی ایمان ہی ہے جو ہر چیز سے بڑھ کر حقوق کا احترام کرتا ہے عدالت کو مقدس سمجھتا ہے دلوں میں الفت و مہربانی ڈالتا ہے۔ ایک دوسرے کے دل میں اعتماد پیدا کرتا ہے انسان کے قلب و روح پر تقویٰ و پرہیزگاری کی حکومت قائم کر دیتا ہے۔ اخلاقی قدروں کو معتبر اور قابل قدر بناتا ہے ظلم و زیادتی کے مقابلے کے لئے شجاعت بخشتا ہے۔ تمام افراد کو ایک جسم کی مانند قرار دے کر متحد رکھتا ہے۔
حوادث سے انسانی تاریخ میں آسمانی ستاروں کی مانند انسان کی جو انسانی تجلیاں دکھائی دیتی ہیں یہ درحقیقت مذہبی احساسات کی کوکھ سے ہی جنم لئے ہوئے ہیں۔
انسان بعض دوسرے جانداروں کی طرح اجتماعی طبیعت پر پیدا کیا گیا ہے۔ فرد اکیلا اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا۔ زندگی ایک کمپنی یا سوسائٹی کی صورت میں ہونی چاہئے جس میں حقوق و فرائض کے اعتبار سے ہر ایک حصہ دار ہو افراد میں ایک طرح کی تقسیم کار ہو۔ شہد کی مکھیوں میں ذمہ داریوں اور کام کی تقسیم ان کی سرشت اور فطرت کے حکم پر ہوتی ہے ان میں کام سے انکار یا نافرمانی کی طاقت نہیں ہوتی۔ ان کے برعکس انسان ایک آزاد اور خود مختار جاندار ہے اپنے کام کو ذمہ داری اور مسئولیت کے عنوان سے انجام دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اگرچہ دوسرے جانداروں کی ضروریات اجتماعی ہیں لیکن یہ اپنے جبلی و طبیعی امور کی انجام دہی پر مجبور ہیں۔ انسان کی ضرورتیں بھی اجتماعی ہیں۔ بغیر اس کے کہ ویسے جبلی تقاضے اس پر حکم فرما ہوں۔ انسان کی جبلی و فطری اجتماعی خواہشات اس کے اندر ایک “تقاضے” کی صورت میں ہوتی ہیں جنہیں تعلیم اور تربیت کے سائے میں پروان چڑھنا چاہئے۔
صحیح و سالم اجتماعی زندگی وہی ہے کہ افراد ایک دوسرے کے لئے قوانین حدود اور حقوق کا احترام کریں۔ عدل و انصاف کو ایک مقدس امر جانیں ایک دوسرے سے مہر و محبت سے پیش آئیں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کریں جسے خود نہیں چاہتے اسے دوسروں کے لئے بھی نہ چاہیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور اطمینان رکھیں دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر ان کے لئے روحانی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ ہر شخص اپنے کو معاشرے کا ذمہ دار اور معقول فرد سمجھے۔ کھلے بندوں جس تقویٰ و پاکدامنی کا مظاہرہ کرتا ہے اپنی انتہائی خلوت میں بھی اسی تقویٰ و پاکدامنی کو تھامے رکھے۔ سب لوگ بغیر کسی لالچ کے ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کریں۔ ظلم و ستم کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں ظالم اور فاسد لوگوں کو من مانی نہ کرنے دیں اخلاقی قدروں کا احترام کریں ہمیشہ ایک جسم کے اعضاء کی مانند متحد و متفق رہیں۔
یہ مذہبی ایمان ہی ہے جو ہر چیز سے بڑھ کر حقوق کا احترام کرتا ہے عدالت کو مقدس سمجھتا ہے دلوں میں الفت و مہربانی ڈالتا ہے۔ ایک دوسرے کے دل میں اعتماد پیدا کرتا ہے انسان کے قلب و روح پر تقویٰ و پرہیزگاری کی حکومت قائم کر دیتا ہے۔ اخلاقی قدروں کو معتبر اور قابل قدر بناتا ہے ظلم و زیادتی کے مقابلے کے لئے شجاعت بخشتا ہے۔ تمام افراد کو ایک جسم کی مانند قرار دے کر متحد رکھتا ہے۔
حوادث سے انسانی تاریخ میں آسمانی ستاروں کی مانند انسان کی جو انسانی تجلیاں دکھائی دیتی ہیں یہ درحقیقت مذہبی احساسات کی کوکھ سے ہی جنم لئے ہوئے ہیں۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید