تازہ ترین

فرائض اولاد از نظر اسلام

                                     والدین، اولاد، حقوق وفرائض

مقدمہ

پروردگار عالم نے اس وسیع وعریض کائنات کو تمام خوبصورتیوں کے ساتھ خلق فرمایا۔ اس میں مختلف قسم کی مخلوقات کو بسایا اور کبھی نہیں فرمایا: فتبارک اللہ احسن الخالقین ۔ لیکن جب انسان کو خلق کیا تو اس وقت یہ جملہ فرمایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ پروردگار عالم نے انسان کوخوبصورت ترین اور بہترین شکل و صورت میں خلق فرمایا ہے ۔ اسی طرح انسان کو اس کائنات کا بہترین اور افضل ترین مخلوق قرار دے کر اس کائنات کو اس کے تسخیر میں دے دی اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کےلئے خلق کیا ،اس پر بے انتہا احسانات کئے اور بے شمار نعمتیں عطاکی ۔ انہیں میں‌سے ایک والدین کی نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل اس کائنات میں نہیں۔

شئیر
30 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4874

دین مبین اسلام نے والدین کو جو مقام اور مرتبہ عطا کیا ہے وہ کسی اور مکتب نے عطا نہیں کیا ہے۔ والدین اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہیں کہ جن کی گود میں تربیت پا کر انسان سعادت ابدی حاصل کر سکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ جس نے والدین کے دل میں اولاد کے لئے  ایسی محبت ڈال دی کہ والدین اولاد کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن اولاد پر کبھی آنچ آنے نہیں دیتےجس وقت انسان چلنے پھرنے، اپنے آپ کو سردی گرمی اور مشکلات سے بچانے اور اپنی کسی طرح کی ضروریات کو پوری کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتا ہے تو یہ والدین ہی ہیں جو اپنا سب کچھ قربان کر کے بڑے پیار و محبت سے اس کی پرورش کرتے ہیں ،خود بھوکے رہتے ہیں ان کو کھلاتے ہیں، گرمیوں میں خود دھوپ میں رہتے ہیں اور ان کو سائے میں رکھتے ہیں بلکہ خود سائبان بنتے ہیں، سردیوں میں خود سردی برداشت کر کے ان کو سردی سے بچاتے ہیں، خود جاگے رہتے ہیں ان کو سلاتے ہیں، خود بےچَین اور بے سکون رہ کر ان کو سکون اور چَین پہنچاتے ہیں اسی طرح اس کی تمام ضروریات کو پوری کرتے ہیں اور معاشرے میں سر اُٹھا کر چلنے کے قابل بناتے ہیں ۔ ایسے میں اولاد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس احسان کا بدلہ احسان کے ذریعے ہی ادا کریں کیونکہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ والدین بھی بڑھاپے کی وجہ سے بچوں کی طرح ہوتے ہیں اور وہ اپنی کسی بھی ضرورت کو پوری نہیں کرسکتے ہیں ، انکا مزاج بہت ہی نازک ہوتا ہے اور معمولی باتوں پر غصہ آتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات وہ اپنی جگہ سے حرکت کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتے، یہاں اولاد کو اپنے بچپنے کو یاد کرتے ہوئے ان کی ضروریات پوری کرنے ، ان کے ساتھ نرم لہجے میں بات کرنے اور کما حقہ خدمت کرنے کی ضرورت ہے۔قرآن و احادیث کی رو سےاولاد پر والدین کے بعض حقوق مندرجہ ذیل   ہیں:

۱۔ والدین کی اطاعت

اولاد پر والدین کی اطاعت اُس وقت تک واجب ہے جب تک وہ کسی حرام کام کا حکم نہ دیں یہاں تک کہ اگر والدین اولاد کو کسی مستحب کام سے بھی روکیں تو اولاد کے لئے حق نہیں ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں خاص طور پر جب یہ کام والدین کے لئے بچے کے ساتھ زیادہ پیار و محبت کی وجہ سے اذیت کا باعث ہوں۔اس حکم سے ایک اور بات واضح ہوجاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر والدین خیر خواہی کے ساتھ اولاد کو کوئی حکم دیں اور یہ حکم اولاد کے حق میں ہوں اگر چہ ظاہراً خلاف ہی کیوں نہ ہوں  تب اولاد پر ان کی اطاعت ضروری ہے۔ 

مولائے کائنات اس بارے میں فرماتے ہیں: “باپ کا حق یہ ہے کہ بیٹا ہر مسئلہ میں اس کی اطاعت کرے معصیت پروردگار کے علاوہ۔”[1]قرآن کریم نے  والدین کے ساتھ احسان کے حکم کے فورا بعد  خدا کی نافرمانی میں والدین کی اطاعت سے  سختی سے منع فرمایا ہے۔[2] تاکہ کوئی یہ تصور نہ کرے کہ اولاد اور والدین کے درمیان کا رشتہ انسان اور خدا کے درمیان کے رشتے پر مقدم ہے۔ کیونکہ پروردگار ہی ہے جس نے والدین کو اتنا مقام دے کر ان کی اطاعت کو ضروری قرار دیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پروردگار کے حکم  کے مقابلے میں ان کے حکم کی کوئی حیثیت ہو۔ لہٰذا انہیں حق نہیں‌ہے کہ منشأ پروردگار کے خلاف کوئی حکم کریں۔ اس کے علاوہ تمام امور میں والدین کی اطاعت اولاد پر ضروری ہے۔

۲۔ والدین کے ساتھ احسان

والدین کے ساتھ نیکی اور احسان قرآن کریم کے اہم احکام میں سے ایک ہے جس کا اندازہ قرآن کریم کی ان آیات سے ہوتی ہے جن میں پروردگار عالم نے اپنی وحدانیت کو بیان کرنے کے فورا بعد والدین کے ساتھ نیکی کا حکم دیا ہے اور یہ حکم قرآن کریم کی کی چار آیات میں اسی طرح آیاہے۔[3]  خاص طور پر سورہ اسرا میں تو تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے ارشاد ہوتا ہے:

 “اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہو جائیں تو خبردار ان سے اف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار ان دونوں پر اس طرح رحمت نازل فرما جس طرح انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے۔”[4] 

انسان جب کسی سے نفرت کرتا ہے اور اس کی حرکات کو پسند نہیں کرتا ہے تو معمولی چیز جو اس کے ردّ عمل میں کرتا ہے وہ ’’اف‘‘ ہے۔ چنانچہ حدیث کےمطابق اگر پروردگار کے علم میں ’’اُف‘‘ سے بھی کمتر کوئی چیز ہوتی تو پروردگار اسے بیان کرتا۔[5]

لیکن بدقسمتی سے آج اسلامی معاشرہ قرآنی تعلیمات سے نا بلد ہونے کہ وجہ سے مغربی طرز زندگی کو اپناتے ہوئے بڑھاپے میں والدین کے لئے الگ سے گھروں (بوڑھوں کا گھر) کا انتظام  کرتا ہے جہاں وہ اولادکی پیار و محبت اور لطف وکرم سے محروم رہتے ہیں جس کے اثرات نہ صرف خاندانی زندگی پر پڑتی ہے بلکہ معاشرتی زندگی بھی اس کے بُرے اثرات سے محفوظ نہیں رہتی۔آنے والی نسلیں جب دیکھتی ہیں کہ ان کے والدین اپنی آسائش اور راحتی کے لئے اجداد کو اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں تو اس رشتے کو صرف مادی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور کسی بھی وقت خود بھی اس کام کو انجام دینے کے لئے تیار رہتی ہیں۔

امام جعفر صادقؑ فرماتےہیں تین چیزیں جن کے ترک کرنے کی خدا نے اجازت نہیں دی ہے:

 ۱۔ ادائے امانت خواہ امانت رکھنے والا اچھا ہو یا بُرا۔

 ۲۔ وعدہ وفائی چاہے اچھے سے ہو یا بُرے سے۔

 ۳۔ والدین سے نیکی خواہ نیک ہوں یا بد۔[6]

چونکہ والدین بھی اولاد سے محبت کرنے میں نیک اوربد ، خوبصورت یا بدصورت اور اس کے علاوہ دوسرے امتیازات کو نہیں دیکھتے ہیں کیونکہ اولاد آخر کار اولاد ہی ہوتی ہے اور والدین ہی کا جگر گوشہ ہوتا ہے لہٰذا والدین کسی فرق کے بغیر اپنی اولاد سے پیار و محبت کرتے ہیں  تو اولاد کو بھی چاہئے والدین کے وجود کو نعمت اور رحمت سمجھ کر ہر حال میں ہمت اور حوصلہ کے ساتھ والدین کے ساتھ احسان کریں۔

۳۔ شکر گزاری اور قدردانی

کسی کے احسان کے مقابلے میں احسان اور شکرگزاری کا جذبہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے یہی وجہ ہے بیدار ضمیر انسان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ نعمتیں دی ہے جو کوئی اور نہیں دے سکتا ہےاور والدین بھی انہیں نعمتوں میں سے ہیں کہ جن کے احسانات اولاد پر بے شمار ہیں جس پر اولاد کو چاہئے کہ والدین کے شکر گزار اور قدر دان ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں اپنی شکر گزاری کے فوراً بعد والدین کے شکر گزار ہونے کا حکم دیا ہے: “میرا شکریہ ادا کرو اور اپنے والدین کا۔۔۔”[7]کیونکہ اگر والدین نہ ہوتے تو اولاد کا وجود ہی نہ ہوتا۔

 امام سجادؑ فرماتے ہیں”تمہارے باپ کا حق تم پر یہ ہے کہ جان لو: وہ تمہارے وجود کی بنیاد ہےاگر وہ نہ ہوتا تو تم بھی نہ ہوتے، پس جب بھی اپنے اندر کوئی اچھی صفت پائے تو جان لو اس کا نعمت کا اصل سرچشمہ تمہارا باپ ہے پس اللہ کی حمد و ثنا کرو اور اُس کی اس نعمت پر شکر ادا کرو، اور خدا کے علاوہ کوئی قدرت اور پناہ گاہ نہیں۔”[8] یعنی در حقیقت ان تمام نعمتوں کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کہ اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ کہ اسی نے والدین جیسی نعمت دے کر انسان پر احسان کیا۔

۴۔ والدین کااحترام

آیات و احادیث میں والدین کے احترام کی اس حد تک تأکید ہوئی ہے کہ اگر والدین بدکردار یا کافر ہی کیوں نہ ہوں اُن کا احترام اولاد پر واجب ہے۔[9] پیغمبر اکرم ؐ سے کسی نے پوچھا، کہ اولاد پر باپ کا کیا حق ہے؟ فرمایا: باپ کے نام سے نہ پکارا چائے، چلتے وقت اس سے آگے نہ چلےاور اس سے پہلے نہ بیٹھے۔۔۔۔ [10] یعنی اولاد کو چاہئے کہ اس حد تک والدین کے احترام کا خیال رکھیں کہ انہیں ایک عام انسان یا ایک دوست کی طرح ان کا نام لے کر مت پکاریں بلکہ بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ انہیں پکارا جائے اور چلتے وقت ان کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ بیٹھنے میں بھی ان پر سبقت نہ کریں ، در اصل یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کی انسان خواہ کسی بھی عہدے پر فائز ہو اسے اپنے آپ کو کچھ سمجھ کر زندگی کے کسی بھی موڑ پر والدین پر برتری حاصل کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اس کی تمام تر کامیابیاں والدین کی ہی محنت و زحمت اور مشقت کا نتیجہ ہے۔

لیکن جب انسان اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے تو سرکشی کرنے لگتا ہے لہٰذا جب اولاد اپنے پیروں پر چل پھرنے کے قابل ہوتی ہے اور اپنا پیٹ اور اپنی اولاد کا پیٹ پالنے کے لئے کمانے کے قابل ہوتی ہے تو اب والدین کے وہ سارے احسانات بھول جاتے ہیں جو انہوں نے اس کے بچپنے میں کئے تھے۔ اب سب کچھ اپنی محنت اور مشقت کا نتیجہ سمجھتی ہے۔ یوں والدین کا احترام بھی اس سے ادا نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات والدین کے ساتھ لڑائی جھگڑے اور بدتمیزی پر اتر آتی ہے۔

۵۔محبت بھری  نگاہ

والدین کے چہرے کی طرف پیار و محبت بھری نگاہ کرنے کو بھی عبادت میں شمار کیا گیا ہے اور اس بارے میں ایسی احادیث و روایات آئی ہیں کہ جن سے اسلام میں والدین کا مقام و مرتبہ واضح ہوجاتا ہے۔ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:‌ کوئی بھی نیک اولاد پیار و محبت سے اپنے والدین کی طرف نظر کرتا ہے تو پروردگار اسے ایک حج مقبول کا ثواب عطا کرتا ہے۔   سوال ہوا  اگرچہ دن میں سوبار نظر  کرے؟ فرمایا: جی ہاں خداوند بزرگتر و پاکیزہ تر ہے۔[11] اس کے علاوہ بھی بہت ساری احادیث ہیں جو ایک طرف والدین کی عظمت کو بیان کرتی ہیں تو دوسری طرف والدین کی نسبت اولاد کی ذمہ داریوں اور فرائض کو واضح کرتی ہیں۔

جابر سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول خداؐ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا میں ایک جواب اور صاحب قوت مرد ہوں جہاد کرنا پسندکرتا ہوں لیکن میری ماں اس کو پسند نہیں کرتی، تو حضرت نے فرمایا : تو واپس جا۔ خدا کی قسم اس کی محبت میں‌صرف ایک رات گزارنا تیرے ایک سال کے جہاد سے بہترہے۔[12]پروردگار کے اتنے فضل و کرم کے باوجودیہ انسان کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایک محبت بھری نگاہ کے بدلے اتنی بڑی عبادت کو لینے کے بجائے نہ صرف اس سے محروم رہتا ہے بلکہ بعض اوقات والدین کی طرف نفرت اور غضب کی نگاہ کر کے پروردگار کے غیظ و غضب کا حقدار بن جاتا ہے۔

۶۔ والدہ کی نسبت زیادہ شکرگزار ہونا

اولاد کی نسبت سب سے زیادہ جوہستی مہربان اور اپنا سب کچھ قربان کرنے والی ہے وہ ماں کی ذات ہے ماں کے بغیر اولاد کا جینا مشکل ہوتا ہے یہ ماں ہی ہے جو خود سب کچھ برداشت کر کے اولاد کو بڑے ناز سے پالتی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے ماں باپ کے ساتھ احسان کے بارے میں جب سوال ہوا تو آپؐ نے تین بار ماں کے ساتھ نیکی کو دہرانے کے بعد چوتھی دفعہ باپ کے ساتھ نیکی کا حکم دیا۔[13]

اولاد پر ماں کے حق کے بارے میں امام سجادؑ فرماتے ہیں: “تمہاری ماں کا حق یہ ہے کہ جان لو: اُس نے تمہیں اس انداز سے اپنے پیٹ میں رکھا کہ کوئی اس طرح کسی کو برداشت نہیں کرسکتا اور اپنے میوہ دل سے تمہیں کھلایا  کہ کوئی کسی پر اس طرح کرم نہیں کرتا، اُس نے اپنی تمام وجود سے تمہاری حفاظت کی اور خود بھوکا رہ کر تجھے کھلانے، خود پیاسا رہ کر تجھے پلانے، خود برہنہ رہ کر تجھے پہنانے، خود دھوپ میں رہ کر تجھے سائے میں رکھنے اور خود بیدار رہ کر تجھے آرام پہنچانے اور سردی و گرمی سے بچانے میں کسی طرح کی پروا نہیں کی۔”[14]

یہی وہ  مقام ہے کہ اگر اولاد اپنی پوری زندگی بھی ان کی خدمت کریں تب بھی ان کا حق ادا نہیں ہوگا۔ “ایک شخص طواف میں مشغول تھا اس نے اپنی ماں کو کاندھوں پر اٹھا رکھا تھا اور اسے طواف کروارہا تھا تو رسول اللہؐ نے اسے اس حالت میں دیکھا۔ اُس نے عرض کیا: کیا یہ کام کر کے میں نے اپنی ماں کا حق ادا کر دیا؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ تو نے (وضع حمل کے وقت کی) ایک آہ کا بدلہ بھی نہیں دیا۔”[15] اور قرآن کریم نے بھی ان سختیوں کی طرف کلی طور پر اشارہ کر کے ماں کی نسبت زیادہ شکر گزار ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[16] امام زین العابدین کو کبھی بھی ماں کے ساتھ دسترخوان پر کھانہ کھاتے ہوے نہیں دیکھا گیا جب آپؑ سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہے؟ تو فرمایا: میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میرا ہاتھ اُس لقمے پر نہ لگے جس پر میری ماں کی نگاہ ہو یوں میں عاق شدہ ہوجاؤں۔[17]

اولاد کےلئے ماں کی اتنی قربانیوں کے باوجود جب اولاد اپنا گھر بساتی ہیں تو انہیں ایسا لگتا ہے کہ ماں تو صرف ایک بوجھ ہے کہ جن کے مرنے کا اب انتظار رہتا ہے اور مجبوراً انہیں اس ذلت کے ساتھ گھر میں رکھتی ہیں کہ انہیں دو وقت کی روٹی دینا بھی اولاد پر گراں گزرتی ہے لیکن ماں پھر بھی ماں ہی رہتی ہے اور ہمیشہ اولاد کے حق میں دعا گو رہتی ہے کیونکہ ماں خدائے رحمان کی رحمت کا ایک مظہر ہےجو ہر حال میں اولاد پر مہربان ہے۔ 

۷۔ والدین کے حق میں دعا و استغفار

اولاد پر والدین کا ایک اور حق اُن کے حق میں دعا اور استغفار کرنا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بھی اس کو بیان کیا ہے کہ جب والدین بڑھاپے کو پہنچیں تو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں ، شایستہ گفتگو کریں  اور ان کے حق میں دعا کریں کہ پروردگارا جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں پالا ہے اسی طرح ان دونوں پر رحم فرما [18] اور ظاہر ہے کہ والدین اولاد کوبچپن میں بہت پیار و محبت سے پالتے ہیں، اولاد کو بوجھ نہیں‌سمجھتے، ان سے نفرت نہیں کرتے، ہر طرح سے ان کا خیال رکھتے ہیں،   ان کی تمام تر ضروریات کو پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ تمام امور خوشی سے انجام دیتے ہیں۔   تو پروردگار نے اولاد کو یہی چیز یاد دلانے کے لئے والدین کے حق میں انہی الفاظ میں دعا کا حکم دیا تاکہ اولاد والدین کے احسانات سے غافل نہ ہوں اور اسی پیار و محبت کے ساتھ ان کی خدمت کریں جس پیار و محبت کے ساتھ انہوں نے اولاد کی پرورش کی ہے۔ ایسی اولاد کو والدین کے لئے ایک صدقہ جاریہ قرار دی ہے کہ جب تک یہ اولاد دنیا میں ہیں   والدین ان کے وجود سے عالم آخرت میں بھی مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ 

روایت میں‌ہے کہ اولاد اگرچہ دنیا میں والدین کے ساتھ نیکی نہ کرے لیکن اگر مرنے کے بعد ان کے لئے دعا و استغفار کرے تو خدا اسے نیک لوگوںمیں‌قرار دیتا ہے۔اور اگر دنیا میں والدین کے ساتھ احسان کرے مگر مرنے کے بعد ان کے حقوق ادانہ کرے اور ان کے لئے دعا و استغفار نہ کرے تو خدا اسے عاق شدہ اولاد میں سے قرار دیتا ہے۔[19]

۸۔ ماں باپ کی آبرو کا خیال

عزت او رآبرو ہر انسان کے لئے بہت بڑا سرمایہ ہے پروردگار نے بھی انسان کو عزت دے کر خلق فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے ایک دوسرے کی شخصیت کشی کو سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ انسان نہ صرف اپنی زندگی میں عزت کے ساتھ رہنا چاہتا ہے بلکہ اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی لوگ اس کا نام عزت کے ساتھ لے لیں۔ اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی مردہ انسان کی بھی آبروریزی کرے بلکہ مردہ انسان کی شخصیت کشی زندہ انسان کی آبروریزی سے بھی بدتر ہے کیونکہ زندہ انسان تو اپنا دفاع کرسکتا ہے جبکہ مردہ انسان اپنے دفاع پر بھی قادر نہیں۔

والدین کا ایک حق اولاد پر یہ ہے کہ اولاد کوئی ایسا کام نہ کریں کہ دیکھنے والے والدین کو بُرا بلا کہیں کیونکہ بعض لوگ جب کسی سے کوئی برا کام دیکھتے ہیں تو اس کے والدین کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور اُن پر لعن طعن کرتے ہیں۔

امام موسی کاظمؑ سے مروی ہے کہ ” ایک شخص رسول اکرم سے پوچھا کہ اولاد پر باپ کا حق کیا ہے؟ تو فرمایا: ۔۔۔اولاد والد کے لئے دوسروں کی دشنامی کا سبب نہ بنے۔”[20] یعنی والدین کی بدنامی اور رسوائی کا سبب نہ بنیں، اور اس حالت کو ہم اپنے معاشرے میں ہر روز دیکھتے ہیں کہ کچھ بچے غلط کام انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ نہ صرف ان بچوں کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے ہیں بلکہ ان کے والدین پر بہت بری تہمتیں لگاتے ہیں کہ جن کی کوئی حقیقت نہیں‌ہوتی لہٰذا ن چیزوں سے بچنے کےلئے اولاد کو چاہئے کہ ہمیشہ اچھے کام انجام دیں تاکہ والدین کی نیک نامی کا باعث بنیں۔

۸۔ والدین کے مرنےکے بعد کے حقوق

انسان مرنے کے بعد سب سے زیادہ  دوسروں کے محتاج ہوتا ہے کیونکہ زندگی میں تو وہ اپنی ضروریات کو کسی نہ کسی طرح پوری کر لیتا ہے لیکن مرنے کے بعد چونکہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتا ہے اور اس کا نامہ عمل بھی بند ہوجاتا ہے ایسے میں سب سے زیادہ اولاد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے مرحوم والدین کے لئے دعا و استغفار کریں۔

بعض اوقات ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو صرف والدین کی زندگی میں ان کے حقوق اداکرتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں لیکن والدین کے مرنے کے بعد انہیں یاد نہیں کرتے، اس کے برعکس بعض لوگ والدین کو زندگی بھر ستاتے رہتے ہیں لیکن ان کے مرنے کے بعد انہیں یاد کرتے ہیں جبکہ اولاد  پر والدین کے حقوق نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ہیں ۔

 زکریا بن ابراہیم امام صادقؑ کے ہاتھوں مسلمان ہونے کے  بعد جب اپنی ماں کے بارے امام سے سوال کیا تو فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو اس کے مرنے کے بعد اس کے تمام امورکو خود انجام دو اور اس کی تمام ضروریات کو خود فراہم کرو۔[21]

والدین کے حقوق ادا کرنے کے اثرات

والدین کے مرنے کے بعد کے حقوق کو ادا کرنے اور نہ کرنے کے اثرات کو بیان کرتے ہوئے امام باقرؑ فرماتے ہیں جو شخص اپنے ماں باپ کی حیات میں نیکی کرنے والا ہو لیکن مرنے کے بعد ان کا قرض ادا نہ کرےاور ان کے لئے استغفار نہ کرےتو خدا اس کو عاق لکھتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ماں باپ کی زندگی میں عاق ہوتا ہے کیونکہ اس سے ان کے لئے نیکی نہیں ہوتی جبکہ ان کے مرنے کے بعد ان کا قرض ادا کرتا ہے اور ان کے لئے استغفار کرتا ہے تو خدا اس کو نیکوکاروں میں‌لکھتا ہے۔[22]

والدین کے حقوق کو ادا کرنے کے اثرات نہ صرف انسان کی اخروی زندگی پر پڑتی ہے بلکہ دنیوی زندگی میں بھی انسان خوشبخت ہوجاتا ہےچنانچہ پروردگار عالم کے حکم سے بنی اسرئیل نے جو گائے ذبح کی ۔ بعض مفسرین کے مطابق وہ گائے ایک ایسے شخص کی تھی جو اپنے والدین کی بہت زیادہ احترام کرتا تھاکہتے ہیں کہ ایک دفعہ جب اس کا باپ سو رہا تھا تو اس کے لئےایک بہت بڑا فائدہ مند معاملہ پیش آیا    جس   کی انجام دہی باپ کو نیند سے بیدار کرنے پر موقوف تھا لیکن اس نے باپ کی بے احترامی سمجھ کر بیدار نہیں‌کیا جس کے بدلے میں پررودگار عالم نے بنی اسرائیل کو اسی گائے کی نشانیاں بیان کی اور انہوں نے بہت بڑی قیمت میں‌میں اسے خریدی۔[23] اور اخروی زندگی میں اس کی کامیابی کے لئے یہ کافی ہے کہ جب حضرت موسیؑ خدا وند عالم سے مناجات میں مشغول تھا تو دیکھا ایک شخص پروردگار عالم کے عرش کے زیر سایہ ناز و نعمت میں کھڑا ہے حضرت موسیؑ نے پوچھا خداوندا یہ کون ہے؟ فرمایا: اے موسی یہ شخص والدین کے ساتھ بڑا احسان کرنے والا تھا اور چغلخوری نہیں‌کرتا تھا۔[24]

جس طرح والدین کے حقوق کو ادا کرنے کے اثرات انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی پر پڑتے ہیں اسی طرح ان کے حقوق کو ادا نہ کرنے کے بھی بہت سارے بُرے نتائج نکلتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان والدین کی طرف سے عاق ہوجاتا ہے اور پروردگار عالم کی رحمت اور کرم سے دور ہوجاتا ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرمؐ کا فرمان ہے: بے شک جنت  کی خوشبو پانچو سال کی مسافت پر سونگھی جا سکتی ہے لیکن عاق شدہ انسان جنت کی بو  بھی نہیں سونگھ سکتا۔ [25]یعنی جنت میں جانا تو دور کی بات ، قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔

 حرف آخر

اسلام نے جہاں والدین پر اولاد کی نسبت کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہے وہاں اولاد پر بھی   والدین کے کچھ حقوق رکھا ہے۔ والدین کا اپنے فرائض پر عمل کرتے ہوئے اولاد کی صحیح تربیت اولاد کو اپنے فرائض پر عمل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ آج اگر ہم اپنے معاشرے میں اکثر اولاد کو والدین کی نافرمانی  یا بعض اوقات والدین کی بے احترامی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں‌تو اس کی ایک بنیادی وجہ والدین اور اولاد کے درمیان معنوی رشتے کی کمزوری، والدین کی اولاد سے لاپروائی اور غلط تربیت ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اولاد اپنے فرائض کو بہترین انداز میں انجام دیں اور والدین اور اولاد کے درمیان محبت اور الفت کا مضبوط رشتہ قائم ہوں تو سب سے پہلے والدین کو اسلامی تعلیمات اور اہلبیت ؑ کی سیرت کی روشنی میں‌اولاد کی تربیت کرنا ہوگا اور ہر قسم کے انحرافی سرگرمیوں سے اپنی اولاد کو دور رکھنا ہوگا۔ ورنہ آج کل کے اس جدید دور میں جہاں سائنس و ٹکنالوجی کا دور دورہ ہے، معاشرے کو بگاڑنے اور اسلامی تعلیمات سے دور کرنےوالی تمام چیزیں موجود ہوں اور ہزاروں این جی اوز مختلف شکل  میں مختلف اہداف کے لئے کام کر رہی ہوں تو ایسے میں‌اولاد  والدین کے ہاتھوں‌سے نکلنے اور بے دین ہونے میں دیر نہیں‌لگتی۔

 

نتیجہ

  • اولاد کی صحیح تربیت اور تعلیم کے لئے والدین اور اولاد کے درمیان معنوی رشتہ مضبوط ہونا ضروری ہے۔
  • والدین کے حقوق کی ادائیگی میں ایک بنیادی رکاوٹ اولادکی تربیت میں کوتاہی ہے۔
  • اولاد اور والدین کے درمیان ایک مضبوط رابطے کے لئے اسلامی تعلیمات سے آشنائی اور عمل ضروری ہے۔
  • والدین کے حقوق کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کے اثرات نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی ہیں۔

منابع

کتابیں:

  1. قرآن کریم
  2. جوادی، ذیشان حیدر، ترجمہ و تشریح نہج البلاغہ
  3. کلینی، اصول کافی اردو ترجمہ، ناشر ظفر شمیم پبلکیشرز، جنوری۲۰۱۱ء
  4. سپهری، محمد، ترجمہ و شرح رسالۃ الحقوق امام سجاد، چاپ یازدهم، ناشر اتشارات دار العلم۱۳۹۰ھ ش
  5. .مجلسی، باقر، بحارالانوار، ناشر مؤسسہ وفاء، بیروت، طبع ثانی ۱۴۰۳ ھ ق
  6. طبرسی، مکارم الاخلاق، مطبعہ مؤسسہ النشر الاسلامی، البطعہ الثانی۱۴۱۶ھ ق
  7. مکارم شیرازی، ناصر ، تفسیر نمونہ،  ناشر دار الکتب الاسلامیہ، طبع تینتسواں ۱۳۹۱ ھ ش

سوفٹ وئیرز:

  1. جامع تفاسیر
  2. مکتب شاملہ

[1]۔”فحق الوالد علی الولدأن یطیعه فی کل شیء، إلا فی معصیة الله سبحانه” نہج البلاغہ ترجمہ و تشریح، ذیشان حیدر جوادی، کلمات قصار۳۹۹

[2]۔ سورہ عنکبوت، آیت۸ و سورہ لقمان، آیت۱۵

[3]۔ سورہ بقرہ، آیت ۸۳۔ سورہ نساء، آیت۳۶ ۔ سورہ انعام،آیت۱۵۱۔ سورہ اسرا، آیت۲۳

[4]۔” وقضی ربک أن لا تعبدوا إلا ایاه وبالوالدین احسانا إما یبلغن عندک الکبر أحدهما أو کلاهما فلا تقل لهما أف ولا تنهرهما و قل لهما قولا کریما واخفض لهما جناح الذل من الرحمة و قل رب ارحمهما کما ربیانی صغیرا” سورہ اسراء، آیت۲۳،۲۴

[5] ۔ مجلسی، باقر، بحارالانوار، ج۷۱، ص۷۹

[6] ۔ کلینی، اصول کافی، ج ۴ ص۶۰، باب برالوالدین، حدیث۱۵

[7]۔” أن اشکر لی ولوالدیک ” سورہ لقمان، آیت۱۴

[8]۔ “و أما حق أبیک، فأن تعلم أنه أصلک، و أنه لولاہ لم تکن، فمهما رأیت فی نفسک مما یعجبک، فاعلم أن أباک أصل النعمة علیک فیه، فا حمد الله واشکره علی قدر ذالک، ولا قوة الا بالله” سپھری، محمد، ترجمہ و شرح رسالۃ الحقوق امام سجادؑ، ص۱۳۷

[9] ۔ ” عن جابر قال: سمعت رجلا يقول لابي عبدالله عليه السلام: إن لي أبوين مخالفين؟ فقال برهما كما تبر المسلمين ممن يتولانا”

وبر الوالدين بر ين كانا أو فاجرين”کلینی، یعقوب، اصول کافی باترجمہ و شرح فارسی، ج۴، با ب برّ الوالدین ،ص۴۷۸

[10]۔ “سأل رجل رسول الله صلى الله عليه وآله ماحق الوالد على ولده؟ قال: لا يسميه باسمه ; ولايمشي بين يديه، ولايجلس قبله…” کلینی، یعقوب، اصول کافی باترجمہ و شرح فارسی، ج۴،باب برّ الوالدین،  ص۴۶۸

[11] ۔ قال رسول الله(ص):ما ولد بار نظر الی ابویه برحمة الا کان له بکل نظرة حجة مبرورة.فقالوا: یا رسول الله و ان نظر فی کل یوم مائة نظرة؟قال: نعم، الله اکبر و اطیب.مجلسی، بحارالانوار، ج۷۴، ص۷۳

[12] ۔ کلینی، اصول کافی، ج۴،ص۶۱ باب برالوالدین، حدیث۲۰

[13] ۔ “يارسول الله من أبر؟ قال: امك، قال: ثم من؟ قال: امك، قال: ثم من؟ قال: امك، قال: ثم من؟ قال: أباك”کلینی، یعقوب، اصول کافی باترجمہ و شرح فارسی، ج۴،باب برّ الوالدین، ص۴۷۰

[14]۔”وحق أمّک أن تعلم أها حملتک حیث لا یحتمل أحد أحدا، وأعطیتْک من ثمرة قلبها مالا یعطی أحد أحدا، ووقتک بجمیع جوارحها، ولم تبال أن تجوع وتطعمک، وتعطش وتسقیک، وتعری وتکسوک، وتضحی وتظلک، تهجر النوم لأجلک، ووقتک الحرّ والبرد لتکون لها، فانک لا تطیق شکرها إلا بعون الله و توفیقه” سپھری، محمد، ترجمہ و شرح رسالۃ الحقوق امام سجادؑ، ص۱۳۱

[15]۔ شیرازی، ناصرمکارم  ، تفسیر نمونہ، ج۱۲، ص۹۸

[16]۔ سورہ لقمان، آیت۱۴

[17]۔ طبرسی، ابی نصر، مکارم الاخلاق، ج۱، ص۴۷۶

[18]۔ “إما یبلغن عندک الکبر أحدهما أو کلاهما فلا تقل لهما أف ولا تنهرهما و قل لهما قولا کریما واخفض لهما جناح الذل من الرحمة و قل رب ارحمهما کما ربیانی صغیرا” سورہ اسراء، آیت۲۳،۲۴

[19] ۔ کلینی، اصول کافی، ج۴،ص۶۲ باب برالوالدین، حدیث۲

[20] ۔ “عن أبي الحسن موسى عليه السلام قال: سأل رجل رسول الله صلى الله عليه وآله سأل رجل رسول الله صلى الله عليه وآله ماحق الوالد على ولده؟ قال: … ولا يستسب له” کلینی، یعقوب، اصول کافی باترجمہ و شرح فارسی، ج۴،باب برّ الوالدین،  ص۴۶۸

[21]۔ “…فانظر امك فبرها، فإذا ماتت فلا تكلها إلى غيرك، كن أنت الذي تقوم بشأنها…” کلینی، یعقوب، اصول کافی باترجمہ و شرح فارسی، ج۴،باب برّ الوالدین،  ص۴۷۴

[22] ۔ کلینی، اصول کافی، ج۴،ص۶۲ باب برالوالدین، حدیث۲

[23] ۔ مجلسی، باقر، بحارالانوار، ج۷۱، ص۶۹

مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج۱، ص۳۶۵

[24] ۔ مجلسی، باقر، بحارالانوار، ج۷۱، ص85

[25] ۔ قال رسول الله إن الجنة لتوجد ریحها من مسیرة حمسمأة عام ، ولا یجدها عاقّ ولا دیّوث الخبرمجلسی، باقر، بحار الانوار، ج۷۱، ص۶۹

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *