فرزند زہرا(ع) کی شہادت کا واقعہ
دسویں محرم کے مصائب امام (ع) مسلسل تکبیر کا نعرہ لگاتے آئے تھے مگر اب تکبیر کی صدا خیموں میں نہیں آرہی تھی چنانچہ ثانی زہراء حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا خیموں سے باہر آئیں جبکہ فریاد کررہی تھیں: “وا اخاہ! وا سیداہ! وا اہل بیتاہ! اے کاش آسمان زمین پر آپڑتا! امام […]
دسویں محرم کے مصائب
امام (ع) مسلسل تکبیر کا نعرہ لگاتے آئے تھے مگر اب تکبیر کی صدا خیموں میں نہیں آرہی تھی چنانچہ ثانی زہراء حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا خیموں سے باہر آئیں جبکہ فریاد کررہی تھیں: “وا اخاہ! وا سیداہ! وا اہل بیتاہ! اے کاش آسمان زمین پر آپڑتا!
امام حسین علیہ السلام کے حامیوں میں کوئی بھی زندہ نہیں بچا، “حبیب”، “زہیر”؛ “بریر” اور “حر” سمیت تمام اصحاب و انصار شہید ہوچکے ہیں اور “اکبر”، “قاسم”، “جعفر” اور دیگر جوانان بنی ہاشم – حتی کہ شش ماہہ علی اصغر (ع) اپنی جانیں اسلام پر نچھاور کر چکے ہیں، اور عباس، علمدار حسین، ساقی لب تشنگان، بے سر و بے دست ہو کر خیام اہل بیت (ع) سے دور گھوڑے سے اترے ہیں اور شہید ہوچکے ہیں۔
حسین علیہ السلام نے دائیں بائیں نظر دوڑائی، اس وسیع و عریض دشت میں، مگر آپ (ع) کو کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ کوئی بھی نہ تھا جو امام (ع) کی حفاظت اور حرم رسول اللہ کے دفاع کے لئے جانبازی کرتا… جو تھے وہ اپنا فرض ادا کرچکے تھے… چنانچہ امام علیہ السلام خیام میں تشریف لائے، جانے کے لئے آئے تھے… بیبیوں سے وداع کا وقت آن پہنچا تھا… عجیب دلگداز منظر تھا، خواتین اور بچیوں نے مولا کے گرد حلقہ سا تشکیل دیا تھا… ہر کوئی کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کیسے بولے… کیا بولے…؟ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
بیٹیاں زیادہ آسانی سے بول لیتی ہیں چنانچہ “سکینہ” آگے بڑھیں اور عرض کیا: “باباجان! کیا آپ نے موت کو قبول کیا اور دل رحیل کے سپرد کردیا؟” امام نے فرمایا: کیونکر موت قبول نہ کرے وہ آدمی جس کا نہ کوئی دوست ہے نہ کوئی حامی؟”۔ گریہ وبکاء کی صدا اٹھی… مگر امام رلانے کے لئے نہیں آئے تھے وقت کم تھا اور ایک بڑی امانت آپ کی پاس تھی جس كو اس کے اہل کے سپرد کرنا تھا… وصیت بھی کرنی تھی… چنانچہ امام نے سب کو وصیتیں کیں اور امامت کے ودائع و امانات اور انبیاء کی مواریث امام علی ابن الحسین علیہ السلام کے سپرد کردیں… ثانی زہراء سے کہا: نماز تہجد میں مجھے یاد رکھنا… یہ بھی امام کی ایک وصیت تھی… اور ہم جانتے ہیں کہ غل و زنجیر اور قید و بند کے با وجود ثانی زہراء نے کربلا سے شام تک “تہجد ترک نہ کیا”… یہ لوگ نماز کو زندہ رکھنے کے لئے ہی توآئے تھے کربلا میں اور نماز کی برپائی ہی کے لئے تو اسیری قبول کی تھی…
امام علیہ السلام روز عاشور مشیت الہی سے بیمار تھے شدت سے علیل تھے…ایک دو روز کے لئے… اس لئے کہ جہاد بیماروں پر فرض نہیں ہے اور اس لئے کہ امامت کا سلسلہ جاری رہنا ہے… امام حسین علیہ السلام نے ودائع امامت اور مواریث انبیاء امام سجاد علیہ السلام کے سپرد کرکے اطمینان خاطر کے ساتھ حرم رسول اللہ (ص) سے وداع کیا…
[امام سجاد روز عاشور بیمار تھے لیکن بیمار نہ رہے لیکن اموی تشہیراتی مشینری نے آپ (ع) کو بیمار کے نام سے مشہور کیا اور آج حتی کہ بعض پیروان اہل بیت (ع) بھی آپ (ع) کو بڑے فخر سے “عابد بیمار” کا عنوان دیتے ہیں جو سراسر غلط اور اموی طاغوتوں کی تشہیراتی مہم کا حصہ بننے کے مترادف ہے]۔
سیدالشہداء علیہ السلام تنہا تھے، تشنہ لب تھے، بھائیوں، بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں، رشتہ داروں، اصحاب اور انصار کے لاشے اٹھاچکے تھے عباس و اکبر کی جدائی کا غم سہہ چکے تھے مگر یہاں ان ہزاروں دشمنوں کے خلاف علی وار وارد کارزار ہوئے میمنہ اور میسرہ کو نشانہ بنایا قلب لشکر یزید پر حملے کئے اور رجز پڑھتے رہے:
الموت اولی من رکوب العار
والعار اولی من دخول النار
موت عار و ننگ قبول کرنے سے بہتر ہے
اور عار و ننگ دوزخ کی آگ سے بہتر ہے
اور اس کے بعد میسرہ (بائیں جناح) پر حملہ کرکے رجز کو جاری رکھتے:
انا الحسین بن علی
آلیت ان لا انثنی
احمی عیالات ابی
امضی علی دین النبی
یعنی:
میں حسین ہوں علی کا بیٹا
کبھی بھی ساز باز نہ کروں گا
اپنے والد کی حریم (دین خداوندی) کا دفاع کرونگا
اور اپنے جد رسول اللہ (ص) کے دین پر استوار ہوں
ایک کوفی نے یوں روایت کی ہے:
“میں نے کبھی نہیں دیکھا کسی کو جس پر اتنا بڑا لشکر حملہ کرے اور اس کے انصار اور بیٹے بھی قتل ہوئے ہوں اور وہ پھر بھی اتنا جری اور شجاع ہو۔ سپاہ یزید کے دستے ان پر ٹوٹ پڑتے مگر آپ (ع) شمشیر کے ذریعے ان پر حملہ کرتے اور لشکر یزید کو بکریوں کے ریوڑ کی مانند – جس پر شیر حملہ آور ہوا – دائیں بائیں جانب بھگاتے اور تھتربھتر کرتے۔ اور پھر اپنی جگہ لوٹ آتے اور تلاوت فرماتے: “لاحول و لا قوة ال باللہ العلی العظیم” … شهید مطهری فرماتی هین که “امام حسین علیہ السلام نے خیموں کے قریب ایک نقطہ معین کیا تھا اور حملہ کرکے وہیں واپس آجاتے تهے کیوں کہ وہ خیموں سے دور نہیں جانا چاہتے تھے… یہ آپ (ع) کی غیرت کا تقاضا تھا…”
تاریخی منابع میں ہے کہ فرزند حیدر و صفدر حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں دوہزار یزیدی فوجیوں کو واصل جہنم کیا۔ عمر سعد نے خطرے کا احساس کرلیا کہنے لگا اپنے لشکریوں سے: وائے ہو تم پر! کیا تم جانتے ہو کہ کس کے خلاف لڑرہے ہو؟ یہ عرب کے بہادر پہلوانوں کو ہلاک کردینے والے علی ابن ابیطالب کا بیٹا ہے۔ یکبارگی کے ساتھ چاروں جانب سے حملہ کرو”۔ عمر نے چارہزار تیراندازوں کو حکم دیا کہ امام علیہ السلام پر چاروں جانب سے تیر پھینکیں اور بعض اشقیاء نے پتھروں سے آپ (ع) پر حملہ کیا۔
بعض روایات میں ہے کہ اتنے تیر جسم امام علیہ السلام کو لگے تھے کہ امام کا بدن سیہ کی طرح ہوچکا تھا۔ (جس کی کھال کانٹوں سے پر ہوتی ہے) اور شہادت کے بعد بدن مبارک پر زخموں کی گنتی ہوئی تو ہزار زخم اس جسم نازنین پر موجود تھے جن میں سے 32 زخم تیروں کے سوا دیگر ہتھیاروں کے تھے۔ امام علیہ السلام تھکے ماندے،مجروح اور پیاسے تھے۔ سستانے کے لئے لمحہ بھر رک گئے مگر دشمن بہت ہی نامرد دشمن تھا … ایک دشمن نے پتھر اٹھا کر جبین مبارک کو مارا، جبین امام (ع) سے خون جاری ہوا تو امام نے کرتے کے دامن سے خون پونچھا ہاتھ جبین پر ہی تھا کہ ایک سہ شعبہ تیر زیر بغل لگا (کہا جاتا ہے کہ یہ تیر بھی حرملہ نے پھینکا تھا) تیر زہرآلود تھا اور اس کا نشانہ امام علیہ السلام کا قلب و سینہ تھا… امام علیہ السلام نے فرمایا: “بسم اللہ و باللہ وعلی ملة رسول اللہ” اور سر آسمان کی جانب اٹھایا اور بارگاہ خداوندی میں مناجات کی: “خدایا تو جانتا ہے کہ یہ قوم ایک ایسے انسان کو قتل کررہی ہے جس کے سوا کوئی اور فرزند نبی (ص) نہیں ہے”۔ امام نے تیر اپنی پشت کی جانب سی سے نکال لیا۔ پرنالے کی طرح خون جاری ہوا امام نے اپنے ہاتھوں میں خون اٹھایا اور آسمان کی جانب اچھالا اور کوردل حاضرین نے دیکھا کہ وہ خون زمین پر واپس نہیں آیا اور اسی لمحے کربلا کا آسمان سرخ ہوگیا۔ اس کے بعد دوسری مرتبہ اسی خون سے ہاتھ بھر دیئے اور چہرہ مبارک پر مل دیئے اور فرمایا: “میں خضاب خون سے رنگی ہوئی داڑھی کے ساتھ اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ (ص) کی ملاقات کو جاؤں گا اور رسول اللہ کی عدالت میں ان لوگوں کی شکایت کروں گا”۔
دشمن کے بعض پیدل دستوں نے امام علیہ السلام کے گرد گھیرا ڈالا۔ ایک یزیدی نے رسول اللہ کے فرزند کے سر کو شمشیر کا نشانہ بنایا تو امام کا خود ٹوٹ گیا اور وار نے سرمبارک کو زخمی کیا اور خون جاری ہوگیا۔ اسی وقت شمر ملعون نے کچھ یزیدیوں کو لے کر خیموں کا رخ کیا۔ شمر خیموں کو آگ لگانا چاہتا تھا کہ امام (ع) نے سر اٹھایا اور وہ تاریخی جملہ ادا کیا:
“ان لم یکن لکم دین و لاتخافون المعاد فکونوا احرارا فی دنیاکم = اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تم قیامت کے حساب و کتاب سے نہیں ڈرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد اور جوانمرد رہو”۔
امام علیہ السلام نے یزیدی افسروں سے خطاب کرکے فرمایا: “میرے اہل و عیال کو اپنے رذیلوں، بے عقلوں اور سرکشوں سے بچا کر رکھنا” “شبث نک ربعی” جلدی سے شمرکے پاس پہنچا اور غصے کے ساتھ اسے خیموں کو متعرض ہونے سے خبردار کیا… شمر گویا کہ نادم ہوا اور اپنے سپاہیوں کو حرم سے دور کرکے کہا: “حسین کی جانب چلے جاؤ کہ ہمیں یہاں ایک عظیم القدر اور جوانمرد حریف کا سامنا ہے”۔
اسی اثناء میں امام حسن علیہ السلام کا نابالغ فرزند عبداللہ بن حسن چچا کے دفاع کے لئے خیموں سے نکلا اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا مگر یزیدی اشقیاء نے انہیں بھی شہید کردیا (عبداللہ بن حسن (ع) کی شہادت کا واقعہ پانچویں مجلس میں بیان ہوچکا ہے) یہ وہ وقت تھا جب امام حسین علیہ السلام نے ہل من ناصر کی ندا دی تھی اور امت کے تمام افراد پر اتمام حجت کیا تھا…
سپاہ یزید امام حسین علیہ السلام کے قریب آگئے۔ گھیرا تنگ سے تنگ تر ہوتا گیا۔
“زرعة بن شریک” نے امام حسین علیہ السلام کے بائیں ہاتھ پر وار کیا اور دوسرے یزیدی نے پیچھے سے آکر آپ کے دائیں شانے پر تلوار کا زخم لگایا اس ضرب کی سنگینی کی وجہ سے امام (ع) چہرے کے بل زمین پر گر گئے۔ یہ دو ملعون پیچھے ہٹے جبکہ امام علیہ السلام کمزور ہوچکے تھے اور بمشکل اٹھ کر بیٹھ جاتے مگر سنبھل نہیں سکتے تھے اس حال میں “سنان بن انس” نامی ملعون نے نیزہ آپ کی پشت پر رسید کیا اور نوک نیزہ سینے سے باہر نکلا۔ امام گودال قتلگاہ میں گر گئے اور اپنے رب کے ساتھ آخری راز و نیاز و مناجات کا آغاز کیا… حسین علیہ السلام کا چہرہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ حسین تر و تازہ اور حسین و جمیل تر ہوتا گیا اور اس کی چمک میں اضافہ ہوتاگیا۔ راویوں نے لکھا ہے کہ ہم نے کسی بھی خون میں لت پت مقتول کو حسین علیہ السلام سے زیادہ خوبصورت و خوش سیما اور چمکتا دمکتا نہیں دیکھا تھا … یہ راوی درحقیقت لشکر یزید کے سپاہی تھے…کہتے ہیں : ہم امام کو قتل کرنے کے لئے گئے تھے مگر ہم نے جب ان کے رخسار کی چمک اور چہرے کی خوبصورتی کا نظارہ کیا تو اپنے ارادے سے نادم ہوکر پیچھے ہٹ کر آئے۔ آپ (ع) کی ہیبت و عظمت نے قتل کا خیال ہمارے ذہن سے نکال دیا تھا”۔
یزیدی گماشتوں اور جلادوں نے بھوکے بھیڑیوں کی مانند امام علیہ السلام کے گرد گھیرا ڈالا تھا تا کہ بزعم خویش حق و حقیقت کو ہمیشہ کے لئے ذبح کردیں اور امام (ع) کا کام تمام کردیں۔
امام (ع) مسلسل تکبیر کا نعرہ لگاتے آئے تھے مگر اب تکبیر کی صدا خیموں میں نہیں آرہی تھی چنانچہ ثانی زہراء حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا خیموں سے باہر آئیں جبکہ فریاد کررہی تھیں: “وا اخاہ! وا سیداہ! وا اہل بیتاہ! اے کاش آسمان زمین پر آپڑتا! اے کاش پہاڑ ٹوٹ پھوٹ کر دشتوں میں منتشر ہوجاتے…”۔ سیدہ سلام اللہ علیہا گودال کے اوپر واقع ایک ٹیلے (تلّ زینبیہ) کے اوپر چلی گئیں اور انہوں نے اس دلخراش حادثے کا مشاہدہ کیا۔
سیدہ (س) نے قتل حسین (ع) کے لئے اکٹھے ہونے والے بھیڑیوں کو دیکھا تو عمر سعد کو پکار کر فرمایا: وائے ہو تم پر اے عمر! یہ لوگ اباعبداللہ کو قتل کررہے ہیں اور تم تماشا دیکھ رہے ہو!؟” عمر سعد کے چہرے پر آنسو جاری ہوئے مگر خاموش رہا اور سیدہ سے منہ پھیر لیا۔ سیدہ (س) نے یزیدی لشکر سے مخاطب ہوکر فرمایا: وائے ہو تم پر! کیا تمہارے درمیان کوئی مسلمان نہیں ہے؟” کون جواب دے سکتا تھا وہ جواب دیتے تو کیا کہتے… کیا وه مسلمانی کا دعوی کرسکتے تهے؟… سب خاموش رہے۔ شمر نے اپنے گماشتوں سے کہا: تم اس مرد کو انتظار کیوں کرا رہے ہو؟ وہ چاہتا تھا کہ ان ہی میں سے کوئی کام تمام کردے۔ ایک ملعون “خولی بن یزید اصبحی” گھوڑے سے اترا اور تیزی سے امام کے پاس آکر کھڑا ہوگیا تا کہ امام علیہ السلام کا سر تن سے جدا کردے مگر قریب پہنچا تو شدت سے لرز اٹھا اور اپنی نیت کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ شمر نے کہا: “تیرے بازو کمزور و ناتوان ہوں! کانپ کیوں رہے ہو؟” اور اس کے بعد خود خنجر تھاما اور سنان بن انس کے ہمراہ امام کا سر جسم سے جدا کرنے کے لئے آگے بڑھا …
(روایت میں ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام گودال قتلگاہ میں تھے تو ہلال پانی لانے گیا وہ امام (ع) کو پانی پلانا چاہتا تھا مگر جب پانی لے کر آیا اور گودال میں اترنے لگا تو شمر گودال سے لرزتا کانپتا خارج ہورہا تھا… ہلال سے کہنے لگا بس اب پانی کی ضرورت نہیں ہے… سر مبارک شمر کے دامن میں تھا… ہلال نے پوچھا: تم کیوں کانپ رہے ہو؟ شمر نے کہا: جب میں نے اپنا جرم انجام دیا تو گودال کے گوشے سے ایک بی بی کی صدا آئی: اے عزیز مادر اے جان مادر…۔
الا لعنة اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون
منابع اصلی:
1. سید بن طاووس ؛ اللهوف فی قتلی الطفوف ؛ قم: منشورات الرضی، 1364 ۔
2۔ شیخ عباس قمی ؛ نفس المهموم ؛ ترجمه و تحقیق علامه ابوالحسن شعرانی ؛ قم: انتشارات ذویالقربی،
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید