تازہ ترین

یار نبی (ص) حضرت ابوذر الصدیق رضی اللہ عنہ

حضرت ابوذر غفاری رحمت اللہ علیہ اسلام کی ایسی عظیم شخصیت ہیں جنھوں نے اسلام نظریات کی ہر قدم پر جان جوکھوں میں ڈال کرحفاظت ونصرت فرمائی۔

شئیر
59 بازدید
مطالب کا کوڈ: 505

آپ دین حق کے نڈر سپائی ،بے باک مبلغ ،عزم واستقلال کے پیکر مظلوم صحابی رسول(ص) تھے۔ آپ کبھی لذت غم وشدائد کو عارضی خوشیوں کے ہاتھوں فروخت نہ فرمایا ۔آپ کے حوصلہ منداور جراءت افزاء جذبات ایمانی بڑی بڑی آزمائش میں غالب نظر آتے ہیں ۔اس میں شک نہیں اس حق گو اور صدیق امت ہستی کو اشاعت حق کی بھاری قیمت اداکرنی پڑی لیکن ایک لمحہ کے لئے بھی یہ سرفروش اسلام باطل کے سامنے سرنگوں نہ ہوا ہر طرح کی مصیبت کو ہنسی خوشی قبول کیا لیکن سچ کو آنچ نہ آنے دی ،عشق دین الہی کی مستی میں جابرسلطان سے ٹکراجانے والے اس بہادرصحابی رسول (ص) کوجس طرح اس کی زندگی میں نشانہ ظلم وجور بنا گیا بعد ازوقت بھی ان سے بغض وکینہ کے تیز ہتھیاروں سے انتقام لینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی ۔قصیدہ خوانان حکومت نے آپ کے تاریخ وجود کے نقش ونگار کو محض حکمرانوں کی محبت وعقیدت میں دھندلاکر نے کی تمام کوششیں صرف کیں کبھی اس بزرگ عظیم کو اس کے آقا ومولا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی طرح مجذوب ومجنون کہا گیا ،کبھی عذر پیری تراش کر اس کامل ہستی کے ادراک وفہم مصطفی پر رکیک حملے کئے گئے اور ستم بالائے ستم یہ کہ آج کے زمانے میں اہل قلم نے ان کو اشتراکیت کا بانی قرار دینا شروع کردیا ہے ،مارکسی نظریہ کا خالق سمجھا جانے لگا ہے ،مسلمانوں کی اس فرزند اسلام سے چشم پوشی یقینا اہل درد کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے کہ اہل علم وقلم احباب نے اس بطل جلیل زعیم عظیم یا پیغمبر (ص) علیم سے یہ غیر منصفانہ صرف نظر کیوں روا رکھا ۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ راقم ناتواں کو یہ سعادت نصیب ہو رہی ہے کہ اس مومن کامل،عاشق آل رسول(ص)،محبوب رسول(ص)اورحبیب رب رسول(ص) ،نجم ہدایت یار نبی (ص) کی خدمت میں اپنے عقیدت مند جذبات کا اظہار پیش کروں ۔میں کوشش کروں گا کہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کے خصوصی حالات پر مختصر مگر سیر حاصل روشنی ڈالوں کہ آپ کی علمی حیثیت اسلامی ،اقتصادی نظریہ ،فضائل ومناقب اور حالات مصائب سے عبوری واقفیت ہوجائے نیز اس شبہ و الزام کا بھی ازالہ ہو جائے کہ جناب ابوذر رضی اللہ عنہ اشتراکیت یا کمیونزم جیسے لغو نظریات کے خالق تھے ۔حالانکہ آپ خالص توحید پرست ،کٹر مومن اور حقیقی عاشق رسول واہلبیت رسول علیھم السلام تھے ۔ ان کے جسم مبارک کے ایک ایک قطرہ خون میں محبت اہل بیت (ع) رچی بسی تھی ان کے رگ وپے میں مؤدت والفت کا خون دوڑ رہا تھا وہ ثقلین رسول کے نظریہ پر ایمان رکھتے تھے اور انھیں کے نقش قدم پر دوڑتے تھے ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مطیع وپیروکار تھے اور ان ہی کے سکھائے ہوئے نظریات کا پرچار کیا کرتے تھے ۔اور یہی وجہ
تھی جس کی پاداش میں انھیں سکھ کی سانس لینا نصیب نہ ہوسکا محبت دین کے جنون حقیقی میں انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکرلی اور انتہائی بے جگری سے مقابلہ کیا ۔ کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائے اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کا واشگاف اعلان فرما کر جہاد الکبیر فرماتے رہے ۔اصولوں پر کسی سودا بازی پر امادہ نہ ہوئے اور صداقت کی راہ میں کھڑی ہوئی ہر دیوار سے ٹکراگئے ۔آپ نے استبدادی قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ فرمایا ۔
اور آئین وفا کی ہر شق کے پابند رہے ۔حتی کہ آج ابوذر کی صداقت دہریوں اور بے دینوں نے بھی تسلیم کرلی ۔اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
گماں آباد ہستی میں یقین مرد مسلمان کا —– بیاں باں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
مٹایا قیصر وکسری کے استبداد کو جس نے —– وہ کیا تھا‏؟ زور حیدر ،صدق بوذر فقر سلمانی
نام ونسب وحلیہ:-
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ میرا اصلی نام جندب بن جنادہ ہے لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میر ا نام عبداللہ رکھا ہے اور یہی نام مجھے پسند ہے چونکہ آپ کے فرزند اکبر کا نام” ذر” تھا لہذا جناب کی کنیت “ابوذر” تھی ۔ذر کے لغوی معنی خوشبو اور طلوع وظہور کے ہیں ۔
آپ جنادہ بن قیس ابن صغیر بن حزام بن غفاری کے چشم وچراغ تھے آپ کی والدہ محترمہ رملہ بنت ورفیعہ غفاریہ تھیں ۔آپ عربی النسل اور قبیلہ غفار سے تھے اسی لئے آپ کے نام کے ساتھ “غفاری” لکھا جاتا ہے ۔آپ گندمی رنگت کے طویل القد انسان تھے ،نحیف الجسم تھے ۔آپ کا چہرہ روشن تھا اور کنپٹیاں دھنسی ہوئی
تھیں کمر خمیدہ ہوگئی تھیں ۔
عہد جاہلیت کے مختصر حالات :-
حضرت ابوذر غفاری رحمۃ اللہ علیہ کے قبل از اسلام کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ وہ دین اسلام سے نابلد تھے تاہم توفیق الہی نے اس وقت بھی انھیں وحدانیت کے نور سے منور کر رکھا تھا اس پرشرک زمانے میں بھی آپ توحید خداوندی کا تصور اپنے روشن قلب میں رکھتے تھے ۔انھوں نے خود اپنے ایک بھتیجا پر اس بات کا انکشاف فرمایا کہ ملاقات رسول سے تین برس پہلے انھوں نے خدا کی نماز ادا فرمائی اور بت پرستی سے اکثر اجتناب برتا ۔اس کی دجہ خود امام صادق علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جناب ابوذر اکثر تفکر خالق میں رہاکرتے تھے اور ان کی عبادت کی بنیاد تفکر خداوندی پر تھی ابن سعد نے اپنی طبقات میں اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ بات نقل کی ہے چنانچہ مولوی شبلی نعمانی اپنی سیرت النبی میں تحریر کرتے ہیں کہ ابوذر بت پرستی ترک کرچکے تھے ۔اور غیر معین طریقے سے جس طرح ان کے ذہن میں آتا تھا خدا کا نام لیتے تھے اور نماز ادا کرتے تھے جب حضور کا چرچا سنا تو اپنے بھائی کو آپ کی خدمت میں صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لئے روانہ کیا جو آنحضرت کی خدمت میں آیا اور قرآن شریف کی کچھ سورتیں سنکر واپس جاکر ابو ذر سے کہا کہ میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جسے لوگ مرتد کہتے ہیں وہ مکارم اخلاق سکھا تا ہے اور جو کلام وہ سنا تا ہے وہ شعر وشاعری نہیں بلکہ کچھ اور ہی چیز ہے تمھارا طریقہ اس سے بہت ملتا جلتا ہے ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سخت قحط پڑا قبیلہ غفار کے گمان میں
یہ خشک سالی ان کے بت معبودوں کی ناراضگی کے باعث تھی چنانچہ سرداران قوم نے فیصلہ کیا کہ بتوں کو راضی کیا جائے ۔انھوں نے “منات ” بت کو منانے کے لئے طرح طرح کی قربانیاں دی اور خوب انکساری سے گڑاگڑا کر دعائیں مانگیں مگر ایک قطرہ بارش بھی نہ ٹپکا ۔حضرت ابوذر کے بھائی انیس ان کو بھی زبردستی منات کی پو جا کے لئے لے آئے تھے اور ان کی بے رغبتی دیکھکر بار بار ان کو بتوں کی توصیف سناتے اور ان سے خوف زدہ کرتے مگر آپ سنی ان سنی کرئے رہتے ان ہی قصہ کہانیوں میں کچھ ایسے قصے بھی آئے کہ لوگوں نے بتوں کی گستاخیاں کیں مگر ان کا بال تک بیکا نہ ہوا ۔حضرت ابوذر اپنے تفکرات میں کھوئے ہوئے یہ سب باتیں سنتے رہے حتی کہ لوگوں کو نیند آگئی مگر ابوذر بیدار رہے ۔اور سوچنے لگے کہ “منات” آخر ایک پتھر کا صنم ہی تو ہے ۔ جو نہ ہی ہدایت دے سکتا ہے اور نہ ہی گمراہ کرسکتا ہے ۔آپ چپکے سے اٹھے اور منات کو ایک پتھر مار ا۔منات ٹس سے مس نہ ہوا ۔پس ابوذر نے من میں کہا ۔”تو عاجز ہے قادر نہیں ،مخلوق ہے خالق نہیں ،نہ تجھ میں طاقت ہے نہ قوت تو ہرگز لائق عبادت نہیں ہوسکتا ۔بے شک میری قوم کھلی گمراہی میں ہے کہ تجھ پر قربانیاں چڑھاتے ہیں اور جانور ذبح کرتے ہیں “اسی تصورمیں آپ سوگئے ۔جب صبح طلوع ہوئی تو منات کے پجاری پھر اس کے گرد طواف کرنے کے لئے جمع ہوئے مگر ابوذر عجیب کیفیت میں اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر آسمان کی بلندی کی طرف عالم تصور میں ڈوب گئے ۔اور اجرام فلکی کی تخلیق میں غور فکر و تامل میں غرق رہے ۔ حتی کہ اطمینان قلب حدیقین تک آپہونچا ۔لوگ طواف کر کراکے
روانہ ہوگئے اور جناب ابوذر کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔قافلہ چلتا رہا ۔ابوذر دریائے فکر میں غوطہ زن رہے ۔پہاڑوں کو دیکھتے تو خالق کی صناعی پر غور فرماتے ،زمین کی وسعت ،آسمان کی بلندی ،خلقت انسانیہ ،چاند ،سورج اور تارے آخر کوئی تو ان سب کا بنانے والا اور انتظام کرنے والا ہے ۔ اسی سوچ وبچار میں گھر آپہنچے تو سیدھے لیٹ گئے دل ہی دل میں کہا ” بے شک آسمان کا پیدا کرنے والا آسمان سے بڑا ہے اور انسان کا خالق انسان سے بڑا ہے اس دنیا کو بنانے والا یقینا بہت ہی بڑا ہے وہی عبادت کے لائق ہے منات نہیں ، نہ لات وعزی ،نہ اساف ونائلہ اور سعد بلکہ صرف اسی کی ذات عبادت کے قابل ہے وہی خالق بدیع مصور وقادر ہے اور یہ بت محض پتھر ہیں جن میں نہ قدرت ہے نہ طاقت ۔پس اسی حالت یقین میں آپ سجدہ ریز ہوئے دل کو تسلی محسوس ہوئی اوراسی کیفیت میں آپ محوخواب ہوگئے ۔جب صبح اٹھے تو خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگے ۔اسی حالت میں حضرت کے بھائی انیس آئے تو ابوذر کو مؤدت انداز میں کھڑا پایا ۔ دریافت کیا کہ کیا ہورہا ہے جوابا فرمایا کہ اللہ کے لئے نماز پڑھ رہا ہوں ۔ انیس حیران ہوکر پوچھا کون اللہ؟۔نماز تو صرف منات یا نہم کے لئے ہے ۔آپ نے فرمایا میں کسی بت کی نماز نہیں پڑھتا بلکہ میں نے ایسے معبود کی معرفت پائی ہے جو تمھارے خداوؤں جیسا نہیں وہ عظیم ہے قادر مطلق ہے ۔عقل اس کو پانے سے قاصر ہے بس وہ ایک حقیقی طاقت ہے جسکی میں تعظیم کرتا ہوں انیس نے دریافت کیا اے میرے بھائی کیا ایسے خدا کی پرستش کرتا ہے جسے نہ تو
دیکھ سکتا ہے نہ پاسکتا ہے ۔یہ عجیب حرکت ہے کہ تو اپنے سامنے کھڑے معبودوں کو چھوڑ رہا ہے جنھیں تو جب چاہے دیکھ لے اور جب مرضی پالے ۔جناب ابوذر نے فرمایا ۔اگر چہ میں اپنے معبود کو پا نہ سکا تاہم میں نے اس کی قدرت کی نشانیاں مشاہدہ کرلی ہے ۔یہ پتھر کے معبود تو گنگے ،بہرے اوراندھے ہیں نہ ان کو نفع پر اختیار ہے نہ نقصان پر۔انیس نے کہا کیا تو ہمارا اور اپنے اجداد کا مذاق اڑا رہا ہے ؟ جناب ابوذر نے جواب دیا کہ اے انیس ! میری کیاخطا ہے ! اگر میرے اسلاف غلطی پر تھے ، تمھارا دین مکڑی کے جالے کی تا ر سے بھی کمزور ہے ۔ذرا سوچ کر کہو کہ ہم میں سے جب کوئی سفر کرتا ہے اور قیام کرتا ہے تو دوچار پتھر جمع کرتا ہے جو پتھر اچھا لگتا ہے اس کو خدا بنالیتا ہے اور باقی سے چھو لھا بنا لیتا ہے ۔ذرا ہوش سے جواب دو کہ یہ پتھر کیسے معبود ہوسکتے ہیں ہمیں بھلا لگا تو عبادت کے لائق ہوگیا اگر بھائے نہیں تو آگ کے حوالے ۔یہ بڑی عجیب وغریب بات ہے ۔ انیس نے کہا کہ ہم تو بحالت سفر اس لئے کرتے ہیں کہ ہم کعبہ پر بھی ایسا ہی کرتے ہیں چنا ہو اپتھر کوئی اپنی ذات کی بنا پر تو نہیں پوجا جاتا بلکہ اساف ونائلہ (بت) کے قائم مقام کرکے پوجا جاتا ہے جوکعبہ میں رکھے گئے ہیں ۔جناب ابوذر جوش میں آئے اور فرمایا کہ اساف اور نائلہ دو زانی تھے کیا تم زانی کی عبادت کو پسند کرتے ہو ۔قصہ یوں ہے کہ اساف نائلہ پر عاشق تھا دونوں بغرض حج کعبہ آئے اور لوگوں کو غافل پاکر وہاں زنا کیا اسی وقت مسخ ہوکر پتھر بن گئے ۔اور بعد میں لوگوں نے ان کو پوجنا شروع کردیا انیس کو یہ بات ناگوار ہوئی اور کہا کہ تو پھر ان نشانیوں کے بارے میں تو کیا کہتا ہے
جو ان سے ظاہر ہوئیں ۔ابوذر نے فرمایا ان سے تو کچھ بھی ظاہر وصادر نہ ہوسکا اور نہ ہوسکتا ہے ۔کیونکہ ان میں تو کچھ طاقت ہی نہیں ہے ابھی کا ہم منات کو منانے کے لئے گئے کہ وہ بارش برسائے اتنی منتیں سماجتیں کی گئیں مگر ایک بوند پانی بھی نہ بر سا ۔پس انیس نے کھسیا نہ ہو کر کہا کہ چپ رہ تو ہمارے دل میں شک ڈالنے لگا ہے مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میں بھی تیرے عقیدے کی طرف مائل نہ ہوجاؤں ۔حضرت ابوذر نے تبسم فرمایا کہ میں تو یہی چاہتا ہوں کہ تم بھی ان بتوں سے تنگ آکر خالق ارض وسما کی طرف مائل ہوجاؤ ۔انیس نے کہا کہ کیا دین چھوڑنا اتنا آسان ہے کہ جتنا پرانا لباس اتارا دینا ؟ابوذر نے فرمایا ہاں انیس جبکہ یہ دین پھٹے پرانے کپڑے کی مانند ہے تو یہ بات ہمارے لئے یقینا آسان ہے ۔ اسی اثنا ء مین ان کی والدہ تشریف لاتی ہیں اور بچوں کو کہتی ہیں کہ ہم اس قحط سالی سے سخت تنگ آگئے ہیں لہذا تمھارے ماموں کے گھر چلتے ہیں حتی کہ “اللہ تعالی”حالت بدل دے چنانچہ یہ سفر پر روانہ ہوئے اور حسب عادت حضرت ابوذر اپنے خیالات میں مصروف غور رہے ۔چند روز انھوں نے اپنے ماموں کے گھر گزارے مگر ایک شرارت کے تحت ان کو مجبور ا یہ گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ کسی بد بخت نے ان کے ماموں کو ورغلادیا کہ اس کا بھانجہ انیس اپنی ممانی پر فریفتہ ہے ۔حضرت ابوذر نے مقام “بطن مرو” میں رہائش اختیارفرمائی اور ایک روز بکریاں چرا رہے تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا نمودار ہوا اور اس نے آپ کی داہنی طرف حملہ کردیا ۔جناب ابوذر نے اپنے عصا سے اسے بھگایا اور غصہ میں فرمایا “میں تجھ سے زیادہ خبیث برا بھیڑیا آج تک نہیں دیکھا “۔بااعجاز خداوندی بھیڑئیے کو قوت
گویائی ملی ۔اور اس نے کہا ” خدا کی قسم مجھ سے کہیں زیادہ بدتر “اہل مکہ “ہیں کہ خداوند نے ان کی طرف ایک نبی مبعوث فرمایا ہے اور وہ لوگ اس کو دروغ گو کہتے ہیں اور اس کے حق میں ناحق کلمات نا سزا استعمال کرتے ہیں ” یہ آواز سنتے ہی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے دل میں جستجو ئے حق کا جذبہ اور فروغ پاگیا چنانچہ بلا تاخیر انھوں نے اپنے بھائی انیس کو نبی مبعوث کے حالات معلوم کرنے کے لئے روانہ کردیا جب انیس واپس آئے تو جناب ابوذر نے بڑے اشتیاق سے رودراد دریافت فرمائی ۔انیس نے کہا ۔
“میں ایک ایسے شخص سے مل کر آیا ہوں جو یہ کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے ۔اے بھائی اللہ نے تیرے مسلک کے لئے اسے بھیجا ہے ۔میں نے دیکھا ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ شاعر ، ساحر اور کاہن ہے مگر وہ ہرگز شاعر نہیں کیوں کہ میں شعر ک تمام قسموں سے واقف ہوں ۔میں نے اس کی باتوں شاعری پر چانچا تو معلوم کیا کہ اس کا کلام شعر نہیں ہے نہ ہی وہ جادوگر ہے کیونکہ میں نے جادوگر کو بھی دیکھا ہے نہ ہی وہ کاہن ہے کہ میں بہت سے کاہنوں سے مل چکا ہوں اس کی باتیں کاہنوں جیسی نہیں ہیں۔وہ عجیب عجیب باتیں کہتا ہے ۔بخدا اس کا کلام بہت شیرین تھا مگر مجھے اس کے سوا کچھ نہیں رہا جو بتا چکا ہوں البتہ میں نے کعبہ کے قریب نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ اس کی ایک جانب ایک خوبصورت نوجوان جو ابھی بالغ نہیں کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہے لوگ کہتے ہیں کہ اس کا چچیرا بھائی علی ابن ابی طالب ہے ۔اور اس کے پیچھے ایک جلیل القدر عورت کھڑی نماز پڑھ رہی ہے لوگوں
نے اس معظمہ کےبارے میں مجھے بتایا وہ اس کی زوجہ خدیجہ ہے “
قبول اسلام:-
یہ اصول سن کر جناب ابوذر بے تاب ہوگئے اور فرمایا مجھے تمھاری گفتگو سے تشفی نہیں ہوئی میں خود اس کی خدمت میں حاظر ہوکر اس کی باتیں سنوں گا اس نے خبر دار کیا کہ آپ ضرور تشریف لے جائیں مگر اس کے خاندا والوں سے ہوشیار رہیں ۔چنانچہ حضرت ابوذر مکہ آئے اور مسجد الحرام کے قریب پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈ نے لگے مگر نہ ہی آپ کا کوئی تذکرہ سنا اور نہ ہی ملاقات کرسکے ۔رات چھپانے لگی اچانک حضرت علی علیہ السلام طواف کے لئے آئے اور حضرت ابوذر کے قریب سے گزرے جو وہاں اجنبی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے مسافر سمجھ کر جناب امیر علیہ السلام آپ کو اپنے گھر لےآئے ۔اور انتظام شب بسری فرمایا ۔صبح ہوتے ہی حضرت ابوذر نے پھر مسجد کا رخ کیا اور رسول کریم کو تلاش کرنے لگے مگر سارے دن کی جستجو کے باوجود زیارت رسول نصیب نہ ہوئی رات کو پھر حضرت علی علیہ السلام سے ملامات ہوئی ۔ آپ نے تعجب سے مقصد دریافت فرمایا ۔جناب ابوذر جھجکے مگر حضرت امیر نے یہ یقین دلایا کہ وہ بلاخوف اظہار کریں ان کے راز کی حفاظت کی جائے گی ۔جناب ابوذر نے کہا ” مجھے معلوم ہوا ہے یہاں ایک نبی مبعوث ہوا ہے میں نے اپنے بھائی کو ان کی خدمت میں روانہ کیا مگر اس کی باتوں سے میری تسلی نہیں ہوئی لہذا میں خود ان سے ملاقات کرنے کو بے تاب ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا۔
“آپ ہدایت پاگئے ۔میں ان کی طرف جارہا ہوں ۔میرے پیچھے آئیے جہاں میں داخل ہوں وہاں آپ بھی داخل ہوجائیں اگر میں کوئی خطرہ محسوس کروں گا تو دیوار کے پا س کھڑا ہوکر اپنا جوتا درست کرنا شروع
کردوں گا اور اگر ایسا کروں تو آپ واپس چلے آئیں ” چنانچہ اس طرح حضرت امیر علیہ السلام کی معیت میں یہ عاشق رسولا(ص) اپنے عزم بے پایاں میں کامیاب ہوا ۔ نورمجسم کے چہرہ انور کی ایک مقدس جھلکی نے بے خود کردیا اور شرف قدم بوسی حاصل کیا ۔بس دانہ تسبیح میں پرولیا گیا ۔ سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضروری امور کی تلقین فرمائی اور کلمہ شہادت پڑھنے کا حکم دیا ۔
حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نگاہ الفت سے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ
“سنو ! زمانہ اسلام کا خاص دشمن ہے تم بہت محتاط رہنا تم اپنے وطن واپس چلے جاؤ اور جب تک میری نبوت زور پکڑے وہیں رہو ۔جاؤ تمھارے وطن پہنچنے سے قبل تمھارا ماموں انتقال کرچکا ہوگا اورچونکہ وہ بے اولاد ہے لہذا تم اس کی جائیداد مال کے وارث ہوگئے چنانچہ آپ حسب حکم وہاں سے واپس آئے اور اپنے ماموں کی جائیداد کے مالک ہوئے آپ نے ہجرت مدینہ تک وہیں قیام فرمایا اور ہجرت کے بعد مدینہ روانہ ہوئے ۔علماء نے لکھا ہے کہ حضور نے حضرت ابوذر کو ایمان پوشیدہ رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی یعنی تقیہ کی تعلیم دی تھی تاکہ دشمنوں کے مصائب وآلام سے محفوظ رہیں ۔لیکن عشق ومشک چھپنے والی چیزیں نہیں حضرت ابوذر نورایمان کو چھپا نہ سکے ۔جذبات ایمانیہ کا غلبہ ہوا ۔ اور حضور کی خدمت اقدس سے رخصت ہو کر مسجد کی طرف آئے اور قریش کے ایک گروہ کے سامنے چلا کر کہنے لگے “اے قریش سنو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں “
یہ سنتے ہی قریش کے تن بدن میں آگ لگ گئ ۔بد حواس ہو کر انھوں نے جناب ابوذر کو گھیرے میں لے لیا اور اس قدر زدو کوب کیا کہ جناب ابوذر غش کھاگئے قریب تھا کہ آپ کی روح پرواز کرجاتی مگر اچانک حضرت عباس بن عبدالمطلب آئے اور وہ حضرت ابوذر کے اوپر لیٹ گئے ۔اور ان درندہ صفت لوگوں کو کہا کہ تمھیں کیا ہوگیا ہے یہ آدمی قبیلہ غفار کا ہے جس سے تم تجارت کرتے ہو اگر اس کچھ ہوا تو تمھیں لینے کے دینے پڑجائیں گے ۔یہ بات سن کر کفار حضرت ابوذر کے پاس سے ہٹ گئے آپ زخموں سے چور چور ہوگئے تھے ۔بڑی مشکل سے چاہ زم زم تک پہنچے اور اپنے جسم کو خون سے پاک کیا ۔پانی نوش فرمایا اور پھر بارگاہ رسالت مآب میں تشریف لائے ۔حضور نے آپ کی یہ حالت دیکھی تو سخت رنجیدہ ہوئے ۔پھر فرمایا “اے میرے صحابی ابوذر تم نے کچھ کھایا پیا ہے ؟ ابوذر نے جواب دیا سرکار آب زم زم پی کر سکون حاصل کرلیا ہے ۔حضور نے فرمایا “بے شک یہ سکون بخشنے والا ہے ” اس کے بعد آنحضرت نے ابوذر کو تسلی دی اور انھیں کھانا کھلایا ۔
عشاقان حقیقی کے نزدیک حق کی راہوں میں سہی جانے والی مصبیتوں کاذائقہ ہی بہت لذیذ معلوم ہوتا ہے ۔اگر چہ جناب ابوذر ایک مرتبہ ایسے شدید مصائب کا مزا چکھ چکے تھے لیکن ان کے جذبہ ایمانی نے یہ گوارہ نہ فرمایا کہ خاموشی سے اپنے وطن کو واپس چلے جائیں ۔آپ کے عشق صادق اور ایمان کامل نے یہ مطالبہ کیا کہ نا ہنجاز قریش پر یہ واضح کردیا جائے کہ انسانی شعور شرک وبت پرستی کے اوہام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے چنانچہ آپ اسی مضروب
حالت میں دوبارہ مسجد کی طرف پلٹے ۔اور پھر وہی کلمات حق بآواز بلند دہرائے اب کی بار قریش آگ بگولہ ہوگئے اور انھوں نے شور مچایا کہ اس شخص کو قتل کردو ۔آپ پر ہر طرف سے حملہ کردیا گیا اور اس بے دردی سے مارا کہ قریب المرگ ہوگئے اس مرتبہ پھر عباس بن عبد المطلب نے آپ کی جان بچائی ۔حضرت ابوذر کی ان جراءت مندانہ تقریر نے قریش کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اسلام کی روشن کرنیں اب صفحہ ہستی پر پھیلنا شروع ہوگئی ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ پتھر کے خداؤں کی شان وشوکت خاک میں مل جائے گی ۔
اب پھر حضرت ابوذر نے آب زم زم سے اپنا جسم پاک کیا اور خدمت رسول میں حاضر ہوئے چنانچہ حضور نے آپ کی حالت زار ملاحظہ فرما کر حکم دیا کہ ” اے ابوذر اب تمھمیں میر ایہ امر ہے کہ تم فورا اپنے وطن واپس چلے جاؤ تمھارے پہنچنے سے پہلے تمہارا ماموں فوت ہوچکا ہوگا چونکہ تمھارے سوا اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے لہذا اس کی جائیداد کے بھی تم مالک و وارث ہوگئے تم جاؤ اور مال حاصل کرنے بعد اسے تبلیغ اسلام پر صرف کرو ۔میں عنقریب یثرب کی طرف ہجرت کرکے چلا جاؤں گا ۔تم اس وقت تک وہیں اپنا کام کرنا جب تک میں ہجرت نہ کرلوں ۔حضرت ابوذر نے سرتسلیم جھکا کر عرض کیا کہ حضور میں عنقریب یہاں سے چلا جاؤں گا اور اسلام کی تبلیغ کرتا رہوں گا ۔
ابوذر کی تبلیغی خدمات:-
ایمان سے مالا مال ہوکر یہ یار پیغمبر(ص) اپنے وطن واپس آگیا ۔دنیوی دولت نے بھی قدم چومے اور ترویج اسلام میں پوری سعی سعید شروع کردی ۔ سب سے پہلے اپنے بھائی انیس کو حلقہ
بگوش اسلام کیا اور دونوں بھائی اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جنھوں نے بلا حیل وحجت کلمہ شہادت بڑھ لیا ۔ ماں او ربھائی کے ایمان لانے سے حضرت ابوذر کی حوصلہ افزائی ہوئی لہذا اہل قبیلہ کو راہ راست پر لانے کی تراکیب پر غور شروع کردیا اسی سوچ وبچار میں ایک روز حضرت ابوذر اپنے گھر سے نکل پڑے اور اپنی ماں وبھائی کے ساتھ کچھ دور جاکر اپنے حلقہ قبیلہ میں ایک جگہ خیمہ زن ہوئے جب رات ہوگئی تو اہل قبیلہ اپنے اپنے خیموں میں مختلف تذکرے کرنے لگے حضرت ابوذر نے جو کان لگایا تو کچھ لوگوں کو اپنے بارے میں گفتگو کرتے سنا ۔وہ کہہ رہے تھے قبیلہ کا مرد بہادر اب نظر نہیں آتا نہ کبھی بتوں کے پاس دکھائی دیا ہے اور نہ کسی سے میل جول ہے کسی نے کہا ابوذر کا میلان اللہ کی طرف ہے وہ آج کامکہ میں نبوت کے دعویدار شخص سے ملنے گیا ہوا ہے ۔ایک شخص نے کہا نہیں وہ مکہ سے واپس آگیا ہے اور یہاں قریب ہی اس نے خیمہ لگایا ہے چنانچہ اس بات پران لوگوں نے مشورہ کیا کہ ابوذر کے پاس جاکر معلوم کریں کہ وہ اہل قبیلہ سے کھچے کھچے کیوں رہتے ہیں ۔چنانچہ وہ ابوذر کے خیمہ کے پاس آئے اور آپ نے ملاقات کی ۔ان میں سے ایک نوجوان نے دریافت کیاکہ اے ابوذر آپ آخر ہم سے اس قدر دور دور کیوں رہتے ہیں ۔ آپ نے کہا ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے میرے دل میں تمھاری گہری محبت ہے میں تو راہ ہدایت کی تلاش میں سرگرداں رہا اور اب کامیاب ہواہوں کہ مقصود حاصل ہوگیا ۔اب میں بتوں کے بجائے اپنے تمام افعال اور جملہ امور میں خدائے تعالی کی جانب بڑھتا ہوں اور اسی
ذات کی طرف رجوع کرتا ہوں جو ایسا واحد ہے کہ اس کا ہرگز کوئی شریک نہیں ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اس خدا ئے واحد کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے وہ تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے ہمارہ اورتمھارا پروردگار ہے میں تم کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اس کار خیر اور فکر عمل میں میرے شریک ہوجاؤ اور میری طرح وحدانیت کی شہادت دو۔
یہ تقریر سن کر ان لوگوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔انھوں نے بتوں سے منسوب معجزات وکرامات کی جھوٹی کہانیاں دھرانا شروع کردیں ۔آپ نے محبت وخلوص سے ان کو بتوں کی بے بسی وعاجزی پر عقلی دلائل پیش کئے اور فرمایا کہ میں کمال تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ کہ پتھر کے اصنام کو مٹی میں ملا کر خدا ئے واحد کے سامنے سرتسلیم خم کرنا فطرت کا تقاضا اور انسانیت کا فروغ ہے ۔لیکن آپ کا یہ وعظ حسنہ مؤثر ثابت نہ ہوسکا ۔اور ان لوگوں نے کہا ہم اس خطرہ سے اپنے سردار قبیلہ کوآگاہ کرتے ہیں یہ کہ ابوذر اس مکی نبی کے جھانسے میں آگیا ہے جو ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتاہے یہ سنکر حضرت ابوذر نے فرمایا ۔کہ میں نے حق بات کہہ دی ہے آگے تمھاری مرضی ہے جو جی میں آئے کرلو۔ مگر اتنا ضرور سن لو کہ وہ شخص جو مکہ میں نبوت کا مدعی ہے وہ حقیقت میں نبی ہے اس کو سارے عالم کے لئے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔وہ خالق حقیقی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے بلا شبہ اس کایہ کہنا درست ہے کہ یہ آسمان وزمین ۔چاند ۔سورج ۔سیارے وستارے ۔دن ورات ۔خنکی وگرمی تمام اس ہی ذات واحد کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں اور یہ تمام کی تمام
قدرت خدائے ذوالجلال کی ذات کے لئے دلیل واضح ہے ۔نبی برحق خود تراشیدہ بتوں کے خلاف ہے اور اس کی یہ مخالفت اس لئے بجا ہے بے حس ۔آندھے ۔لاچار ومجبور ہیں پس ان لوگوں نے حضرت ابوذر کی یہ غیر متوقع باتیں سن کر کہا کہ تمھاری باتیں ہماری عقلوں میں نہیں آسکتی ہیں تم ہمارے آبائی معبودوں کی توہین کرتے ہو۔ہمارے آباؤ اجداد کی عقلوں کو ناقص وذلیل خیال کرتے ہو ۔ہم سردار قبیلہ کے پاس یہ سب کچھ پہنچائیں گے ۔یہ سنکر حضرت ابوذر کا چہرہ غصّہ سے متغیر ہوگیا مگر آپ خاموش رہے ۔اور کہا کہ سردار قبیلہ سمجھدار آدمی ہے اور وہ میری باتیں سنکر ان پر ضرور غور کرےگا ۔چنانچہ جلتے بھنتے یہ نوجوان راتوں رات “خفاف” سردار قبیلہ کے پاس گئے ۔اور سارا ماجرا بیان کیا ۔ خفاف نے ان نوجوانوں کو تسلی دی کہ اس معاملہ کو مجھ پر رہنے دو تم لوگ اب آرام کرو ۔میں خود اس پر غور کرتا ہوں نوجوان تو سونے کو چل دئیے مگر خفاف کی نیند ساتھ اڑالے گئۓ ۔ وہ ساری رات ابوذر کے بارے میں سوچتا رہا ۔ابوذر کی باتیں اس کے دل کو لگتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔اسی سوچ وبچار میں اس کی عقل نے اس کی رہبری کی اور دل میں کہنے لگا کہ بے شک ابو ذر راہ حق پر ہیں کیوں کہ حکیم عرب نے ان کی تائید کی ہے ۔اور مجھے یقین ہے کہ حکیم عرب قیس بن ساعدہ غلط نہیں سمجھے گا ۔ اور خطا پر ایمان نہ لائے گا ۔ بے شک اس عالم نے کے لئے کسی نہ کسی مصلح کا ہونا ضروری ہے اور ایک ایسی صلاحیت سے محروم ہیں ،اے ابوذر کے خدا ہماری رہنمائی فرما اور ہمیں ہدایت کا راستہ دکھا کر گمراہی سے
نکال لے ان ہی خیالات میں خفاف نے رات گزاردی ۔صبح ہوئی تو سارے قبیلہ میں یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ابوذر کا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔ کس نے نیا دین قبول کرلیا ہے ۔ اون ہمارے خداؤں کو برابھلا کہتا ہے ۔لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کو قبیلہ کیا کہ ان کو قبیلہ سے خارج کردیا جائے مگر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ابوذر اپنے قبیلہ کے شجاع ترین آدمی تھے ۔لہذا طے پایا کہ معاملہ بزرگان قبیلہ کے سامنے بغرض غور پیش کیا جائے ۔چنانچہ کچھ عمر رسیدہ لوگوں کو بھڑکا کر سردار قبیلہ کے پاس بھیجا گیا کہ ابوذر کی سرگرمیوں کا سد باب ہو۔اشراف قبیلہ نے سردار سے کہا کہ ہمارے خیال میں ابوذر پاگل ہوگیا ہے اور مکے کے نئے نبی نے اس پر جادوچلا دیا ہے ۔ خفاف نے ٹھنڈے دل سے ان بزرگوں کی باتیں سنیں اور کہا کہ میرے رفیقو ! کسی پر الزام لگانا اچھا نہیں ہے میں نے تمھاری باتیں سن لی ہیں ۔ ابوذر معمولی آدمی نہیں بلکہ وہ قبیلہ کی بلند شخصیت ہے ۔میں انھیں بلاکر ان سے باتیں کرتا ہوں تاکہ صحیح نتیجہ اخذ کرسکوں ۔چنانچہ حضرت ابوذر کو بلایا گیاآپ نے اشراف قبیلہ کی موجودگی میں خفاف کے سامنے انتہائی مدلل تقریر فرمائی جس کے اثر میں خفاف مسلمان ہوگئے ،سردار قبیلہ کے مسلمان ہوتے ہی سارے قبیلہ کی کایا پلٹ گئی اور اکثریت نے کلمہ پڑھ لیا ۔جناب ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی سعی جمیلہ وبلیغہ سے قبیلہ غفاری کی غالب اکثریت مسلمان ہوگئی اور نعرہ تکبیر کی آوازوں سے ساری فضا گونج اٹھی۔
جناب ابوذر قبیلہ غفاری میں اسلام کی شمع روشن کرنے کے بعد عسقان کی طرف متوجہ ہوئے کیونکہ یہ جگہ قریش کی گزرگاہ تھی اور آپ
ابھی قریشیوں کے لگائے ہوئے زخموں کو بھول نہ سکے تھے لہذا وہ عموما قریش کی گھات میں رہتے تھے اور جو قریشی گروہ ادھر سے گذرتا آپ اسلام کو پیش کرتے یہاں تک کہ بہت سے قریشی آپ کے دست حق پرست پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ادھر مدینہ کے دوبڑے قبیلے اوس وخزرج اسلام لے آئے ۔حضرت ابوذر کو زیارت رسول (ص) کی تشنگی اکثر محسوس ہوتی تھی او رآپ گن گن کردن گزاررہے تھے کہ کب ہجرت کاوقت آئے اور میں مدینہ جاکر قدم بوسی کروں ۔جب مدینہ میں اسلام کی روشنی کی خبر معلوم ہوئی تو آمادہ سفر ہوئے راستہ میں رافع بن مالک الزرمی سے ملاقات ہوئی اور ان سے اسلام و بانی اسلام کے حالات پر تبادلہ خیالات کیا ۔الغرض حضور (ص)مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرما ہوئے ۔جب قبیلہ غفاریہ کو یہ خبر ملی تو بہت مسرور ہوئے ۔حضرت ابوذر انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے پر شادماں تھے آپ کی نگاہیں راہوں میں بچھی ہوئی تھیں ۔جب موج سعادت کو محسوس کرکے قلب مشتاق کو اطمینان نصیب ہوا ۔اچانک ایک اونٹ کوآتے دیکھا ۔اہل قبیلہ جناب ابوذر پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے کہ اچانک آپ نے بلند آواز میں پکارا “واللہ وہ رسول اللہ تشریف لےآئے ” بڑی تیزی سے حضرت ابوذر آگے ہوئے اور دوڑ کر اونٹنی کی مہار تھا م لی ۔ قبیلہ غفارکے مردوں عورتوں اور بچوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی نعرہ تکبیر سے فضا گونج اٹھی جضور (ص)اپنے ناقہ سے اترے اور تلاوت قرآن فرما کر وعظ حسنہ فرمایا ۔لوگ حضور کی بیعت کے لئے بڑھے جبکہ جناب ابوذر بڑے فخر یہ انداز میں تبسم بہ لب ایستادہ رہے ۔اہل قبیلہ نے حضور سے عرض کہ ہمیں آپ کے
شاگرد ابوذر نے گمراہی سے نکالا ہے ۔ آنحضرت یہ پرتپاک استقبال ملاحظہ کرکے خوشی سے پھولے نہ سمائے اورہاتھ بلند فرماکر دعا فرمائی کہ اللہ تعالی قبیلہ غفار کو بخشے ۔اس کے قبیلہ اسلم کے لوگ آئے۔چنانچہ حضور نے ان کے حق میں بھی سلامتی کی دعا فرمائی حضور یہاں مختصر قیام کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے اورابوذر وہاں رک گئے جنگ بدر ،احد اور خندق جیسی عظیم لڑائیاں گزر گئیں ۔ایک روز آپ مسجد میں مشغول عبادت تھے کہ ایک شخص کو ایک آیت کی تلاوت کرتے سنا جس میں جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب تھی اس سے اسقدر متاثر ہوئے کہ فورا مدینہ منورہ روانہ ہوکر حضور (ص)کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا ۔ساری رات آپ مسجد نبوی میں بسر کرتے ۔سارادن لوگوں سے ملتے جلتے ۔طعام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کرتے ۔حفظ حدیث پر پوری توجہ فرماتے اور زہد وتقوی سے اپنی مادی زندگی کو مالا مال فرماتے ۔آب وہوا کی تبدیلی کے باعث آپ کی طبیعت ناساز ہوئی ۔حضور نے عیادت فرمائی اور ہدایت کی کہ اس مقام پر بیرون مدینہ رہائش کرو جہاں مویشی چرتے ہیں اور صرف دودھ پیو ۔ حکم رسالت مآب کی تعمیل کی اور آپ تھوڑے دنوں بعد روبصحت ہوگئے صحتیابی کے بعد فریضہ زوجیت اداکیا ۔مگر وہاں غسل کے لئے پانی میسر نہ آیا ابھی تیمم نازل نہ ہوا تھا ادھر نماز کی فکر لگی ہوئی تھی اسی کشمکش میں ناقہ پر بیٹھ کرمدینہ آئے جوں ہی حضور کی نگاہ جناب ابوذر پر بڑی آنحضرت نے اس سے پہلے کہ ابوذر کچھ کہیں خود ہی فرمایا کہ ابوذر گھراؤ نہیں ۔ابھی تمھارے غسل کا انتظام ہوجاتا ہے ۔چنانچہ ایک کنیز پانی لائی اور آپ نے غسل کیا۔بعض مفسر ین نے یہ خیال کیا ہے
کہ یہ واقعہ آیت تیمم کا سبب بنا اور حضور نے ابوذر کو یہ طریقہ تیمم تعلیم فرمایا ۔
حضرت ابوذر کو عبادت کا بہت شوق تھا سارادن اور رات مسجد میں مشغول عبادت رہتے تھے ۔ان کا شیوہ زندگی صرف یہ تھا کہ اللہ اور رسول(ص) کی پیروی اور محمد وآل محمد علیہم السلام سے محبت ۔آپ کچھ تنہا پسند بھی تھے ۔ایک صحابی نے دریافت کیا کہ ابوذر تم زیادہ خاموش کیوں رہتے ہو اور تنہائی تمھمیں کیوں پسند ہے تو آپ نے جواب دیا کہ برے ساتھی سے تنہائی بہتر ہے ۔حافظ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ابوذر زبردست عابد تھے ۔آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اسلام لانے میں چوتھے شخص تھے جو قبول اسلام سے قبل ہی برائیوں سے کنارہ کش تھے ۔ دلیری میں ان کا انفرادی مقام تھا اور حق بات کہنے سے ہرگز کسی خطرہ کی پرواہ نہ کرتے تھے تحصیل علم کا بہت شوق تھا اکثر آنحضرت (ص) سے مختلف قسم کے سوالات دریافت فرماتے رہتے تھے طبیعت مشقت پسند تھی او رذہن محققانہ پایا تھا ۔ علماء کا قول ہے کہ فلسفہ فناو بقا پر آپ نے سب سے پہلا وعظ کیا تھا۔
محبت رسول (ص)کا مثالی واقعہ:-
سنہ 9 ھ میں جنگ تبوک کے موقع پر حضرت ابوذر بھی لشکر اسلام کے ساتھ روانہ ہوئے چونکہ آپ کا اونٹ لاغر تھا لہذا وہ قافلہ سے بہت پیچھے رہ گیاتھا ۔آپ نے بہت کوشش کی کہ قافلہ کو جاپہنچے مگر تین دن کی مسافت سے بھی زیادہ فرق تھا چنانچہ شوق جہاد میں آپ ناقہ سے نیچے اتر آئے سارا ساماں اپنی پشت پر لاد کر پیدل سفر شروع کیا شدید گرمی کا موسم اور پیاس کی شدت کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے آپ
پا پیا دہ عالم تشنگی میں مصروف سفر رہے کہ پیاس نے بے حال کیا ادھر ادھر پانی کی تلاش کی بڑی مشکل سے ایک گڑھا ملا جس میں بارش کا پانی جمع تھا جیسے ہی پانی کا چلو منہ کے قریب لائے نبی کریم کاخیال آیا دل میں سوچا کہ رسول(ص) پہلے پانی نہیں پینا چاہیئے ۔بس ایک لوٹا بھرا اور پھر سفر شروع کردیا ۔جیسے ہی آپ تبوک کی سرحد پر پہنچے تو مسلمانوں کی نگاہ آپ پرپڑی مگر آپ کو پہچان نہ سکے حضور (ص) کی خدمت میں ایک پریشان حال مسافر کی آمد کی خبر دی ۔حضور نے اطلاع پاتے ہی فرمایا کہ وہ میرا ابوذر ہے ۔بھاگ کرجاؤ وہ پیاسے ہیں ان کے لئے پانی لے جاؤ ۔اصحاب مشکیزہ آب لے کر پہنچے اور ابوذر کو سیراب کیا اور حضور کے پاس لے آئے ۔آپ نے مزاج پرسی فرمائی اور پوچھا اے ابوذر تمھارے پاس پانی تو ہے پھر تو پیاسا کیوں رہا ؟ ابوذر نے عرض کیا یا رسول اللہ پانی تو ہے مگر میں اسے پی نہیں سکتا تھا کیوں کہ یہ پانی میں نے راستہ میں ایک پتھر کے دامن میں پالیا تھا جو بہت ٹھنڈا تھا ۔لیکن میرے دل نے یہ گوارہ نہ کیا کہ اسے میں آپ (ص) سے پہلے خود پی لوں ۔میں یہ آب خنک آپ کے لئے لایا ہوں ۔جب آپ (ص)نوش فرمائیں گے تب میں اس کو منہ لگاؤں گا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سنکر ارشاد فرمایا “اے ابوذر !خدا تم پر رحم کرے گا ۔تم تنہا زندگی کروگے ۔تنہا دنیا سے اٹھو گے ۔تنہا مبعوث ہوگے ۔تنہا جنت میں داخل ہوگے اور اہل عراق کا ایک گروہ تمھارے سبب سے سعادت حاصل کرے گا ۔یعنی وہ تمھیں غسل دے گا ۔کفن پہنائے گا اور تم پر نماز پڑے گا”۔
اس واقعہ سے جہاں جناب ابوذر رضی اللہ عنہ کی بے مثال محبت رسول(ص) کا پتہ چلتا ہے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضور (ص) نے جناب ابوذر(رض) کو آیندہ کے احوال سے باخبر کردیاتھا۔
بشارت جنت:-
حضرت ابوذر(رض) کا شمار ان اصحاب مبشرہ میں ہے جنکو اس دنیا میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت دے دی ۔مروی ہے کہ ایک دن آنحضرت (ص) مسجد قبا میں تشریف فرماتھے اور آپ کےگرد بہت سے اصحاب حلقہ باندھے بیٹھے تھے ۔آپ نے فرمایا کہ جو شخص سب سے پہلے اس مسجد کے دروازہ سے داخل مسجد ہوگا وہ اہل بہشت سے ہوگا ۔یہ سنکر چند اصحاب آپ (ص) کے پاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ داخل مسجد ہونے میں سبقت کریں ۔ اصحاب کے اس عمل پر حضور(ص) نے فرمایا کہ اب بہت سے لوگ داخل ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت کریں گے اور مسجد میں داخل ہوں گے ان میں سے جو کوئی مجھے “ماہ ذر” کے ختم ہوجانے سے مطلع کرے وہ اہل بہشت سے ہوگا ۔تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ داخل مسجد ہوئے آپ (ص) نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ یہ بتاؤ یہ مہینہ رومی مہینوں میں سے کونسا ہے ۔ان لوگوں میں حضرت ابوذر بھی تھے جو تنہا باہر سے آنے والوں میں صحیح آنے والے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سوال پر تمام لوگ لاجواب رہے لیکن حضرت ابوذر نے کہا کہ مولا ماہ آذر (چیت)ختم ہوچکا ہے ۔آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے لیکن میں یہ ظاہر کرنے کے لئے تم سے سوال کیا ہے کہ لوگ سمجھ لیں کہ تم اہل بہشت سے ہو ۔
ابے ابوذر(رض) تم کو میرے اہل بیت علیھم السلام کی دوستی میں حرم سے نکا لا جائے گا ۔تم عالم غربت میں زندگی بسر کروگے اور عالم تنہائی میں دنیا سے اٹھوگے تمہاری تجہیز وتکفین کی وجہ اہل عراق کا ایک گروہ سعادت حاصل کرے گا اور اہل بہشت میں میرے ہمراہ ہوگا ۔
محافظ شیر:-
تفسیر امام حسن العسکری علیہ السلام میں ہے کہ حضرت ابوذر (رض) خاصان خدا اور مقرّبین اصحاب رسول(ص) سے تھے ایک دن خدمت رسول(ص) میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (ص) میرے پاس ساٹھ گوسفند ہیں جن کی مجھے حفاظت کرنی پڑی ہے مگر میرادل یہ گوارہ نہیں کرتا کہ میرے یہ لمحات صحبت رسول (ص) سے خالی رہیں ۔حضور نے فرمایا ابوذر تم واپس اپنے مقام پر جاکر ان گوسفندوں کا بندوبست کرو۔حکم رسول(ص) ملتے ہی واپس آئے ۔ایک روز مشغول نماز تھے کہ ایک بھیڑیا آگیا دل میں سوچا کہ نماز تمام کرلوں یا اپنے جانوروں کی حفاظت کروں خیال میں فیصلہ کیا ک گوسفند جاتے ہیں تو جاتے رہیں نماز تو پوری کرلو ۔مگر ساتھ ہی شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ اگر بھیڑئیے نے سارے جانور ہلاک کردئیے تو پھر کیا بنے گا مگر فورا ہی جذبہ ایمان بولا کہ خداکی توحید ،محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور علی علیہ السلام کی ولایت جیسی دولت جس کے پاس ہو اس کو اور کیاچاہیئے ۔ گوسفند جاتے ہیں تو جاتے رہیں ۔ نماز کیوں جائے ۔لہذا صمیم قلبی سے نماز میں مشغول رہے ،بھیڑیا آیا اور اس نے پہلا حملہ کیا کہ ایک بچہ لے چلا ۔ابھی وہ چند قدم ہی گیا ہوگا کہ ایک شیر نمودار ہوا اور اس نے بھیڑئیے کو ہلاک کردیا اور گوسفند کے بچے کو اس سے چھین کر گلہ میں پہنچادیا ۔ ت=پھرامر ربی سےگویا ہوا ۔
“ابے ابوذر(رض) !تم اپنی نماز میں مشغول رہو ۔حق تعالی نے مجھے
تمھارے گوسفندوں پر مؤکل کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ جب تک تم نماز سے فارغ نہ ہوجاؤ میں تمہارے گوسفندوں کی حفاظت کرتا رہوں “۔
پس جناب ابوذر(رض) نے کمال آداب وشرائط سے نماز قائم کی جب نماز سے فراغت پائی تو شیر حضرت ابوذر(رض) کے قریب آیا اور اس نے پیغام دیا کہ اے ابوذر (رض) بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوکر اطلاع کردو کہ اللہ نے ان کے صحابی کے لئے اس کے گوسفندوں کی حفاظت پر شیر کو مقرر کردیا ہے ۔جناب ابوذر خدمت رسول (ص) میں آئے اور یہ واقعہ سنایا حضور(ص) نے یہ سنکر ارشاد فرمایا کہ اے ابوذر(رض) تم بالکل سچ کہتے ہو ۔میں (محمد)صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،علی علیہ السلام،فاطمہ سلام اللہ علیہا ، حسن اور حسین علیھما السلام تمھاری تصدیق کرتے ہیں اس کے بعد ابوذر (رض) واپس ہوئے ۔
اس واقعہ کے بعد کچھ کج عقیدہ اور ناقص الایمان لوگوں کو اعتبار نہ آیا آپس میں چہ مے گوئیاں شروع کردیں کچھ نے امتحان کی ٹھان لی ۔ایک دن چپکے سے اس جگہ آپہنچے جہاں ابوذر(رض) اپنے جانوروں کو چرا رہے تھے چنانچہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نماز کے وقت شیر ان گوسفندوں کی حفاظت کرتا تھا اور اگر کوئی جانور گلہ سے جدا ہوتا تو وہ شیر اسے اندر داخل کرلیتا جب حضرت ابوذر(رض) نماز ختم کرچکے تو شیر نے مخاطب ہوکر کہا کہ اپنے جانور پورے کرلو میں نے ان کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کی ہے ۔اس کے بعد وہ شیر ان چھپے ہوئے منافقوں سے متوجہ ہو کر بولا ۔
“اے گروہ منافقین! کیاتم اس امر سے انکار کرتے ہو کہ خدا نے مجھے اس شخص کے گوسفندوں کے لئے مؤکل فرمایا ہے جو حضرت
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل علیھم السلام کا دوست ہے اور تقرب خداوندی کے لئے ان ہی بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈتا ہے میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس نے محمد اور آل محمد علیھم السلام کو گرامی کیا ہے کہ خداوند قدیر نے مجھے ابوذر کا تابع فرمان اور مطیع قرار دیا ہے ۔خبرداررہو اگر ابوذر(رض) اس وقت مجھے حکم دیں کہ میں تم سب کو ہلاک کردوں تو میں بالتحقیق تم لوگوں کو بلا تاخیر پھاڑ کھاؤں ”
یہ منظر دیکھ کر ان لوگوں کی جان حلق میں اٹک گئی مگر شیر غائب ہوگیا اور یہ اپنا سامنہ لے کر واپس ہوئے جب پھر ابوذر (رض) بارگاہ رسول میں حاضر ہوئے تو سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
“اے ابوذر (رض)! تم نے اپنے خالق کی اطاعت کے سبب یہ شرف حاصل کرلیا ہے کہ جنگل کے جانور تک تمھارے مطیع کردئیے گئے ہیں ۔ بے شک تم نے اپنے خالق کی اطاعت کے سبب یہ شرف حاصل کرلیا ہے کہ جنگل کے جانور تک تمھارے مطیع کردئیے گئے ہیں ۔بے شک تم ان بندوں میں بڑا مقام رکھتے ہو جن کی تعریف قرآن مجید میں نماز کے قائم رکھنے کے متعلق کی گئی ہے “۔(حیات القلوب )
اسلامی اخلاق وعادات:-
عقل کو اسلام سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے ۔حضرت ابوذر چونکہ مردعاقل تھے لہذا ان کی غیر اسلامی زندگی میں بھی اسلام کی مخالفت نظر نہیں آئی جب وہ پرچم اسلام تلے آگئے تو ایسا معلوم ہوا کہ ما لا کا ایک کھویا ہو ا موتی دوبارہ زینت بننے کے لئے مل گیا ۔تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابو ذر(رض) اسلام لانے کے بعد نکھرتے چلے گئے ہیں ۔ پاکیزگی نفس ،خالص عقیدت،مخلص ایمان ،یقین محکم اور حسن وکمال سیرت کاجو مظاہرہ اس صحابی رسول (ص) کی زندگی کے مطالعہ سے ہوتا ہے وہ ممتاز حیثیت رکھتا ہے آپ کی سیرت بابصیرت ہرطبقہ کے لئے مشعل راہ ہے ظہور اسلام کےبعد
انھوں نے لوگوں کو مواعظ ونصائح سے سیراب فرمایا ۔اخوت ومحبت اور حقیقی مساوات کا سبق سکھایا ۔اطاعت خدا ورسول(ص)اور اولی الامر کا راستہ واضح فرمایا ۔اور عقل سلیم کے فلسفہ کو مبرہن طریقوں سے پیش کیا ۔ زہد کا یہ عالم تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
شبیہ عیسی (ع):-
“ابو ذر (رض) میری امت میں حضرت عیسی علیہ السلام کی زہد میں مثال ہیں ” اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ “جو چاہے کہ عیسی علیہ السلام کو زہد وتواضع کو دیکھتے تو وہ ابوذر (رض) کی طرف نگاہ کرے”(ابوذر غفاری ص 57)۔
حضرت ابوذر (رض)فرمایا کرتے تھے کہ دنیا سے سخت بیزار ہوں اور دوٹکڑے روٹی اوردو ٹکڑے کپڑا کے علاوہ کچھ نہیں جانتا روٹی کے ٹکڑے صبح وشام کھانے کے لئے اور کپڑے کے ٹکڑے گردن اور کمر پر باندھنے کے لئے یہ بات آپ (رض) کے زہد کی منزل روشناس کراتی ہے ۔
مورخین اور محدثین کو اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ حضرت ابوذر علم کے عظیم مدارج پر فائز تھے ۔آپ فرماتے ہیں کہ رسول علیم (ص) نے میرا سینہ علم سےبھرا ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ اگر آسمان میں کوئی فرشتہ بھی حرکت کرتا تھا تو اس کے متعلق حضور (ص) سے کچھ معلومات حاصل کرلیتا تھا ۔
سید مناظر گیلانی لکھتے ہیں “حیدر کرار علیہ السلام ،افضی الصحابہ وباب العلم کی اس شہادت کو پڑو اور خود غور کرو کہ اگر انھوں نے ایسا فرمایا تو کیا غلط فرمایا ۔فرماتے ہیں ابوذر(رض) سخت حریص اور لالچی تھے ۔لا لچی دین کی پیروی
کرنے میں اور اس کی باتوں پر عمل کرنے میں اور حریص علم حاصل کرنے میں تھے ۔بہت زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کرتے تھے ۔پھر انھیں کبھی جواب دیا گیا اور کبھی نہیں اس پر بھی ان کا پیمانہ بھر حتی کہ لبریز ہوگیا”
مولا علی باب مدینۃ العلم کی یہ گواہی حضرت ابوذر(رض) کے تبحر علمی کے لئے بہت کافی ہے اور جناب ابوذر(رض) کبھی کبھار جوش میں آکر کہہ جایا کرتے تھے جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ۔
“ہم رسول اللہ (ص) اللہ سے اس وقت بچھڑے ہیں کہ فضاء آسمانی میں بازوہلا کراڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں رہ گیا تھا کہ ہمیں اس کے متعلق کوئی خاص بات معلوم نہ ہوئی ہو۔”
حضرت ابوذر(رض)اول درجہ کے محدث تھے فصاحت وبلاغت پر دسترس کامل رکھتے تھے متقی مسلمان کا صحیح نمونہ تھے ۔اسی لیئے لوگوں کے قبلہ بن گئے تھے ۔ایک روز مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور احادیث نبوی کی تعلیم دے تھے کہ ایک شخص نے کہا “کاش ! میں نبی کی زیارت کرتا “ابوذر(رض) نے فرمایا حدیث پیغمبر (ص) ہے کہ میری امت میں سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور کہیں گے کاش! ہم رسول اللہ کو دیکھتے چاہے ان کی اولاد اور مال چھن جائے ۔”
حضرت ابوذر اخلاق کے اعلی منازل ومدارج پر فائز تھے ۔ آپ پر صحبت پیغمبر کا نمایاں رنگ چڑھ چکا تھا اسوہ حسنہ کا جلوہ نظر آتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کردار میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس پر انگشت اعتراض اٹھائی جا سکے ۔آپ کی پوریزندگی اخلاق کی بے نظریر مثال ہے ۔حضرت ابوذر تعلیم اخلاق کے مبلغ تھے اور فرماتے تھے کہ حضور (ص) اس سلسلہ میں سات باتوں کی ہدایت فرمائی ہے ۔
1:-فقراء ومساکین کو دوست رکھنا اور انھیں اپنے قریب رکھنے کی کوشش کرنا ۔
2:- اپنے حالات کو سنوارنے کے لئے اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں پر نظر رکھنا اور اپنے سے بڑی حیثیت کے لوگوں کی طرف توجہ نہ کرنا ۔
3:-کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا اور قناعت کو اپنا شعار قراردینا ۔
4:- صلہ رحم کرنا یعنی اپنے اقرباء کے ساتھ پوری ہمدری کرنا ۔اور ان کے آڑے وقت ان کے کام آنا ۔
5:- حق بات کہنے میں کوئی باک نہ کرنا چاہئیے ساری دنیا دشمن ہوجائے ۔
6:- خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا ۔
7:- ہمیشہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ کاورد کرتے رہنا ۔(مسند احمد بن حنبل)
حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضور نے میرے سینہ پر ہاتھ مارکر فرمایا ۔
“اے ابوذر !تد بیر سے بہتر کوئی عقل(سائنس ) نہیں اور اپنے نفس پر قابو پانے سے بہتر کوئی پرہیز گاری نہیں اور حسن اخلاق سے بہتر دنیا میں کوئی حسن نہیں “
جب ہم حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات پاک کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے آپ اکثر مساکین وفقراء کو سینے سے لگائے رہتے تھے ۔آپ ان خوش نصیب صحابہ رسول میں سے تھے جن کے رگ وریشہ میں بوئے اسوہ حسنہ سمائی ہوئی تھی ۔آپ فرمایا کرتے تھے مجھےمیرے رسول(ص) کا حکم ہے کہ جو تم کھاتے ہو وہی اپنے غلاموں اوراپنی لونڈیوں کو کھلاؤ ۔اور جو خود پہنو وہی ان کو بھی پہناؤ ۔چنانچہ آپ (رض) نے اس حکم رسول(ص) کےتعمیل میں کوئی کوتاہی نہ برتی ۔ایک مرتبہ کاذکر ہے آپ اپنے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے راستہ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی اس نے دیکھا کہ جس طرح کالباس حضرت ابوذر(رض) نے زیب تن فرمایا ہے وہی لباس ان کے غلام نے بھی پہن رکھا ہے وہ شخص معترض ہوا۔ آقا وغلام کا ایک لباس ہے آپ نے جواب دیا کہ مجھے میرے مرشد ونبی (ص) کا یہی امر ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خلاف حکم پیغمبر (ص) خود کچھ پہنوں اور اپنے غلام کو کچھ اور پہناؤں ۔
آپ کا طرز بود وباش اور ظاہری وضع قظع بالکل سادہ تھی لباس وپوشاک میں زرق برق ملبوسات پسند نہ کرتے تھے ۔طہارت کا خیال ضرور فرمایا کرتے تھے مگر قطعا پوشاک کی پرواہ نہ کرتے تھے اکثر بال الجھے رہا کرتے تھے ۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ احباب نے زبر دستی نہلا دھلا کر گنگھی وغیرہ کی آ پ کا بستر ایک معمولی چٹائی تھا ۔ الغرض آپ کی زندگی کا معیار رہن سہن بالکل ایک عام شریف النفس انسان کی طرح تھا ۔
حضرت ابوذر (رض) باوجودیکہ سادہ طرز زندگی پر عامل تھے مگر وہ رہبانیت کے قائل ہرگز نہ تھے ۔آپ نے سنت رسول(ص) کی پیروی میں شادی بھی فرمائی آپ نے تمام حقوق زوجیت کا لحاظ کما حقہ رکھا ۔آپ کی زوجہ کا رنگ سیاہی مائل تھا اور لوگ کبھی کبھار یہ طعنہ بھی دیتے تھے مگر آپ (رض) نے اسی بیوی کو اپنا ملکہ خانہ قرار دیا ۔آپ اپنی بیوی کا کافی خیال رکھتے تھے ۔اسی طرح مہمان نوازی اور تواضع داری حضرت ابوذر کی نمایاں صفات تھیں ۔
صدق ابوذر:-
جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے اور سچائی وہ صفت اعلی ہے جس پر بڑی سے بڑی شخصیت بھی ثابت نہیں رہی لیکن جناب ابوذر رحمۃ اللہ علیہ کے لئے خصوصی صفت کے واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نص فرمائی ۔چنانچہ رسول (ص) صادق نے صدق ابوذر کی ضمانت یوں ارشاد فرمائی ۔
“سایہ آسمان تلے اور زمین کے فرش کے اوپر ابوذر سے زیادہ سچ بولنے والا کوئی نہیں “(ازالۃ الخفاء جلد 1 ص 282 شاہ ولی اللہ دہلوی)
حضرت ابوذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معتمد اصحاب میں تھے چنانچہ حضور (ص) نے غزوہ ذات الرقاع میں آپ کو مدینہ منورہ میں قائم مقام فرمایا ۔اسی طرح حضرت ابوذر (رض) کو ردیف النبی (کسی سواوی پر پیچھے بیٹھنا اور آگے سے کمر تھام کر بیٹھنا۔) ہونے کا بھی شرف اکثر مرتبہ نصیب ہوا ۔اسی طرح حضرت ابوذر (رض) پر حضور کا پورا پورا اعتماد تھا کہ کئی راز آپ (ص) نے حضرت ابوذر (رض) کو بتا دئیے تھے ۔حضرت ابوذر ان خوش قسمت اصحاب میں ہیں جن کو دفن رسول (ص) میں شرکت کا شرف حاصل ہوا ۔
رحلت پیغمبر کےبعد حضرت ابوذر (رض) کبھی حکومتی محلوں کو وقعت نہ دی بلکہ ہمیشہ خانہ مرکز ہدایت ومعدن نبوت اہل بیت اطہار کا طوف کرتے رہے ۔اسی ناکردہ گناہ کی سزا میں عموما ضیق یافتہ رہتے ۔
جب سقیفہ کی سازش کاظہور ہوا اور مسلمانوں میں دھینگا مشتی چلی تو اس شیر دل بزرگ نے مسجد النبی میں ایک دلیرانہ تقریر فرمائی ۔
“اے گروہ قریش ! تم کس غفلت میں پڑے ہو؟ تم نے رسول (ص) کی قرابت کی یکسر نظر انداز کردیا ۔خدا کی قسم عرب کی ایک جماعت مرتد ہوگئی ہے اور دین میں شکوک کے رخنے ڈالنے دیئے ہیں ۔ سنو! امر خلافت اہل بیت کا حق ہے ۔یہ جھگڑا فساد اچھا نہیں ہے ۔تمہیں کیا ہوگیا ہے ۔اہل کو نا اہل قرار دیتے ہو اور نا اہل کو سرپر اٹھاتے ہو۔ خدا کی قسم تم سب کو معلوم ہے کہ رسول خدا (ص) نے بار بار فرمایا ہے کہ خلافت وامارت میرے بعد علی (ع) کے لئے پھر حسن اور حسین علیھما السلام پھرمیری پاک اولاد اس کی مالک ہوگی ۔تم نے قول رسول (ص) او رخدا کے حکم کو نظر انداز کردیا تم اس عہد اور حکم کو بھول گئے جو تم پر عائد کیاگیا تھا تم نے فانی دنیا کی اطاعت کرلی اور آخرت کو فروخت کردیا جو باقی رہنے والی ہے اور جس میں جوان بوڑھے نہ ہونگے اور جس کی نعمتیں زائل نہ ہوں گی جس کے رہنے والوں پر رنج وغم طاری نہ ہوگا ۔جس کے مکینوں پر ملک الموت کا زور نہ ہوگا ۔ ایسی قیمتی چیز کو تم نے فانی دنیا کے عوض بیچ دیا یہ تو تم لوگوں نے ایسا ہی کیا جس طرح پہلی امتوں نے کیا ۔انھوں نے یہ کیا تھا کہ جب ان کا نبی انتقال کر گیا تو انھوں نے بیعت توڑ دی اور رجعت قہقری کرگئے ۔انھوں نے معاہدے ختم کردیئے اور احکام بدل دیئے ۔اور دین کو مسخ کردیا ۔ تم نے ان سے فسادات کا پورا ثبوت دیا ۔اے گروہ قریش ! تم بہت جلد اپنی کرتوت کا بدلا
پاؤگے اور تمھیں اپنی بدکاری کا نتیجہ مل جائے گا ۔وہ چیز تمھارے سامنے آجائے گی جو تم نے اپنے کردار بھیج دی ہے ۔خبر دارہو! جو بھی ہوگا درست ہوگا کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا “(ابوذر الغفاری ص113)
یہ تقریر اس موقعہ پر کی گئی ہے جب حکومت کی تلوار سروں پر لٹک رہی تھی اور لوگوں کی زبانیں بند کرادی گئی تھیں ایسے خطرناک حالات میں صدیق امت حضرت ابوذر غفاری کا یہ عظیم الشان خطبہ ان کی بے مثال جراءت وحق گوئی کاآئینہ دار ہے ۔حضرت ابوذر کے مقدّر کا ستارہ اس قدر روشن تھا کہ خاندان ر سول میں ان کی ہراہم موقعہ پر ضرورت محسوس کی جاتی تھی چنانچہ جب سیدہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا وصال ہوا تو غسل سے فراغت پانے کے بعد حضرت امیر علیہ السلام نے امام حسن کو حضرت ابوذر (ص)کو بلا نے بھیجا چنانچہ آپ تشریف لائے اور صدیقہ العالمین کی نماز جنازہ میں اس صدیق امت نے شرکت کا شرف پایا ۔حضرت ابوذر کے لئے طبعا یہ مشکل تھا کہ حق گوئی سے زبان بند رکھیں چنانچہ وہ دور حضرت ابوبکر میں اکثر آل رسول (ص)کی حمایت میں تقریر فرماتے رہتے اور روضہ اقدس کی مجاورت میں رہتے باوجود یکہ ان کی سرگرمیاں حکومت وقت کو گوارہ نہ تھیں مگر انھوں نے مصلحت کے تحت اپنا رویہ بزم رکھا البتہ خفیہ طور آپ کو مجنون ومجذوب مشہور کرنے کی کوشش کی تاکہ لوگ ان کی باتوں کو وقعت نہ دیں ۔ حضور اکرم (ص) نے اپنی حیات طیّبہ میں حضرت ابوذر کوایک نصیحت فرمادی تھی جس کی صحیح مصلحت اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں کہ “جب کوہ سلع تک شہر کی آبادی بڑھ جائے تو اے ابوذر تم شام کی طرف چلے جانا “۔
چنانچہ جب حضرت عمر کے زمانہ میں فتوحات کا اضافہ ہوا تو اس حکم رسول کی تعمیل میں حضرت ابوذر نے شام کی طرف کوچ فرمایا اور دس سال کا عرصہ مدینہ سے باہر گزار ا۔جب حضرت عثمان حاکم ہوئے تو پھر آپ واپس مدینہ آگئے ۔حضرت عثمان کے دور حکومت میں بنی امیہ نے قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا جناب ابوذر کو حکومت کی اس دھاندلی سے اختلاف ہوا ۔لہذا انھوں نے حکومت کی اس پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کی پس حضرت عثمان نے ان پر سخت پابندیاں عائد کردیں ۔لیکن ان پابندیوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے لہذا فیصلہ کیاگیا کہ آپ کو جلا وطن کردیا جائے پس ان کو زبر دستی شام بھیج دیاگیا ۔شام میں آکر حضرت ابوذر (رض)کو معاویہ سے واسطہ پڑا ۔یعنی آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا ۔ابوذر کے وعظ معاویہ کے لئے دردسربن گئے ۔لہذا اس نے ابوذر (رض)کو قتل کی دہمکی دی ۔جب جناب ابوذر کویہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا ۔
“امیّہ کی اولاد مجھے فقر و قتل کی دہمکی دیتی ہے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ فقیری مجھے تونگری سے زیادہ مر‏غوب ہے اور زمین کے اندر ہونا مجھے زمین کے باہر ہونے سے زیادہ پسند ہے ۔نہ میں قتل کی دہمکی سے مرعوب ہوتا ہوں اور نہ مرنے سے ڈرتا ہوں “۔(ابوذر الغفاری ص 122)
چنانچہ حضرت ابوذر حقیقی اسلامی نظام اقتصادیات کاپرچار
کرتے رہے ۔معاویہ نے عاجز آکر حضرت ابوذر (رض) کو خریدنے کی کوشش کی اور تین سودینار سرخ کی ایک تھیلی ایک ملازم کے ہاتھ روانہ کی مگر حضرت نے اسے ٹھکرادیا ۔حضرت ابوذر (رض) کے پاس دوہی موضوع سخن تھے ۔اسلام کی معاشی پالیسی ۔اور مؤدہ آل محمد علیھم السلام ۔چنانچہ ان ہی دومضامین پر آپ مسلسل لوگوں میں تبلیغ کرتے رہے ۔جس کے نتیجہ میں ہر طرف سے ابوذر کو مصائب نے گھیر ڈال دیا ۔معاویہ کی حکومت کے ہاتھوں بڑی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں ۔مگر انھوں نے تمام آلام کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا آپ کے پائے استقلال میں ہرگز لغزش نہ آئی اس پر حکومت نے اپنے متشددانہ رویہ میں زیادتی کرنا شروع کردی ۔اور اعلان عام کروا دیا کہ ابوذر کی مجلس میں کوئی شخص شرکت نہ کرے ۔لیکن لوگ پھر بھی آپ کی صحبت کا شرف پانے آتے حضرت منع فرماتے اس خیال سے کہ کہیں یہ بیچارے حکومت سے مستوجب سزانہ ہوں ۔مگر لوگ آپ کی تقریر یں جوش وشوق سے سنتے ۔معاویہ نے حضرت عثمان کو شکایت ک اور حضرت ابوذر (رض) کو قید کرلیا ۔چنانچہ حضرت عثمان نے انھیں واپس مدینہ بلا لیا او رمعاویہ کویہ خط لکھا ۔
“تیرا خط ملا ۔ابوذر کی بابت جو کچھ لکھا ہے معلوم ہوا۔اجس وقت تیرے پاس یہ حکم پہنچے اسی وقت ابوذر کو ایک بد رفتار اونٹ پر سوار کراکے اور کسی درشت مزاج رہبر کو اس کے ساتھ روانہ کرو جو رات دن اونٹ کو بھگا تا لائے کہ ابوذر (رض) پر ایسی نیند غلبہ کرے جس سے وہ میرا اور تیرادونوں کا ذکر کرنا بھول جائے اسے مدینہ بھیج دے “۔(ابوذر الغفاری ص265)
حضرت عثمان کا خط ملتے ہی معاویہ نے حضرت ابوذر (رض)کو بلا یا اور ان کو گھر تک بھی جانے کی اجازت نہ دی اور تن تنہا پانچ حبشی بد خو اور درشت مزاج غلاموں کے ہمراہ ایک بد رفتار اونٹ کی ننگی پشت پر سوار کرکے روانہ کردیا جناب ابوذر اس وقت ضعیف العمر تھے ۔اور کافی کمزور تھے یہ تکلیف ان کے لئۓ اذیت ناک ثابت ہوئی اس سفر کے دوران آپ کی رانوں کا گوشت چھل چھل کر جدا ہوگیا اس سفر کی صعوبتیں بھی حضرت ابوذر کو حق گوئی سے باز نہ رکھ سکیں چنانچہ آپ راستہ میں جہاں بھی موقعہ ہاتھ لگتا حکومت کی غلط پالیسیوں پر اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہے ۔بیرون شہر دیر مران کے مقام پر لوگوں کا اجتماع ہوا جو آپ کو الوداع کہنے آئے یہاں بعد از نماز باجماعت آپ نے ایک معرکۃ الآراء خطبہ ارشاد فرمایا ۔
خطبہ دیرمران:-
“ایھاالناس”!تم کو ایسی چیز کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارے لئے نافع ہو بعد اس کے فرمایا کہ خداوند عالم کا شکر ادا کرو سبھوں نے کہا الحمدللہ پھر آپ نے خدا وحدانیت اور حضرت رسول (ص)کی رسالت کی گواہی دی اور سبھوں نے ان کی موافقت کی پھر فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت میں زندہ ہونا اور بہشت ودوزخ ہے ۔اور جوکچھ حضرت رسول خدا حق تعالی کی طرف سے لائے قرار دیتا ہوں سبھوں نے کہا تم نے جو کچھ کہا اس کے ہم لوگ گواہ ہیں ۔اس کے بعد فرمایا تم میں سے بھی جو کوئی اس اعتقاد پر دنیا سے اٹھے گا اس کو خدا کی رحمت اور کرامت کی بشارت دی
جائے گی ۔بشرطیکہ گناہگاروں کا معین اور ظالموں کے اعمال کا موید اور ستم گاروں کا یار ومددگار نہ ہوگا ۔اے گروہ مردم ! اپنے نماز روزہ کے ساتھ محض خدا کے لئےغضب وغصہ کرنے کوبھی شامل کرو جبکہ دیکھو کہ زمین پر لوگ خدا کی معصیت کرتے ہیں اور ان چیزوں کے سبب اپنے پیشواؤں کو راضی نہ رکھو جو کہ غضب خدا باعث ہوتے ہیں اور اگر وہ لوگ دین خدا میں ایسی چیزیں ظاہر کریں جن کی حقیقت تم لوگ نہ جانتے ہو تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ ۔اور ان کے عیبوں کو بیان کرو ۔اگر چہ وہ(ظالم)لوگ تم پر عذاب کریں اور اپنی بارگاہ سے نکال دیں او اپنی عطا سے محروم رکھیں اور تم کو شہروں سے خارج کردیں اور اپنی عطا سے محروم رکھیں اور تم کو شہروں سے خارج کردیں تاکہ حق تعالی تم سے راضی اور خوشنود ہو ۔بہ تحقیق کہ حق تعالی سب سے زیادہ جلیل وبلند مرتبہ ہے اور یہ امر سزاوار نہیں کہ مخلوقات کی رضا مندی کے لئے کوئی شخص اس کو غضب میں لائے خدا مجھے اور تمھیں بخش دے۔ اب میں تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تم پر خدا کا سلام اور اس کی رحمت ہو”(حیات القلوب)
اس خطبہ کا حاظرین پر یہ اثر ہوا کہ لوگوں نے جوش وخروش میں کہا کہ اے ابوذر ! اے مصاحب رسول خدا(ص) حق تعالی آپ کو بھی سلامت رکھے اور آپ پر بھی رحمت نازل کرے ۔کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہم آپ کو پھر اپنے شہر لے چلیں اور آپ کے دشمنوں کے مقابلے میں آپ کی حمایت کریں ۔جناب ابوذر نے ان کو تلقین صبر
فرمائی اور ارشاد کیا کہ اللہ تم پر رحمت کرے اب واپس جاؤ میں تم سے زیادہ بلاؤں میں کرنے والا ہوں تم لوگ ہرگز فکر مندنہ ہونا اور اپنے درمیان اختلاف نہ کرنا ۔
المختص حضرت ابوذر (رض)سفر کی اذیت سے مجروح ،تھکن سے چوربال حال پریشان مدینہ پہنچے اور دربارحکومت میں حاکم وقت حضرت عثمان بن عفان کے روبرو پیش کردیئے گئے ۔حضرت عثمان نے صحابیت کے تمام اعزازات ومراعات کو یک قلم نظر انداز کرتے ہوئے حضرت ابوذر(رض) پر نگاہ غضب اٹھاتے ہوئے آپ کو سخت برا بھلا کہا یہ منظر طبقات ابن سعد سے ملاحظہ فرمائیے ۔
حضرت عثمان :- تو ہی وہ ہے جس نے ایسی حرکات کی ہیں۔
جناب ابوذر(رض):-میں نے تو کچھ نہیں کیا مگر یہ کہ تمھیں نصیحت کی تم نے اس نصیحت کا بر ا مانا اور مجھے اپنے سے دور کردیا ۔پھر میں نے معاویہ کو نصیحت کی اس نے بھی برا مانا اور مجھے نکال دیا۔
عثمان:- تو جھوٹا ہے تیرے دل میں فتنہ کود رہا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اہل شام میرے خلاف برانگیختہ ہوجائیں ۔
ابوذر(رض):-اے عثمان ! اگر تو سنت کا اتباع کرے تو تجھے کوئی بھی کچھ نہ کہہ سکے گا ۔
عثمان:- تجھے اس سے کیا واسطہ میں اتباع کروں یا نہ کروں (اس کے بعد نازیبا جملہ ہے )
ابوذر(رض):- (حضرت ابوذر غضبناک ہوکر بد دعا دیتے ہیں )خدا کی قسم تو مجھ پر اس کے سوا اور کوئی الزام عائد نہیں کرسکتا کہ بھلائیوں کا حکم کرتا ہوں اور برائیوں سے روکنے کا پرچار کرتا ہوں ۔
عثمان:- (یہ سن کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں )اے اہل دربار مجھے مشورہ دو کہ میں اس بڈھے جھوٹے کے ساتھ کیا سلوک کروں ۔اس کو کوڑے لگاؤں یا قید کردوں یا اس کا کام تمام کردوں یا پھر وطن بدر کردوں ۔(اس پر جماعت مسلمین میں اختلاف واشتغال رونما ہوا ۔یہ سنکر حضرت علی علیہ السلام جو اس وقت موجود تھے بولے )
حضرت علی علیہ السلام :-اے عثمان! میں تمھیں مومن آل فرعون کی طرح یہ رائے دیتا ہوں تم ابوذر کو اس کے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ اگر یہ (معاذاللہ) جھوٹا ہے تو جھوٹ کا نتیجہ خود پائے گا اور اگر یہ سچا ہے تو اس کا بار تمھاری گردن پر ہوگا ۔خدا اس کی ہدایت نہیں کرتا جو اسراف کرے اور جھوٹا ہو۔
(صاحب طبقات لکھتے ہیں کہ یہ سنکر خلیفہ عثمان اور حضرت علی میں گرما گرمی ہوئی اور بحث میں تلخی وشدت پیدا ہوئی جس کاذکر میں نہیں کرنا چاہتا ۔)
اللہ فقیر ،عثمان غنی :-
بہر حال حضرت علی علیہ السلام کی کوششوں سے حضرت ابوذر (رض) دربار عثمان سے باہر آئے اقتدا کے نشہ میں حاکم کی مدہوشی کا یہ عالم تھا کہ اس کو رسول صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول مبنی بر صدق بھی یاد نہ رہا تھا کہ حضور نے جناب ابوذر (رض) کے لئے ضمانت دی تھی کہ “نیلے آسمان کے نیچے اور روئے زمین کے اوپر ابوذر سے زیادہ سچا کوئی نہیں پیدا ہوگا ۔مگر ابوذر نے بھی مقام غدیر پر مے ولایت کے خم کے خم نوش کر رکھے تھے جس کی مستی کم ہی نہ ہوتی ہے ۔
جوں جوں تشدد کیا جاتا تھا آپ کا نشہ بڑھتا جاتا تھا اور ان کو مصائب جھیلنے میں سرور محسوس ہوتا تھا چنانچہ ایوان حکومت سے باہر آتے ہی گلی گلی علی علی شروع ہوا ۔مدینہ میں ابھی سرمایہ دارانہ ذہینیت ابتدائی مراحل میں پروان چڑھ رہی تھی لہذا محبت اہل بیت علیھم السلام کی عنوان پر تبلیغی سرگرمیاں زور شور سے شروع کردیں اگر کوئی سیٹھ سامنے آگیا تو اس کو بھی ہاتھ آیاشکار سمجھ کر اسلامی اقتصادی نظام کی تشریحات تعلیم کئے بغیر نہ چھوڑا ۔کوچہ وبازار میں آپ اکثر مشغول تبلیغ رہتے ۔ایک روز حضرت عثمان نے مسجد میں بلوالیا اور پوچھ لیا کہ مجھے تمھاری شکایت ملی ہے کہ تم کہتے ہو کہ عثمان کہتا ہے کہ ” خدا فقیر ہے اور میں (عثمان)غنی ہوں “حضرت ابوذر نے جواب دیا کہ میں نے یہ کسی سے نہیں کہا لوگوں نے میری چغلی کھائی ہے ۔حضرت عثمان نے کہاکہ تم اب بڈھے ہوگئے ہو اور تمھارا دماغ کام نہیں کرتا ہے ۔ آپ نے فرمایا میرا دماغ کام کرے یا نہ کرے مگر یہ بات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
“جب ابو العاص کی اولاد یں تیس تک پہنچ جائیں گی تو وہ خدا کے مال کو اپنی دولت واقبال کا ذریعہ ٹھہرائیں گے ۔خدا کے بندوں کو اپنے خدمتگاروں اور نوکر قرار دیں گے خدا کے دین میں خیانت کریں گے ۔اس کے بعد اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو ان سے آزادی بخشے گا”۔
حضرت ابوذر (رض) کا یہ کہنا بادشاہ وقت کو ناگوار گزرا ۔انھوں نے لوگوں سے پوچھا مگر حاضرین نے لاعلمی کا اظہار کردیا چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کو بلوایا گیا چنانچہ انھوں نے فرمایا کہ میں ابوذر کی تکذیب نہیں کرسکتا
کیوں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ ابوذر سے زیادہ سچا اس زمین پر کوئی نہیں ہے یہ سنکر لوگوں نے کہا ابوذر سچ کہتے ہیں ۔اس واقعہ کے چند روز بعد عثمان نے حضرت ابوذر کو مدینہ سے نکالنے پر غور کرنا شروع کردیا ۔
دولت کی غلط تقسیم اور طبقاتی طبع آزمائی کے جو مناظر دور عثمانیہ میں نظر آتے ہیں وہ محتاج بیان نہیں ہے تاریخ کے اورراق حضرت عثمان کی کنبہ پروریوں اور ناجائز کرم گستریوں سے بھر پور ہیں لیکن وہ حقائق ہمیں اس کتاب میں نہیں کرنا ہے ہمیں صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ حضرت عثمان نے قومی خزانہ کا منہ اس طرح کھول دیا تھا کہ مسلمانوں میں ایک خاص طبقہ امراء کا پیدا ہوگیا تھا اور ان میں حرص مال اس نہج تک آپہنچی تھی کہ حلال وحرام میں امتیاز ختم ہوتی نظر آرہی تھی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے حضرات کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ اکثر یت کو نان شبینہ کے لئے محتاج پائیں اور خواص کو مال وجواہر میں کھیلتا دیکھیں ۔لہذا اس جماعت مردان حق نے صدائے احتجاج بلند کی اور جناب ابوذر (رض) اس سلسلے میں پیش پیش رہے ۔ابو ذر جب مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو دیکھتے تو ان کے پاس صرف جو کی سوکھی روٹی نظر آتی لیکن جب مصاحبان حکومت کی بودوباش اور ذخیرہ اندوزی ملاحظہ کرتے تو یہ صورت حال برداشت نہ کرسکتے تھے ۔چنانچہ آپ جمع دولت اور سرمایہ داری کے مخالف تھے ۔ غرباء فقراء نوازی ،محتاج یتیم ومسکین ومجبور وقہور کی ہمدردی واعانت کے کٹر حامی تھے ۔ان ہی خیالات کے باعث عہد حاضر کے بعض افراد نے انھیں کمیونسٹ اوراشتراکی کہنا شروع کردیا حالانکہ حضرت ابو ذر کے پاکیزہ اسلامی اقتصادی نظریہ کو اشتراکیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔اور یہ مفصل بحث ہم نے اپنی کتاب “صرف ایک راستہ “کے باب معاشیات واقتصادیات میں ہدیہ قار‏ئین کردی ہے ۔ حضرت ابو ذر کا موقف محض یہ تھا اسلامی حکومت کے دائرہ حدود میں ایسا ہرگز نہ ہو کہ امراء حد سے بڑھ جائیں اور غرباء حد سے گر جائیں ۔آپ کا منشاء صرف یہ تھا کہ اسلام اس انداز میں سطح عالم پر ابھرے کہ امراء اور غرباء دونوں میں توازن وعدل قائم رہے ۔معاشرہ پر ہرایک متوازن طبقہ چھایا رہا ہے ۔یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوذر دولت کو چند ہاتھوں سے لے کر زیادہ ہاتھوں میں گردش کناں دیکھنے کے متمنی تھے ۔آپ کو احساس تھا کہ فراوانی دولت اور شدت غربت دونوں گناہوں کی محرک ہوتی ہیں ۔ ایک طرف دولت اسلامیہ منظور نظر لوگوں ،عزیزوں اور اقرباء کو بے دریغ لٹائی جارہی تھی تو دوسری طرف بیت المال کا دروازہ غریبوں ،یتیموں اور مستحقوں کے لئے بالکل بند کردیا گیا تھا ۔خلیفہ کے رشتہ دار جاگیر یں اور محلات بنانے میں مصروف مگر غریب بھوکوں مررہے تھے اس معاشی بحران ہی کے دوران حضرت عثمان نے قرآن جلوادئے یہ جلتی پر تیل ثابت ہوا ۔لہذا یہ بے حرمتی بھی لوگوں کو ناگوار ہوئی ۔چنانچہ حضرت ابوذر کو ایک اور موضوع احتجاج حاصل ہوا چونکہ انھیں رسول اللہ (ص) نے پہلے ہی آگاہ دیا تھا کہ “اے ابوذر (رض) تجھے کوئی قتل نہ کرسکے گا “لہذا انھیں ہلاکت کا خوف نہ ہوتا تھا چنانچہ وہ نڈر ہوکر حکومت پر نکتہ چینی کرتے تھے ادھر تبلیغ ابوذر میں شدت ہوئی تو ادھر حکومت نے ان کا منہ بند کرنے کے طریقے دریافت کرنے شروع کردئیے پہلے مردان کی رائے کے مطابق آپ کو مال وزر کے ذریعہ خاموش کرنا چاہا لیکن جب رقم پیش ہوئی تو آپ نے ٹھکراتے ہوئے فرمایا۔
“جاؤ واپس لے جاؤ مجھے اس کی حالت میں قطعی ضرورت نہیں ہے جبکہ غریب مسلمانوں کو نظر انداز کردیاگیا ہے میرے لئے تھوڑی گندم کافی ہے ۔میرا گزر اوقات ہورہا ہے ۔خلیفہ سے جاکر کہہ دینا کہ میں علی علیہ السلام اور اہلبیت علیہم السلام کی ولایت میں بالکل غنی ہوں ۔میرا دل غنی ہے ۔میری روح غنی ہے ۔میری جان غنی ہے ۔ تمھاری دولت کی ہمیں ضرورت نہیں “۔(حیات القلوب)
جب یہ تراکیب کارآمد نہ ہوئی تو سرکاری فرمان جاری ہوا کہ ابوذر سے ترک موالات کی جائے ۔حکم حاکم مرگ مفاجات اس شاہی حکم سے لوگوں نے آپ کے پاس آنا جانا ترک کردیا ۔مگر ابوذر چلتے پھر تے اپنا وعظ جاری رکھتے رہے ۔کچھ درباری چہچہوں نے خلیفہ کے کان بھرے لہذا حضرت عثمان نے ان کوجلا وطن کرکے ربذہ بھیج دیا ۔مروان کو حکم دیا کہ اسے ننگی پشت کے اونٹ پر سوار کرکے ربذہ پہنچانے اور اعلان کیا کہ اس کی مشایعت کے لئے کوئی شخص نہ جاوے بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ ضرب شدید سے اذیت بھی پہنچائی ۔بہر حال سزائے موت کے ہم پلہ کالے پانی کی سزا اس صدیق امت صحابی کو خلیفہ مسلمین نے محض حق گوئی کے پاداش میں دی ۔
حضرت عثمان کے حکم اخراج ابوذر پر اگرچہ اصحاب میں سخت اضطراب تھا مگر جلتی آگ میں کودنا کسی کسی کا حوصلہ ہوتا ہے ۔حضرت ابوذر جب مدینہ سے نکالے گئے تو حکم عثمان کے خلاف حضرات علی،حسن،حسین،علیھم السلام ،عمار،ابن عباس،ابن جعفر اورمقداد رضی اللہ تعالی عنھم اپنے گھروں سے باہر آئے ۔اورجب حضرت ابوذر کو ننگے اونٹ پرمراوان بٹھانے لگا تو حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے مروان کو ٹوکا۔ حس پروہ حضرت عثمان کے پاس شکایت لے کرگیا ۔
کئی مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی خود جناب ابوذر کو ربذہ کے جنگل تک چھوڑنے تشریف لےگئے ۔حضرت ابوذر کو کسمپرسی کی حالت میں ربذہ کے جنگل میں قید تنہائی کی سزا بھگتنی پڑی ۔اس حال میں کہ وہاں کوئی آبادی نہ تھی ۔اور دوردور تک انسان نظر نہ آئے تھے ۔ سوائے کسی مسافر کے اس مقام پر کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں آپ پناہ لے لیتے ۔بس ایک درخت تھا جس کے نیچے آپ رہتے تھے ۔جب معاویہ کویہ جلاوطنی کی خبر ملی تو اس نے حضرت ابوذر کی بیوی وغیرہ کو ربذہ بھیج دیا ۔اسی عالم بے بسی میں آپ کے فرزند ذر کا انتقال ہوا اورتھوڑے عرصہ بعد رفیقہ حیات بھی چل نسیں پھرآپ خود علیل ہوئے ۔ایک دختر کے علاوہ کوئی پرسان حال نہ تھا ۔جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو فضائل آل محمد کے علاوہ اور کوئی وصیت نہ کی اپنی بیٹی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس خبر سے آگاہ کیا جو آپ نے اپنی حیات میں دربارہ دفن ارشاد فرمائی تھی چنانچہ بمطابق پیشگوئی رسول (ص) حضرت مالک اشتر رضی اللہ عنہ یہ سعادت حاصل کی ۔اور جناب ابوذر کو چار ہزار درہم کا کفن پہنایا ۔بعض روایات میں ہے کہ لشکر کے ہرآدمی نے تھوڑا تھوڑا کفن کے لئے کپڑا دیا۔ مرقوم ہے کہ نماز جنازہ عبداللہ بن مسعود نے پڑھی ۔!!!!
توزہد جہاں کا قبلہ ہے اےقلب ابوذرغفاری
واللہ کہ تیرا فقررہا دینائے حکومت پر بھاری
تو ہے وہ خطیب عرفانی دل دہل گئے جس کے خطبوں سے
صحرائے عرب کی ریتی میں گل کھل گئے جس کے خطبوں سے
(احسان امروہوی)
بد الکریم مشتاق

٭٭٭٭٭

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *