تازہ ترین

حدیث کی سند اور دلالت پر معترضین کے اعتراضات کا رد : ساجد محمود

حدیث غدیرامیر اللہمومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل ولایت و خلافت کے لئے ایک روشن دلیل ہے اور محققین اس حدیث کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ جو لوگ آپ کی ولایت سے پس و پیش کرتے ہیں، وہ بھی تو ا س حدیث کی سند کو زیر سواللہ لاتے ہیں اور بھی سند کو قابل قبول مانتے ہوئے اس کی دلالت میں تردید کرتے ہیں، لذا اس تحقیق میں کوشش کی گئی ہے کہ اس حدیث سے متعلق مہم ترین دوس اعتراضات کو بیان کر کے ان کے جوابات پیش کیے جائیں۔

شئیر
54 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5065

مقدمہ :
شیعہ عقائد کے مطابق تاریخ اسلام کا اہم ترین واقعہ ہے جس میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے محبت کے دسویں ساللہ حجۃ الوداع سے واپسی پرغدیرخم نامی جگہ پر 18 ذی الحجہ کے دن حضرت علی (علیه السلام) کو اپنا جانشین اور ولی مقرر فرمایا۔ جس کے بعد تم بزرگ صحابہ سمیت حاضرین نے حضرت علی (علیه السلام) کے ولی ہونے پر بیعت کیا۔ یہ تقرری خدا کے حکم سے ہوئی جسے خداوند نے آیت تبلیغ میں بیان فرمایا ہے اور رسول خدا (ص) طولانی خطبہ دینے کے بعد حديث غدیرکو ایراد فرمایا۔ تاریخ اسلام میں کم ہی ایسا کوئی مرحلہ اور کوئی واقع ہو گا جو سند اور وقوع کے لحاظ سے ا س قدر قوی اور مستحکم ہو۔حدیث غدیر کے راوی بہت ہیں جن میں سے بعض مشہور راویوں کے نام حسب ذیل ہیں:
1) اہل بیت یعنی امام علی ( ع)
2) حضرت فاطمه(سلام اللہ علیھا)
3) امام حسن ( ع)
4) امام حسین (ع)
بعد ازاں 110 صحابہ کے نام آتے ہیں۔ اس موقع پر لوگوں نے امیر المؤمنین (ع) کو مبارکباد پیش کی۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر تبریک و تهنیت کہنے والوںمیں پیش پیش تھے اور باقی صحابہ ان کے پیچھے پیچھے تبریک و تہنیت کہہ رہے تھے۔ عمر مسلسل کہہ رہے تھے : “بخ بخ لك ياعلي اصبحت مولاي ومولي كل مؤمن ومؤمنة”
یعنی مبارک ہو مبارک ہو اے علی آپ ہر مؤمن مرد اور عورت کے مولا و سرپرست ہو گئے۔ لیکن سند کے اتنا محکم ہونے کے باوجود بھی دشمنی اہل بیعت سے عناد اور دشمنی کرتے ہوئے اول صدی سے لے کراس صدی تک اس حدیث پر مختلف اعتراضات ہوتے چلے آئے ہیں اور مکتب اہل بیت کے پروردہ ان کے ان تار عنکبوت سے کمزور اشکالا ت کے جواب دیتے آئے ہیں اور یہ مقالہ اسی راہ کی ایک معمولی کو شش ہے۔ اب ہم اس حدیث پر کیے گئے اعتراضات کو بیان کرتے ہیں۔ 
1۔ پہلا عتراض:حدیث غدیر ثقہ طریقہ سے نقل نہیں ہوئی ہے!!
قتل میں ہوئی ہے!! سب سے پہلا اعتراض جو اس حدیث پر کیا گیا ہے۔ ابن حزم کا کہناہے لیکن حدیث “من کنت مولاه فعلى مولاه ، موثق طریق سے نت نہیں ہوئی ہے لہذا حج نہیں ہے۔
جواب؛اولاً: بہت سے علمائے اہل سنت نے اس حدیث غدیر کے حج ہونے کاقرار کیا ہے۔
ثانياً: ابن حزم، وہ شخص ہے جس کے گمراہ ہونے پر اس کے ہم عصر تمام فقہاء نے اتفاق کیا ہے، اور یہی نہیں بلکہ عوام الناس کو اس کے قریب ہونے سے منع کیا ہے۔
ثالثاً: ا س کے نظریات ہی کچھ ایسے تھے جن سے معلوم ہوتا ہے وہ ایک متعصب اور ہٹ دهرم آدمی کتا یہاں تک کہ حضرت علی (علیه السلام) سے بغض و کینہ اور دشمنی رکھتا تا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی کتاب “المحلیٰ” میں کہتا ہے: امت کے درمیان اس چیز میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عبد الرحمٰن بن ملجم نے اپنی دلیل کے تحت علی (ع) کو قتل کیا ہے اس کے اجتہاد نے اس کو اس نتیجہ پر پہنچایا تھا اور اس نے یہ حساب کیاتھا کہ اس کا کام صحیح ہے۔ جبکہ بہت سے علمائے اہل سنت نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے حضرت علی (ع) سے خطاب فرمایا: “تمھارا قاتل آخرین میں سب سے زیادہ شقی ہو گا”۔
ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے لوگوں میں سب سے زیادہ شقی ہوگا، نیز ایک دوسری تعبیر میں بیان ہوا ہے: ”ا س امت کا سب سے زیادہ شقی انسان ہو گا جیسا کہ قوم ثمود میں ناقہ صالح کو قتل کرنے والا تھا۔ ایک اور روایت میں پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں خبر دوں جس کو روز قیامت سب سے زیادہ عذاب کیا جائے گا؟ حضرت علی (ع) نے عرض کیا:
جی ہاں یار سول اللہ ! آپ مجھے خبردار فرمائیں، اس موقع پر آنحضرت نے فرمایا: بے شک روز قیامت سب سے زیادہ عذاب ہونے والا شخص ناقہ صالح کو قتل کرنے والا ہے، اور وہ شخص جو آپ کی ریش مبارک کو آپ کے سر کے خون سے رنگین کرے گا ۔ اسی طرح آنحضرت (ص) نے فرمایا: “تمھارا قاتل یہودی کے مشابہ بلکہ خود یہودی ہوگا۔
توان احادیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے، کس طرح ابن ملجم کو مجتہد کا نام دیاجا سکتا ہے، جب کہ اس نے اپنے واجب الاطاعت امام کو قتل کیا؟
مگر کیا پیغمبر اکرم (ص) نے امام مسلمین پر خروج کرنے کو مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہونے کی طرح نہیں بتایا ہے ، اور اس (خروج کرنے والے ) کے قتل کا حکم نہیں دیا ہے۔
ابن حزم وہ شخص ہے جس نے قاتل عمار (ابو الغادریہ یسار بن سبع سلمی ) کو بھی اہل تاویل قرار دیتے ہوئے کو مجتہد ماناہے کہ اس کام پر اس کے لئے ایک ثواب ہے ، چنانچہ وہ کہتا ہے: یہ عمل قتل عثمان کی طرح نہیں ہے کیونکہ عثمان کے قتل میں اجتہاد کی جگہ نہیں تھی۔ جب کہ ابوالغادریہ کا دنیا کے جاہلوں میں شمار ہوتاتھا اور کسی نے بھی ا س کی تعریف اور توفیق نہیں کی ہے۔ یہ کیسا اجتہاد ہے جو بالکل واضح بیان اور نص کے مقابلہ میں ہے ؟ کیا پیغمبر اکرم (ص) نے صحیح السند احادیث کے مطابق جناب عمار سے نہیں فرمایا :
تمہیں ظالم گروہ قتل کرے گا۔ مگر کیا پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے بارے میں نہیں فرمایا: “جب لوگوں کے درمیان اختلاف ہوجائے تو (عمار) فرزند سمیہ حق پر ہوں گے”. کیا آنحضرت (ص) نے نہیں فرمایا: “پالنے والے قریش، عمار کو حرص و طمع کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، بے شک عمار کا قاتل اور ان کا لباس پھاڑنے والا آتش جہنم میں جائے گا”۔ |
2۔حدیث غدیر کی صحت میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے!!
حدیث غدیر کے سلسلہ میں دوسرا اعتراض یہ ہے :”ابن تیمیہ کہتے ہیں:” لیکن حدیث “من کنت مولاه فعلی مولاه” صحاح میں بیان نہیں ہوئی ہے، لیکن دیگر علماء نے اس کو نقل کیا ہے اور لوگوں کے در میان اس حدیث کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے، بخاری، ابراہیم حربی اور دیگر علماء حدیث سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے ا س حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے اس کو ضعیف شمار کیا ہے۔۔۔۔ ،
جواب؛ اولاً: ترمذی نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں نقل کیا ہے ، اور اس کی صحت کا اقرار کیا ہے۔
ثانياً: ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اس حدیث میں اختلاف کیا ہو، اگر کوئی ہوتا تو ابن تیمیہ ا س کا نام ضرور لیتے۔
ثالثاً : اہل بیت (ع ) مخصوص حضرت علی (ع) کی فضیلت میں وارد ہونے والی احادیث کے سلسلہ میں ابن تیمیہ نے ایسا رویہ اختیار کیا ہے کہ ناصر الدین البانی جو اعتقادی مسائل میں خود ابن تیمیہ کے پیرو کار ہیں، وہ بھی ابن تیمیہ کے عمل سے ناراضی ہیں اور ا س بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے احادیث کو ضعیف شمار کرنے میں بہت جلد بازی سے کام لیا ہے ، کیونکہ احادیث کی سندوں کی چھان بین کرنے سے پہلے ہی ان کو ضعیف قرار دے دیا ہے۔
در حقیقت اس صورت حال کے پیش نظر یہ کہا جانا چاہئے کہ ابن تیمیہ نے شیعوں سے بلکہ اہل بیت (ع) سے دشمنی کی وجہ سے ان تمام احادیث کو ضعیف قرار دینے کی کو شش کی ہے جو اہل بیت (علیهم السلام ) اور ان کے سر فہرست حضرت علی (ع) کی شان میں بیان ہوئی ہیں۔
3۔ “مولی “کے معنی اولیٰ ( بالتصرف ) کے نہیں ہیں!!
محمود زعی ، علامہ شرف الدین پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے: “:لغت عرب میں لفظ مولا اولویت اور اولیٰ ( بالتصرف ) کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے”۔
جواب:اولاً: یہ دعوی کہ لفظ مولا اولویت اور اولیٰ ( بالتصرف )کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے، بلا دلیل بلکہ حقیقت کے بر خلاف بات ہے؛ کیونکہ علم کلام، علم تفسیر اور علم لغت کے درج ذیل بزرگ علماء نے لفظ مولا کے اس معنی کو قبول کیا ہے:
الف۔ مفسرین کے بیانات
علامہ فخر الدین رازی آیہ شریف:” هو مولاکم وبئس المصیر ” ، کی تفسیر کے سلسلہ میں کلبی، زجاج ، ابی عبیدہ اور فراء سے نقل کرتے ہیں کہ مولا کے معنی “اولى بكم” یعنی اولی ٰ( بالتصرف ) ہیں۔ بغوی نے بھی ا س آیت کی تفسیر ا س طرح کی ہے:”صاحبتكم و اولی بکم” یعنی تمھارا ہمدم اور تم پر اولیٰ اور زیادہ حقدار شخص ۔ یہی تفسیر زمخشری، ابوالفرج ابن جوزی، نیشا پوری، قاضی بیضاوی، نسفی، سیوطی اور ابو السعود سے بھی مذکورہ آیت کے ذیل میں بیان ہوئی ہے۔
ب۔ متکلمین کے بیانات
بہت سے علمائے علم کلام جیسے سعد تفتازانی، علاء قوشچی وغیرہ نے بھی لفظ “مولی” کے یہی معنی کئے ہیں، چنانچہ تفتازانی کہتے ہیں: ”کلام عرب میں لفظ ” مول”‘ کا استعمال : متولی، مالک امر اور اولیٰ بالتصرف کے معنی میں مشہور ہے اور بہت سے علمائے لغت نے اس معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ج۔ اہل لغت کابیان
بزرگ علماء لغت جیسے فراء، زجاج، ابو عبیده، اخفش، علی بن عیسی رمانی، حسین بن احمد زوزنی، ثعلب اور جو ہر ی و غیره نے لفظ “مولا”کے لئے ” اولی با لتصرف “ کے معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
لفظ “مولیٰ “کی اصل
لفظ ” مولیٰ” کی اصل “ولایت” ہے، ا س لفظ کا اصل مادہ قریب اور نزدیکی پر دلالت کرتا ہے، لیکن دو چیزوں کے درمیان ایسے قرب کی نسبت ہو جن کے درمیان کسی چیز کا فاصلہ نہ ہو۔ ابن فارس کہتے ہیں: ”واؤ، لام ، ی (ولی) قرب اور نزدیکی پر دلالت کرتا ہے، لفظ ولی کی اصل قرب اور نزدیکی ہے، اور لفظ “مولا” بھی اسی باب سے ہے اور یہ لفظ آزاد کرنے والا، آزاد ہونے والا، صاحب، ہم قسم ، ابن عم، ناصر اور پڑوسی پر (بھی) بولا جاتا ہے ، ان تمام کی اصل ولی ہے جو قرب یعنی نزدیکی کے معنی میں ہے۔
راغب اصفہانی کہتے ہیں: “ولاء اور توالا کا مطلب یہ ہے کہ دو یا چند چیزوں کا اس طرح ہونا کہ کوئی دوسری چیزان دو کے درمیان فاصلہ پیدا نہ کر سکے۔ یہ معنی قرب مکانی، اور نسبت کے لحاظ سے دین، صداقت، نصرت اور اعتقاد کے لئے استعارہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ لفظ “ولایت” (بر وزن ہدایت ) نصر ت کے معنی میں اور لفظ “ولایت” (بر وزن شهادت) ولی امر کے معنی میں ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں لفظ کے ایک ہی معنی ہیں، اور ان کی حقیقت وہی ولی امر (اور سرپرست ) ہونا ہے۔
4۔ محبت میں اوئی اور سزاوار ہونا!!
حدیث غدیر کے سلسلہ میں ایک اور اعتراض: زعبی ایک دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ شیعوں نے لفظ “مولی ٰ”کے معنی، اولیٰ لینے کے بعد اس کی نسبت “تصرف” کی طرف دی ہے، اور اس لفظ سے اولی ٰبالتصرفکے معنی کئے ہیں، کیوں ان لوگوں نے ا س کی نسبت محبت کی طرف نہیں دی ہے؟
جواب؛اولاً: قرآن کریم میں لفظ مولیٰ، امور میں دخل و تصرف کرنے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، خداوند عالم کا ارشاد ہے :”واعتصمو بااللہ هو مولاکم” علامہ فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لفظ ” مولا کے معنی آقا اور تصرف کرنے والے کے لئے ہیں۔
نیشا پوری نے آیہ شریف : “ثم ردوا الی اللہ مولا ھم الحق ” کے ذیل میں لفظ “مولا”کے معنی دخل و تصرف کرنے والے کے لئے ہیں، چنانچہ موصوف کہتے ہیں: وہ لوگ دنیا میں باطل مولا کے تصرف کے تحت تھے ۔
ثانياً: یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ لفظ ” مولا” کا استعمال ولی امر کے معنی میں ہوتا ہے، اور متولی و متصرف میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ثلاثاً: لفظ ” مولا”، ”ملیک“ کے معنی میں بھی آیا ہے جس کے معنی وہی امور میں دخل و تصرف کرنے والے کےہیں۔
رابعاً: یہ بات ثابت ہے کہ حدیث غدیر محبت سے ہم آہنگ نہیں ہے اور صرف “امور” میں تصرف اور “متولی” کے معنی سے مناسبت رکھتا ہے۔
۵۔ عثمان کے بعد حضرت امیر (ع) کی امامت!!
بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے: ہم ا حدیث کو حضرت علی (ع) کی امامت و خلافت پر سند اور دلالت کے لحاظ سے یہ مانتے ہیں لیکن اس حدیث میں یہ اشارہ نہیں ہوا ہے کہ حضرت علی ( ع)، رسول اکرم (ص) کے فوراً بعد خلیفہ اور امام ہیں، لہذا ہم دوسری دلیلوں کے ساتھ جمع کرتے ہوئے آپ کو چو تھا خلیفہ مانتے ہیں۔
جواب؛اولاً: کوئی بھی دلیل حضرت علی (ع) کی خلافت سے پہلے دیگر خلفاء کی خلافت پر موجود نہیں ہے تا کہ ان کے در میان جمع کرتے ہوئے یہ بات کہیں۔
ثانياً: اس حدیث اور حدیث ولایت کو جمع کرتے ہوئے کہ جس میں “بعدی” (یعنی میرے بعد)، کا لفظ موجود ہےیہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام، رسول اکرم (ص) کے فورا بعد خلیفہ ہیں۔ کیونکہ صحیح السند احادیث کے مطابق رسول اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) کے بارے میں فرمایا: “وهو ولی کل مومن بعدی” على (ع) میرے بعد ہر مومن کے ولی و آقا ہیں اور یہ بعد کے معنی اتصال کے ہیں۔
ثالثاً : خود حدیث غدیر کا ظہور مخصوص قرائن حالیہ و مقالیہ کے پیش نظر یہ ہے کہ حضرت علی (ع) ، پیغمبر اکرم (ص) کے بلا فصل خلیفہ ہیں۔
رابعاً:حدیث غدیر کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت علی (ع) تم مسلمانوں کے یہاں تک کہ خلفائے ثلاثہ کے بھی سر پرست ہیں، تو پھر یہ بات حضرت علی (ع) کی بلا فصل خلافت سے ہم آہنگ ہے۔
خامساً :اگر عثمان کے بعد حضرت علی (ع ) خلیفہ ہوں تو پھر عمر بن خطاب نے روز غدیر خم حضرت علی (ع ) کو کیوں مبارکباد پیش کی اور آپ کو اپنا اور ہر مومن و مومنہ کا مولا کہہ کر خطاب کیا؟! |
6۔ سوره اللہ عمران کی آیت نمبر6۸ کی مخالفت !!
شاہ ولی اللہ دہلوی صاحب یہ بھی کہتے ہیں اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ہم حدیث (غدیر) میں لفظ ” مولا‘‘ کے معنی اولی ٰبالتصرف اور سرپرستی کے لیں، جب کہ قرآن مجید میں ا س معنی کے برخلاف استعمال ہوا ہے، جیسا کہ خداوند کا ارشاد ہے:” أن أولى الناس با براھیم للذین اتبعوہ و ھذا النبی والذین آمنو “۔۔۔ مکمل طور پر واضح اور روشن ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) کے پیرو خود جناب ابراہیم (ع) سے اولیٰ اور تصرف میں سزاوار تر نہیں تھے۔
جواب؛اولاً: یہ کہ قرآن کریم کی بعض آیات میں لفظ “مولا”اسی اولویت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسے یہ آیہ شریف :” ماواکم النار هی مولاکم “۔
ثانياً: یہ کہ حدیث غدیر میں لفظ مولا حدیث میں موجود بعض قرائن کی وجہ سے اولیٰ بالتصرف کے معنی میں ہے۔
ثالثاً: لفظ “مولا” کے ظاہر سے امامت و سرپرستی کے مفہوم کے علاوہ کوئی دوسرے معنی مراد لیناکس طرح حضرت عمر بن خطاب کی مبارکباد سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے؟! |
رابعاً: (اگر تھوڑی دیر کے لئے ) فرض کریں کہ لفظ “مولا” سے تعظیم میں اولویت مراد ہو،تو بھی جو ہم کہتے ہیں کہ اس سے کوئی منافات نہیں ہے، کیونکہ جو شخص دوسروں کی نسبت دین اور شرعی لحاظ سے تعظیم میں اولی ٰ ہو تو وہ سب سے افضل و برتر ہے، ظاہر ہے کہ جو افضل و برتر ہو وہی خلافت و امامت کے لئے مناسب ہوتا ہے۔
چھٹااعتراض: ذیل حدیث !!
کچھ لوگ کہتے ہیں: حدیث غدیر کے ذیل میں ایسا قرینہ موجود ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ لفظ “مولا” سے محبت مراد ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: “اللهم وال من والاه وعاد من عاداه ” پالنے والے ! تواس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی سے دشمنی رکھے۔
جواب:اولاً: ا س دعا کے صد ر حدیث :”اللست اولی بكم من انفسكم”کی وجہ سے معنی یہ ہوں گے: پالنے والے! جو شخص حضرت علی ( ع ) کی ولایت کو قبول کرے اس کو دوست رکھ اور جو ان کی ولایت کو قبول نہ کرے اس کو دشمن رکھ۔
ثانياً: یہ معنی پیغمبر اکرم (ص ) کے اس عظیم اہتمام کے پیش نظر قابل ذکر نہیں ہے، کیونکہ یہ کس طرح کہاجا سکتا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ پیغمبر اکرم (ص ) نے ا س تپتے ہوئے صحرا میں ا س عظیم مجمع کو جمع کیا اور ایک معمولی بات کو بیان کرنے کے لئے اس مجمع کواتنی زحمت میں ڈالا کہ حضرت علی (ع) تمھارے دوست ہیں۔
ثالثاً: بعض روایت میں “وال من والاہ” کے ساتھ ساتھ “احب من احبہ “بھی آیا ہے، جو اس بات پر شاہد ہے کہ پہلا فقرہ محبت کے معنی میں نہیں ہے ورنہ اگر پہلا جملہ محبت کے معنی میں ہو تو دوسرے جملہ میں اسی مطلب کی تکرار ہوتی ہے۔
ابن کثیر نے واقعہ رحبہ کو طبرانی سے نقل کیا ہے جس کے ذیل میں بیان ہوا ہے کہ اس موقع پر ۱۳ اصحاب کھڑے ہوئے اور انھوں نے گواہی دی کہ حضرت رسول اکرم (ص ) نے فرمایا: “من کنت مولاه فعلى مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه أحب من احبہ وابغض من ابغضہ ، وانصر من نصره واخذل من خذلہ” متقی ہندی نے بھی ا س حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ذیل میں ہیثمی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ اس حدیث کے سارے رجال ثقہ ہیں ۔
رابعاً: اہل سنت کے بعض بزرگوں جیسے محب الدین طبری شافعی نے اس معنی ( یعنی مولا بمعنی محبت) کو بعید شمار کیا ہے۔
خامساً: یہ معنی اس چیز کے برخلاف ہیں جو حدیث غدیرسے صحابہ نے سمجھے ہیں، لذا حسان بن ثابت اپنے شعر میں قول رسول (ص) کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: “ورضيت من بعدى اماما ًو ھادیاً”، (میں اس بات سے راضی ہوں کہ میرے بعد علی (ع) امام اور ھادی ہیں)۔
ساتواں اعتراض : حسن مثنیٰ کی روایت سے استدلال
شاہ ولی اللہ دہلوی کہتے ہیں : ابو نعیم اصفہانی نے حسن مثنیٰ سے نقل کیا کہ ان سے سوال ہوا: کیا “من کنت مولاه”، حضرت علی (ع) کی خلافت پر دلیل ہے؟ تو انھوں نے جواب میں کہا: اگر اس حدیث سے رسول اکرم (ص) کی مراد خلافت تھی تو اس کو صاف صاف الفاظ میں بیان کرنا پا چاہیئے تھا کیونکہ آنحضرت (ص ) لوگوں میں سب سے زیاده فصیح و بلیغ تھے۔۔۔۔۔”
جواب: اولاً:اگر حسن مثنیٰ کی روایت کو تھوڑی دیر کے لئے قبول بھی کر لیں تواس کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ وہ کوئی معصوم تو تھے نہیں، اور ان کا شمار صحابہ میں بھی نہیں ہوتا، جس سے ان کا یہ معنی سمجھنا اہل سنت کے نزدیک معتبر مانا جائے ۔
ثانياً: اس حدیث کی کوئی سند نہیں ہے۔
ثالثاً: کس طرح حضرت رسول اکرم (ص) نے اس حدیث میں خلافت و امامت کے مسئلہ کو فصیح طور پر بیان نہیں کیا ہے؟ جب کہ قرائن حالیہ اور قرائن مقالیہ کے پیش نظر رسول اکرم (ص ) نے حضرت علی (ع ) کے لئے خلافت و امامت کو حدیث غدیر میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے، اور علمائے بلاغت کا کہنا ہے کہ ” کنایہ” صراحت سے زیادہ فصیح ہوتا ہے، نیز یہ کہ رسول اکرم (ص ) نے دوسری روایات میں حضرت علی (ع ) کی خلافت و امامت کو واضح طور پر بیان کیاہے۔
آٹھواں اعتراض: محبت کے معنی مراد لینے پر قرینہ کا موجود ہونا:
شیخ سلیم البشری ی کا کہناہے :حديث غدیر میں ایسا قرینہ پایا جاتاہے جس کی بنا پر لفظ “مولیٰ” سے محبت کے معنی مراد لینا ہے اور وہ قرینہ یہ ہے کہ یہ حدیث ا س واقع کے بعد بیان ہوئی ہے جو یمن میں پیش آیا تھا اور وہ یہ کہ بعض لوگوں نے آپ کے خلاف قدم اٹھا یا تھا، لہذا رسول اکرم (ص )روز غدیر حضرت علی (ع ) کی مدح و تعریف کرنا چاہتے تھے، تاکہ لوگوں کے سامنے ان کے نعت گل و عظمت بیان ہوجائے ، اور جس نے حضرت علی ( ع ) پر حملہ کیا تھا اس کے مقابلہ پر یہ بات کہیں ۔
دہلوی صاحب بھی کہتے ہیں: “اس خطبہ کا سبب (جیسا کہ مور خین اور سیرت لکھنے والے کہتے ہیں) تھا کہ اصحاب کی ایک جماعت جو حضرت علی (ع ) کے ساتھ یمن میں تھی جیسے بریدۂ اسلمی ، خالد بن ولید وغیرہ انھوں نے یہ طے کیا تھا کہ جنگ سے واپسی پر آنحضرت (ص) سے حضرت علی (ع ) کی شکایت کریں گے۔۔۔ پیغمبر اکرم (ص) نے ان حالات کے پیش نظر روز غدیر پرلوگوں کو حضرت علی (ع ) کی محبت کی دعوت دی۔
جواب: اولاً: پیغمبر اکرم (ص) نے اس موقع پر حضرت علی (ع) کے خلاف اعتراض کرنے والوں کو ڈراتے ہوئے تین بار فرمایا: “تم علی (ع ) سے چاہتے ہو۔۔۔۔
ثانياً: بہت سی روایات کے مطابق غدیر خم کا واقعہ خداوند کے حکم سے تھا نہ کہ بعض لوگوں کی طرف سے حضرت علی (ع) کی شکایت کی بنا پر۔
ثالثاً: اور اگر فرض کریں کہ یہ دونوں واقع ایک ہیں تو بھی حدیث غدیر کی دلالت حضر ت علی (ع) کی امامت اور سرپرستی پر کامل ہے کیو نکہ ” بریدۂ” و غیرہ کا اعتراض تقسیم سے پہلے غنائم میں تصرف کرنے کی وجہ سے تھا کہ حضرت رسول اکرم (ص ) نے اس حدیث اور حدیث غدیر کو بیان کر کے اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ حضرت علی (ع ) ہر قسم کے دخل و تصرف کا حق رکھتے ہیں، کیونکہ وہ امام اور ولی خدا ہیں۔
رابعاً: غدیر خم کا واقعہ” بریدۂ” کے واقعہ کے بعد پیش آیا جس کا ا س واقعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ علامہ سید شرف الدین تحریر کرتے ہیں: ” پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی (ع ) کو دو مرتبہ یمن بھیجا، پہلی مرتبہ سن ۸ ہجری میں کہ جب حضرت علی (ع ) یمن سے واپس آئے تو کچھ لوگوں نے رسول اکرم (ص) کی خدمت میں آپ کی شکایت کی، اس موقع پر رسول اکرم (ص ) ان لوگوں پر غضب ناک ہوئے اور ان لوگوں نے بھی خود اپنے سے عہد کیا کہ اس کے بعد پھر کبھی حضرت علی (ع) پر اعتراض نہ کریں گے۔ دوسری مرتب سن ۱۰ ہجری میں۔ اس سال پیغمبر اکرم (ص) نے علم حضرت علی ( ع ) کے ہاتھوں میں دیا، اپنے مبارک ہاتھوں سے آپ کے سر پر عمامہ باندھا اور آپ سے فرمایا: روانہ ہو جائیں اور کسی پر توجہ نہ کریں۔ اس موقع پر کسی نے رسول اکرم (ص)سے حضرت علی (ع ) کی شکایت نہیں کی اور آپ پر حملہ نہیں کیا تو پھر کس طرح حدیث غدیر کا بریدۂ وغیرہ کے اعتراض کرنے کی وجہ سے بیان ہونا ممکن ہے؟!
خامساً: فرض کریں کہ کسی نے حضرت علی (ع ) کے خلاف کچھ کہا ہو تو بھی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ پیغمبر اسلام (ص) عظیم مجمع کو تپتے ہوئے صحرا میں روکیں اور ایک چھوٹی چیز کی وجہ سے ا س کو اتنی اہمیت دیں۔
سادساً: اگر رسول اکرم (ص) کی مراد صرف حضرت امیر (ع) کی فضیلت بیان کرنا اور اعتراض کرنے والے کی تردید تھی تو واضح الفاظ میں ا س مطلب کو بیان کر چاہیئے تھا ، مثال کے طور پر یہ فرماناپا چاہیئے تھا: یہ شخص میرے چچازاد، میرے داماد، میرے فرزندوں کے پدر گرامی اور میرے اہل بیت کے سید و سردار ہیں، ان کو اذیت نہ پہنچانا وغیرہ وغیرہ، ایسے الفاظ جو حضرت علی (ع) کی عظمت و جلالت پر دلالت کرتے ہوں۔
سابعاً: اس حدیث شریف (غدیر ) سے اولیٰ بالتصرف ، سرپرستی اور امامت کے علاوہ کوئی دوسرے معنی ذہن میں تبادر نہیں کرتے، اب چاہیے اس حدیث کے ذکر کرنے کا سبب کچھ بھی ہو، ہم الفاظ کو ان کے حقیقی معنی پر حمل کریں گے اور اسباب و علل سے ہمیں کوئی تعلق نہیں ہے، مخصوصاً جبکہ عقلی اور منقولہ قرائن اسی معنی کی تائید کرتے ہیں۔
نانواں اعتراض: مولا کے معنی محبوب کے ہیں!!
ابن حجر مکی اور شاہ ولی اللہ دہلوی جیسے افراد کہتے ہیں :حديث غدیر میں لفظ مولیٰ سے محبوب مراد ہے، یعنی رسول اکرم (ص) کے فرمان کے یہ معنی ہیں کہ جس کا میں محبوب ہوں ا س کے یہ علی بھی محبوب ہیں۔
جواب: اولاً: یہ دعوی بغیر دلیل کے ہے؛ کیونکہ لغت کی کتابوں کو دیکھنے کے بعد انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ کسی بھی لغوی نے لفظ “مولی ٰ”کے لئے یہ معنی نہیں کئے ہیں۔
ثانياً: یہ معنی قرینہ کے بغیر حدیث میں متبادر معنی سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔
ثالثاً: یہ معنی، روایت میں موجود قرائن مخصوصاً حدیث کے شروع میں “اللست اولی بکم من انفسکم”سے مناسبت
نہیں رکھتے۔
رابعاً: اگر پیغمبر اکرم (ص) کی اس حدیث سے یہ معنی مراد ہوں، تو پھر معاویہ ،عائشہ، طلحہ ، زبیر اور عمرو بن عاص جیسے لوگوں نے حضرت علی ( ع ) سے جنگ کیوں کی ؟!کیا معاویہ نے حضرت علی (ع ) پر علی الاعلان لعنت نہیں کرائی؟
خامساً: “اللهم وال من والاہ۔۔۔” ایک ایسی دعا ہے جس کو پیغمبر اکرم (ص )نے خطبہ تمام کرنے کے بعد کیا ہے ، لذا اس جملہ میں لفظ مولا کو محبت کے معنی مراد لینے کے لئے قرینہ نہیں بنایا جا سکتا، بلکہ ا س سے پہلے والا جملہ:”اللست اولی بکم من انفسکم ” اس بات پر بہترین قرینہ ہے کہ لفظ “مولا” کو امامت، اولی بالتصرف اور سرپرستی کے معنی میں لیا جائے۔
سادساً: بعض روایات میں لفظ “بعدی” (یعنی میرے بعد) آیا ہے ۔ ابن کثیر اپنی سند کے ساتھ ” براء بن عازب سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے غدیر خم میں اصحاب کے مجمع میں فرمایا: “اللست اولى بكم من أنفسكم” ؟ !قلنا: بلى يا رسول اللہ (ص)! قال : الست ؟ الست ؟ قلنا: بلى يا رسول اللہ (ص )! قال : من کنت مولاه فان عليا بعدی مولاه الل ہم وال من والاه وعاد من عاداه ” اگر پیغمبر اکرم (ص ) نے لفظ “مولیٰ” سے محبت کا ارادہ کیا ہوتا تو “بعدی” لفظ کہنے کی کیا ضرورت تھی، کیونکہ یہ معنی صحیح نہیں ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص ) فرمائیں کہ حضرت علی (ع) میرے بعد تمھارے دوست ہیں، نہ کہ میرے ہوتے ہوئے۔
دسواں اعتراض:دو تصرف کرنے والوں کا ایک ساتھ جمع ہونا!!
محمودز عبی کا کہنا ہے: اگرحدیث غدیر کی دلالت کو ولایت، اولیٰ بالتصرف اور سرپرستی پر قبول کریں تو اس سے لازم یہ آتا ہے کہ ایک زمانہ میں مسلمانوں کے دو سرپرست اور دو مطلق تصرف کرنے والے جمع ہوجائیں۔ چنانچہ اگر ایسا ہو تو بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔
جواب: اولاً: حديث غدیر سے حضرت علی (ع ) کی ولایت، سرپرستی اور اولی بالتصرف ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں حضرت علی (ع ) کے تصرفات رسول اکرم (ص ) کے تصرف کے تحت ہوتے تھے، یعنی حضرت علی (ع ) آنحضرت (ص ) کی غیر موجودگی میں تصرفات کرتے تھے۔
ثانياً: دو ولایتوں کے جمع ہونے میں کوئی مشکل نہیں ہے، اگر کوئی مشکل ہے بھی تو وہ دو تصرف کے جمع ہونے میں ہے، نیز دو ولایتوں کا ثابت ہونا تصرف کے فعلی ہونے کا لازمہ نہیں ہے۔
ثالثاً: دو تصرف کے جمع ہونے میں مشکل اس وقت پیش آتی ہے کہ ایک تصرف دوسرے کے بر خلاف ہو، جب کہ پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی (ع) کے تصرف میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
رابعاً: سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت علی (ع) کی ولایت، ر سول اسلام (ص) کے بعد نافذ ہے۔
نتیجہ تحقیق
اس مختصر تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ :
1. حدیث غدیر پر کیے گئے جتنے بھی اعتراضات اور اشکالات ہیں ہو یا تو مستند نہیں ہیں یا پھر ان میں تعصب کا عنصر پایا جاتا ہے۔ 2
2. حدیث غدیر پر ایک مستند، متفق علیہ بلکہ ایک متواتر حدیث ہے۔ 3
3. ا س حدیث میں مولا کے معنی اولیٰ بالتصرف کے ہیں۔
4. اس حدیث سے حضرت امیر المؤمنین (ع) کی خلافت بلا فصل ثابت ہے۔ 
منابع
1) . ابن ہشام، عبد الملک ، سیره پیامبر اسلام(ص)، کتابچی، تہران۔
2) 2 ابن اثیر، عز الدین ، الکامل فی التاریخ ، دار الکتاب العربی ، بیروت – لبنان
3) ابن جوزی، الرحمٰن بن علی ، زاد المسیر، دار الکتاب العربی ، بیروت، لبنان۔
4) ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ، بیروت، لبنان۔
5) ابن حزم، علی ابن محمد، الفصل، دار لکتب العلمیہ ، منشورات محمد علی بیضون، بیروت، لبنان۔
6) ابن حنبل، احمد بن احمد، مسند احمد، مؤسسہ الرسالۃ ، بیروت، لبنان۔
7) ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید ، الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان۔
8) ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغہ ، مکتب الاعلام الاسلامی ، قم ، ایران۔
9) ابن کثیر، ابو الفداء، اسماعیل، البدایۃ والنھایۃ ، بیروت، لبنان
10) البانی، محمد ناصر الدین، منهاج السنۃ۔
11) بغوی، حسین بن مسعود، معالم التنزیل ، دار الکتاب العربی ، بیروت، لبنان۔
12) البینات، زعبی، محمود، کتا بخانہ اھل قم (دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم)۔
13) حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ ، المستدرک، المکتبۃ العصریۃ ، بیروت، لبنان۔
14) رازی، فخر الدین، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت۔
15) راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات، بیروت، لبنان۔
16) زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، دار الکتاب العربی ، بیروت، لبنان۔
17) شرح مقاصد، تفتازانی، مسعود بن عمر الشریف الرضی، قم،ایران
18) شرف الدین موسوی، سید عبد الحسین ، المراجعات۔
19) طبرانی، ابوالقاسم سلیمان بن احمد،المحجم الکبیر ، دار احیاء التراث العربی ۔
20) طبری، محب الدین ، احمد بن عبداللہ ، الریاض النضرۃ ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان۔
21) قرآن کریم۔
22) قشیری نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، مؤسسه عزیز الدین، بیروت، لبنان۔
23) متقی ہندی، علاء الدین علی بن حام کنز العمال في سنن الاقوال و الافعال، حیدر آباد:دائره المعارف العثمانیہ الکائنیہ بعاصمہ۔
24) محلی ، محمد بن احمد، تفسیر جلالین ، مؤسسہ النور للمطبوعات، بیروت، لبنان۔
25) محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری معروف به تاریخ الامم والملوک ، بیروت، لبنان۔
26) نسائی، احمد بن شعیب، خصائص امیر المؤمنین (ع)، دار مکتبۃ التربیۃ ، بیروت۔
27) نسفی، عبداللہ بن احمد، مدارک التنزیل ، بیروت، لبنان۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *