تازہ ترین

نہج البلاغہ صدائے عدالت سیریل(درس نمبر 18)/ اثر: محمد سجاد شاکری

درس نمبر 18
ترجمہ و تفسیر کلمات قصار نمبر ۱۸
وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام: فِي الَّذِينَ اعْتَزَلُوا الْقِتَالَ مَعَهُ: خَذَلُوا الْحَقَّ وَ لَمْ يَنْصُرُوا الْبَاطِلَ
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ان لوگوں کے بارے میں جو آپ کے ہم رکاب ہوکر جہاد کرنے سے کنارہ کش رہے، فرمایا: انہوں نے حق کو چھوڑ دیا اور باطل کی بھی مدد نہیں کی۔‘‘

شئیر
56 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5079

حصہ اول: شرح الفاظ
۱۔ اعْتَزَلُوا: کنارہ کش ہو گئے۔
۲۔ الْقِتَالَ: جنگ۔
۳۔ خَذَلُوا: چھوڑ دیا، تنہا کر دیا۔
۴۔ لَمْ يَنْصُرُوا: مدد نہیں کی، نصرت نہیں کی۔
حصہ دوم: سلیس ترجمہ
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ان لوگوں کے بارے میں جو آپ کے ہم رکاب ہوکر جہاد کرنے سے کنارہ کش رہے، فرمایا: انہوں نے حق کو چھوڑ دیا اور باطل کی بھی مدد نہیں کی۔‘‘
حصہ سوم: شرح کلام
جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ ہم نے حکمت نمبر 15 کی شرح کے آخر میں وعدہ دیا تھا کہ آگے چل کر حکمت نمبر 18 میں فتنے سے متعلق امام کے اس کلام کی مزید وضاحت اور تفسیر بیان کریں گے۔ لہذا اب فتنہ سے متعلق کچھ مزید گفتگو آپ کے حوالے کریں گے۔
فتنے کے حوالے سے مزید گفتگو کرنے سے پہلے یہ بتاتا چلیں کہ حکمت نمبر 15 کی جو دو تفسیریں یعنی عمومی اور خصوصی تفسیر آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا، اور خصوصی تفسیر کو ترجیح دی تھی۔ حکمت نمبر 18 ہماری اسی ترجیح کے صحیح ہونے پر دلیل ہے۔ کیونکہ ہم نے وہاں پر اس کلام کے شان نزول کو بیان کرتے ہوئے عرض کیا تھا:
’’آپ چاہیں یا نہ چاہیں معاشرے میں فتنے وجود میں آتے رہیں گے، کسی نہ کسی طرح سے حق و باطل کو مخلوط کر کے پیش کیا جاتا رہے گا۔ لیکن امتحان ہمارے ہنر اور صلاحیتوں کا ہے کہ ہم فتنے کے اس پرآشوب زمانے میں اپنی بصیرت، ایمان اور تقوا کے ذریعے حق و باطل کے درمیان تشخیص دے سکتے ہیں یا ہم بھی فتنوں کے سیلاب میں بہہ کر غرق ہوجاتے ہیں۔ مولا(ع) اپنے اس کلام میں ایسے ہی کسی امتحان میں ناکام ہونے والے ایک گروہ سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ جب انسان خود سے حق و باطل کے درمیان تشخیص نہ دے سکے تو سرزنش اور عتاب کے ذریعے بھلا کیسے کسی کو ہدایت دی جا سکتی ہے۔ ‘‘ (مزید تفصیلات کے لئے صدائے عدالت، پندرہواں جلسہ کی طرف رجوع کریں۔)
اب حکمت نمبر 18 کے شأن نزول اور خود کلام کے مفہوم میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعا مولا کا مذکورہ دونوں ہی کلام ان لوگوں کے عمل کی نہ فقط تائید نہیں کرتا بلکہ ان کی مذمت کو بھی واضح کرتا ہے۔ کیونکہ وہاں پر مولا(ع) جہاد اور اہل فتنہ سے مقابلے کی دعوت کے باوجود ان کی طرف سے سرد مہری دیکھتے ہیں تو ان سے مأیوس ہوکر فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی سرزنش نہیں کی جاتی جو فتنے کے دلدل میں گرفتار ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کو سرزنش اور عتاب کے ذریعے سدھارا نہیں جاسکتا۔ پس فائدہ نہیں ہے کہ ان کی سرزنش کی جائے، ان کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہے۔ اور اب جب جنگ میں بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے تو دوبارہ ان افراد کی بے مہری کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: انہوں نے حق کو چھوڑ دیا اور باطل کی بھی مدد نہیں کی۔
بظاہر نرم لہجے کا یہ کلام نہ فقط ان کی تمجید نہیں کر رہا بلکہ ان کی سرزنش کر رہا ہے۔ کیونکہ درست ہے کہ انہوں نے حق کے مقابلے میں تلوار نہیں اٹھائی لیکن حق کو فتنہ اور آشوب کے اس دور میں تنہا چھوڑ دیا۔ اور یہی جرم کوئی کم نہیں ہے، کہ انسان اس وقت حق کا ساتھ چھوڑ دے جب حق کو سب سے زیادہ اس کی ضرورت ہو۔
فتنے میں خواص کا کردار
کسی بھی معاشرے کی ترقی یا تنزلی میں خواص اور بزرگان کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اسی طرح جب معاشرے میں آشوب اور فتنہ کھڑا ہوجائے تو یہی خواص ہوتے ہیں جو عوام کی آنکھیں کھولنے اور حق و باطل کے درمیان تشخیص کرانے کا کام اپنے گردن لیتے ہیں۔ لیکن جب خود خواص فتنے کا شکار ہوجائیں، جب خود خواص فتنہ گر بن جائیں، جب خود خواص فتنے میں حق و باطل کی تشخیص نہ کر پائیں تو بے چارے عوام کا کیا حال ہوگا۔ بالکل یہی صورتحال اس وقت کا تھا جب امیر المومنین علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران جنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس دور میں اسلامی معاشرے کے سرکردگان اور خواص تین گروہوں میں تقسیم نظر آتے ہیں: ایک گروہ فتنہ گروں کا ہے جن کی رہنمائی طلحہ اور زبیر کر رہے ہیں۔ دوسرا گروہ خاموش تماشائیوں کا ہے جن کی سربراہی انس بن مالک، اسامہ بن زید، عبد اللہ بن عمر، سعد بن ابی وقاص، محمد بن مسلمہ، ابو موسی اشعری اور احنف بن قیس جیسے بزرگ اصحاب کر رہے ہیں۔ اور تیسرا گروہ حق کے متوالیوں کا ہے جن کی سرپرستی علی بن ابی طالب(ع) اور مشاورت عمار یاسر کر رہے ہیں۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ جب اصحاب کی ایک بڑی تعداد ام المومنین کو امیر المومنین(ع) کے مقابلے پر لا کھڑا کریں اور دوسری بڑی تعداد بجائے اس کے کہ لوگوں کو شعور دلائیں اور حق و باطل کے درمیان تفریق کرتے ہوئے حق کا ساتھ دیں، خود ہی تذبذب کا شکار ہوجائیں اور فتنے کی موجوں میں غرق ہورہے ہوں تو ایسے میں اس عوام کا کیا حال ہوگا جنہوں نے انہی بڑوں کو دیکھ کر ہی حق و باطل کی تشخیص کرنی ہے؟ اسی لئے ہی امیر المومنین(ع) کو بار بار یہ اعلان کرنا پڑا ’’حق کو پہچانو تو اہل حق خود بخود پہچانے جائیں گے‘‘ یعنی یہ مت دیکھو کون کیا کر رہا ہے، اپنے بڑوں کو مت دیکھو کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ بلکہ یہ دیکھو حق کہاں پر ہے اور باطل کہاں پر؟ اور پھر حق کا طرفدار بن جاؤ چاہے مقابلے میں پیغمبر کی ناموس ہی کیوں نہ ہوں!
فتنوں میں عمار کا کردار
امیر المومنین(ع) کی خلافت کے دوران عمار یاسر کا جو مقام و مرتبہ آپ کے نزدیک تھا وہ آپ کے کسی بھی صحابی کو حاصل نہیں تھا۔ آپ نے اپنے مختلف اصحاب کو اپنی خلافت کے دوران مختلف علاقوں کی طرف گورنر اور اپنا نائب بنا کر بھیجا لیکن عمار یاسر کو ہمیشہ ایک مشیر اور وزیر کی مانند اپنے ساتھ رکھا اور انہیں اپنا ہم راز بنایا۔
عمار یاسر نے بھی کبھی بھی امیر المومنین(ع) کو ناامید نہیں کیا، اور ہمیشہ مشکل وقت میں حق کے حامیوں سے لے کر فتنے میں قدم ڈگمگانے والے سرکردگان اور خواص بلکہ منافقین تک کے پاس جاتے اور انہیں حق و باطل کی تشخیص کرانے کی کوشش کرتے۔ یہاں تک کہ جنگ جمل کے آغاز میں مغیرہ جیسے لوگوں کے پیچھے پڑے رہے شاید کہ راہ راست کی طرف ہدایت ہوجائے۔ جب مغیرہ نے کہا: مجھے فرصت دو تاکہ مسائل مجھ پر روشن ہوجائیں اور میں بصیرت کے مطابق قدم اٹھاؤں تو عمار نے جواب میں فرمایا: ’’اے مغیرہ خدا کی پناہ! چشم بصیرت روشن ہونے کے باوجود بھی اندھا رہنا چاہتے ہو؟ ۔۔۔‘‘
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای(مد ظلہ العالی) حضرت عمار یاسر کی بصیرت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’خواص اور سرکردگان کے اہم کاموں میں سے ایک کی وضاحت کرنا ہے؛ کہ بغیر تعصب اور پارٹی بازی کے حقائق کو واضح کریں، جنگ صفین میں حضرت عمار یاسر کے اہمترین کاموں میں سے ایک حق و حقیقت کا بیان تھا۔ کیونکہ معاویہ کے گروہ کی بہت ساری پروپیگنڈہ مشینریاں تھیں کہ جسے آج کل کی اصطلاح میں نفسیاتی جنگ کہتے ہیں۔ جب دیکھتے تھے کہ کسی جگہ کوئی اختلاف وجود میں آیا ہے، ایک گروہ تذبذب کا شکار ہوگیا ہے اور چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہے تو فوراً خود کو وہاں پہنچاتے تھے اور ان کے لئے مسئلے کو واضح کرتے اور ان کی مشکل کو حل کرتے تھے۔ خواص کا کردار بھی یہی ہونا چاہئے کہ نہ فقط خود اپنے اندر بصیرت پیدا کریں بلکہ دوسروں کو بھی بصیرت کی نعمت سے مالا مال کرنے کی کوشش کریں۔ خداوند عالم نے اس عظیم مرد (عمار یاسر) کو پیغمبر(ص) کے زمانے سے امیر المومنین(ع) کے زمانے کے لئے زخیرہ کر کے رکھا، تاکہ اس دوران حقائق کی تبیین اور وضاحت کا کام انجام دے۔‘‘
نتیجہ
مذکورہ گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ فتنے کے دوران نہ ہی طلحہ و زبیر جیسوں کے لئے سواری کا کام دینا چاہئے اور نہ ہی ابوموسیٰ اشعری جیسوں کی دیکھا دیکھی میں تماشائیوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہئے، بلکہ عمار یاسر جیسی شخصیات کے ہم رکاب خود بھی چشم بصیرت سے حق و باطل کو عیاں دیکھ لے اور دوسروں کے بھی آنکھوں کے سامنے سے فتنہ کے گرد و غبار کو ہٹانے کا کام کریں۔
فتنے کے دوران اکثر لوگوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ درمیان میں رہیں، نہ حق کا ساتھ دیں اور نہ ہی باطل کا۔ جیسا کہ اوپر مثالوں میں ذکر ہوچکا۔ لیکن یہ روش مذکورہ بحث اور مولا کے فرامین کی روشنی میں کوئی مناسب روش نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن کا بھی یہی دستور ہے کہ جب کوئی گروہ حق کے مقابلے میں بغاوت کرے تو ان کے مقابلے میں کھل کر میدان میں آنا چاہئے اور امر الٰہی کے سامنے تسلیم ہونے تک ان کے ساتھ مبارزہ انجام دینا چاہئے۔ ’’فَقاتِلُوا الَّتى تَبْغى حَتَّى تَفى‏ءَ إِلى‏ أَمْرِ اللَّه‘‘ (حجرات، آیه ۹٫)
کیونکہ انسان یا حق کا طرفدار ہے یا باطل کا، تیسرا راستہ اصلا درست نہیں ہے۔ حتی جو تیسرا راستہ نکالنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ یعنی سکوت کا راستہ، تماشائی کا راستہ، تو امیر المومنین نے ہی ایک جگہ اسے گونگا شیطان سے تعبیر فرمایا ہے: السَّاکِتُ عَنِ الْحَقِّ شَیْطانٌ أَخْرَسٌ ’’حق کے مقابلے میں سکوت اختیار کرنے والا گونگا شیطان ہے۔‘‘ (شرح نہج‏البلاغہ مغنیہ، ج ۴، ص ۲۲۷٫) ایک اور جگہ پر امام نے ظالم کے ظلم کے مقابلے میں سکوت اختیار کرنے والے کو بھی ظلم میں برابر کے شریک قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: ’’ الرَّاضِي بِفِعْلِ قَوْمٍ كَالدَّاخِلِ فِيهِ مَعَهُمْ وَ عَلَى كُلِّ دَاخِلٍ فِي بَاطِلٍ إِثْمَانِ إِثْمُ الْعَمَلِ بِهِ وَ إِثْمُ الرِّضَى بِهِ ‘‘، ’’کسی گروہ کے فعل پر راضی ہونے والا ایسا ہے جیسے اس کے کام میں شریک ہو اور غلط کام میں شریک ہونے والے پر دو گناہ ہیں۔ ایک اس پر عمل کرنے کا اور ایک اس پر رضامند ہونے کا۔‘‘ (نہج البلاغہ، حکمت 154) اور امام حسین(ع) کی زیارت میں اسی گروہ کو بھی مورد طعن قرار دیتے ہوئے لعن کا مستحق قرار دیتے ہیں: ’’ لَعَنَ اللَّهُ اُمَّةً سَمِعَتْ بِذلِكَ فَرَضِیَتْ بِهِ‘‘ (زیارت وارث)

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *