تازہ ترین

شیعوں کے نزدیک شریعت کے سرچشمے

شریعت کے سرچشمے شیعوں کے نزدیک صرف دو۲ ہیں۔
کتابِ (خدا)  سنتِ (نبی (ص)) یعنی
مصدر  اوّل قرآن
مصدر دوّم سنتِ نبی(ص) ہے۔

شئیر
55 بازدید
مطالب کا کوڈ: 508

یہ ہیں گذشتہ اور موجود شیعہ علما کے اقوال بلکہ یہ ان ائمہ اہلِ بیت(ع) کے اقوال ہیں کہ جن میں سے کسی ایک نے بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ میرا اجتہاد ہے۔
چنانچہ جب پہلے حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کے پاس لوگ خلافت لے کر آئے اور  یہ شرط پیش کی ، اگر آپ(ع) امت میں سنتِ ابوبکر و عمر کے لحاظ سے عمل کریں گے تو خلافت حاضر ہے۔ آپ(ص) نے فرمایا، میں کتابِ خدا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق عمل کروں گا۔ ( بعض روایات میں ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا : اس کے علاوہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا یہ مکتب اجتہاد کے طرف داروں کا اضافہ ہے ۔ کیونکہ امام علی(ع) نے ایک روز بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا بلکہ وہ تو ہمیشہ سے کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) سے مسائل کا استنباط کرتے تھے یا فرماتے تھے: ہمارے پاس الجامعہ ہے اس میں لوگوں کی ضرورت  کی تمام چیزیں موجود ہیں ۔ یہاں تک خدش الارش بھی تحریر ہے۔ الجامعہ وہ صحیفہ ہے جو رسول(ص) کا املا اور علی(ع) کی تحریر ہے۔ صحیفہ جامعہ کے بارے میں ہم تفصیلی بحث “اہل السنۃ سنت کو مٹانے والے”والی فصل میں کرچکے ہیں۔ )
آنے والی بحثوں میں ہم اس بات کی وضاحت کریں گے کہ علی(ع) ہمیشہ سنتِ نبی(ص) کے پابند رہے اور اس سے کبھی چشم پوشی نہیں کی اور لوگوں کو سنتِ نبی(ص) پر پلٹانے کے لئے پوری کوشش کرتے رہے ۔ یہاں تک خلفا آپ(ع) سے ناراض ہوگئے اور خدا کے لئے آپ(ع) کو سختی اور سنتِ نبی(ص) کو نافذ کرنے کی پاداش میں لوگوں کی نفرت نصیب ہوئی۔
جیسا کہ امام محمد باقر(ع) ہمیشہ فرمایا کرتے تھے۔
” اگر ہم اپنی رائے سے تمھیں مسائل بتاتے تو ایسے ہی
گمراہ ہوجاتے جس طرح ہم سے پہلے لوگ گمراہ ہوگئے
تھے ہم جو کچھ تمھیں بتاتے ہیں اس پر ہمارے پروردگار
کی وہ واضح دلیل موجود ہے جو اس نے اپنےنبی(ص) ہے بیان
 کی تھی اور نبی(ص) نے ہم کو تعلیم دی ہے”۔

دوسری جگہ فرماتے ہیں:
” اے جابر اگر ہم تمھیں اپنی رائے اور ہوا وہوس سے
کوئی بات بتاتے تو ہلاک ہوگئے ہوتے ہم تو تمھیں
 وہی بتاتے ہیں جو ہم نے نبی(ص) کی احادیثِ رسول(ص) جمع کی
 ہیں اور ہم نے ایسے ہی ذخیرہ کیا ہے جیسے لوگ سونا
چاندی ذخیرہ کرتے ہیں”۔
اور امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:
” قسم خدا کی ہم اپنی رائے اور ہوائے نفس سے کوئی چیز
 بیان نہیں کرتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ قولِ خدا
ہوتا ہے جب بھی ہم تمھیں کوئی جواب دیتے ہیں وہ
 ہماری رائے سے نہیں ہوتا بلکہ وہ قول رسول(ص) ہوتا ہے “۔
ائمہ اہلِ بیت(ع) کی اس سیرت سے تمام اہلِ علم اور محققین واقف ہیں ۔ اسی لئے تو انھوں نے کسی ایک امام کے بارے میں بھی یہ نہیں تحریر کیا کہ وہ رائے کی قائل تھے یا قرآن و سنت کے علاوہ کسی قیاس و استحسان وغیرہ کے قائل تھے۔
اور جب ہم اپنے ہم عصر مرجع اکبر شہید آیت اللہ محمد باقر الصدر ( رضوان اللہ علیہ) کے رسالۃ عملیہ کو دیکھیں گے تو عبادات و معاملات کے واضح فتاوی میں ملاحظہ کریں گے ۔ وہ تحریر فرماتےہیں ۔
ہم آخر میں اختصار کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان واضح فتوؤں کے استنباط میں ہم نے جن عظیم مصادر پر اعتماد کیا ہے وہ قرآن مجید اور وہ حدیث شریف سے عبارت ہیں اور موثق لوگوں سے منقول ہے خواہ ان کا کوئٰی بھی مذہب رہاہو ۔ ( الفتاوی الواضحہ الشہید باقر الصدر ص۹۸)
لیکن قیاس و استحسان پر اعتماد کرنا ہم شرعی نقطہ نظر سے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔
ہاں دلیل عقلی میں مجتہدین اور محدثٰین کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا اس پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں۔
اگر چہ ہم اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ اس پر عمل رنا جائز ہے لیکن ہمیں ایسا کوئی حکم  نہیں ملتا کہ جس کا اثبات ان معنوں میں دلیل عقلی پر موقوف ہو بلکہ جو حکم دلیلِ عقلی سے ثابت ہوتا ہے وہی کتاب وسنت سے ثابت ہوتا ہے۔
اجماع کتاب وحدیث کی طرح مصدر نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ، ہاں بعض حالات میں اجماع اثبات کا وسیلہ قرار پاتاہے ۔
اس  طرح کتابِ (خدا) اور سنتِ (نبی (ص)) ہی مصدر ہیں ، دعا ہے کہ خداوند عالم ہمیں ان کے متمسکین میں قرار دے بے شک جس نے ان کا دامن تھام لیا اس نے عروۃ الوثقی کو پکڑ لیا کہ جس میں کوئی خدشہ نہیں ہے اور خدا سننے اور جاننے والا ہے۔
جی ہاں ہمیں گذشتہ اور موجودہ شیعوں میں یہی صفت ملتی ہے وہ فقط کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کا فتوی بھی آپ کو ایسے نہیں ملے گا جو قیاس و استحسان کا نتیجہ ہو۔
چنانچہ امام جعفر صادق(ع) اور ابوحنیفہ کا واقعہ مشہور ہے کہ امام صادق (ع) نے کس طرح ابوحنیفہ کو قیاس آرائی سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا:
دینِ خدا مٰیں قیاس سے کام نہ لو۔ کیونکہ جب شریعت میں قیاس آرائی ہوتی ہے تو مٹ جاتی ہے اور سب سے پہلے ابلیس نے یہ کہہ کر قیاس کیا تھا کہ میں اس (آدم (ع)) سے بہتر وافضل ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔
حضرت علی(ع) کے زمانہ سے لے کر آج تک یہی شیعوں کےنزدیک شریعت کےسرچشمے ہیں ۔ اہلِ سنت والجماعت  کے مصادرِ تشریع کیا ہیں؟
شیعوں کے نزدیک شریعت کے سرچشمے
جمعہ, 31 جنوری 2014 12:12 کو آغاز ہوا | آخری تازہ کاری بوقت جمعہ, 31 جنوری 2014 12:12 | تحریر العصر پاری |  چھاپیے  | | مشاہدات: 68

    مؤلف: ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی
    ذرائع: اقتباس ازکتاب اہلبیت(ع)حلال مشکلاتwww.alhassanin.com

شیعہ امامیہ کی فقہ کا مطالعہ اور تحقیق کرنے والا جانتا ہے کہ شیعہ تمام فقہی احکام میں ” مسائل کو چھوڑ کر ” ائمہ اثناعشر کے طریق سے نبی(ص) کی طر ف رجوع کرتے ہیں۔

شریعت کے سرچشمے شیعوں کے نزدیک صرف دو۲ ہیں۔
کتابِ (خدا)  سنتِ (نبی (ص)) یعنی
مصدر  اوّل قرآن
مصدر دوّم سنتِ نبی(ص) ہے۔
یہ ہیں گذشتہ اور موجود شیعہ علما کے اقوال بلکہ یہ ان ائمہ اہلِ بیت(ع) کے اقوال ہیں کہ جن میں سے کسی ایک نے بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ میرا اجتہاد ہے۔
چنانچہ جب پہلے حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کے پاس لوگ خلافت لے کر آئے اور  یہ شرط پیش کی ، اگر آپ(ع) امت میں سنتِ ابوبکر و عمر کے لحاظ سے عمل کریں گے تو خلافت حاضر ہے۔ آپ(ص) نے فرمایا، میں کتابِ خدا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق عمل کروں گا۔ ( بعض روایات میں ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا : اس کے علاوہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا یہ مکتب اجتہاد کے طرف داروں کا اضافہ ہے ۔ کیونکہ امام علی(ع) نے ایک روز بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا بلکہ وہ تو ہمیشہ سے کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) سے مسائل کا استنباط کرتے تھے یا فرماتے تھے: ہمارے پاس الجامعہ ہے اس میں لوگوں کی ضرورت  کی تمام چیزیں موجود ہیں ۔ یہاں تک خدش الارش بھی تحریر ہے۔ الجامعہ وہ صحیفہ ہے جو رسول(ص) کا املا اور علی(ع) کی تحریر ہے۔ صحیفہ جامعہ کے بارے میں ہم تفصیلی بحث “اہل السنۃ سنت کو مٹانے والے”والی فصل میں کرچکے ہیں۔ )
آنے والی بحثوں میں ہم اس بات کی وضاحت کریں گے کہ علی(ع) ہمیشہ سنتِ نبی(ص) کے پابند رہے اور اس سے کبھی چشم پوشی نہیں کی اور لوگوں کو سنتِ نبی(ص) پر پلٹانے کے لئے پوری کوشش کرتے رہے ۔ یہاں تک خلفا آپ(ع) سے ناراض ہوگئے اور خدا کے لئے آپ(ع) کو سختی اور سنتِ نبی(ص) کو نافذ کرنے کی پاداش میں لوگوں کی نفرت نصیب ہوئی۔
جیسا کہ امام محمد باقر(ع) ہمیشہ فرمایا کرتے تھے۔
” اگر ہم اپنی رائے سے تمھیں مسائل بتاتے تو ایسے ہی
گمراہ ہوجاتے جس طرح ہم سے پہلے لوگ گمراہ ہوگئے
تھے ہم جو کچھ تمھیں بتاتے ہیں اس پر ہمارے پروردگار
کی وہ واضح دلیل موجود ہے جو اس نے اپنےنبی(ص) ہے بیان
 کی تھی اور نبی(ص) نے ہم کو تعلیم دی ہے”۔

دوسری جگہ فرماتے ہیں:
” اے جابر اگر ہم تمھیں اپنی رائے اور ہوا وہوس سے
کوئی بات بتاتے تو ہلاک ہوگئے ہوتے ہم تو تمھیں
 وہی بتاتے ہیں جو ہم نے نبی(ص) کی احادیثِ رسول(ص) جمع کی
 ہیں اور ہم نے ایسے ہی ذخیرہ کیا ہے جیسے لوگ سونا
چاندی ذخیرہ کرتے ہیں”۔
اور امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:
” قسم خدا کی ہم اپنی رائے اور ہوائے نفس سے کوئی چیز
 بیان نہیں کرتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ قولِ خدا
ہوتا ہے جب بھی ہم تمھیں کوئی جواب دیتے ہیں وہ
 ہماری رائے سے نہیں ہوتا بلکہ وہ قول رسول(ص) ہوتا ہے “۔
ائمہ اہلِ بیت(ع) کی اس سیرت سے تمام اہلِ علم اور محققین واقف ہیں ۔ اسی لئے تو انھوں نے کسی ایک امام کے بارے میں بھی یہ نہیں تحریر کیا کہ وہ رائے کی قائل تھے یا قرآن و سنت کے علاوہ کسی قیاس و استحسان وغیرہ کے قائل تھے۔
اور جب ہم اپنے ہم عصر مرجع اکبر شہید آیت اللہ محمد باقر الصدر ( رضوان اللہ علیہ) کے رسالۃ عملیہ کو دیکھیں گے تو عبادات و معاملات کے واضح فتاوی میں ملاحظہ کریں گے ۔ وہ تحریر فرماتےہیں ۔
ہم آخر میں اختصار کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان واضح فتوؤں کے استنباط میں ہم نے جن عظیم مصادر پر اعتماد کیا ہے وہ قرآن مجید اور وہ حدیث شریف سے عبارت ہیں اور موثق لوگوں سے منقول ہے خواہ ان کا کوئٰی بھی مذہب رہاہو ۔ ( الفتاوی الواضحہ الشہید باقر الصدر ص۹۸)
لیکن قیاس و استحسان پر اعتماد کرنا ہم شرعی نقطہ نظر سے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔
ہاں دلیل عقلی میں مجتہدین اور محدثٰین کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا اس پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں۔
اگر چہ ہم اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ اس پر عمل رنا جائز ہے لیکن ہمیں ایسا کوئی حکم  نہیں ملتا کہ جس کا اثبات ان معنوں میں دلیل عقلی پر موقوف ہو بلکہ جو حکم دلیلِ عقلی سے ثابت ہوتا ہے وہی کتاب وسنت سے ثابت ہوتا ہے۔
اجماع کتاب وحدیث کی طرح مصدر نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ، ہاں بعض حالات میں اجماع اثبات کا وسیلہ قرار پاتاہے ۔
اس  طرح کتابِ (خدا) اور سنتِ (نبی (ص)) ہی مصدر ہیں ، دعا ہے کہ خداوند عالم ہمیں ان کے متمسکین میں قرار دے بے شک جس نے ان کا دامن تھام لیا اس نے عروۃ الوثقی کو پکڑ لیا کہ جس میں کوئی خدشہ نہیں ہے اور خدا سننے اور جاننے والا ہے۔
جی ہاں ہمیں گذشتہ اور موجودہ شیعوں میں یہی صفت ملتی ہے وہ فقط کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کا فتوی بھی آپ کو ایسے نہیں ملے گا جو قیاس و استحسان کا نتیجہ ہو۔
چنانچہ امام جعفر صادق(ع) اور ابوحنیفہ کا واقعہ مشہور ہے کہ امام صادق (ع) نے کس طرح ابوحنیفہ کو قیاس آرائی سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا:
دینِ خدا مٰیں قیاس سے کام نہ لو۔ کیونکہ جب شریعت میں قیاس آرائی ہوتی ہے تو مٹ جاتی ہے اور سب سے پہلے ابلیس نے یہ کہہ کر قیاس کیا تھا کہ میں اس (آدم (ع)) سے بہتر وافضل ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔
حضرت علی(ع) کے زمانہ سے لے کر آج تک یہی شیعوں کےنزدیک شریعت کےسرچشمے ہیں ۔ اہلِ سنت والجماعت  کے مصادرِ تشریع کیا ہیں

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *