حجۃ الاسلام شیخ حافظ حسین نوری اعلی اللہ مقامہ
حجۃ الاسلام شیخ حافظ حسین نوری اعلی اللہ مقامہ
تحریر ترتیب وپیشکش: علی احمد نوری وعبدالغفار توحیدی
مرحوم حجۃ الاسلام شیخ حافظ حسین نوری ۱۷ رجب ۱۳۸۲ھ ق بمطابق ۱۹۶۲ ء کو بلتستان کے ضلع گنگ چھے تحصیل مشہ بروم کے گاوں سینو میں پیدا ہوئے۔مرحوم کے دادا ایک دیند ار دور اندیش اور سخی انسان تھے مرحوم نےبتدائی تعلیم ماسٹر قنبر علی کے پاس پرائمری سکول کندوس سے جبکہ مڈل اور میٹرک کی تعلیم ہائی سکول خپلو سے حاصل کی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ موصوف کا نام کالج کے پوزیشن ہولڈٖروں کی لسٹ میں آج بھی شامل ہے۔ وہ سکول اور کالج کی تعلیم کے دوران ہر کلاس کے ممتاز طالب علم رہے۔ان کے استاد کے بقول وہ شروع ہی سے اسلامی آداب کے پابند، محنتی اور عظیم شخصیت کے مالک تھے چنانچہ وہ کبھی گاؤں کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔ ازاں بعد موصوف نے اپنے دینی رحجانات کے باعث جامعۃ المنتظر لاہور میں دینی علوم کے حصول کا سلسلہ شروع کیا۔
اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کی ڈگری بھی حاصل کی نیز علم اخلاق کی معروف کتاب معراج السعادہ کی تلخیص‘‘راہِ سعادت’’ کے نام سے مرتب کی جو اسی دوران چھپ کر منظر عام پر آئی۔ جامعۃ المنتظر میں شرح لمعہ و اصول مظفر تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے جہاں انہوں نے محنت، لگن اور دیانتداری کے ساتھ درس خارج تک علم حاصل کیا۔
ان کے اساتید میں آیۃ اللہ مظاہری ، آیۃ اللہ اعتمادی ، آیۃ اللہ وحید خراسانی ، آیۃ اللہ جعفر سبحانی، آیۃ اللہ بہجت، آیۃ اللہ حافظ ریاض حسین، علامہ صفدر نجفی ،وغیرہ شامل ہیں۔ مرحوم نے حضرت آیۃ اللہ بہجت سے روحانی و عرفانی فیوضات حاصل کیں۔ حوزہ علمیہ قم میں علم اصول، علم فقہ، علم حدیث، علم رجال، فلسفہ، کلام، ادبیات عرب، علم عرفان اور دیگر علوم سے اپنا دامن بھرا۔ ظاہری علوم کے ساتھ انہوں نے اخلاقی، باطنی اور عرفانی کمالات کی طرف بھی بھر پور توجہ دی۔ حصول علم کے ساتھ تدریس کا سلسلہ بھی شروع رکھا۔۱۹۹۰ سے ۲۰۰۳ تک علوم دینی حاصل کرتے رہے۔ 2003میں جامعۃ النجف سکردو کی دعوت پر بطور مدرس سکردو تشریف لائے اور اس وقت سے اپنی زندگی کے آخری ایام تک یہاں درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کے میدانوں میں اپنے جوہر دکھاتے رہے اور تربیتی امور کے مسئول رہے۔ تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ 2008 میں ضلع گنگ چھے کی مرکزی امامیہ جامع مسجد کی امامت کی ذمہ داریاں بھی سنبھال لیں۔ادھر انہوں نے مختلف مقامات پر اخلاقی، تربیتی اور تبلیغی دروس کا بھر پور سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مسجدموسوی مارکیٹ سکردو میں نماز مغربین کی باقاعدہ امامت کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔ مرحوم دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین بلتستان ریجن کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دےرہےتھے ۔زمانہ طالب علمی میں آئی ایس اوبلتستان کے سرگرم رکن رہے۔پچھلے پانچ سالوں سےمجلس نظارت کے رکن تھے۔ انجمن امامیہ گنگ چھے کے صدر رہے۔پچھلے تین سالوں سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شورائے عالی کے رکن اور انوار مصطفی ٹرسٹ خپلو کے منیجنگ ٹرسٹی رہے۔
بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگ ان کی عارفانہ، عالمانہ اور زاہدانہ زندگی کی وجہ سے ان کے گرویدہ تھے۔ وہ عمر بھر اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے۔ تمام مسالک و مذاہب کے لوگوں نے ان کی ناگہانی رحلت پر افسوس کا اظہار کیا اور ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی۔
شیخ حافظ حسین نوری کی زندگی کا آخری دن:
۵ محرم الحرام کا دن موصوف کی زندگی کا آخری دن تھا۔ نماز شب ، اپنے خدا سے راز و نیاز اور مرکزی جامع مسجد میں نماز صبح کی امامت کے بعد موصوف نے مرکزی امام بارگاہ خانقاہ خپلو میں مجلس عزا سے خطاب کیا۔خپلو ڈنس کے دوپہر کے مجلس کے لئے سکردو سے شیخ احمد علی نوری کو بلایا تھا اس لئے آپ صبح سویرےکریس کے لئے روانہ ہوئے اور شیخ نوری سے راستے میں ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد دس بجے خپلو مرکز سے ساٹھ کلومیٹر دور واقع علاقہ کریس کے مرکزی خانقاہ معلی میں ایک گھنٹے تک مجلس عزا سے بھر پور خطاب کیا۔ اس مجلس عزامیں سینکڑوں شیعہ و نوربخشی عزادار ان حسینی موجود تھے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد دو بجے کریس سے بارہ کلومیٹر دور امام بارگاہ کورو میں کم ازکم ایک گھنٹے تک مجلس عزائے حسینی سے خطاب کیا۔ کورو کے بعد یہاں سے تقریباً 95 کلومیٹر دور واقع اپنے آبائی گاؤں سینو تشریف لے گئے جہاں بعد از نماز مغربین مجلس عزا سے خطاب کیا۔ اس خطاب کا دورانیہ بھی ایک گھنٹے سے کم نہ تھا ۔ بعد از مجلس عوام سے ملے، چند لوگوں کے ہاں تعزیت کے لیے گئے ،کچھ یتیموں اور محتاجوں سے مربوط کچھ فلاحی امور نمٹائے اور رات تقریباً آٹھ بجے واپس خپلو روانہ ہوئے۔ وہ اپنی گاڑی خود چلا رہے تھے۔ راستے میں سرموں کے مقام پر ان کی گاڑی المناک حادثے کا شکار ہوئی ۔ یوں علاقے کا یہ مثالی اور فعال ترین عالم دین خالق حقیقی سے جاملا۔مرحوم بیک وقت ایک بلند پایہ خطیب ، کامیاب معلم ،شاعر،ادیب، مولف، کامیاب مبلغ، سرگرم سماجی،سیاسی، تنظیمی ، انقلابی، عرفانی ودینی شخصیت اور جامع الکمالات انسان تھے ۔ سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ وہ زہد و تقوی کے پیکر تھے ۔ عبادت ان کا محبوب ترین عمل تھا ۔
رات کو ان کا جنازہ ضلعی ہیڈکواٹر لایا گیا۔ چھے محرم بروز بدھ ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مردوں اور عورتوں کا جم غفیر موصوف کے آخری وداع کے لیے جمع تھا۔ ہزاروں سوگواروں نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ بلتستان بھر کے علماء، شخصیات اور عوام اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ ،حاجی فدا محمد ناشاد سابق ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو،حاجی محمد اسماعیل وزیر بلدیات، وزیر حسن پارلیمانی سکریٹری ،حجۃالاسلام سید عباس رضوی صدر انجمن امامیہ بھی نماز جنازہ میں شرکت کرنے اور خپلو کے عوام کو تسلیت دینے کے لیے خپلو آئے۔ نماز جنازہ کے بعد مرحوم کا جنازہ جب تدفین کے لیے ان کے آبائی گاؤں سینو کی طرف روانہ ہوا تو ایک کہرام مچ گیا۔ ہزاروں مرد و زن دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور قیامت کا سماں تھا۔ مرکز خپلو سے مرحوم کا جنازہ نہایت تزک و احتشام کے ساتھ گاڑیوں کے کاروان کی شکل میں سینو لایا گیا۔ گاڑیوں کو سرموں پل کراس کرنے میں قریباً ڈیڑھ دو گھنٹے لگے ۔ سینو میں ہزاروں لوگوں نے ان کی نماز جنازہ ادا کی۔ معروف عالم دین حجۃالاسلام سید مظاہر حسین موسوی نے امامت کی۔ نماز کے بعد سید مظاہر حسین موسوی، سید علی رضوی اور شیخ غلام نبی کریمی نے خطاب کیا۔ نماز جنازہ میں شرکت کرنے والی علمی شخصیات میں علامہ شیخ سجاد حسین مفتی،شیخ احمد علی نوری، شیخ محمد علی توحیدی، سید علی رضوی،شیخ ذوالفقار یعسوبی،شیخ جواد جوہری،شیخ محمد حسین مخلصی،شیخ محمد باقر، شیخ غلام حسن جعفری، سید عباس رضوی، شیخ محمد رضا بہشتی، شیخ غلام مہدی حسنی، شیخ غلام محمد فخرالدین، شیخ غلام حسین جوہری، شیخ عنایت واعظی شامل تھے۔ ان کے بہت سے شاگرد بھی موجود تھے۔
نوربخشیوں کے روحانی پیشوا پیرزادہ سید شمس الدین، مولانا خورشیدموسوی،علامہ سید علی موسوی گلشن کبیر وغیرہ نے بھی آخری رسومات میں شرکت کی۔
مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے کارکنان ، آئی ایس او کے نوجوان،انجمن امامیہ کے عہدیداران جامعۃالنجف کے اساتید وکارمندان وطلاب اور مختلف مذہبی وسیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھاری تعداد میں آخری رسومات میں شرکت کی۔
موصوف کے پسماندگان میں تین بیٹے، تین بیٹیاں، والدین، بھائی اور بہنیں شامل ہیں۔ مرحوم کی قیادت میں مجلس وحدت مسلمین بلتستان نے 2012 کے سانحہ چلاس اور سانحہ کوہستان و غیرہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف تاریخی اور بھر پور آواز بلند کی جس کی وجہ سے مجلس وحدت مسلمین کو بلتستان میں زبردست عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مرحوم فکر خمینی کے زبردست علمبردار تھے۔اپنی رحلت سے کچھ ہفتے پہلے موصوف نے خپلو میں توہین رسالت کے خلاف تمام مکاتب فکر کے علماء اور عوام کو یکجا کر کے ایک عظیم الشان مظاہرے کا اہتمام کیا اور اس اجتماع سے تاریخی خطاب کیا۔ معروف نوربخشی عالم مفتی عبداللہ نے علامہ نوری کی رحلت کو عظیم قومی سانحہ قرار دیا ہے۔وہ ان کی رحلت پر زارو قطار روتے رہے۔ سابق ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو محترم فدا محمد ناشاد نے بجا کہا ہے :
اگرچہ کم نہیں قدرت کے کارخانے میں زمانہ چاہیے ایک دیدہ ور کے آنے میں
بچھڑ کے ہم سے گئے حافظِ حسین نوری اب ان سا کیسے کہاں پائیں گے زمانے میں
اس پر شیخ محمد علی توحیدی نے یہ تضمین لکھی : کہا یہ میں نے کہ جانے میں تو نے جلدی کی کہا کہ زاد ہو تو کیا ہرج ہے جانے میں
شیخ حافظ حسین کی رحلت کو میڈیا ،اخبارات اور جرائد نے بڑی آب و تاب کے ساتھ منعکس کیا۔ شاعروں ، ادیبوں اور قلمکاروں نے انہیں منظوم و منثور خراج تحسین پیش کیا ۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ان کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔علما، ادبا، شعرا،سیاست دانو ں،غر ض ہر طبقہ زندگی کے نمائندوں نےموصوف کی رحلت کو عظیم سانحہ قرار دیا ۔ ملک بھر میں جگہ جگہ مرحوم کی یاد میں تعزیتی محافل کا اہتمام کیا گیا۔ جامعۃ النجف سکردو میں مرحوم کی یاد میں ایک منفرد اور یادگار تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں بلتستا ن بھر سے اور گلگت سے کافی مقدار میں علما اور شخصیات نے شرکت کی اور موصوف کو خراج عقیدت پیش کیا ۔
مرحوم کے بارے میں میڈیا میں اب تک جومضامین منظر عام پر آئے ان میں سے بعض یہ ہیں:
1. شیخ حافظ حسین نوری تحریر: محمد علی توحیدی
2. شیخ حافظ حسین نوری کا آخری دن تحریر:محمد ظہیر منڈوق
3. شیخ حافظ حسین نوری ۔ علم وعمل کا روشن ستارہ تحریر: محمد ظہیر منڈق
4. مرد علم وعرفان حافظ حسین نوری تحریر: پروفیسر حشمت کمال الہامی
5. آہ استادِ مرحوم حافظ نوری( کچھ یادیں کچھ باتیں)ٍٍ تحریر: جابر القادری
6. اک شخص سارے شہر کوویران کرگیا(بیادِ حافظ حسین نوری) تحریر:اسحاق علی رضا
7. عصر حاضر کے ابوذر تھے حافظ نوری تحریر: محمد لطیف مطہری
8. بیادِ شیخ حافظ حسین نوری تحریر:حاجی غلام مہدی مظہر
ہدایت کا روشن ستارہ تحریر:محمد یوسف اینگوٹی(غیر مطبوعہ)
مرحوم کو منظوم خراج عقیدت پیش کرنے والے شعرائے کرام میں درج ذیل شخصیات شامل ہیں۔
1. فدامحمد ناشاد
2. محمد علی توحیدی
3. حشمت کمال الہامی
4. جابرحسین قادری
5. جاوید اقبال قزلباش
6. وزیر احمد روندو
7. غلام مہدی مظہر
8. محمد یوسف کھسمن
اس قومی سانحے پر بلتستان بھر سے جید علمائے کرام ، روسا،دانشوروں، سیاسی وسماجی شخصیات نوجوانوں اور طلباء برادری نے ان کے آبائی گاؤں جاکر فاتحہ خوانی کی۔ ان میں نمایاںشخصیات یہ ہیں: حجۃالاسلام علامہ شیخ محمد حسن جعفری مرکزی امام جمعہ سکردو، حجۃالاسلام شیخ محمد جواد حافظی، حجۃالاسلام شیخ زاہدحسین زاہدی، حجۃالاسلام سید محمد علی شاہ موسوی گول وغیرہ۔
اس قومی وملی سانحے پر جن ملکی وغیر ملکی شخصیات نے اظہار افسوس کیا ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
آیت اللہ بہاؤالدینی نمائندہ رہبر معظم، آیت اللہ سیدحافظ ریاض حسین نجفی، آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی، آیت اللہ شیخ غلام عباس رئیسی، ،حجۃالاسلام سید جواد نقوی، حجۃالاسلام ناصر عباس جعفری سکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ،حجۃالاسلام علامہ امین شہیدی، حجۃالاسلام سید راحت حسین الحسینی قائد گلگت بلتستان ،حجۃالاسلام شیخ محمد حسن صلاح الدین ، حجۃالاسلام شیخ محمد باقر دانش، حجۃالاسلام شیخ غلام محمد سلیم،مولانا مرزا یوسف حسین ،حجۃالاسلام آغاحیدر موسوی لاہور،حجۃالاسلام سید جعفر شاہ لاہور،مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، چیئرمین امامیہ آرگنائزیشن پاکستان وغیرہ۔
اسلام آباد سے حجۃ الاسلام ناصر عباس جعفری، حجۃالاسلام سید حسنین عباس گردیزی، حجۃالاسلام مظہر کاظمی، حجۃالاسلام اقبال بہشتی،حجۃ الاسلام اعجاز بہشتی، مولانا ظہیر الدین بابر وغیرہ اور گلگت سےحجۃالاسلام سیدراحت حسین الحسینی ،حجۃالاسلام شیخ نیئر مصطفوی،حجۃ الاسلام شیخ بلال سمائری کے ساتھ ایک فد تعزیت کےلیے خصوصی طورپربلتستان تشریف لائے۔
حجۃ الاسلام شیخ حافظ حسین نوری اعلی اللہ مقامہ چھاپیے ای میل تحریر ترتیب وپیشکش: علی احمد نوری وعبدالغفار توحیدی زمرہ: حجۃ الاسلام شیخ حافظ حسین نوری اعلی اللہ مقامہ ترتیب وپیشکش: علی احمد نوری وعبدالغفار توحیدی مرحوم حجۃ الاسلام شیخ حافظ حسین نوری ۱۷ رجب ۱۳۸۲ھ ق بمطابق ۱۹۶۲ ء کو بلتستان کے ضلع گنگ چھے تحصیل مشہ بروم کے گاوں سینو میں پیدا ہوئے۔مرحوم کے دادا ایک دیند ار دور اندیش اور سخی انسان تھے مرحوم نےبتدائی تعلیم ماسٹر قنبر علی کے پاس پرائمری سکول کندوس سے جبکہ مڈل اور میٹرک کی تعلیم ہائی سکول خپلو سے حاصل کی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ موصوف کا نام کالج کے پوزیشن ہولڈٖروں کی لسٹ میں آج بھی شامل ہے۔ وہ سکول اور کالج کی تعلیم کے دوران ہر کلاس کے ممتاز طالب علم رہے۔ان کے استاد کے بقول وہ شروع ہی سے اسلامی آداب کے پابند، محنتی اور عظیم شخصیت کے مالک تھے چنانچہ وہ کبھی گاؤں کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔ ازاں بعد موصوف نے اپنے دینی رحجانات کے باعث جامعۃ المنتظر لاہور میں دینی علوم کے حصول کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کی ڈگری بھی حاصل کی نیز علم اخلاق کی معروف کتاب معراج السعادہ کی تلخیص‘‘راہِ سعادت’’ کے نام سے مرتب کی جو اسی دوران چھپ کر منظر عام پر آئی۔ جامعۃ المنتظر میں شرح لمعہ و اصول مظفر تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے جہاں انہوں نے محنت، لگن اور دیانتداری کے ساتھ درس خارج تک علم حاصل کیا۔ ان کے اساتید میں آیۃ اللہ مظاہری ، آیۃ اللہ اعتمادی ، آیۃ اللہ وحید خراسانی ، آیۃ اللہ جعفر سبحانی، آیۃ اللہ بہجت، آیۃ اللہ حافظ ریاض حسین، علامہ صفدر نجفی ،وغیرہ شامل ہیں۔ مرحوم نے حضرت آیۃ اللہ بہجت سے روحانی و عرفانی فیوضات حاصل کیں۔ حوزہ علمیہ قم میں علم اصول، علم فقہ، علم حدیث، علم رجال، فلسفہ، کلام، ادبیات عرب، علم عرفان اور دیگر علوم سے اپنا دامن بھرا۔ ظاہری علوم کے ساتھ انہوں نے اخلاقی، باطنی اور عرفانی کمالات کی طرف بھی بھر پور توجہ دی۔ حصول علم کے ساتھ تدریس کا سلسلہ بھی شروع رکھا۔۱۹۹۰ سے ۲۰۰۳ تک علوم دینی حاصل کرتے رہے۔ 2003میں جامعۃ النجف سکردو کی دعوت پر بطور مدرس سکردو تشریف لائے اور اس وقت سے اپنی زندگی کے آخری ایام تک یہاں درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کے میدانوں میں اپنے جوہر دکھاتے رہے اور تربیتی امور کے مسئول رہے۔ تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ 2008 میں ضلع گنگ چھے کی مرکزی امامیہ جامع مسجد کی امامت کی ذمہ داریاں بھی سنبھال لیں۔ادھر انہوں نے مختلف مقامات پر اخلاقی، تربیتی اور تبلیغی دروس کا بھر پور سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مسجدموسوی مارکیٹ سکردو میں نماز مغربین کی باقاعدہ امامت کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔ مرحوم دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین بلتستان ریجن کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دےرہےتھے ۔زمانہ طالب علمی میں آئی ایس اوبلتستان کے سرگرم رکن رہے۔پچھلے پانچ سالوں سےمجلس نظارت کے رکن تھے۔ انجمن امامیہ گنگ چھے کے صدر رہے۔پچھلے تین سالوں سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شورائے عالی کے رکن اور انوار مصطفی ٹرسٹ خپلو کے منیجنگ ٹرسٹی رہے۔ بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگ ان کی عارفانہ، عالمانہ اور زاہدانہ زندگی کی وجہ سے ان کے گرویدہ تھے۔ وہ عمر بھر اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے۔ تمام مسالک و مذاہب کے لوگوں نے ان کی ناگہانی رحلت پر افسوس کا اظہار کیا اور ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی۔ شیخ حافظ حسین نوری کی زندگی کا آخری دن: ۵ محرم الحرام کا دن موصوف کی زندگی کا آخری دن تھا۔ نماز شب ، اپنے خدا سے راز و نیاز اور مرکزی جامع مسجد میں نماز صبح کی امامت کے بعد موصوف نے مرکزی امام بارگاہ خانقاہ خپلو میں مجلس عزا سے خطاب کیا۔خپلو ڈنس کے دوپہر کے مجلس کے لئے سکردو سے شیخ احمد علی نوری کو بلایا تھا اس لئے آپ صبح سویرےکریس کے لئے روانہ ہوئے اور شیخ نوری سے راستے میں ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد دس بجے خپلو مرکز سے ساٹھ کلومیٹر دور واقع علاقہ کریس کے مرکزی خانقاہ معلی میں ایک گھنٹے تک مجلس عزا سے بھر پور خطاب کیا۔ اس مجلس عزامیں سینکڑوں شیعہ و نوربخشی عزادار ان حسینی موجود تھے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد دو بجے کریس سے بارہ کلومیٹر دور امام بارگاہ کورو میں کم ازکم ایک گھنٹے تک مجلس عزائے حسینی سے خطاب کیا۔ کورو کے بعد یہاں سے تقریباً 95 کلومیٹر دور واقع اپنے آبائی گاؤں سینو تشریف لے گئے جہاں بعد از نماز مغربین مجلس عزا سے خطاب کیا۔ اس خطاب کا دورانیہ بھی ایک گھنٹے سے کم نہ تھا ۔ بعد از مجلس عوام سے ملے، چند لوگوں کے ہاں تعزیت کے لیے گئے ،کچھ یتیموں اور محتاجوں سے مربوط کچھ فلاحی امور نمٹائے اور رات تقریباً آٹھ بجے واپس خپلو روانہ ہوئے۔ وہ اپنی گاڑی خود چلا رہے تھے۔ راستے میں سرموں کے مقام پر ان کی گاڑی المناک حادثے کا شکار ہوئی ۔ یوں علاقے کا یہ مثالی اور فعال ترین عالم دین خالق حقیقی سے جاملا۔مرحوم بیک وقت ایک بلند پایہ خطیب ، کامیاب معلم ،شاعر،ادیب، مولف، کامیاب مبلغ، سرگرم سماجی،سیاسی، تنظیمی ، انقلابی، عرفانی ودینی شخصیت اور جامع الکمالات انسان تھے ۔ سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ وہ زہد و تقوی کے پیکر تھے ۔ عبادت ان کا محبوب ترین عمل تھا ۔ رات کو ان کا جنازہ ضلعی ہیڈکواٹر لایا گیا۔ چھے محرم بروز بدھ ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مردوں اور عورتوں کا جم غفیر موصوف کے آخری وداع کے لیے جمع تھا۔ ہزاروں سوگواروں نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ بلتستان بھر کے علماء، شخصیات اور عوام اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ ،حاجی فدا محمد ناشاد سابق ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو،حاجی محمد اسماعیل وزیر بلدیات، وزیر حسن پارلیمانی سکریٹری ،حجۃالاسلام سید عباس رضوی صدر انجمن امامیہ بھی نماز جنازہ میں شرکت کرنے اور خپلو کے عوام کو تسلیت دینے کے لیے خپلو آئے۔ نماز جنازہ کے بعد مرحوم کا جنازہ جب تدفین کے لیے ان کے آبائی گاؤں سینو کی طرف روانہ ہوا تو ایک کہرام مچ گیا۔ ہزاروں مرد و زن دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور قیامت کا سماں تھا۔ مرکز خپلو سے مرحوم کا جنازہ نہایت تزک و احتشام کے ساتھ گاڑیوں کے کاروان کی شکل میں سینو لایا گیا۔ گاڑیوں کو سرموں پل کراس کرنے میں قریباً ڈیڑھ دو گھنٹے لگے ۔ سینو میں ہزاروں لوگوں نے ان کی نماز جنازہ ادا کی۔ معروف عالم دین حجۃالاسلام سید مظاہر حسین موسوی نے امامت کی۔ نماز کے بعد سید مظاہر حسین موسوی، سید علی رضوی اور شیخ غلام نبی کریمی نے خطاب کیا۔ نماز جنازہ میں شرکت کرنے والی علمی شخصیات میں علامہ شیخ سجاد حسین مفتی،شیخ احمد علی نوری، شیخ محمد علی توحیدی، سید علی رضوی،شیخ ذوالفقار یعسوبی،شیخ جواد جوہری،شیخ محمد حسین مخلصی،شیخ محمد باقر، شیخ غلام حسن جعفری، سید عباس رضوی، شیخ محمد رضا بہشتی، شیخ غلام مہدی حسنی، شیخ غلام محمد فخرالدین، شیخ غلام حسین جوہری، شیخ عنایت واعظی شامل تھے۔ ان کے بہت سے شاگرد بھی موجود تھے۔ نوربخشیوں کے روحانی پیشوا پیرزادہ سید شمس الدین، مولانا خورشیدموسوی،علامہ سید علی موسوی گلشن کبیر وغیرہ نے بھی آخری رسومات میں شرکت کی۔ مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے کارکنان ، آئی ایس او کے نوجوان،انجمن امامیہ کے عہدیداران جامعۃالنجف کے اساتید وکارمندان وطلاب اور مختلف مذہبی وسیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھاری تعداد میں آخری رسومات میں شرکت کی۔ موصوف کے پسماندگان میں تین بیٹے، تین بیٹیاں، والدین، بھائی اور بہنیں شامل ہیں۔ مرحوم کی قیادت میں مجلس وحدت مسلمین بلتستان نے 2012 کے سانحہ چلاس اور سانحہ کوہستان و غیرہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف تاریخی اور بھر پور آواز بلند کی جس کی وجہ سے مجلس وحدت مسلمین کو بلتستان میں زبردست عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مرحوم فکر خمینی کے زبردست علمبردار تھے۔اپنی رحلت سے کچھ ہفتے پہلے موصوف نے خپلو میں توہین رسالت کے خلاف تمام مکاتب فکر کے علماء اور عوام کو یکجا کر کے ایک عظیم الشان مظاہرے کا اہتمام کیا اور اس اجتماع سے تاریخی خطاب کیا۔ معروف نوربخشی عالم مفتی عبداللہ نے علامہ نوری کی رحلت کو عظیم قومی سانحہ قرار دیا ہے۔وہ ان کی رحلت پر زارو قطار روتے رہے۔ سابق ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو محترم فدا محمد ناشاد نے بجا کہا ہے : اگرچہ کم نہیں قدرت کے کارخانے میں زمانہ چاہیے ایک دیدہ ور کے آنے میں بچھڑ کے ہم سے گئے حافظِ حسین نوری اب ان سا کیسے کہاں پائیں گے زمانے میں اس پر شیخ محمد علی توحیدی نے یہ تضمین لکھی : کہا یہ میں نے کہ جانے میں تو نے جلدی کی کہا کہ زاد ہو تو کیا ہرج ہے جانے میں شیخ حافظ حسین کی رحلت کو میڈیا ،اخبارات اور جرائد نے بڑی آب و تاب کے ساتھ منعکس کیا۔ شاعروں ، ادیبوں اور قلمکاروں نے انہیں منظوم و منثور خراج تحسین پیش کیا ۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ان کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔علما، ادبا، شعرا،سیاست دانو ں،غر ض ہر طبقہ زندگی کے نمائندوں نےموصوف کی رحلت کو عظیم سانحہ قرار دیا ۔ ملک بھر میں جگہ جگہ مرحوم کی یاد میں تعزیتی محافل کا اہتمام کیا گیا۔ جامعۃ النجف سکردو میں مرحوم کی یاد میں ایک منفرد اور یادگار تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں بلتستا ن بھر سے اور گلگت سے کافی مقدار میں علما اور شخصیات نے شرکت کی اور موصوف کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ مرحوم کے بارے میں میڈیا میں اب تک جومضامین منظر عام پر آئے ان میں سے بعض یہ ہیں: 1. شیخ حافظ حسین نوری تحریر: محمد علی توحیدی 2. شیخ حافظ حسین نوری کا آخری دن تحریر:محمد ظہیر منڈوق 3. شیخ حافظ حسین نوری ۔ علم وعمل کا روشن ستارہ تحریر: محمد ظہیر منڈق 4. مرد علم وعرفان حافظ حسین نوری تحریر: پروفیسر حشمت کمال الہامی 5. آہ استادِ مرحوم حافظ نوری( کچھ یادیں کچھ باتیں)ٍٍ تحریر: جابر القادری 6. اک شخص سارے شہر کوویران کرگیا(بیادِ حافظ حسین نوری) تحریر:اسحاق علی رضا 7. عصر حاضر کے ابوذر تھے حافظ نوری تحریر: محمد لطیف مطہری 8. بیادِ شیخ حافظ حسین نوری تحریر:حاجی غلام مہدی مظہر ہدایت کا روشن ستارہ تحریر:محمد یوسف اینگوٹی(غیر مطبوعہ) مرحوم کو منظوم خراج عقیدت پیش کرنے والے شعرائے کرام میں درج ذیل شخصیات شامل ہیں۔ 1. فدامحمد ناشاد 2. محمد علی توحیدی 3. حشمت کمال الہامی 4. جابرحسین قادری 5. جاوید اقبال قزلباش 6. وزیر احمد روندو 7. غلام مہدی مظہر 8. محمد یوسف کھسمن اس قومی سانحے پر بلتستان بھر سے جید علمائے کرام ، روسا،دانشوروں، سیاسی وسماجی شخصیات نوجوانوں اور طلباء برادری نے ان کے آبائی گاؤں جاکر فاتحہ خوانی کی۔ ان میں نمایاںشخصیات یہ ہیں: حجۃالاسلام علامہ شیخ محمد حسن جعفری مرکزی امام جمعہ سکردو، حجۃالاسلام شیخ محمد جواد حافظی، حجۃالاسلام شیخ زاہدحسین زاہدی، حجۃالاسلام سید محمد علی شاہ موسوی گول وغیرہ۔ اس قومی وملی سانحے پر جن ملکی وغیر ملکی شخصیات نے اظہار افسوس کیا ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ آیت اللہ بہاؤالدینی نمائندہ رہبر معظم، آیت اللہ سیدحافظ ریاض حسین نجفی، آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی، آیت اللہ شیخ غلام عباس رئیسی، ،حجۃالاسلام سید جواد نقوی، حجۃالاسلام ناصر عباس جعفری سکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ،حجۃالاسلام علامہ امین شہیدی، حجۃالاسلام سید راحت حسین الحسینی قائد گلگت بلتستان ،حجۃالاسلام شیخ محمد حسن صلاح الدین ، حجۃالاسلام شیخ محمد باقر دانش، حجۃالاسلام شیخ غلام محمد سلیم،مولانا مرزا یوسف حسین ،حجۃالاسلام آغاحیدر موسوی لاہور،حجۃالاسلام سید جعفر شاہ لاہور،مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، چیئرمین امامیہ آرگنائزیشن پاکستان وغیرہ۔ اسلام آباد سے حجۃ الاسلام ناصر عباس جعفری، حجۃالاسلام سید حسنین عباس گردیزی، حجۃالاسلام مظہر کاظمی، حجۃالاسلام اقبال بہشتی،حجۃ الاسلام اعجاز بہشتی، مولانا ظہیر الدین بابر وغیرہ اور گلگت سےحجۃالاسلام سیدراحت حسین الحسینی ،حجۃالاسلام شیخ نیئر مصطفوی،حجۃ الاسلام شیخ بلال سمائری کے ساتھ ایک فد تعزیت کےلیے خصوصی طورپربلتستان تشریف لائے۔
https://www.facebook.com/700154983377416/posts/2566399976752898/
دیدگاهتان را بنویسید