تین بڑی تحریکیں /از نصراللہ فخرالدین
صدر اسلام سے لے کر اب تک بہت ساری انقلابی تحریکیں چلیں جن میں سے بعض مذہبی، بعض سیاسی، بعض اقتصادی اور بعض دیگر نظریات پر چلیں۔لیکن مذہبی بنیاد پر جو انقلابی تحریکیں وجودمیں آئیں ان میں سے تین تحریکیں ایسی ہیں جن کی نظیر نہیںملتی۔ جن کا بنیادی نظریہ ظلم و ستم اور جہالت کے طوفان میں ڈوبتی ہوئی انسانیت کو نجات دینا تھا ۔
1۔ پہلی انقلابی تحریک وہ ہے جو پیغمبرؐ نے اس وقت چلائی جب عرب معاشرہ فسق و فجور ، ظلم وستم اور جہالت میں غرق ہورہا تھا ، اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیزوں کو معبود کہ رہے تھے، بیٹی کی پیدائش کی خبر سن کر لوگوں کا منہ شرم سے کالا ہوجاتا تھا اور معمولی باتوں پر کئی سال لڑتے تھے ایسے میں اُس عظیم الٰہی رہبر نے ایسا انقلاب لایا کہ پست ترین عرب معاشرہ دنیا کا متمدن ترین معاشرہ بن گیا لوگ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بن گئے ، ظلم و ستم اور جہالت کے بادل چھٹ گئے یوں مختصر مدت میں اس انقلاب نے پورے جزیرہ عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا پھر آہستہ آہستہ پوری دنیا کے کونے کونے تک پھیل گیا۔ چنانچہ امیر المؤمنین فرماتے ہیں :
“فبعث الله محمداﷺ با لحق لیخرج عباده من عبادۃ الأوثان إلی عبادته، و من طاعة الشیطان إلی طاعته” (جوادی، ذیشان حیدر، نہج البلاغہ اردو ترجمہ و حواشی ،خطبہ۱۴۷)
پروردگار عالم نے حضرت محمدﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الٰہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمان کی اطاعت کرائیں۔اس قرآن کے ذریعہ جسے اس نے واضح اور محکم قرار دیا ہے تاکہ بندے خدا کو نہیں پہچانتے ہیں تو پہچان لیں اوراس کے منکر ہیں تو اقرار کرلیں اور ہٹ دھرمی کے بعد اسے مان لیں۔ لہذا آپ نے اس راہ میں آپ نے بہت ساری مصیبتیں اور زحمتیں اُٹھائیں۔
2۔ دوسری انقلابی تحریک وہ ہے جو امام حسینؑ نے چلائی اور اس تحریک کی فکری مبانی وہی تھیں جو پیغمبر اکرم کی تحریک کی تھیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے یزید کے خلاف قیام ضروری ہونے کو پیغمبر اکرمؐ کی اُس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں پیغمبرؐ فرماتے ہیں:
“من رأي سلطانا جائرا مستحلا لحرم الله ناكثا لعهد الله مخالفا لسنة رسول الله يعمل في عباد الله بالاثم و العدوان فلم يغير عليه بفعل و لا قول كان حقا علي الله أن يدخله مدخله” (مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۴۴،ص۳۸۲)
جو کوئی کسی ظالم و ستمگر حاکم کو دیکھے جو حلالِ خدا کو حرام اور حرامِ خدا کو حلال کرتا ہو، عھد و پیمانِ خداوند کو توڑتا ہو، سنت رسول خداؐ کی مخالفت کرتا ہو، لوگوں سے گناہ اور ستم کے ساتھ معاملہ کرتا ہو، اور وہ شخص اپنے قول یا فعل سے اس صورتحال کو بدلنے کی کوشش نہ کرے تو خداوند کا حق بنتا ہے کہ اس شخص کو اس جگہ لے جائے جہاں پر اس ظالم حکمران کو لے کر جائے گا۔
زیارت ناحیہ میں آیا ہے”وبذل مهحته فيك ليستنقذ عبادك من الجهالة وحيرة الضلالة” (زیارت اربعین) اور آپؑ (امام حسینؑ) نے اپنا خون دل تیری راہ میں بہایا تاکہ تیرے بندوں کو گمراہی اور جہالت کی حیرت سے نجات دلائیں۔ طول تاریخ جتنی کتابیں اس انقلاب کے متعلق لکھی گئیں اور جتنا تجزیہ و تحلیل اس موضوع پر ہوا کسی اور واقعہ یا کسی اور انقلاب کے بارے میں نہ اتنی کتابیں لکھی گئی ہیں اور نہ اتنا تجزیہ و تحلیل ہوا ہے ۔ ہر ایک نے اپنی استعداد کے مطابق اس انقلاب کے حوالے سے گفتگو کی اور مقصد قیام امام حسینؑ کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے حتی کہ بعض افراد نے حصول اقتدار ، بعض نے صرف شھادت ، بعض نے بیعت ِ یزید سے انکار، بعض نے کوفہ والوں کی دعوت اور بعض نے کچھ اور عوامل کو اسباب و اہدافِ قیام امام حسینؑ قررار دیا ہے۔ لیکن جب ہم امام عالی مقام کے فرمودات کا غور سے مطالعہ کرتے ہیں تو علل واہداف قیام امام عالی مقام واضح ہوجاتے ہیں کہ اگر چہ یہ اہداف اور عوامل بھی امامؑ کے قیام کے محرکات میں سے تھے لیکن جن اہداف اور عوامل کو امام عالیؑ کے قیام میں بنیادی حیثیت حاصل تھی وہ امت کی اصلاح، امر بالمعروف، نہی از منکر، سیرت پیغمبر اکرمؐ و امیرالمؤمنینؑ ، سنتوں کا زندہ کرنا اور بدعتوں کا خاتمہ کرنا تھا۔ اس انقلاب نے اپنے بعد چلنے والی تحریکوں کو ایک نئی جہت دی اور باطل قدرتوں نے سامنے ڈٹ کر مقا بلہ کرنے کا حوصلہ دے کر یہ بتا دیا کہ انقلاب طاقت اور قدرت سے نہیں بلکہ ایمان اور درست نظریات سے کامیاب ہوتا ہے۔ اس انقلاب کے بعد آج تک جب بھی کوئی مظلوم ظالم کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے تو وہ نام حسین ابن علیؑ لے کر ہی کھڑا ہوتا ہے۔ اگر چہ تمام ائمہ کی جد وجہد کا مقصد ایک الٰہی اور جہانی حکومت کا قیام تھا لیکن اس جدو جہد میں سب سے زیادہ جس ہستی کے لئے قیام کا زمینہ فراہم ہوا وہ سید الشھداء ؑ کی ذات گرامی ہے۔
3۔ تیسری انقلابی تحریک جس نے دنیا پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے وہ انقلاب اسلامی ایران ہے اور اس انقلاب کے مبانی بھی وہی تھیں جو پہلے دونوں انقلابوں کی تھیں کہ مستضعفین کو مستکبرین کے شر سے نجات دلانا، عدل الٰہی کا قیام، قانون الٰہی کی بالادستی اور مظلوموں کو ظالمین کی شر سے نجات دلا کر ایک الٰہی حکومت قائم کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف شاہ ایران کو بچانے کے لیے پوری دنیا کھڑی تھی اور دوسری طرف اس کی حکومت کا تختہ الٹ دینے کے لئےصرف امام خمینیؒ اور چند افراد تھے لیکن اس کے باوجود امام نے صبر و استقامت اور شجاعت و بہادری سے یہ تحریک چلائی اور آخر کار ڈھائی ہزار سالہ شاہی حکومت کا خاتمہ کر کے ایک الٰہی حکومت قائم کردیا۔ اسی لئے امام خمینیؒ نے اپنی اکثر تقریروں میں انبیاء اور ائمہ خاص کر پیغمبر اکرمؐ اور امام حسینؑ کا مستکبرین کے سامنے قیام اور استقامت کو بیان کر کے اپنے قیام کی ضرورت اور اہمیت پر استدلال کرتے تھے اورپیغمبر اکرمؐ کی جس حدیث کو امام حسینؑ نے یزید کے خلاف اپنے قیام کی ضرورت پر استدلال کیا تھا امام خمینیؒ نے بھی اسی حدیث کو شاہی حکومت کے خلاف قیام ضروری ہونے پر سند قرار دی ہے۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس مبنا پر امام حسینؑ نے قیام کیا تھا بالکل اسی مبنا پر امام خمینیؒ نے بھی قیام کیا ہے۔
وما توفیقی الا بااللہ
دیدگاهتان را بنویسید