تازہ ترین

مسئلہ کشمیر پر حمایت فرقہ واریت نہیں/تحریر: نصرت علی شہانی

مسئلہ کشمیر پر حمایت فرقہ واریت نہیں

نصرت علی شہانی ترجمان وفاق المدارس الشیعہ پاکستان
اگر عرب کشمیر کی حمایت کریں تو انکے کون سے مفادات خطرے میں ہیں؟ یہ ایران کا اعزاز ہے کہ اقتصادی پابندیوں میں جکڑے ہونے اور تنہائی کے باوجود اپنے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کی مخالفت اور کشمیر کی کھلی حمایت کی ہے۔ نہایت افسوس کہ کالم نگار نے کشمیر پر ایرانی حمایت کی تحسین کی بجائے اسکے ماضی میں بھارت سے کئے چند کاروباری معاہدوں کو تو اچھالا، لیکن سعودیہ کے بھارت سے حالیہ معاہدوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ انہیں اپنی اس رائے کے ضمنی پہلووں پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ بہت سے پاکستانیوں کی ہمدردیاں اسلام آباد کی بجائے ریاض یا تہران سے ہوتی ہیں۔فرمان نبوی ﷺ کی رُو سے اُمت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، جس کے ہر فرد کا درد سب کو محسوس کرنا چاہیئے۔ کشمیر کی تازہ صورتحال نے درحقیقت ہمارے اور کشمیر کے اصل دوستوں اور زبانی دعوے کرنیوالوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مادر، پدر آزاد سوشل میڈیا کے مباحثوں کا حوالہ دے کر رکن اسلامی نظریاتی کونسل جناب خورشید ندیم 29 اگست کے روزنامہ دنیا میں مسئلہ کشمیر پر ان کے بقول ہو رہی فرقہ پرستی اور فرقہ واریت کے بارے میں خلاف حقائق باتیں کرکے خود اس فعل کے مرتکب ہوئے۔ دراصل کچھ لوگ کشمیر کے ان نازک حالات میں عربوں کے صریح منفی کردار کی شدت کو کم کرنے اور ایران کے تاریخی مثبت اقدام کو کم اہمیت ثابت کرنے کیلئے خورشید صاحب جیسی تکنیک کا سہارا لے رہے ہیں، حالانکہ یہ ایک سادہ عام فہم بات ہے کہ جو مسلم ممالک ان مشکل حالات میں زبانی حمایت بھی نہیں کر رہے، ان میں سعودیہ و دیگر عرب ممالک ہیں اور وہ اسلامی ممالک جن کی حیثیت، اثر و رسوخ عربوں جیسا نہیں یا بنگلہ دیش اور افغانستان کی طرح بھارت کے زیر اثر ہیں۔

شئیر
21 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5128

دوسری طرف ترکی اور ایران ہے، جس نے کھل کر حمایت کی ہے۔ ہم یا دیگر مسلمان، عربوں بالخصوص حجاز (جسے بدقسمتی سے آل سعود سے منسوب کر دیا گیا) کے حکمرانوں سے بجا طور پر بہت سی توقعات رکھتے ہیں اور ان کے منفی کردار پر شکوہ اور احتجاج کا حق بھی۔ سعودیہ، وحی کی سرزمین ہے، بانیء اسلام کا وطن ہے، اسلام کی جائے پیدائش ہے۔ یہاں کعبہ ہے، روضہء رسول ہے۔ اس سرزمین پر اسلام مکمل ہوا، قرآن نازل ہوا۔ یہ اعزازات اور ان سے متعلق ذمہ داریاں سعودیہ کے ساتھ مخصوص ہیں۔ کیا اسلام مکمل ضابطہء حیات نہیں؟ کیا رسول اکرم ﷺ نے اسی سرزمین پر اسلامی حکومت قائم نہیں کی؟ اگر اللہ کا نظام، مصطفیٰ کے احکام دنیا میں کہیں اور نافذ نہیں ہوسکتے تو یہاں بھی انہیں محو کر دیا جائے۔؟
خورشید ندیم صاحب بطور رکن اسلامی نظریاتی کونسل اپنی اس رائے پر نظرثانی کریں کہ خارجہ پالیسی مذہبی بنیاد پر نہیں بنتی۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں، اسلامی حکومت کے دستور و منشور میں خارجہ پالیسی شامل ہے۔ اگر آپ اس سے متفق نہیں تو نظریاتی کونسل کی رکنیت اسلام کی کن تشریحات کیلئے قبول کی ہے؟ ان مسائل کی اصل وجہ عربوں کی اسلامی نظام حکومت سے دوری ہے۔ بدقسمتی سے عربوں کی مہار امریکہ و اسرائیل کے ہاتھ میں ہونے کی بنا پر ان کی خارجہ پالیسیاں واشنگٹن، تل ابیب بناتا ہے۔ 42 ملکی اسلامی فوج ہونے کے باوجود حجاز کی مقدس سرزمین پر سکیورٹی کے بہانے امریکی دستے بلائے جاتے ہیں۔ (اس اتحاد نے کشمیر و فلسطین کیلئے کیا کرنا ہے؟)
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کو سی آئی اے ”عظیم خدمات“ کے صلے میں ایوارڈ سے نوازتی ہے۔ سنی مسلک عربی زبان فلسطین کا دفاع کرنیوالی حقیقی مجاہد تنظیم ”حماس“ کو عرب حکومتیں، اسرائیل کی خوشامد کرتے ہوئے دہشتگرد کہتی ہیں۔ ٹرمپ کے یہودی داماد کا گہرا دوست محمد بن سلمان فلسطین کے سودے میں پیش پیش ہے۔ کیا اسے ہم اور دیگر مسلمان نظر انداز کر دیں؟ پھر بنگلہ دیش، افغانستان، ملائشیا اور سعودی عرب میں کیا فرق رہا؟ خدمت حرمین کے دعوے کیا ہوئے؟ کیا فقط حج کے مہنگے داموں انتظامات ہی حرمین کی خدمت ہے یا حرمین کے مالکوں، وارثوں کے اہداف کیلئے کام کرنا خدمت ہے؟ خورشید صاحب اس پر بھی رائے دیں۔
جہاں تک ایران کی قیادت کیلئے ایوارڈ کی تجویز پر کالم نگار کی پریشانی کا تعلق ہے تو واضح ہونا چاہیئے کہ یہ ہمارے لئے اعزاز ہوگا کہ ہمسایہ ملک کی اعلیٰ روحانی قیادت، جلیل القدر علمی ہستی کی قدردانی کریں۔ ان کی حمایت کا شکریہ ادا کریں۔ حدیث ہے کہ جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ ان کے تو دنیا میں کروڑوں عقیدت مند ہیں۔ ان کا زہد و تقویٰ کسی دنیاوی اعزاز کی نہ امید رکھتا ہے، نہ طلب۔ خورشید صاحب نے سعودیہ اور ایران کا بے محل، غیر حقیقی تقابل کیا ہے۔ ایران میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد عربوں کے برعکس قومی کی بجائے اسلامی مفادات سرفہرست ہیں۔ اگر کالم نگار کو یاد ہو تو سلمان رشدی کے قضیے میں جب اس گستاخ رسالت کے قتل بارے امام خمینی کے تاریخی فتوے کے بعد پورے یورپ نے ایران کا اقتصادی بائیکاٹ اور سفیر واپس بلا لیے تو ایران رتی بھر بھی پسپا نہیں ہوا۔ قومی مفادات پس پشت ڈال دیئے۔ کیا یہ استقامت قومی مفاد کی خاطر تھی یا اسلامی مفاد کیلئے؟ جبکہ حجاز کے مفتیوں کو نہ تو ایسا فتویٰ دینے کی توفیق ہوئی، نہ حرمین کے خادموں کو کسی رسمی بیان کی۔ اب تو محمد بن سلمان نے بھی اعتراف کیا ہے کہ وہابیت مغرب کی سرپرستی سے وجود میں آئی۔
اگر عرب کشمیر کی حمایت کریں تو ان کے کون سے مفادات خطرے میں ہیں؟ یہ ایران کا اعزاز ہے کہ اقتصادی پابندیوں میں جکڑے ہونے اور تنہائی کے باوجود اپنے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کی مخالفت اور کشمیر کی کھلی حمایت کی ہے۔ نہایت افسوس کہ کالم نگار نے کشمیر پر ایرانی حمایت کی تحسین کی بجائے اس کے ماضی میں بھارت سے کئے چند کاروباری معاہدوں کو تو اچھالا، لیکن سعودیہ کے بھارت سے حالیہ معاہدوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ انہیں اپنی اس رائے کے ضمنی پہلووں پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ بہت سے پاکستانیوں کی ہمدردیاں اسلام آباد کی بجائے ریاض یا تہران سے ہوتی ہیں۔ کیا اسلام آباد کی اپنی آزاد، خود مختار پالیسی ہے۔؟ ریاض، واشنگٹن کی خوشنودی کیلئے تو تہران سے بے رخی کی ہوئی ہے۔ اپنی دہلیز پر پہنچی گیس پائپ لائن سے بھی استفادہ نہ کرکے اپنے قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ واضح رہے ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک میں سے مسلمان ان دو تین ممالک سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ہمارا کعبہ، قرآن کی جائے نزول، دین، مقدس مقامات ،علمی و دینی مراکز سب انہی ممالک میں ہیں۔ ہم وہاں کے سیاسی حالات کے بارے بھی لامحالہ سوچیں گے اور پسند، ناپسند کا اظہار کریں گے۔جہاں تک تہران کا تعلق ہے، جب تک یہ واشنگٹن کی غلامی میں تھا، سنی، شیعہ صائب الرائے طبقہ اس کا مخالف تھا، جبکہ اس وقت بھی شہنشاہ ایران اور اس کے اراکین حکومت شیعہ ہی تھے، لیکن امام خمینی کی قیادت میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد ہر سچے مسلمان کی ہمدردیاں بجا طور پر تہران کے ساتھ ہونا چاہیئں، کیونکہ اس کی پالیسیاں تاجدار مدینہ، والئی نجف کے احکامات و فرامین کے مطابق ہیں۔ لیکن اپنے قومی مفادات ہمارے لئے مقدم ہیں۔ ریاض نے ہمیں مالی امداد کے ساتھ ساتھ اور ”کیا کچھ“ دیا؟ اس پر بھی کالم نگار، فاضل رکن اسلامی نظریاتی کونسل کو ضرور اظہار خیال کرنا چاہیئے۔ یمن جنگ یا اس مظلوم ملک کی سعودی جارحیت کے نتیجہ میں تباہی کے حوالے سے بھی خورشید صاحب نے نواز شریف کے حوالے سے آدھی بات کی ہے۔ اگر کالم نگار سابق وزیراعظم کے حامی ہیں تو شکر کریں کہ لاکھوں مظلوم یمنیوں کے خون ناحق میں ان کا حصہ نہیں یا بہت کم ہے، یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ فاضل کالم نگار کشمیر بارے کسی کی بھی حمایت کو فرقہ واریت قرار نہ دیں۔ ان کی یہ فکر اپنے مقام پر فرقہ واریت ہے، جس سے اجتناب لازم ہے۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *