تازہ ترین

گلتری کا مختصر تعارف / کاشف رضوانی

پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد کے شمال میں صوبہ گلگت بلتستان کے مرکزی شہر اسکردو سے چار گھنٹے کی مسافت پر سرسبز و شاداب، بلند پہاڑوں کے درمیان، آبشاروں کے دامن میں ایک حسین تریں علاقہ واقع ہے، جسے مقامی لوگ گلتری کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
گلتری کا تعلق بلتستان کے سو فیصد شیعہ علاقوں میں ہوتا ہے جسکی آبادی 1994 کی مردم شماری کیمطابق 22 ھزار تھی جو اب مختلف جنگوں ، اور دینی ومروج تعلیم اور سھولیات کی عدم دستیابی کی بنیادپر 9 ھزار تک جاپھنچی ہے

شئیر
179 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5157

علاقہ کی اھمیت :
جغرافیائی حیثیت: پاک انڈیا بارڈر کی وجہ سے علاقہ جغرافیائی اعتبار سے انتھائی اھمیت کا حامل ہے
انٹرنیشنل پارک (دیوسائی): پاکستان کا سب سے وسیع اور 1300 کی بلندی میں واقع قدرتی پارک دیوسائی اسی علاقے سے متصل ہے جسمیں سالانہ لاکھوں سیاح آتے ہیں ۔اور عالمی میڈیا کے مطابق یورپی ممالک پاکستان سے متعدد بار اسکو اپنی تحویل میں دینے کا مطالبہ کرچکے ہیں
دینی حیثیت:
1 : سوفیصد اور خالص شیعہ اثناعشری پر مشتمل ہونا
2 : لوگوں کا باایمان اور دینی امور میں منظم ہونا
3 : اسور کے تھرو چلاس ، اور کیل ، اور رٹو جیسے وھابی نشین علاقوں سے متصل ہونا ۔
مسائل ومشکلات:
علم کا فقدان
اس علاقے میں دینی و دنیاوی تعلیم کے مناسب ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے آج سے بیس، تیس سال پہلے لوگوں کی بڑی تعداد نے یہاں سے ہجرت کرنا شروع کر دی اور ملک کے مختلف شہروں کی طرف نقل مکانی کر گئے۔ خاص طور پر بہت سے لوگ اسکردو سٹی، شہر کراچی اور اسلام آباد میں آکر آباد ہوگئے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی مڈل کے بعد یہاں تعلیم کی کوئی سہولیت موجود نھیں اور نہ ہی کوئی دینی ادارہ ہے۔
مذھب:
یہاں کے باسی شیعیان حیدر کرار ہیں، شیعہ مذہب کے علاوہ اس علاقے میں دوسرا کوئی مذہب نہیں ہے۔لیکن اب تک کوئی دینی مدرسہ وغیرہ موجود نھیں ہے
امن و امان کی صورتحال:
جنگوں کی وجہ سے یہ علاقہ اکثر متاثر ہوتا رہا ہے، جیسے کہ پہلے اشارہ ہوچکا ہے کہ یہ علاقہ انتہائی حساس علاقوں میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ اس علاقے میں انڈیا اور پاکستان کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے مورچہ بند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان اور انڈیا کی لڑائی ہوتی ہے تو یہ علاقہ بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کا سکون اور چین برباد ہو جاتا ہے۔ بیشتر اوقات لوگ اپنی جان و مال و دولت بھی گنواں بیٹھتے ہیں۔ جب بھی جنگیں ہوئیں ہیں، یہاں کے لوگ انتہائی کسمپرسی سے دوچار ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود افواج پاکستان کے شانہ بشانہ تمام محاذوں پر ثابت قدم رہتے ہیں۔ دو جنگوں میں جیسے 1988ء اور 1998ء میں افواج پاکستان کے حکم سے کچھ گاوں خالی کرنا پڑے اور لوگ ہجرت کرنے پر بھی مجبور ہوئے۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *