جناب سیدہ کونینؑ اور تربیت اولاد
مقدمہ
الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علی محمد وآلہ الطاہرین ولعنۃ اللہ علی اعدائھم اجمعین ۔ اما بعد
بنی نوع بشر کی تربیت کرنا اس قدر مہم ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے کو مربی کے طور پیش کیا ہے اور رسالت مآپ ؐکو پہلی بار تکلم کرنے کا حکم جب دیا تو اپنی تربیت والی صفت کا نام لے کر شروع کرنے کا حکم ہوا:اقراٴ بسم ربک الذی خلق ۔ اور ان ذوات مقدسہ کو مربی اور ہادی بشریت کے طور پر خلق فرمایا۔اسی اہمیت کے پیش نظر یہ مقالہ بعنوان” سیدہ کونینؑ اور تربیت اولاد “لکھا گیا ہے جس میں تربیت اولاد کے کچھ قواعد و اصول اور کچھ واقعات کو رنگ فاطمی میں رقم کرنے کی کوشش کی ہے ،ساتھ ہی تربیت اولاد کی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے والدین کو کس قدر تلاش اور کیا کیا طریقے اختیار کرنا چاہئے ، سے بحث کی ہے کہ جس کے نتیجہ میں اولاد صالح انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی کے لئے بھی مفید ثابت ہو،اس مدعا کو احادیث معصومینؑ خصوصاً جناب سیدہ ؑکے فرامین کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مقالہ مختصر ہی سہی لیکن تربیت اولاد سے مربوط فاطمہ ؑ کی زحمتوں کی عکاسی کرتا ہے۔
اس مقالہ میں سعی کی گئی ہے کہ تربیت اولاد سے مربوط سیدہ کونین ؑ کا کردار بیان ہوا ہے اس عنوان کےذیل میں تربیت اولاد کی اہمیت اور روش تربیت کے چیدہ چیدہ اصول جو فاطمہ زہراءؑ سے مربوط تھے ،کو بیان کرنےکے ساتھ اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے والے والدین کا اجرو ثواب بیان کیا گیا ہے تاکہ والدین کو اپنی اولاد کی دینی تربیت کرنے میں بھی ذوق و شوق پیدا ہوجائے۔
کلیدی کلمات:تربیت ، اولاد، فاطمہؑ،مہر و محبت۔
تربيت کی تعریف
تربيت يعنى انسان کے اندر موجود بالقوہ استعدادوں کو بروے کار لانا۔ جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے انبیاءؑ بھیجے۔
اولاد کیا ہے؟ اس بارے میں اللہ اور رسول فرماتے ہیں:
1. قرآن کریم:وَ اعْلَمُوا أَنَّما أَمْوالُكُمْ وَ أَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ وَ أَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظيمٌ۔
اور جان لو کہ یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموال ایک آزمائش ہیں اور خدا کے پاس اجر عظیم ہے۔
2. حدیث: إِنَّهُمْ لَثَمَرَةُ الْقُلُوبِ وَ قُرَّةُ الْأَعْيُن۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اولاد دلوں کا ثمرہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔
اور فرمایا: انّ لکل شجرة ثمرة وثمرةالقلب الولد۔ ہر درخت کے پھل ہوتے ہیں اور دل کا پھل اس کی اولاد ہے۔
الْقُطْبُ الرَّاوَنْدِيُّ فِي دَعَوَاتِهِ، رُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ بِئْسَ الشَّيْءُ الْوَلَدُ إِنْ عَاشَ كَدَّنِي وَ إِنْ مَاتَ هَدَّنِي فَبَلَغَ ذَلِكَ زَيْنَ الْعَابِدِينَ ع فَقَالَ كَذَبَ وَ اللَّهِ نِعْمَ الشَّيْءُ الْوَلَدُ إِنْ عَاشَ فَدَعَّاءٌ حَاضِرٌ وَ إِنْ مَاتَ فَشَفِيعٌ سَابِقٌ۔
اولاد کی اتنی فضیلت کے باوجود ایک دن حسن بصری نے کہا: اولاد کتنی بری چیز ہے !اگر وہ زندہ رہے تو مجھے زحمت میں ڈالتی ہے اور اگر مرجائے تو مجھے مصیبت میں ڈالتی ہے۔ امام سجاد ؑنے یہ سنا تو فرمایا :خدا کی قسم !اس نے جھوٹ بولا ہے اولاد بہترین چیز ہے اگر یہ زندہ رہے تو چلتی پھرتی دعا ہے، اور اگر مر جائے تو شفاعت کرنے والی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روایت میں ملتا ہے : قال ﷺ:أَمَا عَلِمْتُمْ أَنِّي أُبَاهِي بِكُمُ الْأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى بِالسِّقْطِ ۔
کہ حضور ﷺنے فرمایا:کیا تم نہیں جانتے کہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت پر فخر کرونگا یہاں تک کہ سقط شدہ بچہ ہی کیوں نہ ہو اور جب سقط شدہ بچے سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ بہشت میں داخل ہوجاؤ۔ تو وہ کہے گا :خدایا !جب تک میرے والدین داخل نہیں ہونگے؛ تب تک میں داخل نہیں ہونگا؛تو اس وقت اللہ تعالیٰ ملائکہ میں سے ایک ملک کو حکم دیگا کہ اس کے والدین کو حاضر کرو ، اور اس وقت ان دونوں کو حکم دیگاکہ بہشت میں داخل ہوجاؤ پھر اس بچے سے کہے گا۔
حضرت فاطمہ ؑ کی نگاہ میں اولاد کی اہمیت
حضرت فاطمہؑ اولاد کو اللہ تعالیٰ کی امانت اور باغ وجود کا پھل مانتی ہیں ۔ اور پیامبر اکرم ﷺکی زبانی سن چکی ہیں کہ ان کی اولاد آپ اور علی کے صلب مبارک سے آگے بڑے گی ، اسی لئے ان کی تربیت پر آپ زیادہ زور دیتی تھیں۔
تربیت کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے
وَ أَمَّا حَقُّ وَلَدِكَ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّهُ مِنْكَ وَ مُضَافٌ إِلَيْكَ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا بِخَيْرِهِ وَ شَرِّهِ وَ أَنَّكَ مَسْئُولٌ عَمَّا وَلِيتَهُ مِنْ حُسْنِ الْأَدَبِ وَ الدَّلَالَةِ عَلَى رَبِّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْمَعُونَةِ عَلَى طَاعَتِهِ فَاعْمَلْ فِي أَمْرِهِ عَمَلَ مَنْ يَعْلَمُ أَنَّهُ مُثَابٌ عَلَى الْإِحْسَانِ إِلَيْهِ مُعَاقَبٌ عَلَى الْإِسَاءَةِ إِلَيْه۔
حضرت سجّاد ؑنے دوسری جگہ فرمایا تجھ پر اپنی اولاد کا حق یہ ہے کہ تو جان لے کہ اس کا وجود ، اس کی اچھائی اور برائی تجھ سے وابستہ ہے اور جان لے کہ تو اس کا سرپرست ہے اور اس کو صحیح تربیت اور ادب سکھانے کا ذمہ دار ہوکہ ایسا مسئول ہو جسے اللہ کی طرف رہنمائی کرے اور اس کی اطاعت و بندگی کرنے میں اس کا مددگار ہواور یہ بھی یقین رکھتا ہو کہ اولاد کی اچھی تربیت باعث ثواب اور اجر ہے اور بری تربیت عقاب اور سزا کا باعث ہے۔
قَالَ وَ قَالَ النَّبِيُّ ص الْوَلَدُ سَيِّدٌ سَبْعَ سِنِينَ وَ عَبْدٌ سَبْعَ سِنِينَ وَ وَزِيرٌ سَبْعَ سِنِين۔
رسول اكرم (ص) نے فرمایا کہ بیٹا ساتھ سال تک ماں باپ کا سردار ہے دوسرے سات سال ماں باپ کا غلام اور فرمانبردار ہے اور تیسرے سات سال ماں باپ کا وزیر اورمشاور ہے۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّ النَّبِيَّ ص قَالَ مَنْ وُلِدَ لَهُ أَرْبَعَةُ أَوْلَادٍ لَمْ يُسَمِّ أَحَدَهُمْ بِاسْمِي فَقَدْ جَفَانِي ۔
رسول اكرم (ص) نے فرمایا کہ کسی کے چار بیٹے ہوں لیکن ان میں سے کسی ایک کا بھی نام محمد نہ ہو تو اس نے مجھ پر ظلم کیا ۔
روش تربيت
تقسروا أولادكم على آدابكم فإنهم مخلوقون لزمان غير زمانكم ۔
آپ نے فرمایا:اپنے زمانے کے آداب و رسوم کو اپنی اولاد پر تحمیل کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ وہ لوگ کسی اور زمانے کیلئے خلق ہوئی ہیں۔
امير المؤمنينؑ بچوں کو ڈرا دھمکا کے علم سیکھنے پر مجبورنہیں کرتے بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اپنی ترقی اور کمال تک پہنچنے کا شوق دلاتے تھے جس سے بچوں میں بھی حصول تعلیم کا شوق پیدا ہوتا تھا ۔
پس وہی معلم اور مربی لائق ہے جو بچے کو اپنے کمال اور ترقی کے ذوق اور شوق سے پڑھنے پر آمادہ کرے نہ یہ کہ ان کے ساتھ کشتی لڑا کے اور اپنے غصے کو اس غریب طالب علم پر مار پیٹ کے ذریعے اتار کے ۔
حضرت فاطمہؑ کی نگاہ میں تربیت اولاد کی اہمیت
حضرت فاطمہ ؑ تربیت کو عالم بشریت کا نجات دہندہ جاتنی ہیں اورہمارا ایمان ہے کہ یہی مائیں ہیں جو انسان کو بہشتی یا جہنمی بنادیتی ہیں الجنۃ تحت اقدام الامہات؛ اس کے برعکس اگر والدین غفلت برتے تو یہی شدید عذاب کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح اگراولاد کی تربیت کرنے میں بھی سستی دکھائی تو بہت بڑا صدمہ اٹھانا پڑتا ہے. خصوصا چھوٹے بچوں کی تربیت میں اگر کوتاہی کرے تو ممکن ہے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت فاطمہ ؑاپنے بابا کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے بچوں کی تربیت پر زیادہ زور دیتی تھیں۔
تربیت گاہ فاطمہؑ
حضرت زہراؑ کی یہ تربیت گاہ کہ جس کا موضوع شہید پروری ہے سلیبس اور پروگرام قرآن اور سنت ہے استاد پیامبر اکرم ﷺ ،علی ابن ایبطالبؑ اور فاطمہ زہراؑ ہیں ،جن کا شیوہ اور روش مہر ومحبت ہے ،ماحول ایمان اور اخلاص سے پر ، اس کی بنیاد فضیلت ہے، مقصد شہامت آفرینی ہے ، اور معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ کی مستقیم نظارت ہے ، جس تربیت گاہ میں یہ ساری خوبیاں موجود ہو تو اس میں سے وارثان آدم ،وارثان ختم مرتبت ،سیدا شباب اہل الجنۃ،کریم اہل بیت ، ثاراللہ ،سید الشہداء ،عقیلہ بنی ہاشم ، جیسی معصوم شخصیات تیار ہونگی۔
امام خمینی ؓ فرماتے ہیں:حضرت فاطمہؑ کا یہ چھوٹا سا گھر اور اس گھر سے تربیت پانے والے افراد جو عددی اعتبار سے تو چار پانچ افراد ہی تھے لیکن حقیقت میں خدا کی تمام قدرت ان میں متجلی ہوگئی تھی انہوں نے ایسی خدمات انجام دی ہیں جنہوں نے مجھے ، آپ کو اور تمام مسلمانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے .وہ عورت جس نے ایک معمولی سے حجرے اور عام سے گھر میں ایسے انسانوں کی تربیت کی کہ جن کا نور اس زمین سے لے کر افلاک تک اور عالم ملک سے لیکر ملکوت اعلی تک چمکتا ہے . اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اس حجرے پر جو خدا کی عظمت کے نور کا جلوہ گاہ اور اولاد آدم کے سب سے ممتاز افراد کی تربیت گاہ ہے.
امام خامنہ ای فرماتے ہیں : حضرت فاطمہ زہرا ءؑکوئی معمولی شخصیت نہیں ہیں بلکہ تاریخ بشریت کی برترین شخصیات میں سے ایک ہیں. امام صادق فرماتے ہیں:”یا سیدة نساء العالمین” راوی نے سوال کیا کہ ” ہی سیدة نساء عالمھا ؟ کیا آپ کی ماجدہ اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں؟ امام نے جواب دیا کہ”ذاک مریم” وہ جناب مریم تھیں جو اپنے زمانے کی خواتین کی سردارتھیں”ہی سیدة نساء الاولین والآخرین فی الدنیا والآخرة” یعنی ان کی عظمت ان کے زمانے تک محدود نہیں ہے عالم انسانیت میں سے انگلیوں پر شمار کرنے والی بہترین شخصیات میں سے ایک آپ کی ذات ہے جس کی یاد اور ذکر ہمیں عطا ہوئی ہے. یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل و کرم ہے کہ ہم ان سے متمسک ہیں ورنہ لوگوں کی اکثریت ان پاک ہستیوں سے غافل ہیں.لہذا ہمارے اوپر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں خواہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی.
فاطمہؑ بہترین مربی بہ حیثیت ماں
جابر بن عبداللہ انصاری مدینہ میں سارے انصارے کے ٹھکانوں کا چکر لگاتے اور فرماتے تھے : جان لو کہ حضرت فاطمہؑ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی بہترین ماں ہوسکتی ہے؟ناممکن ہے کہ جس نے اپنی ایک مختصر گھر میں اتنی عظیم اولاد کی تربیت کیں کہ ساری کی ساری شجرہ اسلام کی آبیاری کے لئے کام آئیں۔جس سے معلوم ہوا کہ ماں کا کردار کتنا مہم ہے اولاد کی تربیت کے لئے۔اسی لئے حضرت زہرا ؑکی شھادت کے بعد امیرالمؤمنین نے نئی شادی کرنا چاہی تو اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ کسی شجاع خاندان میں رشتہ تلاش کرو تاکہ ابوالفضلؑ جیسے شجاع اور با وفا فرزند عطا ہوں۔
فرزند فاطمہ ؑ اور کانوں میں اذان واقامت
امام حسن جب متولد ہوئے تو پیامبر اسلامﷺنے ان کے کانوں میں اذان واقامت پڑھی۔ اور علی سے فرمایا :يَا عَلِيُّ إِذَا وُلِدَ لَكَ غُلَامٌ أَوْ جَارِيَةٌ فَأَذِّنْ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَى وَ أَقِمْ فِي الْيُسْرَى فَإِنَّهُ لَا يَضُرُّهُ الشَّيْطَانُ أَبَداً .
اے علی ! اگر تمہیں بیٹا یا بیٹی عطا ہو تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں تاکہ اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے۔اور فرمایا:
وَ مَنْ سَاءَ خُلُقُهُ فَأَذِّنُوا فِي أُذُنِهِ۔
اگر بچہ روئے یا بد خلق ہوجائے تو اس کے کانوں میں اذان کہو۔اور یہ عمل سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے کہ نوزاد بچہ نہ صرف پیدا ہوتے ہی ہماری باتوں کو سمجھ سکتا ہے بلکہ ماں کے پیٹ میں بھی وہ متوجہ ہوتا ہے اور اپنے ذہن میں حفظ کرلیتا ہے۔ ماں کے دل کی دہڑکن جو بچے کیلئے دینا میں آنے کے بعد آرامش کا سبب بنتی ہے۔ جب ماں گود میں اٹھاتی ہے اور خصوصاً بائیں طرف، توروتا بچہ خاموش ہوجاتا ہے۔اسی لئے اگر ماں حاملہ گی کے دوران قرآن سنا یا پڑھا کرے تو بچے میں بھی وہی تأثیر پیدا ہوگی اور اگر گانے وغیرہ سنے تو بھی ۔ اس کی بہت ساری مثالیں دی جاسکتی ہے:
قم مقدس میں سن ۲۰۰۰ م میں ایک قرآنی جلسے میں جب سید محمد حسین طباطبائی کے والد محترم سے سؤال کیا گیا کہ آپ کے خیال میں کیا سبب بنی کہ محمد حسین پانچ سال میں حافظ کلّ قرآن بنا؟ تو فرمایا: جب یہ اپنی ما ں کے پیٹ میں تھا تو اس وقت وہ قرآن کی زیادہ تلاوت کیا کرتی تھی۔
فاطمہؑ اوربچہ کی نام گزاری
اچھے نام کا انتخاب کرنا تربیت دینی میں ایک خوش آیند عامل ہے جس سے انسان کی شخصیت سازی میں مدد ملتی ہے حضرت فاطمہؑ نے بھی اس قانون پر عمل کرکے اپنے بچے کا نام رکھنے کے وقت اپنے شوہر نامدار سے کہا:اپنے بچے کیلئے نام انتخاب فرمائیں، علی ؑنے فرمایا :میں اس نومولود کا نام رکھنے میں پیامبر اکرم ﷺسے پہل نہیں کروں گا۔نومولود کو پیامر اکرم ﷺکے پاس لے گئے ، آپ نے بچے کا بوسہ لیا اور سوال کیا : بچے کا نام کیا رکھا ہے ؟ علی ؑنے فرمایا: آپ سے پہلے کوئی نام انتخاب نہیں کروں گا ۔جبرئیل امین ؑنازل ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلام اور مبارک بادی کا پیغام سنایا: اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ چونکہ آپ کی نسبت علی ؑسے وہی نسبت ہے جو موسی ؑکو ہارونؑ سے تھی،اور ہارون ؑکے بیٹے کا نام رکھو۔ پیامبر اکرمﷺ نے فرمایا: اس کا نام کیا تھا؟جبرئیل نے جواب دیا : « شُبَّر» پیامبر اکرمﷺ نے فرمایا: میری زبان عربی ہے، جبرئیل ؑنے کہا: عربی میں اس کا معنی “حسن “ہے۔چنانچہ اس فرزند کا نام حسن رکھا۔
فاطمہ ؑ اوربچوں کا کھیل کود
نفسیاتی ماہرین معتقد ہیں کہ بچوں کی زندگی میں کھیل کود کا بڑا کردار ہے وہ کھیلوں کے دوران زندگی کی نشیب و فراز ،احساسات اور عواطف کو سیکھتے اور تجربہ حاصل کرتے ہیں۔ ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ بچے آہستہ آہستہ کھیل کی دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف آتے ہیں :
دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ يُؤَدَّبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعَ سِنِينَ فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ۔
امام صادق ؑنے فرمایا: اپنے بیٹے کو سات سال تک آزاد چھوڑ دو تاکہ وہ کھیلے کودے ، دوسرے سات سال اسے ادب سکھائیں پھر تیسرے سات سال اسے اپنے ساتھ ساتھ کاموں میں لگادے۔ اگر وہ اچھا انسان بن جائے تو ٹھیک ورنہ وہ ان لوگوں میں سے ہوگا جن میں کوئی اچھائی موجود نہیں۔
قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ ع يَقُولُ تُسْتَحَبُّ عَرَامَةُ الصَّبِيِّ فِي صِغَرِهِ لِيَكُونَ حَلِيماً فِي كِبَرِهِ ثُمَّ قَالَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ إِلَّا هَكَذَا ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام موسی کاظم ؑکوفرماتے ہوئے سنا :اپنے بچوں کو بچپنے میں اچھلنے کودنے کا موقع دو تاکہ بڑے ہوکر حلیم (اور خوش خلق)بن جائیں، اس کے بعد فرمایا: اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔اور حضرت زہراءؑ کس قدر بچوں کی نفسیاتی مہارت کے ساتھ تربیت کرتی تھی کہ حسن مجتبیٰ ؑکو اچھالتی ہوئی ایسا شعر کہہ رہی تھیں کہ جو بچے کی آنے والی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت مؤثر ہوسکتا تھا:
اَشبه اباك يا حسن و اخلع عن الحَّقَ الرَّسَنَ
وَ اعْبُدْ الهاً ذالمِنَنِ و لا تُوال ذالاحَنٍ
اے میرے بیٹے حسن ! اپنے بابا علیؑ جیسا بن کرظلم کی رسی کو حق کی گردن سے اتار دو۔ مہربان خدا کی عبادت کرو اور بغض و کینہ دل میں رکھنے والے افراد سے دوستی نہ کرو ۔
فاطمہؑ کا بچوں سے اظہار محبت
تَقُولُ لِوَلَدَيْهَا أَيْنَ أَبُوكُمَا الَّذِي كَانَ يُكْرِمُكُمَا وَ يَحْمِلُكُمَا مَرَّةً بَعْدَ مَرَّةٍ أَيْنَ أَبُوكُمَا الَّذِي كَانَ أَشَدَّ النَّاسِ شَفَقَةً عَلَيْكُمَا فَلَا يَدَعُكُمَا تَمْشِيَانِ عَلَى الْأَرْضِ وَ لَا أَرَاهُ يَفْتَحُ هَذَا الْبَابَ أَبَداً وَ لَا يَحْمِلُكُمَا عَلَى عَاتِقِهِ كَمَا لَمْ يَزَلْ يَفْعَلُ بِكُمَا۔
رسول گرامی کی رحلت کے بعد ، حضرت زہرا (س) اپنے بچوں کو نانا کی پیار و محبت سے محروم ہونے پر کبھی کبھی حزن اور اندوہ کیساتھ یوں مخاطب ہوتی تھیں: کہاں گئے آپ کے نانا جو تم دونوں سے بہت پیار کرتے ،اپنے دوش پر سوار کراتے،اور ہمیشہ اپنے گود میں اٹھاتے تھے؟ہائے افسوس میں انہیں تم دونوں کواپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے کبھی نہیں دیکھ پاؤں گی۔.
فاطمہ ؑ اور بچوں کے درمیان عادلانہ قضاوت
ساری اولاد کے درمیان عادلانہ رفتار ہونا چاہئے۔اسی سلسلے میں ایک داستان جو حضرت فاطمہؑ سے مربوط ہے ، کہ ایک دن امام حسن اور امام حسینؑ اپنے بچپنے میں اکثر علوم وفنون اور معارف اسلامی میں مقابلہ کرتے تھے ۔ ایک دن دونوں نے خوشخطی لکھے ،پیغمبرﷺ کے پاس لائے اور کہا :نانا جان ہم دونوں میں سے کس کا خط اچھا ہے؟ فرمایا: عزیزو میں لکھنا تو نہیں جانتا ،میں نے کبھی لکھا بھی نہیں نہ کسی مکتب میں پڑھا ہواہے اسے بابا علیؑ کے پاس لے جاؤ وہ کاتب وحی بھی ہیں۔ دونوں نے فرمایا آپ کی بات بالکل درست ہے ۔گئے اور بابا کے سامنے رکھ دئے۔علی ؑنے فرمایا: دونوں لکھائی اچھی اور خوبصورت ہیں۔ بچوں نے کہا آپ یہ بتائیں کونسی لکھائی بہتر ہے ؟فرمایا اگر آپ دونوں مدرسہ جاتے اور اپنے استاد کو دکھاتے تو اچھا تھا ۔ لیکن آپ دونوں نے خود سیکھے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اپنی ماں کے پاس لے جاؤ جو فیصلہ وہ کرے گی ،ہمارے لئے قبول ہے ۔ حسنینؑ نے کہا ٹھیک ہے ۔جب اپنی ماں سے اسی طرح سوال کیا تو فرمایا:دونوں کی لکھائی اچھی ہیں۔ ان دونوں خطوں کے درمیان فرق پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ جو چیز نانا اور بابا نے میرے پاس بھیجی ہیں اس میں مجھے زیادہ دقّت کی ضرورت ہے۔حضرت زہرا نے اپنی گردن بند کو کھولا جس میں سات دانے تھے۔ کہا : میں یہ دانے زمین پر گراتی ہوں ،آپ دونوں میں سے جس نے بھی دانے زیادہ اٹھائے اسی کا خط بہتر ہوگا۔جب گرائی تو دونوں نے ساڑھے تین ساڑھے تین دانے اٹھائے۔ نتیجہ مساوی نکلا،دونوں راضی ہوگئے۔ آخر جواب تو وہی نکلاجو بابا اور نانا نے دئے تھے۔اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا یہ دانہ توڑ دے ۔ تو مادر گرامی نے فرمایا: اسے تم نے نہیں توڑے بلکہ خدا نے دوبرابر کیا۔ اور جسے خدا نے توڑا ہو وہ اس جیسے لاکھ دانے سے بہتر ہے۔
ایک دن رسول خدا امام حسنؑ اور حسین ؑدونوں کو اپنے دوش پر اٹھائے نوازش فرمارہے تھے فاطمہ زہرا ؑکے گھر پر تشریف لائے کیونکہ بچوں کو بھوک لگی ہوئی تھی ، جناب فاطمہ ؑنے ان کیلئے نان اور خرما لائیں جب یہ کھاچکے تو پیامبر اکرم ﷺنے فرمایا: دونوں آپس میں کشتی لڑیں۔ کشتی کے دوران آپ امام حسن کو داد دے رہے تھے ، فاطمہ ؑنے کہا: باباجان مجھے تعجب ہورہا ہے کہ آپ صرف ایک کو وہ بھی بڑے کو داد دے رہے ہیں، کیا بڑے کو چھوٹے پر ترجیح دے رہے ہیں؟! تو پیامبرﷺ نے فرمایا: بیٹی میرے بھائی جبرئیل ، حسینؑ کو تشویق کررہے ہیں اس لئے میں حسن کو شوق دلا رہاہوں۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہؑ کس قدر بچوں کے درمیان عدالت اور مساوات کی رعایت فرمارہی ہیں۔
فاطمہ ؑ اوربچوں کے حضور و غياب پر توجہ
والدین کو چاہئے کہ بچوں کی رفت و آمد اور حضور و غیاب پر توجہ دیں کہ کیسے دوستوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا اور رہس سہن ہے ، اور کہاں رہتے ہیں ؟ چنانچہ روایت میں ہے کہ فاطمہ زہراءؑ ایک دفعہ بہت ہی اضطراب کی عالم میں گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں اتنے میں رسول خدا تشریف لائے اور سوال کیا بیٹی کیوں یہاں کھڑی ہیں؟ کہا : بابا میے بچے صبح سے نکلے ہوئے ہیں اور ابھی تک گھر نہیں آیے ہیں؟ رسول خدا ان کی تلاش میں نکلے دیکھا غار جبل کےنزدیک سو رہے ہیں اورایک بہت بڑا اژدھا ان کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھا ہوا ہے ۔ آپ نے ایک پتھر اٹھا کر مارا تو اس اژدھا کو اللہ تعالیٰ نے قوت گویائی عطا کی اور کہا: السلام عليک يا رسول الله، خدا کی قسم میں ان کے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ ان کی حفاظت کروں، پیامبر اکرم نے اس کیلئے دعا کی اور حسن اور حسین کو کاندوں پر رکھ کر فاطمہؑ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے ، اتنے میں جبرئیل امین نازل ہوئے اور حسین کو اٹھا کر فاطمہؑ کے گھرتک پہنچا دئے ۔
فاطمہ ؑ کابچوں کےحضور میں دعا مانگنا
والدین کا بچوں کیلئے نمونہ بننے کیلئے صرف برے کاموں سے بچنا کافی نہیں ہے بلکہ اچھے اور نیک کاموں کو انجام دینا بھی ضروری ہے ۔کیونکہ نیک کام کے بہت سارے نمونے اور مصداق ہیں ،جیسے نماز پڑھنا کہ اگر ہم جلدی جلدی پڑھیں تو ہمارے بچے بھی جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں اور اگر ہم آہستہ آہستہ پڑھ لیں تو وہ بھی آہستہ پڑھ لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم صرف اپنی مشکلات کی دوری کیلئے دعا کرتے ہیں یا دوسروں کیلئے بھی دعا کرتے ہیں اس میں بھی نمونہ بن سکتے ہیں۔ چنانچہ روایت ہے : عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَخِيهِ الْحَسَنِ قَالَ رَأَيْتُ أُمِّي فَاطِمَةَ ع قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا لَيْلَةَ جُمُعَتِهَا فَلَمْ تَزَلْ رَاكِعَةً سَاجِدَةً حَتَّى اتَّضَحَ عَمُودُ الصُّبْحِ وَ سَمِعْتُهَا تَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ تُسَمِّيهِمْ وَ تُكْثِرُ الدُّعَاءَ لَهُمْ وَ لَا تَدْعُو لِنَفْسِهَا بِشَيْءٍ فَقُلْتُ لَهَا يَا أُمَّاهْ لِمَ لَا تَدْعُوِنَّ لِنَفْسِكِ كَمَا تَدْعُوِنَّ لِغَيْرِكِ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ الْجَارُ ثُمَّ الدَّارُ ۔
امام حسنؑ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ شب جمعہ کو میں نے اپنی مادر گرامی کو دیکھا کہ محراب عبادت میں آپ کھڑی ہیں مسلسل نمازیں پڑھی جارہی ہیں یہاں تک کہ صبح کا وقت آگیا آپ مؤمنین مرد اور عورت کے حق میں نام لے لے کر دعا مانگتی رہیں لیکن اپنے لئے کوئی دعا نہیں مانگتی۔ میں نے عرض کیا مادر گرامی کیوں اپنے لئے دعا نہیں کرتی؟ تو میری ماں نے کہا: بیٹا پہلے پڑوسی پھر اہل خانہ۔یہ ایک درس اور نمونہ ہے ہمارے لئے جو امام حسن مجتبی ؑکے ذریعے جناب فاطمہؑ ہمیں دے رہی ہیں۔ اور ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کیلئے ایسا درس دیں جو اپنی دعاؤں میں دوسرے مؤمنین کو بھی یاد کریں تاکہ لاکھوں گنا ثواب زیادہ ملے۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ اگر کوئی اپنے کسی مؤمن بہن اور بھائی کو ان کی غیر موجودگی میں دعا کرے گا ، اس کیلئے پہلے آسمان سے ندا آئے گی کہ اے بندہ خدا اسے بدلے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ برابر اجر تمہیں عطا کیا، دوسرے آسمان سے آواز آئے گی دو برابر اجر عطا کرے گا، تیسرے آسمان سے ندا آئے گی تین لاکھ برابر اسی طرح ساتویں آسمان سے ندا آئے گی ساتھ لاکھ برابر اجر عطا کرے گا۔
اولاد صالح خدا کی بہترین نعمت اور سعادت
حسن بن سعید کہتاہے کہ خدا نے ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست کو بیٹی کی رحمت سے نوازا تو وہ بہت افسردہ حالت میں امام صادق ؑ کی خدمت میں آیا۔ امام نے فرمایا:کیوں مغموم ہو؟اگر خدا تعالیٰ تجھ پر وحی نازل کرے اور کہے کی تمہارے بارے میں میں فیصلہ کروں یا تو فیصلہ کروگے؟ تو تم کیا جواب دوگے؟
اس نے عرض کیا: میں کہوں گا بار خدایا! جو تو انتخاب کرے وہی میرے لئے ٹھیک ہے۔
امام نے قرآن کی اس آیہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت خضر ؑ کی داستان ذکر ہوئی ہے، کہ حضرت خضر ؑ نے ایک لڑکے کو پکڑ کر مارڈالا جس پر حضرت موسیؑ نے سخت اعتراض کیا تھا،جس کی علت یوں بتائی : فَأَرَدْنا أَنْ يُبْدِلَهُما رَبُّهُما خَيْراً مِنْهُ زَكاةً وَ أَقْرَبَ رُحْما۔
خدا تعالیٰ نے اس بیٹے کے بدلے میں انہیں ایک بیٹی عطا کی جس کی نسل سے (٧٠)ستّر پیامبران الہی وجود میں آئے۔
دوران جاہلیت میں بچیوں کی ولادت پر ماں باپ بہت مغموم ہوجاتے تھے۔ ایک دن امیر اسحاق بن محمد کو خبر ملی کہ ان کے ہاں بیٹی ہوئی ہے، تو وہ بہت مغموم ہوگیا اور کھانا پینا بھی چھوڑدیا۔ بہلول عاقل نے جب یہ خبر سنی تو کہا : اے امیر! کیا خدا نے سالم اور بے عیب ونقص بیٹی عطا کی تو مغموم ہوگئے؟!کیا تیرا دل چاہتا تھا کہ مجھ جیسا ایک پاگل بچہ تجھے عطا ہو؟!
اسحاق بے اختیار اس حکیمانہ باتوں کو سن کر مسکرانے لگا اور خواب غفلت سے بیدار ہوا۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مِنْ سَعَادَةِ الْمَرْءِ الْخُلَطَاءُ الصَّالِحُونَ وَ الْوَلَدُ الْبَارُّ وَ الزَّوْجَةُ الْمُوَاتِيَةُ وَ أَنْ يُرْزَقَ مَعِيشَتَهُ فِي بَلْدَتِهِ ۔
آپ نے فرمایا : انسان کی سعادت چار چیزوں میں ہے :اچھے دوست ، خوبصورت،اطاعت گذاراور باایمان بیوی، فرزند صالح اوراپنے شہر میں ذریعہ معاش میسر ہو۔
بچوں کے مددگار والدین پر خدا کی رحمت
رسول اكرم نے فرمایا: اللہ کی رحمت ہو اس باپ پر جس نے اپنی اولاد کو نیکوکاری کرنے میں مدد کی ،راوی نے عرض کیا : کیسے اولاد کی مدد کرے ؟ تو آپ نے جواب میں چار دستور فرمایا:جس چیز کو چھوٹے نے اپنی توانائی کے مطابق انجام دیا ہے اسے قبول کرے،.جوچیز بچے کیلئے انجام دینا سخت ہو اس کامطالبہ نہ کرے۔اسے گناہ سرکشی کی طرف وادار نہ کرے۔ اس کے ساتھ جھوٹ نہ بولے اور اس کے سامنے احمقانہ اعمال کے انجام دینے سے گریز کرے۔
نتیجہ
ان مباحث کا مختصر نتیجہ یہ نکلا کہ اگر ہم معصومینؑ کے ان فرامین پر عمل کرتے ہوئے اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کرنے کی کوشش کریں تو معاشرہ کے لئے مفید انسان کی شکل میں مدد کر سکتے ہیں ۔اور اپنی دنیا و آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں کیونکہ ان ہستیوں کو اللہ تعالی نے دنیا والوں کے لئے بطور نمونہ اور اسوہ حسنہ مبعوث فرمایا ہے کہ جن کی پیروی حتماً فلاح اور رستہ گاری سے نزدیک ہونے کا باعث ہے۔
آخر میں خدا تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ ہم سب کوبھی سیدہ کونینؑ کے صدقے میں اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عنایت فرما ۔ آمین
تمام
دیدگاهتان را بنویسید