وضو کے بارے میں ایک تحقیقی جائزہ/تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وضو بذات خود ایک مستحب عبادت ہے لیکن بعض عبادتوں کے لئے مقدمہ بننے کی وجہ سے بعض اوقات واجب ہوتا ہے۔ امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں، “لا صلوة الا بطهور”۔1 نماز طہارت کے بغیر صحیح نہیں ہے۔ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں، “افتتاح الصلوة الوضوء و تحریمها التکبیر و تحلیلها التسلیم”۔2 نماز کی ابتداء وضو سے ہوتی ہے اور تکبیرۃ الاحرام کے ذریعے چیزیں حرام اور سلام کے ذریعے چیزیں حلال ہو جاتی ہیں۔ یہ حدیث امام علیعلیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے۔3 شیعہ مذہب کے مطابق اعضائے وضو کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیئے جبکہ اہل سنت کے نزدیک یہ شرط لازم نہیں ہے۔ اسی طرح شیعوں کے نزدیک چہرے اور ہاتھوں کے دھونے کے بعد سر اور پاوٴں کا مسح کرنا چاہیئے اور ان دونوں کو دھونا صحیح نہیں ہے لیکن اہل سنت سر اور پاوٴں کے دھونے کو واجب سمجھتے ہیں اور ان پر مسح کرنے کو کافی نہیں سمجھتے۔وسائل الشیعہ اور دیگر کتب میں 565 کے قریب احادیث وضو کے متعلق بیان ہوئی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں احادیث کا ذکر ہونا اسلام میں وضو کی اہمیت کو بیان کرتا ہے ان روایات میں وضو کے کچھ فوائد بھی ذکر ہوئے ہیں جیسے:
1۔ طول عمر:
“قال رسول اللہ: اَکثِر مِن الطَّهورِ یزِدِ اللّہ فی عُمُرِکَ” کثرت سے وضو کیا کرو اللہ تمہاری عمر طولانی کرے گا۔
2۔ خشم و ناراضگی کو ختم کرنا:
“إنّ الغضب من الشّیطان و إنّ الشّیطان خلق من النّار و إنّما تطفا النّار بالماء فإذا غضب أحدکم فلیتوضّأ” 4غضب شیطان سے ہے اور شیطان آگ سے خلق ہوا ۔آگ کو صرف پانی بجھا سکتا ہے پس جب بھی تم میں سے کوئی غصہ میں ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ وضو کرے۔
3۔ غم و اندوہ سے نجات:
“ما یمنع أحدکم إذا دخل علیه غم من غموم الدنیا۔ أن یتوضأ ثم یدخل مسجده و یرکع رکعتین۔ فیدعو الله فیهما أ ما سمعت الله یقول: وَ اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاةِ”5 کونسی چیز تمہیں اس بات سے روکتی ہے کہ جب تمہیں دنیاوی غم و اندوہ پہنچے، تو وہ وضو کرے اور مسجد میں جائے۔ دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کرے، کیا تم نے قول خدا نہیں سنا کہ صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرو۔
4۔ نورایت میں اضافہ:
“الْوُضُوءُ عَلَی الْوُضُوءِ نُورٌ عَلَی نُور”۔6 تجدید وضو کرنا گویا نور علی نور ہے۔
5۔ کفارۂ گناہ:
“و کان الوضوء إلی الوضوء کفّارة لما بینهما من الذّنوب” 7 تجدید وضو کرنا دو وضوؤں کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے۔
6۔ فقر اور وسواس کا خاتمہ:
“مَنْ تَطَهَّرَ ثُمَّ أَوَی إِلَی فِرَاشِهِ بَاتَ وَ فِرَاشُهُ کَمَسْجِدِهِ وَ إِنْ ذَکَرَ أَنَّهُ لَیسَ عَلَی وُضُوءٍ فَتَیمَّمَ مِنْ دِثَارِهِ کَائِناً مَا کَانَ لَمْ یزَلْ فِی صَلَاةٍ مَا ذَکَرَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ”۔ 8 جو شخص رات با وضو ہو کر بستر پر لیٹتا ہے تو اس کا بستر مسجد کی مانند ہے۔ اگر اسے یاد آجائے تو اپنے لحاف پر ہی تیمم کرے تو ایسا شخص گویا ساری رات ذکر خدا کے ساتھ نماز میں مشغول رہا ہے۔
آیہ وضو:
“يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلىَ الصَّلَوةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلىَ الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُواْ بِرُءُوسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلىَ الْكَعْبَين”۔ 9 اے ایمان والو !جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنےچہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو نیز اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاوٴں کا مسح کرو۔ آیہ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو دو چیزوں سے تشکیل پاتا ہے، ایک دھونے اور دوسرا مسح کرنے کے ذریعے۔ شیعہ و اہل سنت کے درمیان جن چیزوں میں اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ اعضائے وضو کو کس طرح دھونا چاہیئے؟ وضو کے اعضاء کو اوپر سے نیچےکی طرف دھونا چاہیئے یا جس طرح سے بھی دھوئے کافی ہے۔ اسی طرح پاوٴں کو دھونا ضروری ہے یا صرف مسح کرنا چاہیئے؟ شیعہ فقہاء کے نزدیک مشہور نظریہ یہ ہے کہ چہرہ اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیئے۔ 10 یہ مطلب اگرچہ آیہ وضو میں بیان نہیں ہوا ہے لیکن آئمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ ہاتھوں کو کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھونا چاہیئے۔ معمولا ہاتھوں اور دوسرے اعضاء کو دھوتے وقت اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی جگہ لفظ بطور مطلق ذکر ہو تو وہ رائج فرد کی طرف انصراف پیدا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں متقدمین میں سے سوائے سید مرتضی کے کسی اور نے اس مطلب کی مخالفت نہیں کی ہے جیساکہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے اصحاب سے بھی اس کی مخالفت میں کوئی چیز نقل نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا ان دلائل و شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کا مسلمہ نظریہ یہ ہے کہ وضو میں ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیئے۔ 11
یہاں یہ بات قابل توجہ ہےکہ آیہ کریمہ “وایدیکم الی المرافق” میں لفظ “الی” ہاتھوں کے دھونے کی حد کو بیان کرتی ہے نہ ہاتھوں کے دھونے کی کیفیت کو، جیساکہ بعض لوگوں کا گمان ہے کیونکہ عربی زبان میں کلمہ”ید” مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کبھی صرف انگلیوں کو، کبھی انگلیوں سے کلائی تک کو اور کبھی انگلیوں سے کندھے تک کو “ید” کہا گیا ہے۔ لہٰذا اس کی حد معین کرنے کے لئے قرینے کی ضرورت ہے، جس کی بنا پر قرآن نے “الی المرافق” کہہ کر دھونے کی حد کو بیان کیا ہے۔ جب کسی انسان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے ہاتھوں کو دھو لے تو ممکن ہے کہ وہ شخص صرف کلائیوں تک ہاتھوں کو دھو لے کیونکہ اکثر اوقات ہاتھوں کو یہیں تک دھویا جاتا ہے اس لئے اس غلطی کو دور کرنےکے لئے “الی المرافق” کہا گیا ہے۔ آیہ کریمہ میں ہاتھوں کے دھونے کی کیفیت بیان نہیں ہوئی ہے کہ ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیئے یا نیچے سے اوپر کی طرف، یہاں لفظ بطور مطلق ذکر ہوا ہے اس لئے اس کا انصراف عام اور متعارف طریقے کی طرف ہے۔
عرف عام میں بدن کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جاتا ہے مثلا اگر کوئی ڈاکٹر حکم دے کہ بیمار کے پاوٴں کو گھٹنوں تک دھویا جائے تو معمولا پاوٴں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں نہ برعکس۔ آئمہ اہلبیت علیہم السلام کی روایتوں میں اسی طریقے سے وضو کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ بنابریں وضو کرتے وقت چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچےکی طرف دھونا چاہیئے۔ طبرسی کی نقل کے مطابق وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونے اور اس کے صحیح ہونے میں اختلاف نہیں ہے بلکہ ان اعضاء کو نیچے سے اوپر کی طرف دھونے اور اس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے۔ 12 یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیئے اور اس بات پر خود آیہ کریمہ دلالت کرتی ہے اور یہ مطلب اس وقت واضح ہوجاتا ہے جب لفظ “الی” “ایدی” کے لئے قید ہو نہ کلمہ “غسل” کے لئے کیونکہ کلمہ “غسل” کے لئے قید ہونےکی صورت میں آیہ کریمہ دھونے کی کیفیت کو بیان کرے گی، یعنی ہاتھوں کو انگلیوں سے کہنیوں تک دھویا جائے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونے میں کسی کا اتفاق نہ ہو۔ 13 جبکہ شیعہ علماء اس بات پر متفق ہے کہ وضو میں ہاتھوں کو اوپر سے نیچےکی طرف دھونا چاہیئے۔
شیعہ اس بات پر متفق ہے کہ وضو میں پاوٴں کا مسح کرنا چاہیئے، لہٰذا گر کوئی مسح کرنے کی بجائے اسے دھو لے تو وضو باطل ہو جاتا ہے۔ (یہاں پاؤن کے دھونے سے وضو کے باطل ہونے سے مراد یہ ہے کہ مسح کرنے کی بجائے اگر صرف پاؤں دھو لئے جائیں تو وضو باطل ہے لیکن اگر پاؤن پر کوئی نجاست ہو تو پاؤں کا دھونا واجب ہو جاتا ہے، اسی طرح از نیت استحباب بھی پاؤں کو دھو کے، خشک کر کے اسپر مسح کیا جا سکتا ہے اور یہ ایک پسندیدہ عمل ہے) یہ مطلب آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کے علاوہ خود آیہ کریمہ سے بھی واضح ہو جاتا ہے، کیونکہ قرآن کریم پہلے دو عضو کے دھونے کا حکم دیتا ہے اور اس کے بعد دوسرے دو عضو پر مسح کرنے کا حکم دیتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتاہے:
1۔ “فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلىَ الْمَرَافِقِ” اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو۔
2۔ “وَ امْسَحُواْ بِرُءُوسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلىَ الْكَعْبَين” اور اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاوٴں کا مسح کرو۔
آیہ کریمہ کے اس حصے (و أرجلکم) کو مجرور یا منصوب پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دونوں قرائتوں کی صورت میں (أرجلکم) کلمہ (رؤوسکم) پر عطف ہے اگر (أرجلِکم) کو مجرور پڑھیں تو یہ کلمہ(رؤوسکم) کے ظاہر پر عطف ہوتا ہے لیکن اگر (أرجلَکم) کو منصوب پڑھیں تو یہ کلمہ (رؤوسکم) کے محل پر عطف ہوگا۔
اصحاب اور تابعین کی ایک جماعت بھی اسی نظریئے پر قائم تھی، جیسے ابن عباس، انس بن مالک، ابو العالیہ، شعبی اور عکرمہ اسی طرح زیدیہ کے بزرگوں میں سے حن بصری اور ناصر الحق بھی پاوٴں کے دھونے اور مسح کرنے میں تخییر کے قائل تھے۔ 14 اہل سنت کے بزرگان وضو میں پاوٴں کے دھونے کو واجب قرار دیتے ہوئے ان پر مسح کرنے کو کافی نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ اپنی روایت کی کتابوں میں موجود بعض احادیث پر استناد کرتے ہیں جبکہ یہ احادیث آیہ وضو کی تفسیر بیان نہیں کرتیں۔ ان احادیث کی دو قسمیں ہیں، بعض احادیث مسح کے وجوب کو بیان کرتی ہیں، جبکہ بعض احادیث دھونے کے وجوب کو بیان کرتی ہیں۔ اہل سنت کا نظریہ آیہ وضو کے ظاہری معنی کے ساتھ سازگار نہیں ہے اس لئے انہوں نے اس کی مختلف طریقوں سے توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
1۔ کلمہ (أرجلِکم) مجرور ہے اور یہ (رؤوسکم) کے ظاہر پر عطف ہوا ہے لیکن یہاں مسح سے مراد دھونا ہے۔
جواب: یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ کلمہ (غسل و مسح) شرع اور لغت دونوں میں مختلف معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ اگر کبھی مجازی طور پر ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہو تو جہاں قرینہ موجود نہ ہو وہاں اس فرض کو قبول نہیں کر سکتے۔ البتہ اہل سنت کی جن حدیثوں میں دھونے کو واجب قرار دیا گیا ہے وہ مسح کے وجوب کو بیان کرنے والی حدیثوں کے ساتھ ٹکراتی ہیں۔ علاوہ ازیں یہ حدیثیں علم و یقین کا بھی فائدہ نہیں دیتیں، اس لئے ان کے ذریعے قرآن کریم کے ظاہر سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔ بعبارت دیگر یہ احادیث آیہ کریمہ کے ظاہری معنی کے ساتھ تعارض رکھتی ہیں۔ ادبی قواعد کے مطابق معطوف اور معطوف علیہ کا حکم ایک ہونا چاہیئے لہٰذا جب (أرجلِکم) کو (رؤوسکم) پر عطف کریں تو معطوف علیہ کا حکم معطوف کے لئے بھی ہونا چاہیئے جس کا لازمہ پاوٴں کا مسح کرنا ہے۔
2۔ کلمہ (أرجلِکم) (رؤوسکم) کے ظاہر پر عطف ہوا ہے اور یہ مجرور ہے لیکن اس کا حکم مسح کرنا نہیں ہے بلکہ دھونا ہے اور (أرجلِکم) کامجرور ہونا از باب قرب و جوار ہے جیسے (جُحر ضبٍّ خرب) لفظ (خرب) (جحر) کی صفت ہے اگرچہ ظاہرا کلمہ (ضب) کی صفت واقع ہوئی ہے اور یہ مجرور ہے۔
جواب:یہ توجیہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ زجاج لکھتا ہے: قرآن کریم میں عطف بالجوار جائز نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو لوگ اسے جائز سمجھتے ہیں وہ ان موراد میں ہے جہاں معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان حرف عطف موجود نہ ہو حالانکہ آیہ کریمہ میں حرف عطف موجود ہے، لہٰذا عطف بالجوار جائز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں عطف بالجوار وہاں جائز ہے جہاں غلطی کا احتمال موجود نہ ہو جیسے مذکورہ مثال میں صفت (خرب) (حجر) کے ساتھ مربوط ہے نہ (ضب) کے ساتھ، جبکہ آیہ کریمہ میں ایسا نہیں ہے کیونکہ پاوٴں کا مسح کرنا سر کے مسح کی طرح ممکن ہے۔ نحو کے علماء و محققین نے عطف بالجوار سے بالکل انکار کیا ہے اور اس طرح کی مثالوں (جُحر ضب خرب) کے بارے میں کہتے ہیں۔ حقیقت میں یہ عبارت اس طرح تھی (خرب جحره) مضاف الیہ حذف ہوا ہے اور ضمیر مجرور اس کی جگہ پر آیا ہے اور ایک ضمیر (خرب) میں بھی مستتر ہے۔
3۔ کلمہ (أرجلکم) (رؤوسکم) کے ظاہر پر عطف ہوا ہے اور یہ شاعر کے اس قول کی طرح ہے جیسے (علفتها تبنا و ماءً باردا) جبکہ حقیقت میں یہ عبارت اس طرح سے تھی (علفتها تبنا وسقیتها ماءً باردا) یہ قول اخفش سے نقل ہوا ہے۔ اس قول کا لازمہ یہ ہے کہ آیہ کریمہ میں کلمہ (اغسلوا) تقدیر میں ہو یعنی اصل میں آیہ کریمہ اس طرح ہو “وامسحوا برؤوسکم واغسلوا أرجلکم إلی الکعبین” یعنی اپنے سر کا مسح کرو اور ٹخنے تک اپنے پاوٴں کو دھووٴ۔
جواب: یہ توجیہ سابقہ توجیہات سے بھی زیادہ ضعیف ہے کیونکہ کسی چیز کو تقدیر میں اس وقت رکھا جاتا ہے جب کلام کو اس کے ظاہر پر حمل کرنا ممکن نہ ہو جیسے مذکورہ شعر میں، کیونکہ گھاس دینا پانی دینے کے علاوہ ایک الگ فعل ہے جبکہ آیہ کریمہ میں اس قسم کی کوئی مشکل نہیں ہے۔
4۔ کلمہ (أرجلَکم) منصوب اور (ایدیکم) پر عطف ہے جس کے نتیجے میں معطوف اور معطوف علیہ کا حکم ایک ہوگا یعنی ہاتھوں اور پیروں کو دھونا چاہیئے۔
جواب: اس توجیہ کا لازمہ یہ ہے کہ معطوف (أرجلَکم) اور معطوف علیہ (ایدیکم) کے درمیان جملہ معترضہ (وامسحوا برؤوسکم) قرار پائے گا جو عربی زبان کے قواعد کے مطابق صحیح نہیں ہے، جبکہ اس طریقے سے گفتگو کرنا انسانوں کے درمیان میں بھی رائج نہیں ہے چہ جائیکہ کلام الٰہی میں ایسا ہو جو کہ فصاحت و بلاغت کاشاہکار ہے۔ 15 اہل سنت کے بعض علماء نے شیعوں کے نظریئے پر جو کلام الٰہی کے ساتھ سازگار ہے اعتراض کیا ہے۔ یہاں ہم ان اعتراضات کا مختصرا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں:
1۔ آیہ کریمہ میں لفظ (کعبین) (أرجلکم) کی غایت کے عنوان سے ذکر ہوا ہے جیسے (و أرجلکم إلی الکعبین) کعبین سے مراد پاوٴں کے ٹخنے کے اطراف میں موجود دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جبکہ غایت مغیا کے حکم میں شامل ہے اور یہ کام مسح کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ پیروں کو دھونے سے حاصل ہو جاتا ہے۔
جواب: اگر ہم کعبین سے مذکورہ ہڈیاں مراد بھی لیں تب بھی ان دونوں پر مسح ممکن ہے یعنی دونوں پیروں کا اس طرح مسح کریں کہ مذکورہ حصہ بھی اس میں شامل ہو جائے۔
2۔ شیعوں نے(کعب) کی تفسیر پاوٴں کے ابھرے ہوئے حصے سے کی ہے جبکہ ہر پاوٴں میں صرف ایک کعب ہوتا ہے حالانکہ آیہ کریمہ میں (کعبین) تثنیہ آیا ہے۔ شیعوں کے نظریئے کے مطابق یہاں جمع کا صیغہ آنا چاہیئے مثلا (کعاب) جیسے ہاتھوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے، (الی المرافق)۔17
جواب: جس طرح جمع کا صیغہ مناسب ہے اسی طرح تثنیہ کا صیغہ بھی مناسب ہے۔ ہاتھوں اور پیروں کے بارے میں (المرافق) (کعبین) استعمال کرنے کی وجہ ہمارے لئے واضح نہیں ہے۔ یقینا لفظ (مرافق) مرفقین سے اور لفظ (کعبین) کعاب سے زیادہ واضح ہے۔ علاوہ ازیں اگر کعب سے مراد پیروں کے اطراف میں موجود برآمدگی لے لیں (جیسا کہ بعض شیعہ علماء کا نظریہ ہے) تب بھی آیہ کریمہ پاوٴں کے دھونے کے وجوب کو بیان نہیں کرتی بلکہ فقط مسح کا واجب مقدار بیان کرتی ہے۔
4۔ وضو کی حکمت اور عقلی نقطہ نظر سے بھی ہمیں اس بات کا قائل ہونا چاہیئے کہ آیہ کریمہ سے مراد پاوٴں کا دھونا ہے نہ مسح کرنا، کیونکہ اگر پاوٴں کے اوپر کوئی گرد و غبار ہو تو اس کے اوپر مسح کرنے سے نہ صرف طہارت و پاکیزگی حاصل نہیں ہوگی بلکہ یہ عمل اس کے مزید آلودہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔ 18
جواب: اگرچہ احکام شرعی مصالح و مفاسد پر مبتنی ہیں لیکن ان حکمتوں کی مکمل شناخت انسان کے اختیار میں نہیں ہے، مخصوصا عبادتوں کی حکمتوں کا علم انسان کے پاس نہیں ہے۔ علاوہ ازیں فقہ شیعہ میں اعضائے وضو کی طہارت کے بارے میں کافی تاکید ہوئی ہے۔ اسی لئے وضو سے پہلے وضو کے اعضاء کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک کرنا ضروری ہے۔ بزرگان شیعہ کی سنت بھی یہی رہی ہے کہ وہ وضو کرنے سے پہلے اعضائے وضو کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک کرتے تھے۔ شاید یہ بات جو اہل سنت کی روایتوں میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتے وقت پاوٴں کو دھوتے تھے اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ؐنظافت کی خاطر پاوٴں کو دھوتے تھے نہ وضو کے قصد سے۔ 19
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ وسائل الشیعۃ، ج1 باب وضو، حدیث 1، ص256۔
2۔ ایضاً ، حدیث 4۔
3۔ ایضاً، حدیث 7۔
4۔ امالی، شیخ مفید، ص6 ح5
5۔ نہج الفصاحہ ص۲۸۶، ح ۶۶۰
6۔ تفسیر عیاشی ج ۱، ص۴۳، ح ۳۹
7۔ وسائل الشیعہ ج۱ ص۳۷۷
8۔ من لا یحضره الفقیہ، ج ۱، ص۵۰
9۔ تہذیب الاحکام ج2 ص116
10۔ مائدۃ،6۔
11۔ التنقیح ،ج 5، ص61۔
12۔ جمع البیان ج2، ص164۔
13۔ المیزان، ج5، ص221۔
14۔ مجمع البیان ،ج2،ص164۔تفسیر طبری ،ج6،ص83۔
15۔ مجمع البیان،ج2،ص 167۔
16۔ تفسیر المنار ،ج6،ص 234۔
17۔ ایضاً، ص233۔
18۔ تفسیر المنار،ص234۔
19۔ سید شرف الدین عاملی، سبع مسائل فقہیۃ، ص82۔ آیۃ اللہ جعفر سبحانی، الاعتصام بالکتاب و السنۃ، ص19۔
دیدگاهتان را بنویسید