حضرت زینبؑ کے فضائل اور آپ کی زندگی پر آئمہ اطہار (ع) کی سیرت کااثر/کامل اسماعیل
مقدمہ
حضرت امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے اپنی دختر نیک اختر حضرت زینب کی شادی حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب سے کردی۔ البتہ آپ شادی کے بعد، شوہر اور گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے والد گرامی کے بیت الشرف کی ذمہ داریوں اور اپنے بھائیوں سے مربوط مسائل سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ ہمیشہ اپنے والد گرامی کےتمام سفر و حضر اورتمام جنگوں میں ساتھ ساتھ رہیں.
حضرت زینب کے القاب:
حضرت زینب کے بہت زیادہ القاب ہیں کہ جو ہر ایک آپ کی فضیلت و کمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
جیسے عارفہ(سمجھدار) عالمہ (جان نے والی) فاضلہ (با فضیلت) عابدہ (عبادت کرنے والی) امینہ ( امانتدار) نائبۃ الزھرا (زھرا کی جانشین) نائبۃ الحسین(حسین کی جانشین) عقیلۃ النساء(خواتین کی سردار) شریکۃ الشھداء(شہداء کربلا کی شیرک کار) بلیغہ و فصیحہ(فصیح و بلیغ تقریر کرنے والی) شریکة الحسین (نورالدین جزائری، خصائص الزینبیه، ص67.) ( امام حسین کی شیریک کار) اور چھوٹی معصومہ وغیرہ آپ کے القاب ہیں۔
فضائل و خصوصیات
حضرت زینب سلام علیھا نے تمام فضائل و کمالات اپنے والد گرامی حضرت امیرالمؤمنین اور والدہ گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا سے میراث میں پائے ہیں، آپ بہت زیادہ خصوصیات و فضائل کی حامل ہیں کہ جن میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا جارہا ہے۔
1- عبادت
یہ عظیم خاتون اپنے دوسرے عزیز و اقارب کی طرح عبادت الہی میں زبانزد خاص و عام تھیں، بہت زیادہ روزہ رکھتیں، بہت عبادت کرتیں اور بارگاہ خداوندی میں ہمیشہ راز و نیاز میں مشغول رہتیں نمازیں پڑھتیں اکثر راتیں شب بیداری اور قرآن کریم کی تلاوت میں گزار دیتیں یہان تک کہ آپ کا لقب “علوی خاندان کی عابدہ” پڑ گیا ۔ (جعفر نقدی، الکبری بنت الامام، ص21.)
آپ نے یہ تمام عبادتیں و اعمال سخت ترین راتوں اور بد ترین شرائط میں بھی فراموش نہیں کیے یہاں تک کہ آپ کی نماز تہجد شب عاشور و شام غریبان اور اسیری کی راتوں میں بھی ترک نہیں ہوئی۔
یہی وجہ تھی حضرت امام حسین نے روزعاشور اپنی زندگی کے آخری لمحہ میں اپنی بہن سے رخصتی کے وقت یہی درخواست فرمائی کہ بہن مجھے اپنی نماز شب میں فراموش نہ کرنا ۔ (جعفر نقدی، الکبری بنت الامام، ص62.)
2- زہد و تقوی
عقیلہ بنی ہاشم جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا ، قناعت، زہد اور دنیا کی ناچیز متاع و پونجی سے اجتناب و دوری میں دنیا والوں کے لیے نمونہ و مثال تھیں،جب کہ آپ کے شوہر عبداللہ بن جعفر بہت زیادہ مال وثروت رکھتے تھے لیکن آپ کو زندگی کی مادی چیزوں، زیور و زینت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ آپ ان سب چیزوں سے روگرداں ہوکر اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ راہی کربلا ہوئیں تاکہ خدا کی راہ میں اور اسلام کی بقاکی خاطر اپنا سب کچھ، جان ومال و اولاد نثار و فدا کردیں۔
3- صبر و شکیبائی
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے صبر کی انتہایہ ہے کہ آپ نے زندگی کے تلخ حوادث جسے ماں، باپ اور بھائیوں کی شہادتوں کو بہت ہی تحمل و بردباری کے ساتھ برداشت کیا اور خداوندعالم کی مرضی وقضا کے مطابق زندگی گزاری، اس کے ارادہ ومشیت پر راضی رہیں یہاں تک کہ اس وقت بھی کہ جب اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے لاشے کو بے گور وکفن دیکھا اور آپ کی آنکھیں اپنے بھائی کے کٹے ہوئے سر پڑیں تو فرمایا : پروردگارا اس قربانی کو ہماری طرف سے قبول فرما ۔ (سید علی نقی فیض الاسلام، خاتون دوسرا، ص185.)
4- شجاعت
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی بہادری کی داستان وہاں سے شروع ہوتی ہے کہ جب آپ کے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے تمام ساتھیوں کے ہمراہ مقام شہادت پر فائز ہوگئے اور اپنے پاک خون سے سرزمین کربلا کو رنگین کردیا۔ اس دلسوز واقعہ کے بعد حضرت زینب نےایک بہادر انسان کی حیثیت سے میدان تاریخ میں قدم رکھا۔ کہ جوہمیشہ کے لیے نور صبح کی طرح پائدارہو گیا۔
آ پ کبھی بھی بنی امیہ کے ظالم و جابر حاکموں اور یزید کی خطرناک و ترسناک قدرت و طاقت سے خوفزدہ نہیں ہوئیں اور ان کو اپنی نظر میں کوئی اہمیت نہیں دی، چونکہ ہمیشہ اپنے آپ کو حق کا پیروکار اور حقیقت کا طالب سمجھتیں اور باطل سے گریز کرتیں تھیں. (محمد محمدی اشتهاردی، حضرت زینب فروغ تابان کوثر، ص81 .)
5- بلاغت و فصاحت
حضرت زینب سلام اللہ علیھا فصاحت و بلاغت میں شہرہ آفاق رکھتی تھیں، آپ ادبیات اور معانی و بیان و بدیع کی اصطلاحات میں انتہائی مہارت رکھتیں، انتہائی سلیس و روان الفاظ اور خوبصورت مفاہیم کا استعمال کرتیں تھیں۔
آپ اس میدان میں اس قدر ماہر تھیں کہ ادبی و بلاغی صنعتوں سے ایسا موزون و مرتب کلام ارشاد فرماتیں کہ جو ظاہرا نثر ہوتا لیکن ایسا لگتا کہ منظوم ہو، کہ جس کا مطلع آسان، جملات مرتب اورترکیب و بناوٹ انتہائی کمال پر اترتی۔ اسی وجہ سے آپ کا کلام شیرین اور بہت آسان ہوتا تھا، اس طرح کہ ہر دقیق و فہیم انسان آپ کے کلام سے محظوظ ہوتا چونکہ یہ تمام مہارت آپ نے اپنے والدگرامی حضرت علی علیہ السلام سے میراث میں پائی تھی۔ (أحمد بهشتی، زنان نامدار در قرآن و حدیث، ص51 .)
6- حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا مقام آئمہ اطہار علیہم السلام کے نزدیک
حضرت زینب سلام اللہ علیھا اپنے والد گرامی اور بھائیوں کے نزدیک انتہائی عظیم مقام رکھتی تھیں، آپ کی منزلت آپ کے والد کی نگاہوں میں اس حد تک تھی کہ آپ جب بھی اپنے والد کے پاس تشریف لاتیں تو حضرت آپ کے استقبال میں کھڑے ہوجاتےاور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے ۔
والد گرامی کی شہادت کے بعد بھی آپ اسی موقعیت پر فائز رہیں اس لیے کہ آپ کے بھائی بھی آپ کا اسی طرح احترام کرتے تھے۔ بعض روایات میں درج ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا جب کبھی بھی اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کے دیدار کو تشریف لاتیں تو حضرت آپ کے احترام میں کھڑے ہوتے اور اپنی جگہ آپ کو بٹھاتے تھے۔ (مجموعه وفیات الائمة و یلیه وفاة السیدة زینب، ص436 .)
حضرت امام حسین علیہ السلام کے نزدیک حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے مقام و منزلت کے لیے یہی کافی ہے کہ کہا جاتا ہےکہ ایک روز آپ اپنے بھائی کے پاس تشریف لائیں جیسے ہی امام علیہ السلام کی نظرآپ پر پڑی جب کہ آپ تلاوت قرآن کریم میں مشغول تھے ، آپ نے قرآن کو بند کیا اور آپ کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ (مجموعه وفیات الائمة و یلیه وفاة السیدة زینب، ص437 .)
7- حضرت زینب سلام اللہ علیھا میں معصومین علیہم السلام کے صفات کا ظاہر ہونا
حضرت زینب سلام اللہ علیھا ان کمال و خصوصیات کی حامل تھیں کہ جوحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا رکھتی تھیں، مذکورہ ذیل چند خصوصویات انہیں میں سے ہیں:
اول: قدرت وولایت تکوینی کا حامل ہونا۔ اس طاقت و ولایت کا اظہار آپ نے کوفہ کے دوازہ میں داخل ہوتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا کہ جس سے تمام تماشائیوں کے سانس سینے میں اٹک گئے۔
دوم: علم لدنی کا حامل ہونا۔ آپ کے اس مقام کی طرف حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے اشارہ فرمایا ہے کہ آپ کسی استاد کے سامنے تلمذ کیے بغیر بہت زیادہ علم رکھتی ہیں۔ (طبرسی، أبو منصور أحمد بن أبی طالب، الاحتجاج، ج2، ص31.)
نیزسات سال کے سن میں اپنی والدہ ماجدہ کے خطبہ فدک کا حفظ کرلینا آپ کی اس قدرت پر ایک اورروشن دلیل ہے ۔ واقعا یہ مقام تعجب ہے کہ آپ نے اتنی کمسنی میں اس قدر طویل خطبہ کو کیسے حفظ کیا ! اس کا جواب صرف یہی ہے کہ آپ علم کے منبع غیب سے متصل تھیں اور اس قدرت خاص کی حامل تھیں کہ جو خداوندعالم نے آپ کو عنایت فرمائی تھی۔
آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے یہ قدرت آپ کے اندر ملاحظہ فرمائی تھی لہذا آپ جب بھی محو سخن ہوتیں تو حضرت زینب سے فرماتیں کہ میری گفتگو کو غور سے سنو چونکہ میں جانتی ہوں کہ میرے بعد تم ان باتوں کو اچھی طرح لوگوں تک پہنچاسکتی ہو۔
یہی بات آپ کے کمال و قدرت کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ آپ نے آپنی والدہ کی شہادت کے برسوں برس بعد بھی انہیں کے لہجے میں خطبہ دیے۔ انسان جب کبھی بھی آپ کے خطبات کو غور سے مطالعہ کرے اور ان خطبات کو آپ کی والدہ گرامی کے خطبوں سے ملائے و مقایسہ کرے تو اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ گویا آپ وہی فاطمہ ہیں کہ جومحو سخن ہیں، چونکہ آپ کی عبارات و کلمات اور روش و بیان کاملااپنی والدہ ہی کی روش کے مطابق تھا۔
البتہ اس مطلب کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے جو مسجد مدینہ میں خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اس کا آپ کی بیٹی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبے سے بہت فرق تھا اس لیے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبے کے لیے موقع فراہم تھا چونکہ آپ اپنے والد گرامی کی مسجد اور مہاجرین وانصار کے درمیان خطبہ دے رہیں تھیں، جب کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اسیر تھیں اوردشمنوں اور اپنے بھائیوں، بھتیجوں، بیٹوں اور عزیز و اقارب کے قاتلوں کے سامنے خطبہ دے رہی تھیں!۔
آپ جب کہ اپنے خطبات میں اپنے مخاطبین کو سرزنش و تنبیہ کررہی تھیں، اور کبھی بھی ان پر ڈانٹ و پھٹکار بھی کرتیں لیکن پھر بھی مخاطبین آپ کے کلام میں اتنے محو ہوتے کہ آپ کے کلام سے اجتناب کےبجائے اور غور سے سنتے تھے کہ یہ سب اپ کے کمالات و قدرت اور سلاست بیان پر شاہد و گواہ ہے
نتیجه
تاریخ میں بہت زیادہ انقلاب و حوادث رونما ہوئے ہیں کہ جن میں سے ہرایک نے اپنی اپنی جگہ پر بہت سے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن یہ تمام واقعات وحوادث زمانے کے گزرنے سے فراموشی کا شکار ہوگئے ہیں، جب کہ کربلا کا عظیم واقعہ ایک طویل مدت اور سیکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی زندہ وجاوید اورآج بھی تازہ ہے۔ بیشک اس واقعہ کی بقا اور اپنے بھائی کے پیغام کو آئندہ کی نسل تک پہنچانے میں حضرت زینب کا کردار بہت زیادہ ہے، آپ نے اتنا عظیم کارنامہ انجام دیا کہ جو عظمت اور اہمیت کے لحاظ سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے کارنامے سے کم نہیں تھا۔
منابع:
https://globe.aqr.ir/portal/home/?news/63096/16395/911736
دیدگاهتان را بنویسید