مثبت تبدیلی کے لئے موقع شناسی بہت اہم ہے /تحریر : محمد حسن جمالی
ہر انسان اپنے معاشرے میں مثبت تبدیلی دیکھنا چاہتاہے، مثبت تبدیلی درست نظر وعمل کا نتیجہ ہوتا ہے، عملی میدان میں صحیح خط پر گامزن رہ کر مطلوبہ ہدف تک رسائی حاصل کرنے کے لئے خاص شرائط متعین ہیں جیسے نیت کا خالص ہونا ، درد دل رکھنا ،علمی قابلیت رکھنا ،ہمت نہ ہارنا ،مسلسل جدوجہد کرنا ،لوگوں کے طنز وطعنے کی پروا نہ کرنا اور زمانے کے حالات سے باخبر رہنا وغیرہ انہی شرائط میں سے ایک موقع شناسی کی صلاحیت کا حامل ہونا بھی ہے، تاریخ بشریت میں ایسے انسانوں کا تذکرہ فراون ملتا ہے جو موقع شناس تھے ،انہوں نے اچھے مواقع سے بھر پور استفادہ کیا اور بڑی کامیابیاں حاصل کرکے دوسروں کے لئے نمونہ قرار پائے،
اس کا برعکس تاریخ نے ان افراد کا نام بھی اپنے سینے میں محفوظ کر رکھا ہے جنہوں نے اچھے مواقع میسر آنے کے باوجود لیت ولعل سے کام لیتے ہوتے ہوئے اسے گنوا بیٹھے یا ان سے سوء استفادہ کرتے ہوئے وہ آنے والی نسلوں کے لئے نشان عبرت قرار پائے ـپاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان اگر چہ بلند وبانگ دعوے کرتے ہوئے مسند اقتدار سنبھالنے میں کامیاب ہوئے مگر عملی سیاست میں وہ بھی خاطر خواہ کامیابی کا مظاہرہ نہ کرسکے ،اس کی وجوہات پر اگر قلم اٹھائے تو بڑی زخیم کتاب بن جائے! یہاں فقط اس نکتے کو اجاگر کرنا مقصود ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کی کمزوریوں میں سے ایک ان کا موقع شناسی کی صلاحیت سے عاری ہونا ہے، انہوں نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعوی تو زور وشور سے کیا مگر لگتا ہے وہ ریاست مدینہ کے قیام کے بنیادی عوامل سے واقف نہیں، اسے ریاست مدینہ کے بنیادی مسائل کا علم نہیں ، وہ اس کے اہداف ومقاصد سے آشنا نہیں ،جب تک وہ موقع شناس نہیں بنتے،حساس لمحات میں بروقت ٹھوس اقدامات کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرتے، اور ملک کے داخلی وخارجی پالیسیز میں ملکی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے مضبوط منصوبہ بندی کرنے کی کوشش نہیں کرتے تب تک ریاست مدینہ تو کیا وہ پاکستان کو عالمی سطح پر ترقی پزیر ملکوں کی صف میں شامل رکھنے میں بھی کامیاب نہیں ہوں گےـ
عمران خان کا الالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرکے سعودی عرب چلے جانا بہت سارے حقائق کو ثابت کرتا ہے جو پاکستانی عوام خصوصا دانشور طبقے کے لئے باعث تشویش ہے، موصوف نے اپنے اس غلط اقدام کے ذریعے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ وہ موقع شناس نہیں، سنہری موقعے سے فائدہ اٹھانے کا ہنر نہیں رکھتے، وہ خارجہ پالیسیز بنانے میں آذاد نہیں، آغیار کی غلامی سے اسے نفرت نہیں ،اسے امت مسلمہ سے کہیں زیادہ مادی مفادات عزیز ہیں و..
ریاست مدینہ کی بات کرنے والے نے سعودی حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر الالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرکے پورے پاکستانی عوام کو سبکی سے دوچار کرائے، البتہ یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس غلط فیصلے میں قصور وار فقط وزیر اعظم نہیں بلکہ مشیروں سمیت اس کی ٹیم میں شامل سارے افراد کی تقصیر ہے جو پاکستان کے مفاد کو مقدم کرکے پالیسیز مرتب کرنے کے بجائے مذہبی رنگ کو ترجیح دے کر ملک کی داخلی وخارجی پالیسیز بنانے میں اپنی عافیت تلاش کرتے رہتے ہیں ، حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ آل سعود کا منافقانہ چہرہ پوری دنیا پر آشکار ہونے کے باوجود پاکستان کے بعض مسلمان اب بھی انہیں مذہب کا ٹھیکدار سمجھتے ہیں ،ان کی غلط حرکتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، امریکہ واسرائیل کے ساتھ روز بروز ان کے مستحکمتر ہونے والے روابط اور دوستی کو تفسیر بالرای اور من گھڑت تاویلات کے ذریعے جائز قرار دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، یمن سمیت پوری دنیا میں سعودی عرب نے اپنے آقاؤں کے اشارے سے دہشگردی کی جلائی ہوئی آگ کو جہاد کا نام دے کر لوگوں کو خاموش کراتے ہیں، جب اسی سرزمین سے مسلمانوں کے کفر کے فتوے نکلتے ہیں تو خوشی خوشی اسے وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لئے اپنی توانیاں خرچ کرنے میں کسر باقی نہیں چھوڑتےـ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ پاکستان کے بہت سارے قلمکار دانشور اور پڑے لکھے لوگ بھی سعودی عرب کی محبت میں اس کے حکمرانوں کی غلط باتوں کو غلط کہنے کی جرات نہیں کرتے، وہ اپنے ضمیر کے فیصلے کو دفنا کر ان کی غلطیوں کی تاویلات کرکے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ،آخر کب تک ؟
چند دن قبل ایکپیرس نیوز کے کالم نگار مزمل سہروردی کا ایک کالم نظروں سے گزرا جسے پڑھ کر تعجب ہوا کہ ہمارے ہاں فکری نابالغ افراد قلمکاری کی دنیا میں تجزیے کے نام سے کس حد تک من گھڑت تاویلات کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، ان کی تحریر کے اہم حصے آپ بھی پڑھ کر ہمارے ساتھ حیرت کی دنیا میں داخل ہوجائیں! وہ شروع میں لکھتے ہیں: ( پاکستان نے ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہیں کی ہے۔اس پر آج کل بحث و مباحثہ ہو رہا ہے بلکہ شاید ایک ایشو بن گیا ہے۔ میری رائے میںاس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اتنا برا نہیں تھا، جتنے برے طریقے سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔) یعنی ان کی نظر میں اس اہم کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ ہی اشتباہ تھا! جب کہ وہ اس کانفرنس کے اہداف جاننے کی ذرا سی کوشش کرتے تو وہ ہرگز یہ لکھنے کی جرات نہ کرتے پھر وہ لکھتے ہیں ? کسی کانفرنس میں کسی ملک کا شریک نہ ہونا کوئی بہت بڑا ایشو یا مسئلہ نہیں ہوتا)۔ لگتا ہے محرر کی نظر میں وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی جیسی چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں، اس کے علاوہ پاکستان کی سفارتی سطح پر ہونے والی سبکی اور پاکستان پر سے اٹھنے والا اعتماد کوئی معنی نہیں رکھتے وہ آگے لکھتے ہیں (سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کو عرب ممالک سے اپنے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ نہیں تھا؟ کیا ہمیں معلوم نہیں تھا کہ خوشحال عرب ممالک نے اگر کشمیر پر ہمارا ساتھ نہیں بھی دیا تو انھوں نے مشکل اقتصادی حالات کے دوران پاکستان کی غیرمعمولی انداز میںمالی مدد کی ہے۔ کیا ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہم ان سے ادھار تیل بھی لے رہے ہیں) ۔ اس سے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ موصوف کی نظر میں مسئلہ کشمیر سے ذیادہ پیٹ بھری کا انتظام اہم مسئلہ ہے، ان کے بقول سعودی عرب نے ہمیں قرضہ دیا، تیل ادھار پر دیا پس ہمیں اس کی پوری اطاعت کرنی چاہئے، اس کا غلام بن کر ہر حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہئے! جب کہ کشمیر کا ایشو عالمی مسائل میں سرفہرست شمار ہوتا ہے، خصوصا آج کل ظالم مودی حکومت کے کارندے کشمیری اور ہندوستانی مسلمانوں کو طرح طرح کے مظالم کا شکار کرکے دنیا والوں کو حجاج یوسف سقفی اور یزید وآل یزید کے مظالم یاد تازہ کررہے ہیں کیا یہ عوام گمراہی نہیں؟ وہ مذید لکھتے ہیں: (یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ او آئی سی چاہے کمزور ہی سہی لیکن پھر بھی ہم او آئی سی کو چھوڑنے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ یہی وہ فورم ہے جہاں سے ہمیں زبانی ہی سہی خارجہ محاذ پر کچھ نہ کچھ مدد ضرور مل جاتی ہے۔۔) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والے پر یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ او آئی سی ایک ناتواں پلیٹ فارم ہے، وہ زبانی دعوے سے ہٹکر عملی میدان میں کوئی کارنامہ دکھانے کی سکت نہیں رکھتی، جناب والا جو تنظیم عملا کارنامہ دکھانے سے قاصر ہے اس کے دامن سے متمسک رہنے کا پاکستانی قوم کو کیا فائدہ؟ کیا اسے چھوڑ کر امت مسلمہ کے مفاد میں بننے والی تنظیم کے حوالے سے قائم ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کو شرکت کرکے اپنے حصے کا دیا جلانا دانشمندی نہیں تھا؟ ذراسوچئیے !
آخر میں وہ لکھتے ہیں:
( قوموں کی برادری میں باہمی تعلقات قائم رکھنا ایک آرٹ ہوتا ہے۔ ہمیں ایسی خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کر بھی لیتے تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا اور اگر نہ بھی کرتے تو تب بھی کسی کو کوئی بات کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ) مزمل سہروردی کی اس تحریر کو جب میں نے اپنے ایک معتبر گروپ میں تبصرہ کے لئے شئیر کیا تو ہمارے احباب کالم نگار جناب طاہر شہزاد اور جناب سعید راجپوت نے اس پر بہت عمدہ تبصرہ لکھا طاہر شہزاد صاحب کا تبصرہ یوں تھا : رائٹر خود اپنی بات پر شش و پنج کا شکار نظر آرھا ھے اس کالم میں
شاید رائٹر کو کوالامپور سمٹ کی اہمیت کا اندازہ نہیں , جبکہ او-آئی-سی اپنی اہمیت کھو چکی ھو .کیونکہ او-آئی-سی اب بھارت , امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کا ترجمان بن چکا ھے – اس لیے ایک نئے بلاک کی ہمیں بہت ضرورت تھی آج کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے . مگر افسوس ہم نے صرف بھیک ملنے کی امید پر اپنے قومی مفادات کو تحس نحس کر ڈالا . افسوس بذدل سپاہ سالارز اور بذدل اور معذور حکمرانوں نے اپنی نا اہلیوں سے قوم کی امیدوں اور خوابوں کے پل توڑ ڈالے جن قوموں کے سپاہ سالارز اور حکمران معذور اور نا اھل ھوں ان قوموں کا مقدر غلامی ھی ھوتا ھے ؟
اور سعید صاحب کا تبصرہ یہ تھا: ہماری خارجہ و داخلہ پالیسی میں بھی اس لئے جان نہیں چونکہ ہمارا قلمکار اور کالم نگار معلومات کے بجائے جذبات و احساسات اور ذاتی تعلقات یا رنجشوں کی بنیاد پر قلم چلاتا ہے۔ اس وجہ سے وہ متوازن اور معتدل نہیں ہوتا، اسی لئے دانشمند معاشرے کا ددماغ ہوتا ہے جب دانشمند غیر متوازن ہوتا ہے تو معاشرہ ، لوگ اور پالیسیاں سب غیر متوازن ہوتی ہیں۔ یہ کالم بھی ایک غیر متوازن دانشمند کی سوچ کا عکاس ہے۔
دیدگاهتان را بنویسید