تازہ ترین

عدالت در نهج البلاغه

مقدمہ

پروردگار عالم نے اس وسیع و عریض کائنات کو بنانے کے بعد اس کے اندر مختلف قسم کی مخلوقات کو بسایا ان تمام میں سے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر خلق فرمایا۔ باقی تمام چیزوں کو انسان کی خاطر بنایا اور انسان کو پروردگار عالم نے خود اپنی عبادت کی خاطر ۔ اسی لئے حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے: ’’خلقت الأشیاء کلها لک و خلقتک لی‘‘ [1] یعنی چاند ، ستارے، دریا، کہکشاں، زمین و آسماں، چرند پرند ،سب کے سب کو تمہاری خاطر خلق کیا ہے اور تمہیں اپنے لئے کیا ہے۔ اسی مطلب کی طرف سورہ ذاریات  میں بھی  اشارہ ہوا

ہے:

شئیر
28 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5370

’’وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون‘‘[2] یعنی میں نے جنّ و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ چونکہ نسل انسانی کو قیامت تک باقی رہنا ہے؛ اس لئے پروردگار عالم نے ہر دور کے انسان کو اوج کمال تک پہنچانے کے لئے مختلف طریقوں سے اپنے دستورات کو بھیجا اور ان دستورات کو سمجھانے اور نافذ کرنے کے لئے اپنے منتخب بندوں کو بھی ساتھ مبعوث کیا ۔ پروردگار کے انہیں دستورات میں سے ایک اہم دستور عدالت کا قیام ہے چناچہ قرآن و احادیث میں اس حوالےسے بہت تاکید ہوئی ، ارشاد ہوتا ہے:   لَقَدْأَرْسَلْنَارُسُلَنَابِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَامَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ[3] ہم نے پیغمبروں کو واضح دلائل کیساتھ بھیجا ہے اور انکے ساتھ کتاب اور صحیح و غلط کا معیار نازل کیا تاکہ لوگ اس معیار عدل کے مطا بق عمل کریں۔تو بعثت انبیاء کا ایک اہم ہدف معاشرے میں عدالت کا قیام تھا۔

نہج البلاغہ میں جہاں دوسرے موضوعات کے حوالے سے امیر المؤمنینؑ کے کلمات فراوان ملتے ہیں وہیں عدالت کے موضوع پر بھی آپؑ کے خطبات ، مکتوبات اور کلمات قصار میں انسانی ضمیر کو جھنجوڑنے والے مطالب پائے جاتے ہیں۔کہ اگر ان فرامین پر عمل ہوجائے تو انسانی معاشرہ واقعاً ایک الٰہی معاشرے میں تبدیل ہو کر تمام مشکلات سے نجات پائے گا۔

اسلام کے عادلانہ نظام کی بنیاد ہمیشہ اعلیٰ اصولوں پر استوار ہوتی ہے نہ تو عوام کو سبز باغ دکھا کر خوش فہمی میں رکھنا ان اصولوں میں شامل ہے اور نہ ہی تاریکی میں بے خبر رکھنا . چنانچہ مولا علیؑ نے اسی دن سے جب لوگوں نے قتلِ عثمان کے بعد آپؑ کی بیعت کا ارادہ کیا، لوگوں کو سبز باغ دکھانے کی بجائے صاف الفاظ میں اپنے منشور کا اعلان کر دیا تاکہ حق مانگنے والے بغیر کسی خوف و جھجک کے اطمینان سے آگے بڑھیں اور ناپاک عزائم رکھنے والے پہلے ہی اپنا راستہ علٰحدہ اختیار کر لیں۔

تعریفِ عدالت
جب امیرالمؤمنینؑ سے دریافت کیا گیا کہ عدالت اور سخاوت میں زیادہ بہتر کونسا کمال ہے؟ تو فرمایا کہ انصاف ہر شے کو اس کی منزل پر رکھتا ہے اور سخاوت اسے اس کی منزل سے باہر نکال دیتی ہے۔ انصاف سب کا انتظام کرنا ہے اور سخاوت صرف اس کے کام آتی ہے جس کے شامل حال ہوجاتی ہے۔ لہٰذا انصاف بہر حال دونوں میں‌افضل اور اشرف ہے۔[4]

امامؑ کے اس فرمان سے ایک طرف عدالت کی تعریف واضح ہوگئی کہ عدالت ہر چیز کو اس کا مقام دینا ہے، اسی کی جگہ پہ قرار دینا ہے۔ تو دوسری طرف عدالت کی اہمیت واضح ہوئی حتی کہ سخاوت سے بھی افضل قرار دے دیا۔

عدالت میں سختی
آپؑ کسی بھی حالت میں عدالت کے خلاف ایک قدم اٹھانے کے لئے بھی تیار نہ تھے۔ ایک جگہ آپؑ اس طرح فرماتے ہیں: خدا کی قسم اگر میں کسی مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیدیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرا دیتا اس لئے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہوگی۔[5]

تاریخ کا مسلمہ ہے کہ امیرالمؤمنینؑ جب بیت المال میں داخل ہوتے تھے تو سوئی، تاگا، اور روٹی کے ٹکڑےتک تقسیم کردیا کرتے تھے اور اس کے بعد جھاڑو دے کر دو رکعت نماز ادا کرتے تھے تاکہ یہ زمین روز قیامت علیؑ کے عدل و انصاف کی گواہی دے اور اسی بنیاد پر آپؑ نے عثمان کی عطاکردہ جاگیروں کو واپسی کا حکم دیدیا اور صدقہ کے اونٹ عثمان کے گھر سے واپس منگوا لئے کہ عثمان کسی قیمت زکوٰۃ کے مستحق نہیں تھے۔[6]

ابنِ ابی الحدید ان فقروں کی تشریح کرتے ہوے جن میں امامؑ نے فرمایا تھا کہ زمینیں واپس لے لوں گاچاہے وہ عورتوں کے مہر میں دیدی گئی ہوں یا ان سے کنیزیں خرید لی گئی ہوں، کہتے ہیں کہ آپؑ نے سب اموال ضبط کر لئے گئے مگر جو لوگ بھاگ گئے وہ آپؑ کے قابو سے نکل گئے تھے . معاشرتی حقوق کے سلسلے میں گزشتہ پر توجہ کا قانونی اصول آپؑ نے اس جملہ میں فرمایا. ”ان الحق القدیم لا یبطلہ شیء“ یعنی قدیم حق کو کوئی چیز منسوخ نہیں کرتی یعنی مسلم الثبوت حق تمادی سے باطل نہیں ہو سکتا۔

اسی اثناء میں عمر ابن عاص نے معاویہ کو ایک خط لکھا کہ جو کچھ تم کر سکتے ہو اس سے پہلے کر لو کہ ابن ابی طالب تم سے وہ تمام دولت جو تم نے اس عرصہ میں جمع کی ہے اس طرح چھین لیں جس طرح لاٹھی کا چھلکا اتار لیا جاتا ہے۔ [7]

آپؑ کے بارے میں تاریخ نے کیا جملہ لکھا کہ قُتِلَ فِی الْمِحْرَابِ لِشِدّۃِ عَدْلِہِ  یعنی آپؑ کو عدل میں سختی برتنے کی وجہ سے محراب میں عبادت میں شہید کیا گیا۔ اور یہ جملہ صرف تاریخی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ جب لوگوں نے آپؑ سے کہا کہ کچھ نرمی اختیار کریں اور آپ  کی حکومت مظبوط ہونے تک اتنی سختی کے ساتھ معاملہ نہ کریں تو چونکہ آپؑ حق کو پانے کے لئے باطل اور ناجائز راستے اختیار کرنے کے قائل نہیں تھے تو آپؑ نے عدالت میں اتنی سختی کی کہ لوگ ظالم لوگوں کی راہ میں آپؑ رکاوٹ بنے تو آپؑ کو انہوں نے اپنے راستے سے ہٹا دئے۔

محمدی ری شھری نے اپنی کتاب دانش نامہ امیر المؤمنین میں نقل کیا ہےکہ امیرالمؤمنینؑ کے کچھ چاہنے والے ان کے پاس گئے اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین اس مال و دولت کو عرب اور قریش کے بزرگان اور سرداران کوبخش دیں اور انہیں آزاد شدہ گان پر فوقیت دے دیں اور جو لوگ آپ دے بھاگ گئے ہیں اور آپ کو ان کی مخالفت کا خطرہ ہے انہیں بھی، (دوسروں پر فوقیت دیں)

امیرالمؤمنینؑ نے ان سے کہا : کیا مجھے ظلم و ستم کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کا حکم دیتے ہو؟ خدا کی قسم، جب تک سورج طلوع ہوتا ہے اور آسمان پر تارے چمکتے ہیں ایسا نہیں‌کروں گا (یعنی کبھی ایسا ممکن ہی نہیں‌ہے) خدا کی قسم، اگر یہ مال و دولت میرا اپنا ذاتی ہوتا تب بھی میں‌ان کے درمیان برابراور عدالت کے ساتھ تقسیم کرتا درحالیکہ یہ اموال عمومی ہیں۔[8] ایک اور مقام پر آپ اس طرح فرماتے ہیں: خدا گواہ ہے کہ اگر مجھے ہفت اقلیم کی حکومت تمام زیر آسمان دولتوں کے ساتھ دے دی جائے اور مجھ سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ میں کسی چیونٹی پر صرف اسقدر ظلم کروں کہ اس کے منھ سے اس چھلکے کو چھین لوں جو وہ چبا رہی ہے تو ہرگز ایسا نہیں کرسکتا ہوں۔ یہ تمہاری دنیا میری نظر میں اس پتی سے زیادہ بے قیمت ہے جو کسی ٹڈی کے منھ  میں ہو اور وہ اسے چبا رہی ہو۔[9]

گزشتہ کی طرف توجہ
امیرالمؤمنینؑ کو اپنی خلافت کے دوران کافی مشکلات پیش آئیں جنکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپؑ گزشتہ بدعنوانیوں کی اصلاح چاہتے تھے چونکہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد سے آپ کو خلافت ظاہری ملنے تک  کے عرصے میں خاص طور پر خلیفہ ثالت کے دور میں عدالت کا جنازہ نکال کر مال البیت کو اپنی مرضی اور خاندانی رشتوں کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا اور ایک مظبوط طبقانی نظام وجود میں‌آیا تھا اور گزشتہ را صلواۃ کے قائل نہیں تھے چنانچہ آپ ؑ نے پھر سے رسول اللہؐ کی روش اپنانے کا اعلان کیا اور باطل کے عزت داروں کو ذلیل اور حق کے کمزوروں کو عزیز کرنا شروع کیا اور فرمایا:

قسم ہے اس پروردگار کی جس نے پیغمبر اکرم ؐ  کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تھا کہ تم سختی کے ساتھ تہہ و بالا کئے جاؤگے تمہیں باقاعدہ چھانا جائے گا اور دیگ کی طرح چمچے سے اُلٹ پلٹ کیا جائے گا یہاں تک کہ اسفل اعلیٰ اور اعلیٰ اسفل ہو جائے اور جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ آگے اور جو آگے آگئے ہیں وہ پیچھے ہو جائیں .خدا گواہ ہے میں نے نہ کسی کلمہ کو چھپایا ہے اور نہ غلط بیانی کی ہے اور مجھے اس دن کی پہلے ہی خبر دی گئی تھی۔[10] تو جن لوگوں کو گذشتہ دور میں زیادہ ملنے کی عادت تھی چیخنا شروع کردیا اور آپؑ کے لئے اچھا خاصا مشکل کھڑی کر دی۔  آپؑ فرماتے تھے کہ گزشتہ پر بھی نظر رکھنی ضروری ہے کیوں کہ حال و مستقبل کی تعمیر میں ماضی کا بڑا دخل ہے خراب اور فرسودہ بنیاد پر کوئی بلندوبالا اور مستحکم عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی۔

عقیل کا مطالبہ اور عدالت علیؑ
خدا کی قسم میں نے عقیل کو خود دیکھا ہے کہ انہوں نے فقر و فاقہ کی بنا پر تمہارے حصہ گندم میں‌سے تین کیلو کا مطالبہ کیا تھا جب کہ ان کے بچوں کے بال غربت کی بنا پر براکندہ ہوچکے تھے اور ان کے چہروں کے رنگ یوں بدل چکے تھے جیسے انہیں تیل چھڑک کر سیاہ بنایاگیا ہو اور انہوں نے مجھ سے باربار  تقاضا کیا اور مکرر اپنے مطالبہ کو دہرایا تو میں‌نے ان کی طرف کان دھر دئے اور وہ یہ سمجھے کہ شائد میں‌دین بیچنے اور اپنے راستہ کو چھوڑ کر ان کے مطالبہ پر چلنے کے لئے تیار ہو گیا ہوں۔ لیکن میں نے ان کے لئے لوہا گرم کرایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ انہوں نے لوہا دیکھ کر یوں فریاد شروع کر دی جیسے کوئی بیمار اپنےدرد و الم سے فریاد کرتا ہو اور قریب تھا کہ ان کا جسم اس کے داغ دینے سے جل جائے۔ تو میں نے کہا رونے والیاں آپ کے غم میں‌روئیں اے عقیل! آپ اس لوہے سے فریاد کر رہے ہیں جسے ایک انسان نے فقط ہنسی مذاق میں‌تپایا ہے اور مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہیں جسے خدائے جبار نے اپنے غضب کی بنیاد پر بھڑکایا ہے۔ آپ اذیت سے فریاد کریں اور میں جہنم سے فریاد نہ کروں۔[11]

جس اسلامی حکومت کا حاکم اتنا عادل ہو کہ اس کے پاس اپنی ذات، اپنے خاندان کے افراد اور امیر و غریب سب برابر ہوں اور کسی کو امارت ، خاندانی اثر رسوخ، رنگ و زبان کی بنیاد پر ترجیح نہ دیتا ہو تو وہ حکومت دنیا کی تمام حکومتوں کے لئے اسوہ اور نمونہ عمل بن جاتی ہے۔ بدقسمتی سے آج اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے اندر جاہلیت والی صفات پائی جاتی ہیں جہاں طبقاتی نظام اسلامی نظام پر حاکم ہے۔ جس کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ مظلوم مظلوم تر اور ظالم ظالم تر۔

 قاتل کے  ساتھ عدالت

آپؑ کی پیشانی اطہر پر ضربت لگنے کے بعد جب طبیب کو بلایا گیا تو زخم اتنا گہرا تھا کہ طبیب نے آپؑ کو وصیت کرنے کو کہا اُس وقت آپؑ نے جو وصیت کی اس میں اپنے قاتل کے بارے میں موجود کلمات کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ جو انسان اپنے قاتل کے ساتھ اتنا انصاف کرتا ہو وہ اپنے رعایا کے ساتھ کتنا مہربان ہوگا۔ آپؑ فرماتے ہیں:

اے اولاد عبد المطلب! خبردار میں یہ نہ دیکھوں کہ تم مسلمانوں کا خون بہانا شروع کردو صرف اس نعرہ پر کہ ’’امیر المؤمنین مارے گئے ہیں‘‘ میرے بدلہ میں میرے قاتل کے علاوہ کسی کو قتل نہیں‌کیا جاسکتا ہے۔

دیکھو اگر میں اس ضربت سے جانبر نہ ہوسکا تو ایک صربت کا جواب ایک ہی ضربت ہے اور دیکھو میرے قاتل کے جسم کے ٹکڑے نہ کرنا کہ میں‌نے خود سرکار دوعالمؐ سے سنا ہے کہ خبردار کاٹنے والے کُتّے کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹنا۔[12]

کون دنیا میں ایسا شریف النفس اور بلند کردار ہےجو قانون کی سربلندی کے لئے اپنے نفس کا موازنہ اپنے دشمن سے کرے اور یہ اعلان کردے کہ اگر چہ مجھے مالک نے نفس اللہ اور نفس پیغمبرؐ قرار دیا ہے اور میرے نفس کے مقابلہ میں کائنات کے جملہ نفوس کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن جہاں تک اس دنیا میں قصاص کا تعلق ہے۔ میرا نفس بھی ایک ہی شمار کیا جائے گا اور میرے دشمن کو بھی ایک ہی ضرب لگائی جائے گی تاکہ دنیا کو یہ احساس پیدا ہوجائے کہ مذہب کی ترجمانی کےلئے کس بلند کردار کی ضرورت ہوتی ہے اور سماج میں‌خونریزی اور فساد کے روکنے کا واقعی راستہ کیا ہوتا ہے۔ یہی وہ افراد ہیں جو خلافت الٰہیہ کے حقدار ہیں اور انہیں کے کردار سے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے کہ انسانیت کا کام فساد اور خونریزی نہیں‌ہے بلکہ انسان اس سرزمین پر فساد اور خونریزی کی روک تھام کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس کا منصب واقعی خلافت الٰہیہ ہے۔[13]

آج اگر ہم اپنے معاشرے کے اندر دیکھیں تو قاتل کے ساتھ عدالت تو دور کی بات ، عادل اور منصف کے ساتھ بھی عدالت نظر نہیں آتی ہے جو ایک اسلامی معاشرے کے اندر لمحہ فکریہ ہے۔ جبکہ اسلام کے تمام تر احکامات کے اندر عدالت پائی جاتی ہے کہ  اگر مظلوم کے لئے آنسو ہے تو ظالم کیخلاف تلوار بھی ہے اگر یہ صحتِ جسمانی کا ضابطہ رکھتا ہے تو روحانی اور باطنی ترقی پربھی توجہ دیتا ہے اگر اس میں نماز ہے تو اس کے ساتھ زکٰوۃکا حکم بھی ہے اگر اسلام علم کی حمایت کرتا ہے تو اس کے ساتھ عمل کو بھی لازمی سمجھتا ہے اگر اسلام خدا پر بھروسہ کرنے کا حکم دیتا ہے تو سعی وتلاش پر بھی ابھارتا ہے اگر اسلام مجرم کو معاف کر دینے کی ھدایت کرتا ہے تو جرائم کی مقرر کردہ سزائیں دینے کا فیصلہ کرنے اوراسے نافذکرنے میں نرمی برتنے کا حکم بھی دیتا ہے۔

چونکہ اس مختصر مقالے کے اندر اتنی گنجائش نہیں کہ ہم خطیب سلونی کے ان تمام کلمات کو ذکر کریں جو عدالت کے بارے میں‌ہیں اور خود مجسمہ عدالت ہیں ، جس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا غرض زندگی کی ہر ہر حرکت عین عدالت ہے۔  لہٰذا ہم یہیں پر اکتفا کرتے ہیں۔

حرف آخر
بدقسمتی سے آج کل اسلامی ممالک کے حکمران نااہل اور مفاد پرست ہونے کی وجہ سے اسلامی اقدار کو اپنی ذاتی مفادات اور مصلحتوں پر قربان کر دیتے ہیں اور اپنی اقتدار اور کرسی بچانے کے لئے جس کام کی ضرورت ہو وہ کر جاتے ہیں۔ اگر آج ان ممالک کے اندر اسلامی سیاست ہوتی اور اسلامی اقدار اوراصولوں کی پاسداری ہوتی تو نہ صرف مسلمان دنیا میں سرخرو ہوتے بلکہ انسانیت فلاح پاتی،  آج ہماری حکومتوں کی ناکامی اور کمزوری کی ایک اہم وجہ عدالت اجتماعی کا نہ ہونا ااورظلم و ستم کا حد سے زیادہ ہونا ہے۔ عدالت حکومتوں کو استحکام عطا کرتی ہے۔ جبکہ ظلم ہر چیز کو تباہ کر دیتا ہے شاید اسی لئے فرمایا: کہ حکومت کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔ کیونکہ مظلوم کسی بھی وقت ظالم کے خلاف اٹھ سکتا ہے ۔ یہیں وجہ ہے امیر المؤمنین کی زندگی میں خاص طور پر ظاہری خلافت کے دوران سب سے زیادہ جس جو چیز نمایاں نظر آتی ہے وہ عدالت ہے۔ خداوند ہمیں عدل و انصاف کرنے اور ظلم و ستم سے اجتناب کی توفیق عطا فرما۔

منابع

قرآن کریم
نہج البلاغہ
حدیث قدسی
شرح ابن ابی الحدید، مؤسسۃ الأعلمی بیروت۱۴۳۰ھ
دانش نامہ امیر مومنان، محمدی ری شھری، قم دارالحدیث
ترجمہ و شرح نہج البلاغہ، ذیشان حیدر جوادی
[1] ۔ حدیث قدسی

[2] ۔   سورہ ذاریات، آیت۵۶

[3] ۔ سورہ حدید، آیت۲۵

[4] ۔ کلمات قصار۴۳۷۔ سُئِلَ الامام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ الْعَدْلُ أَوِ الْجُودُ؟ فَقَالَ عليه السلام: “الْعَدْلُ يَضَعُ الْأُمُورَ مَوَاضِعَهَا وَ الْجُودُ يُخْرِجُهَا مِنْ جِهَتِهَا، وَ الْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌّ وَ الْجُودُ عَارِضٌ خَاصٌّ، فَالْعَدْلُ أَشْرَفُهُمَا وَ أَفْضَلُهُمَا” 

[5] ۔ نہج البلاغہ، خطبہ۱۵

[6] ۔ ذیشان حیدر، ترجمہ و شرح نہج البلاغہ، ص۵۳

[7] ۔ شرح ابن ابی الحدید، ج۱، ص۲۰۱،۲۰۲

[8] ۔ دانش نامہ امیر مؤمنان، ج۱۴، ص۲۲۸

[9] ۔ نہج البلاغہ، خطبہ۲۲۴

[10] ۔ نہج البلاغہ، خطبہ۱۶

[11] ۔ نہج البلاغہ، خطبہ۲۲۴

[12] ۔ نہج البلاغہ، مکتوب۴۷

[13] ۔ ترجمہ و تشریح نہج البلاغہ، ذیشان حیدر جوادی، ص۵۶۷

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *