تازہ ترین

گلگت بلتستان میں بجتی خطرے کی گھنٹی اور ہماری ذمہ داریاں

مختلف جہتوں سےگلگت بلتستان کا معاشرہ دیگر معاشروں کے لئے مثالی رہاہے ۔ دیانت داری اور امنیت اس کی پہچان رہی ہے ۔ یہ خطہ ابھی بھی پاکستان کے دوسرے خطوں کی نسبت ترقی کے وسائل سے محروم ہے ۔ آج تک پاکستانی حکمرانوں کی بے توجہی اور گلگت بلتستان کے کچھ مفاد پرستوں کی منافقت کے سبب اس خطے کے عوام قومی دہارے میں شامل نہ ہوسکے ،جس کا نتیجہ یہ نکلا وہ قومی حقوق سے محروم رہے ،غربت کی فضا گلگت بلتستان کے معاشرے پر حاکم رہی ۔ چنانچہ دین کے دشمنوں نے اس فقر کی حالت سے بھر پور سو ء استفادہ کرنے کی کوشش کی، انہوں نے مختلف تنظیموں کو فنڈینگ کرکے گلگت بلتستان کے معاشرے میں فعال کیا۔ جن کا شعار ہی یہ رہا ہم پسماندگی دور کریں گے، تعلیم عام کریں گے ،غریبوں کی مالی مدد کریں گے اور بے روزگارجوانوں کو اپنے گھر کی دہلیز پر نوکری دیں گے وغیرہ ۔ اس طرح دشمنوں نے مختلف طریقوں سے پورے گلگت بلتستان میں دین کے لئے نقصان دہ تنظیموں کا جال بچھا دیا، جن میں سر فہرست این جی اوز تنظیموں کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ اس وقت جوانوں کی ایک کثیر تعداد کے مالی مفادات انہی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنی توانائیاں ان کی خدمات میں صرف کررہے ہیں۔ بلاشبہ ایسی تنظیموں کا اصلی ہدف دین بیزاری ہے، نسل جدید کے اذہان میں دینی اقدار کی اہمیت گھٹانا ہے اور لوگوں کو مادی زرق وبرق میں گرفتار کرکے دینی دستورات سے دور رکھنا ہے۔ اس ہدف کو پانے کے لئے وہ لاکھوں کڑوڑوں کا سرمایہ خطہ بے آئین میں خرچ کررہی ہیں ، مختلف بہانوں سے جوانوں کے افکار کو مشوش کرنے کے لئے بے تحاشا پیسے مغرض افراد کے درمیان تقسیم کررہی ہیں اور معاشرہ امن کے دامن میں پلنے بڑھنے والی جدید نسلوں کے پاکیزہ ذہنوں میں بے بنیاد نت نئے شبھات ایجاد کرکے ان کو روحانیت اور معنویت سے دور کرنے کے لئے مادی طاقت کے بل بوتے پر وہ مختلف حربے آزمارہی ہیں ـ

شئیر
30 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5409

چنانچہ زمینی حقائق کے پیش نظر استعماری طاقتیں اپنے اہداف میں کامیابی کی طرف رواں دواں دکھائی دیتی ہیں ، کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے متدین معاشرے میں انہی تنظیموں سے منسلک افراد کے ذریعے بے دینی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ، چند سالوں سے بے حیائی کے مناظر ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں، سکردو جیسے دین کا مرکز شمار ہونے والے مقام پر مردوں اور عورتوں کے مخلوط گانے رقص کی محفلیں پوری شان وشوکت سے سجھ رہی ہیں۔چند دن پہلے سوشل میڈیا پر اسی طبقے سے وابستہ ایک جوان نے تو کھل کر دین کا ہی مزاق اڑایا، اگرچہ عرصے سے فیس بک پر اس شخص کے بکواسات پڑھنے کو مل رہے تھے مگر چند دن پہلے تو اس نے مغلظات کی انتہا کردی، اس نے دین کا ایک مسلمہ حکم( متعہ) کو نشانہ بنانے کی جرات کی ۔ اس کے بعد سے تعلیم یافتہ جوان سوشل میڈیا کے مختلف گروپس میں اسی پر بحث کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جب ہم نے ان کے کچھ پوسٹوں اور کمنٹس کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ ان کے خیالات مختلف ہیں۔ بنیادی طور پر دو طرح کی فکر کے حامل افراد دکھائی دئیے۔ کچھ تعلیم یافتہ جوانوں کا خیال تھا کہ اس شخص کے حوالے سے خاموشی اختیار کرنا مناسب ہے، دلیل یہ تھی کہ مغلظات بکنے والا شخص شہرت کا بھوکا ہے، وہ کسی نہ کسی طرح میڈیا اور عوام میں مشہور ہونا چاہتا ہے، اگر ہم اس سے بحث کرتے رہیں گے ،اس کے بکواسات کا دفاع کرتے رہیں گے تو وہ اپنے ہدف میں کامیاب ہوگا ۔ اس کے مقابلے میں دیگر بعض دانشوروں کا کہنا تھا یہ خاموشی کا وقت نہیں۔ ہمیں ہر حال میں اس کے مغلظات کا دفاع کرنا چاہئے ، خصوصا جب اس نے ایک دینی مسلم حکم کے خلاف منہ کھولنے کی جرات کی ہے تو اس کا ہمیشہ کے لئے منہ بند کرنا ضروری ہے ۔ یقینا ان دونوں کا ہدف مقدس ہے، دونوں کی نیت خالص ہے، ہمیں ایسے جوانوں پر فخر ہے جو جنگ نرم کا مورچہ سنبھال کر اقدار دینی کے دفاع میں مصروف رہتے ہیں۔ البتہ حالیہ موضوع کے حوالے سے دوسرے گروہ کی منطق کا پلڑا وزنی دکھائی دیتا ہے کیونکہ جب کوئی دین کے مسلمہ احکامات کو داغدار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا دفاع کرنا فقط ایک مستحسن عمل نہیں بلکہ واجب ہے کیونکہ یہ منکرات کا مصداق ہے اور نہی از منکر کرنا ہر مکلف کا دینی فریضہ ہے ـ البتہ اس کے لئے شیوہ پیغمری کی پاسداری کرنا ضروری ہے ـ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بندے کو اتنی جرات کیسے ہوئی کیا یہ کوئی اتفاقی ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ کوئی اتفاقی نہیں بلکہ عرصہ دراز سے اس پر کام ہوا ہے یہ اکیلا بھی نہیں اس طرح کے بہت سارے جوانوں کو دین سے دور کرنے کے لئے دشمنوں نے سرمایہ خرچ کیا ہے جس کے نتیجے کا یہ ایک نمونہ منظر عام پر نمودار ہوا ہے شیطانی طاقتیں آہستہ آہستہ انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں ۔ شیطان کے رفتہ رفتہ اور قدم بہ قدم اثر کو نہج البلاغہ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
فَبَاضَ : پہلے شیطان ان لوگوں کی روح میں انڈے دیتا ہے، وفَرَّحَ فِیْ صُدُورِھِمْ : پھر چوزے نکالتا ہے اسکے بعد ودَبّ : شیطان کے چوزے انسان کی روح میں چاروں ہاتھ پاؤں سے حرکت کرتے ہیں۔ ودَرَج فی حجورھم : پھر یہ چوزے انسان کی گود میں اِدھر ادھر پھرنے لگتے ہیں۔ فنظر بأعینھم : اسکے بعد شیطان ان لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے اور وہ عین اللہ کے بجائے عین شیطان ہو جاتی ہیں۔ وَ نطق بألسنتھم : اسکے بعد شیطان انکی زبان میں بولنے لگتا ہے۔ فَرَکَبَ بھم الزَّلَلَ : پھر شیطان ان ہی افراد کے ذریعہ دوسروں کی لغزش کا سامان بھی فراہم کرتا ہے ـ بدون تردید گلگت بلتستان میں خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے پھر بھی عوام اور خواص بیدار نہ رہیں تو ……
آخر میں امر بالمعروف ونہی از منکر کی اہمیت کے بارے میں نہج البلاغہ سے مولای متقیان کے بعض فرمودات نقل کرتا ہوں توجہ فرمائیں ـ
”۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ”خدا وند متعال نے امر بمعروف کو اصلاح خلائق کے لیے اور نہی از منکر کو سر پھروں کی روک تھام کے لیے فرض کیا ہے”۔ (۱)
عبدالرحمٰن بن اُبی لیلیٰ فقیہ سے روایت ہے کہ میں نے علی علیہ السلام کو فرماتے سُنا ہے۔
” اے صاحبان ایمان! جو شخص دیکھے کہ ظلم وعدوان پر عمل ہو رہا ہے اور برائی کی طرف دعوت دی جارہی ہے ، اور وہ دل سے اُسے بُرا سمجھے تو وہ (عذاب سے) محفوظ اور گناہ سے بری ہوگیا اور جو زبان سے اُسے بُرا کہے وہ ماجور ہے اور صرف دل سے بُرا سمجھنے والے سے افضل ہے اور جو شخص شمشیر باکف ہو کر اُس برائی کے خلاف کھڑا ہو تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اور ظالموں کی بات گر جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کی راہ کو پالیا اور سیدھے راستے پر ہولیا اور اسکے دل میں یقین نے روشنی پھیلادی ۔” (۲)
” جوشخص کلمة اللہ کی عزت اور ظالموں کی ذلت کے لیے شمشیر کے ساتھ اٹھے وہ ہدایت یافتہ ہے ” (۳)
حضرت علی علیہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: امر بمعروف کرو تاکہ تمھاراشمار اہل معروف میں ہو۔ (۴)
حضرت علی علیہ السلام نے خطبہ قاصعہ میں فرمایا ”خدا نے گذشتہ امتوں پر اسی وجہ سے لعنت بھیجی کہ انہوں نے نے امر بمعروف اور نھی از منکر کو ترک کردیا تھا” (۵)
حضرت علیہ السلام فرماتے ہیں : ”اگر تم لوگ امر بمعروف اور نہی از منکر کو ترک کردوگے تو برے لوگ تم پر مسلط ہوجائیں گے اور پھر تمھاری آہ ، فریاد کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ (۶)
امام علیہ السلام فرماتے ہیں : ”جو نہ زبان سے ، نہ ہاتھ سےاور نہ دل سے برائی کی روک تھام کرتا ہے یہ زندوں میں چلتی پھرتی ہوئی لاش ہے” (۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) نہج البلاغہ ۔ حِکَم ٢٥٢
(۲) نہج البلاغہ ۔ حِکَم ٣٧٣
(۳) نہج البلاغہ حِکَم ٣٧٣
(۴) نہج البلاغہ حِکَم ٣٧٣
(۵) نہج البلاغہ مکتوب ٣١
(۶) نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ
(۷) نہج البلاغہ مکتوب ٤٧

تحریر : محمد حسن جمالی

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *