قرآن مجید کی آیات میں مسئلہ شناخت (1)/ تحریر: محمد حسن جمالی
سارے مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ رمضان بہار قرآن ہے ، چنانچہ ماہ مبارک رمضان شروع ہوتے ہی جگہ جگہ مسلمان قرآن کی تلاوت اور اس کی تعلیم کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں ـ البتہ زیادہ مقامات پر قرآن فہمی کا اہتمام نہیں ہوتا ہے جو سبھی مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہےـ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس مقدس ماہ میں تلاوت سے کہیں زیادہ مسلمانان جہاں قرآن مجید کی آیات کے ترجمے اور تفسیر سمجھنے کا انتظام کرتے ،کیونکہ قرآن کریم سراپا بشریت کے لئے رحمت اور درس زندگی ہےـ جس میں انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی کی کامیابی کے تمام اسرار ورموز بیان ہوئے ہیں ـ جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے ـ آج مسلمانوں کے لئے درپیش مشکلات اور مسائل کی بنیادی وجہ قرآن سے دوری اختیار کرنا ہے ۔
یہ دین مبین کا اصلی منبع ہے جسے درست نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ آج کرہ ارض پر مسلمان تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں ـ وہ مختلف فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ہر گروہ اپنے کو حق دوسروں کو باطل ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ـ جب کہ حق اور باطل کے معیار کو قرآن مجید نے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے ، مگرمسلمانوں نے اس عظیم کتاب کی ہدایت سے منہ موڑ کر خودساختہ معیار کے مطابق حق اور باطل کو سمجھنے کی کوشش کی جس سے تقسیم در تقسیم ہونا ان کا مقدر ٹھرا ـ
فہم قرآن کے لئے مسئلہ شناخت کا سمجھنا بے حد ضروری ہے اسی ضرورت کے پیش نظر ہم نے اس مختصر کالم میں آیت اللہ جوادی عاملی کی ایک کتاب سے مختصر مطالب کا ترجمہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں:قرآن مجید میں مسئلہ شناخت، اس کے ارکان یعنی معلم ، عالم اور معلوم سمیت شناخت کے شرائط ،ذرائع اور موانع کے بارے میں مفصل گفتگو ہوئی ہے ۔ قرآن مجید کی بہت ساری آیات میں انسان کا معلوم واقع ہونے والے خارجی حقائق کی طرف اشارہ ہوا ہے جیسے آسمان ،زمین ، فرشتے، وحی، غیب وشہادت، قیامت وبرزخ ، دین ودنیا ، بہشت وجہنم ثواب وعقاب وغیرہ ۔ اسی طرح بیشتر آیات میں بت پرستوں کے اوہام وخیالات اور ان کے اہداف کے باطل و غیر واقع ہونے کا واضح الفاظ میں تذکرہ ہوا ہے ۔ قوہ حس، عقل اور قلبی شہود کے ذریعے عالم خارج سے انسان کے ہونے والے رابطے اسی طرح انسان کی شناخت کا معیار قرآن مجید میں بیان ہونے والے موضوعات میں سرفہرست شامل ہیں ۔ قرآن مجید نے ارکان شناخت یعنی عالم ، معلوم علم اور معلم کی تصدیق کرنے کے علاوہ اللہ تعالی کو ان کےخالق ہونے کے عنوان سے یاد کیا ہے ، قرآن مجید نے اللہ تعالی کو معلم اول ہونے کی تصریح کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ خدا اپنی ربوبیت کی تدبیر کے بل بوتے پر عالم اور علم کے درمیان رابطہ برقرار کرنے والا ہے ۔ مذکورہ مطالب بعض دیگر مسائل کے ہمراہ شناخت قرآنی کی بحث کے لئے اصول اور بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
شناخت کا پہلا رکن معلوم کا وجود ہے۔ شناخت کے منکرین میں سے بعض سوفسطائی سے معروف ہیں ، یہ ٹولہ (اصل واقعیت) کا انکار کرتے ہوئے وجود معلوم کا منکر ہوا ہے ۔ لیکن مادیوں( مادہ پرست ) وجود معلوم کا تو انکار نہیں کرتے مگر وہ غیر مادی معلومات کے وجود کا منکر ہیں ۔
توجہ رہے کہ قرآن مجید میں شناخت ، اس کے ارکان اور اس سے مربوط مسائل کے بارے میں تو مفصل گفتگو ہوئی ہے لیکن قرآن میں(اصل وجود معلوم )کے بارے میں تفصیل سے بحث نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی نظر میں (عالم خارج ) کا وجود جو سفسطہ کی نفی کا مترادف ہے مسلم ہے ـ جس کے بارے میں نہ فقط کوئی تردید نہیں کرسکتا بلکہ شک کرنے کی صورت میں اسے ثابت کرنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ ابن سینا نے اپنی کتاب شفا میں (اصل واقعیت) کا انکار کرنے والوں کے لئے فکر واستدلال کا راستہ مسدود ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوفسطائیوں کو متالم ومتاثر کرنا ہی ان کا تنہا علاج ہے ۔
کائنات کے حوالے سے قرآن مجید میں ہونے والے مباحث اوصاف جہاں کا تجزیہ و تحلیل ہے جیسے جہاں منظم ، باہدف اورحق کی نشانی ہے۔
عقلی اور فلسفی کتابوں میں کائنات میں تحقق پانے والی چیزوں کو وجودو موجود اور تحقق نہ پانے والے اشیاء کو عدم ومعدوم سے یاد کیا گیا ہے ، لیکن قرآن مجید کی آیات میں کائنات میں محقق ہونے والی چیزوں کو حق اور محقق نہ ہونے والی چیزوں کو باطل کے نام سے یاد کیا گیا ہےـ بنابرایں حق ایک ایسا امر ہے جو ثابت موجود اور واقعیت رکھتا ہے جب کہ باطل ایک معدوم وغیر واقعی ہے ۔
حق کے مختلف اقسام ہیں جن میں سے حق مطلق ومقید ہیں قرآن مجید کی دو آیات میں حق مطلق وخالص کو اللہ تعالی کی جانب منسوب کیا گیا ہے؛( ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ہُوَ الۡبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ) یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ کہ اللہ بڑا برتر ہے۔ (ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِ الۡبَاطِلُ ) یہ اس لیے کہ اللہ (کی ذات) ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں وہ پکارتے ہیں سب باطل ہیں ۔۔ ان دو آیات میں ضمیرھو ( کے اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے کیونکہ دوسری آیت کے آخری حصے میں (۔ ما یدعون من دونہ الباطل) ۔ ضمیر ھو موجود نہیں ، لیکن دوسری آیت کے ابتدائی حصے اور پہلی آیت دونوں میں ضمیر منفصل ھو یکسان طور پر استعمال ہوا ہے اور ان دونوں میں خبر الف لام کے ذریعے معرفہ ہونے کی وجہ سے مفید حصر ہے یعنی حق خدا سے مخصوص ہے اور حق کے علاوہ ساری چیزیں باطل ہیں ـ حق مطلق کے مقابلے میں حق مقید ہے یعنی اس کا وجود استقلالی نہیں بلکہ وہ حق مطلق کے سہارے سے موجود ہے، اس کا تکیہ گاہ حق مطلق ہے ـ پس کائنات میں جتنے بھی مقید حق ہیں وہ سب کے سب حق مطلق الہی کی نشانی ہیں ـ حق مقید کی مثال : انّ الجنۃ حق وانّ النار حق ۔
جس طرح قرآن مجید میں جہان کے بارے میں تفصیل سے بحث نہیں ہوئی ہے ویسے ہی ذات اقدس الہی کی حقیت جو حق مطلق وخالص ہے کو قرآن مجید نے مسلم جانا ہے ـ یہی وجہ ہے قرآن مجید میں ذات مقدس پروردگار کے بارے میں ہونے والے مباحث اس کے آسماء حسنی اور صفات علیا سے ہی مربوط ہیں جیسے خدا احد ، صمد ، سمیع ، علیم ، ظاہر ، باطن، فاطر ، خالق ، مبدئ ، معید ، ناظم ، م، مدبر اور مدیر ہے ۔ ـ ـ
جاری ……
دیدگاهتان را بنویسید