رمضان المبارک میں ہماری ذمہ داریاں
رمضان المبارک میں ہماری ذمہ داریاں
خطبه شعبانیه کی روشنی میں
تحریر: بشیر مقدسی
مقالہ ھذا میں، ماہ مبارک رمضان کی فضیلت سے متعلق احادیث اور اس کے مقابلہ میں بندوں کے فرائض کو خطبه شعبانیه کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس امید سے خدا ہم تمام لوگوں کو حقیقی روزہ دار اور اسکے حقیقی بندوں میں شمار کرے .
ماہ رمضان اللہ کا مہینہ
یہ مہینہ اللہ کا مہینہ ہے،ویسے تو ہر دن خدا کاہے لیکن کچھ مقامات اور مہینوں کی نسبت مخصوصا خداوند تبارک وتعالی کی ذات کی طرف دی جاتی ہے ،جس طرح بیت اللہ یا مسجد کو ہم کہتے ہیں کہ یہ خانہ خدا ہے ۔یہ ایک خصوصیت کی وجہ سے خداکی ذات زمان یا مکان میں سے کسی خاص کو اپنی طرف منسوب کرلیتی ہے۔یقینا ماہ مبارک رمضان میں وہ خصوصیت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے خدانے اسکو اپنا مہینہ کہا ہےــ اوراسی خصوصی تعلق کی بناپر یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات خاصہ اس درجہ ظاہر ہوتی ہیں گویا موسلا دھار بارش کی طرح برستی رہتی ہیں۔
ماہ رمضان خصوصیات
1۔برکت
چنانچہ خطبہ شعبانیہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :یا اہاالناس قد اقبل الیکم شہراللہ بالبرکہ والرحمہ والمغفرہ برکت ایسے نعمتوں کے منبع کو کہتے ہیں جونہ ختم ہونے والاہو ۔اورماہ رمضان کے فیوضات اور فوائد انسان کے لئے نہ ختم ہونے والے ہیں لہذا رسول اکرم نے فرمایا : و هو شهر البركةیہ برکت والا مہینہ ہے۔
اسکے برکات میں ایک یہ ہے کہ واقعی روزہ دار کواللہ تعالی ٰ روحی اور جسمی سلامتی عطا کرتا ہے چنانچہ رسول گرامی اسلام کا ارشادگرامی ہے :صوموا تصحواـ روزہ رکھیں تاکہ سلامت رہیں یعنی روزہ رکھنے کے نتیجے میں تمہارا بدن تمہاری روح تمہارے اعضا سلامت رہینگےــ۔
ہر عمل کادوگنا ثواب ملے گا چنانچہ رسول فرماتے ہیں:اس مہینے میں ایک آیت کی تلاوت کرنے سے اتناثواب ملتاہے جتنا باقی مہینوں میں ختم قرآن کے نتیجے میں ملتاہے۔مالي صدوق/93
جو شخص ماہ مبارک رمضان کی برکت سے ھوی و ہوس اور نفسانی خواہشات کو قابو میں کرنے میں کامیاب ہو گیا اس نے در حقیقت بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اسے چاہئے کہ اس کی دل و جان سے حفاظت کرے۔ جو شخص نفسانی خواہشات اور ہوسرانی سے پریشان ہے اس مبارک مہینے میں اپنی ان خواہشات پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔
۲۔اللہ کی مہمانی:نبی اکرم ص فرماتے ہیں :ھو شہراللہ ــ۔۔۔۔۔فیہ الی ضیافت اللہ
یہ وہ مہینہ ہے جس میں تم خدا کے مہمان ہو، اللہ کی مہمانی پہ بلائے گئے ہو ۔ اس مہینہ میں انسان مہمان اور خدا میزبان ہے ویسے انسان جو رزق تناول کرتا ہے وہ خدا ہی کا رزق ہے لیکن اس کو خصوصیت یہ حاصل ہے کہ اس میں پر وردگار نے میزبانی خود اپنے اختیار میں لی ہے پہلے ہمارا رزق خدانے اسباب کے حوالے کیا ہوا تھا اور دوسری مخلوقات کو بیچ میں واسطہ بنایا ہوا تھا جبکہ اس میں خود ذات میزبان ہے ۔
لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیوی مہمانی جسم اور تن کے متعلق ہوتی ہے اوراللہ کی مہمانی روح کے متعلق ہے اس مہمانی میں اس اللہ تعالیٰ کی مرضی کو پالیتا ہے جو بہت بڑی نعمت ہےـ اور اس مہمانی میں انسان کرامت الٰہی کے قابل قرار پالیتاہے ۔انفاسکم فیہ تسبیح ۔اسمیں تمہارا سانس لینا بھی تسبیح ہے ۔نومکم فیہ عبادہ۔اس مہینے میں تمہارا سونا بھی عبادت میں شمار ہے۔عملکم فیہ مقبول ۔اس مہینے میں جو عمل بھی کروگے وہ قبول ہوگا۔
یہ وہ مہینہ ہے جس میں آسمان جنت اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے، جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت وبرکت کا تذکرہ کیا جائے تو شائد سینکڑوں بلکہ ہزاروں اوراق سیاہ ہوجائیں اور فضائل و برکات کا سلسلہ ختم نہ ہو۔لہذا اسی مختصر مطالب پر اکتفا کرتے ہوئے بعض ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں
رمضان المبارک میں ہماری ذمہ داریاں
جتنا یہ مہینہ عظیم اور بابرکت ہے اسی حساب سے ہماری ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہیں ۔خطبہ شعبانیہ کی روشنی میں بعض ذمہ داریوں کوبیان کرنے کی کوشش کرینگے امید ہے کہ خداوند ان پر عمل کرنے کی ہمیں توفیق عطافرمائےـ۔
1. دعا کرنا
اس بابرکت مہینے کی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں بندوں کی دعائیں سنی جاتی ہیں۔چنانچہ خطبہ شعبانیہ میں رسول گرامی فرماتے ہیں: دعائکم فیہ مستجاب۔ تمہاری دعائیں سنی جائیں گی۔
اگر کوئی کسی کے کہاں مدعو ہوتا ہے تو میزبان اپنی بضاعت کے مطابق میزبان ا سکی خاطر مداری کرتاہے ا اسی طرح اس مہینہ میں خداوند متعال اپنے بندوں کی دعائیں مستجاب فرماتاہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے بندوں کی دعائیں سنتاہے اور جواب دیتاہے :ادعونی استجب لکم۔ مجھ سے بات کرو، میں تمہاری باتوں کا جواب دیتا ہوں۔ مگر اس مبارک مہینے میں کس چیز کے حوالے سے دعامانگی جائے؟؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس بارے میں فرماتے: فسئل اللہ ربکم بالنیات صادقہ وقلوب طاہر ان یوفقکم لصیامہ وتلاوت کتابہ۔ نیت خالص اور صداقت کے ساتھ اپنے رب سے مانگو کہ اس مہینے میں روزہ رکھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کی تمہیں توفیق حاصل ہوجائے۔
لہذا اس مبارک مہینے میں ہماری سب سے بڑی زمہ داری یہ ہے کہ گناہوں کی مغفرت کے لئے دعامانگے بہت استغفار کریں چونکہ سب سے بدبخت انسان وہ ہے جو اس بابرکت مہینے میں خدا کی مغفر سے محروم رہ جائے رسول خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں: فان شقیہ من خرما غفران اللہ فی ہذا الشھرالعظیم۔یعنی بدبخت انسان ہے وہ جو رحمت کے کھلے دروازوں سے بھی رحمت حاصل نہ کرسکے۔ جو بہتے ہوئے چشموں کے پاس رہتے ہوئے بھی پیاسا رہے۔
2. خوش خلقی کے ساتھ پیش آنا
یہ مہینہ خود سازی کا ہے یعنی اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کا مہینہ ہے جسنے اپنے اخلاق کو بہتر کرلیا وہ صراط مستقیم تک پہنچ گیا،جہاں سب کے قدم لڑکھڑا جائیں چنانچہ رسول کا ارشاد گرامی ہے:یاایہاالناس من حسن منکم فی ہذا الشعر خلقا،خلقہ کان لہ جوازا علی الصراط ـ۔اے لوگوجس نے اس مہینے میں اپنا اخلاق بہتر کرلیا، ٹھیک کرلیااسکے لئے صراط سے آسانی کے ساتھ گزر جائے گا جہاں سب کے قدم لڑکھڑاجائیں۔خوش خلقی کے مفید اور موثر نتائج روایات اہل بیت میں ملتے ہیں انہی نتائج کی بناپر اسلام خوش خلقی کی بہت تاکید کرتاہے خوش خلقی گناہ اوراسکے اثرات کو محوکردیتی ہے۔
خوش خلقی کینہ اور کدورت کو دور کردیتی ہے چنانچہ رسول کا فرمان ہے:حُسْنُ الْبِشْرِ یَذْهَبُ بِالسَّخِیمَة؛ خوش خلقی کے نتیجے میں انسان کی محبت اور عزت دوسروں کی نظرمیں بڑھ جاتی ہے ۔اور اس مہینے میں رسول اکرم نے خوش خلقی کے حوالے سے بہت تاکید کی ہے ۔
لہذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے رسول گرامی کے فرمان پر عمل کریں اور ہمیشہ خاص کر اس مہینے میں سب کے ساتھ کشادہ روئی اوراخلاق کے ساتھ پیش آئیں ۔
3. احساس پیدا کرنا
رسول گرامی خطبہ شعبانیہ میں یوں فرماتے ہیں واذکروا بجوعکم وعطشکم فیہ جوع یوم القیامہ وعطشہ
تمہیں تھوڑی دیر کے لئے بھوکا رکھا جاتا ہے تاکہ اس بھوک سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کریں۔ یعنی روزہ دین کے فراموش شدہ حصہ یاد دلانے کے لئے ہے۔روزمرہ زندگی میں ہماری حسیں مرجاتی ہیں ہم جس طرز کی زندگی بسر کرتےہیں اس طرز زندگی میں ہمارے وجود کی بہت ساری حسیں مرجاتی ہیں،قیامت یاد نہیں آتی ہے،یتیم فقیر مسکین اور مظلوم لوگ کتنے پریشاں ہیں لیکن ہمیں ان کا کوئی احساس نہیں ہوتاہے،لیکن رمضان المبارک کی بھوک اور پیاس سے ہمیں احساس ہوگا کہ جو بارہ مہینے بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں اور ان پر کیا گذرتی ہے؟قیامت کی بھوک اور پیاس یاد اجائے۔
لہذا رمضان المبارک میں ضروری ہے کہ ہم فقیروں اور یتیموں کے بارے میں زیادہ سوچیں اور اپنی استطاعت کے مطابق انکی دلجوئی کریں۔نیز قیامت کی بھوک اور پیاس کو زھن نشین کریں۔اور ہروہ کام کرنے سے اجتناب کریں جو قیامت کے دن حساب اور کتاب کے طولانی ہونے کا باعث بنتاہے۔
4. صدقہ دینا
رسول فرماتے ہیں: وتصدقوا علی فقرائکم ومساکین کم
اس مہینے میں فقیروں اور مساکین کو صدقہ دو ۔
مراد اللہ کی را ہ میں خرچ کرنا ہے اور اسکا بہترین نمونہ ،نادار اور مسکین کی ضرورت پوری کرناہے۔
انفاق کے کی شدید ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر قرآن کریم کے بہت ساری آیات میں اسکے فوائد اورثمرات کا تذکرہ آیا ہے کہ ہم بعض آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں
انفاق فی سبیل اللہ کے شرائط اور فوائد
1۔ محبوب چیز کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا : جو چیز انسان کو محبوب اور مرغوب ہو جب وہ اُس کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کونیکو کاروں میں شامل فرما لیتے ہیں۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 92 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ تم ہر گز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن کو تم محبوب رکھتے ہو۔
3۔ دکھلاوے سے اجتناب: انسان جب اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال کو خرچ کرتا ہے تو اس کو دکھلاوے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ریاکاری کی مذمت کرتے ہوئے سورہ بقرۃ کی آیت نمبر 264 میں ارشاد فرمایا:
اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتلانے اور دکھ دینے سے ضائع نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنے مال کو لوگوں کو دکھلانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔
4۔ اللہ کی محبت میں خرچ کرنا: انفاق فی سبیل اللہ کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جو کچھ بھی خرچ کیا جائے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت ہو اور اس کے بدلے انسانوں سے صلہ یا ستائش کی کوئی تمنا نہ ہو۔
سورہ الدھر کی آیت 8 میں اسی حقیقت کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو۔
5۔ رضائے الٰہی کی طلب: اللہ تعالیٰ کی محبت میں خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا اور اپنے نفس کی پختگی کے لیے مال کو خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 265 میں یوں فرمایا ہے :
اور جو لوگ اپنے مال ﷲ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر) مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے ، اور اگر اسے زوردار بارش نہ ملے تو (اسے) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) بھی کافی ہو، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔
6۔ پاکیزہ اور حلال مال سے خرچ کرنا: انفاق فی سبیل اللہ کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ پاکیزہ اور حلال مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا جائے۔ حرام مال کما کر خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی۔اس حقیقت کا ثبوت حدیث پاک سے ملتاہے کہ جو کوئی مال حرام کماتا ہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر267 میں یوں بیان کیا ہے۔ اے ایمان والو! تم نے جو پاکیزہ چیزیں کمائی ہیں ان میں سے خرچ کرو۔
ان آداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر جب انسان اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کو مختلف دنیاوی اور اخروی فوائد سے بہرہ ور فرماتے ہیں جن میں سے چند ایک درجہ ذیل ہیں:
1۔ سات سو گنا اجر: جب انسان ایک روپیہ ، ایک درھم یا ایک دینار اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سات سو سے ضرب دے کر پلٹاتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 261 میں یوں فرمایا ہے
۔ جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
2۔ مال میں اضافہ: ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مال اور تجارت میں اضافہ ہو۔ اس اضافے کے لیے انسان مختلف طرح کی تدابیر بھی اختیار کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انفا ق فی سبیل اللہ کو مال میں اضافے کا سبب قرار دیا ہے۔
سورہ سباء کی آیت نمبر 39 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو پھر وہ اس کا بدلہ دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر276 میں ارشاد فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ سود کو مٹا تاہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔
3۔ خوف اور غم سے رہائی: انسان کو ماضی اور حال کی مشکلات پر غم اور مستقبل کے اندیشوں کے باعث خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ غم اور خوف انسان میں اداسی اور بے قراری پیدا کرتے ہیں اور ہر انسان اس کیفیت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں غم سے رہائی کی دیگر تدابیر بتلائی ہیں وہیں پر بکثرت انفاق فی سبیل اللہ کو بھی غم اور خوف سے دوری کا سبب قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274 میں ارشاد فرماتے ہیں۔جو لوگ اپنے مال رات دن چھپ کر اور کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہو گا ان پہ نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔۔
لہذا انسان ہونے خاصکر مسلمان ہونے کے ناطے ،فرض بنتا ہے کہ سول اکرم ص کےفرمان پرعمل کر تےہوئے اپنے نادار رشتہ داروں اور دیگر فقیروں اور مسکینوں کا خیال رکھے اور انکی مدد کرنا نہ بھولے۔
۵۔یتیم نوازی
روایات میں یتیم نوازی کی بہت تاکید کی گئی ہے اسکی ضرورت کے پیش نظر رسول اکرم خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں: وتہننوا علی ایتام الناس.لوگوں کے یتیموں پر مہربانی کرو دوسروں کے یتیموں کی ساتھ نرمی اور شفقت کے ساتھ پیش آئیں تاکہ تمہارے یتیموں پر بھی شفقت کی جائے۔
قرآن کریم نے یتیم کا بہت ہی اہم مقام ذکر کیا ہے،اسلام یتیم نوازی کی بہت تاکید کرتے ہوۓئے یتیم ازاری کی شدید مذمت کرتاہے،چنانچہ قرآن مجید میں خداوند عالم نے کچھ لوگوں کا تعارف کرواتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ ارئیت الذی یکذب بالدین فذلک الذی یدع الیتیم۔اے نبی وہ دیکھا جو دین کو جھٹلاتاہے؟ یہ دین کوجھٹلانے والے وہ لوگ ہیں جو یتیم کی تعظیم وتکریم نہیں کرتے اور انھیں دکھ دیتے ہیں۔ قرآن مجید نے ذکر کیا ہے کہ بعض جہنمیوں سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم کس طرح سے جہنم میں آگئے ہو؟ وہ یہ جواب دیں گے کہ جنم میں ہم پڑوسی کی وجہ سے آگئے فلاں کی وجہ سے آگئے ہیں قرآن مجید کا جواب آئے گا کہ تم غلط کہہ رہے ہو ۔
بل لا تکرمون الیتیم۔یہاں آنے کی وجہ یہ ہے کہ تم یتیم کی تعظیم اور احترام نہیں کرتے تھے۔
قارئین کرام یتیم نوازی ہمیشہ ضروری ہے مگر اس مبارک مہینے میں یہ ذمہ داری دگنی ہوجاتی ہے۔یتیم کے حوالے سے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے لہذا اپنے ارد گرد میں موجود ایتام اور فقراکی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے اور اس طرح انکی مدد کریں کہ وہ حقارت کا احساس نہ کریں تاکہ اللہ ہمیں حقیقی روزہ داروں میں شامل کرے۔
5. توبہ کرنا
اس مہینے میں کثرت سے توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔توبہ کے حوالے سے رسول اکرم فرماتے ہیں: وتوبوا الی اللہ من ذنوبکم اپنے گناہوں سے توبہ کرو۔ روٹھے ہوئے لوگوں کے لوٹنے کا مہینہ ہے۔ سارا سال جو اللہ سے غافل رہے ہیں ان کے لوٹ آنے کا مہینہ ہے۔اس مہینے میں اللہ تعالی صرف عبادت گزاروں کے لئے ہی نہیں بلکہ گناہکارون کے لئے بھی دروازے کھول دیتاہے۔
توبه قرآن کی نگاه ميں
بعض اعمال ميں كميت ملاك هے جيسے وحدت اوراور لوگوں كا متحد هونا:واتعصموا بحبل الله جميعا۔الله كي رسي كو مضبوطي سے تھام لو۔اور بعض اعما ل ميں كيفيت ملاك هے جيسے:لن تنالوا البر حتي تنفقوا مما تحبون :تم نيكي كي منزل تك نهيں پهنچ سكتے جب تك اپني محبوب چيزوں ميں سے راه خدا ميں انفاق نه كرو۔
ليكن توبه ايك ايسا عمل هے كه جس ميں كميت اوركيفيت دونوں ضروري هے يعني سب لوگوں كو چاهئيے كه توبه كريں ۔ توبوا الي الله جميعا۔تم سب الله راه ميں توبه كرتے رهو۔
ساتھ ساتھ توبه كا خالص هونا بھي ضروري هے۔كميت : كيفيت :توبوا توبه نصوحا۔خلوص دل كے ساتھ توبه كرو
توبه كا قبول هونا يا نه هونا:
توبه كے قبول هونے يا نه هونے كےلحاظ سے توبه كرنے والوں كي تين گروه هے۔
1۔پهلا گروه وه هے كه جسكي توبه يقينا قبول هوتي هے اور يه وه افراد هيں ، كه جنهوں نے ناداني اورغفلت كي بناپر گناه كيا هے۔انما التوبه علي الله للذين يعملون السيئات حتي۔نساء 17
2۔دوسرا گروه وه هے كه جسكي توبه يقينا قبول نهيں هوتي هے ،اور يه وه افرادهيں كه جو جان بوجھ كر توبه نهيں كرتے هيں يهاں تك احتضار كي حالت اس پر طاري هوتي هے۔وليست التوبه للذين يعملون السيئات سوره نساء 18
اس گروه كے تعارف كيلئے خداوندعالم نے فرعون كو بطور نمونه پيش كيا هے۔حتي اذا ادركه الغرق قال امنت۔۔۔يونس90
3۔تيسرا گروه وه هے كه جسكي توبه كاقبول هونا ضروري نهيں اور نا هي اسكي توبه كا قبول نه هونا يقيني هے يعني انكي توبه كے بارے ميں كچھ نهيں كها جاسكتاهے۔وه لوگ جو جان بوجھ كر گناه كرتے هيں،ان افراد كي توبه كاقبول هونا يه نه هونا خداوند كي مشيت پر وابسته هے۔ويغفرمادون ذالك لمن يشاء
قارئین محترم ہم جیسوں کے لئے کتنی عظیم فرصت ہے کہ جو دروازے ہمارے گناہوں کی وجہ سے بند ہوگئے تھے خداوند متعال پھرکھول دیتا ہے اور توبہ اور دعا کرنے کا حکم دیتاہے لہذا اس مہینے میں ہماری اہم ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں یہ فرصت باربار نہیں آتی ہے معلوم نہیں کہ اگلے سال ہماری زندگیوں میں ماہ رمضان آئے گا یا نہیں آئے گا۔
6. فطاری دینا
اس مبارک مہینے میں افطاری دینے کی تاکید کی گئی ہے جو ہماری اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے رسول اکرم افطاری کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
من فطرمنکمصائما مومنا فی ھذالشھر کان لہ بذالک عنداللہ اتق نسمہ ومغفرہ لما مضیٰ من ذنوبہ۔
جس نے ایک مومن کو روزہ افطا رکروایا، تو ایسے ہی ہے کہ جس نے خداوند تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں ایک بندہ آزاد کردیاہے۔اور اپنے گناہوں کو دھودیا ہے۔
قیل یا رسول اللہ فلیس کلنا یقدر علی ذالک۔ایک مومن نے پوچھا سب میں افطاری کرانے کی طاقت اوراستطاعت نہیں ہیں،تو رسول اللہ نے فرمایا: ولو بشق تمرہ
اگرچہ کھجور کے آدھے حصے سے ہی افطار کراۓؤ۔اتنی حد تک بھی اگر کرسکتے ہو تو کرادو۔
اتقوالنار وشربت من ما
اگرایک گھونٹ پانی سے ہی کسی کا افطار کراسکتے ہو تو بھی کراو اور جہنم کی آگ کو خود دور کردوـ۔
قارئین کرام افطاری کی اہمیت کی بناپر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم فرمان رسول اکرم پر عمل کرتے ہوئے اپنی استطاعت کے مطابق افطاری کرائیں انشااللہ اس مہینے کے برکات ہمارے شامل حال ہوجائیں۔
7. قرآن کی تلاوت کرنا
اس مہینہ جہاں بہت سی تاکیدیں ملتی ہیں وہیں ایک تاکید تلاوت قرآن پاک کی بھی ہے۔ یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے،جیساکہ رسول اکرم کا فرمان ہے القرآن مادبہ اللہ قرآن دسترخوان خداہے اور معارف قرآن رزق ہے جو خدانے انسان کے لئے آمادہ کیا ہے۔
دوسرے مقام پرامام باقر(علیہ السلام) اس طرح ارشاد فرماتے ہیں: لِكُلِ شَيْءٍ رَبِيعٌ وَ رَبِيعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَان۔ہرشی کیلئے ایک بہار ہے اور قرآن کریم کی بہار ماہ رمضان ہے۔
قرآن کو پڑھنے اور اسميں غور و فکر کر نے کے بعد انسان اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ حيات طيبہ تک پہنچ جاۓ ےاور شب قدر کو درک کر سکے-
فضیلت اور ثواب تلاوت قرآن
معصومین علیهم السلام كے احاديث ميں تلاوت قرآن كريم كے بهت سے فضائل اور اثرات بيان هوئے هيں جو انسان كي معنوي تربيت اور ترقي كا سبب بنتے هيں۔
يهاں پر تلاوت قرآن كے چند فضائل اور اثرات كو بطور مختصر بيان كيا جارها هے:
1۔ بهترين اعمال:نبي كريم نےارشاد فرمايا: ميري امت والوں كي بهترين عبادت تلاوت قرآن هے۔
2۔قبوليت دعا:حضرت امام حسن مجتبي عليه السلام نے ارشاد فرمايا:جوشخص بھي تلاوت قرآن كرے گا،فورا يا ذرا تاخير سے اس كي دعاء ضرور قبول هوگي۔بحار الانوار،ج89ص204
3۔بينائي ميں اضافه:جو شخص قرآن كريم كو سامنے ركھ كر اس كي تلاوت كرے گا وه اپني بينائي سے ايك طويل مدت تك استفاده كرے گا۔
بحار الانوار، ج89 ص 202
4۔سعادت وخوشبختي: رسول اكرم ارشاد فرماتے هيں: اگر كوئي شخص سعادت مندوں كي زندگي،شهيدوں كي موت،روزجزا كي كاميابي، روز خوف ميں امن وامان،روزظلمت وتاريكي ميں نور، شديد گرمي كے دن كا سايه، پياس كے دن سيرابي اور ميزان اعمال كے دن اعمال ميں سنگيني چاهتاهے تو اس پر لازم هے كه تلاوت كرے، اس لئے كه قرآن خداوند عالم كي ياد دلانے والا،شيطان كے شر سے حفاظت كرنے والا اور ميزان اعمال كي سنگيني كا باعث هے۔ميزان الحكمه ج8ص 47
5-ماں باپ كے گناهوں كي بخشش: حضرت امام جعفرصادق عليه السلام نے ارشاد فرمايا: قرآن مجيد كو سامنے ركھ كر اس كي تلاوت كرنا٬ ماں باپ كےعذاب كوكم كرديتاهے، اگرچه والدين كافر هي كيوں نه هوں۔الكافي ج 2 ص 603
6-جلائے دل:نبي اكرم صلي الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمايا:بي شك يه دل اس طرح زنگ آلود هوجاتے هيں جسطرحلوها زنگ آلود هوجاتاهے۔لوگوں نے عرض كيا كه اس كي صيقل كيا هے؟ آپ نے فرمايا:تلاوت قرآن۔الدعوات،ص237
7۔گناهوں كي بخشش: تلاوت قرآن كريم ،نيكياں لكھے جانے كا باعث او رگناهوں كے محو هوجانے كا سبب هے۔الكافي ،ج 2 ص 611
8۔گھر كي نورانيت اور خيروبركت ميں اضافه:رسول اكرم صلي الله عليه وآله وسلم نے ارشادفرمايا: اپنے گھروں كو تلاوت قرآن كريم كے نور سے منوركرو او رانھيں يهوديوں اور عيسائيوں كي طرح قبرستان ميں تبديل نه كردو كه انھوں نےنماز اور عبادت كو گھر ميں انجام دينا بند كر ركھا هے او رانهيں صرف كنيسه اور كليسا ميں بجالاتے هيں۔ جس گھر ميں تلاوت قرآن زياده هوگي، اس كے خير وبركت ميں اضافه هوگا۔اوراهل خانه طويل مدت تك اس سے بهره مند رهيں گے۔ جس طرح ستارے زمين والوں كے لئے ضورباري كرتے هيں ٹھيك اسي طرح يه گھر آسمان والوں كے لئے ضوباري كا سبب هيں۔غرر الحكم ص 200
9 ۔ايمان كي ترقي:حضرت علي عليه السلام نے ارشاد فرمايا: تلاوت قرآن كے ذريعه ايمان ميں رشد وترقي پيداهوتي هے۔بحار الانوار ،ج89، 204
اس كے علاوه تلاوت قرآن كريم كےاور بھي آثار وفوائد پائے جاتے هيں،هم انهيں اگلےشمارے ميں قارئين محترم كي نذر كريں گے۔
قابل ذكر بات يه هے كه كمال تلاوت كے مراتب كو طے كركے مرحله تدبر وعمل تك پهونچ جانا مزيد ثواب،رضائے الهي اور خير وبركت كا بهترين ذريعه هے۔
پیامبراکرم ص نے اپنے خطبے بہت ساری ذمہ داریوں کا تذکرہ کیا ہے تاکہ ہم ان پر عمل کریں اور اسکے نتیجے میں حقیقی روزہ داروں میں ہمار اشمار ہوجائے ۔
ماخذ
قرآن کریم
الکافی
بحارالانوار
غرر الحکم
الکافی
میزان الحکمہ
ماہ رمضان دربیان پیامبراکرم ص/حسین استاد ولی
فضیلت ماہ رمضان/سیدجوادنقوی
وظائف ما درماہ مبارک رمضان/ سید حسین شیخ الاسلام
دیدگاهتان را بنویسید