تازہ ترین

سعودی عرب اور ظلم کی نت نئی داستانیں! /تحریر: محمد حسن جمالی

آئے روز سعودی عرب کے ظلم وستم کی نت نئ داستانیں سن کر امت مسلمہ کا دل چھلنی اور آنکھیں خون کے آنسو سے نم ہیں ـ بظاہر اس ملک پر قابض حکمران سعودی عرب مسلمانوں کا مرکز ہونے کے دعویدار ہیں مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو یہ کافر ملکوں سے بھی بدتر ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اس ملک میں انسانیت غلامی کا شکار ہے ، اس کے باشندے ہر طرح کی آذادی سے محروم ہیں ، انہیں نہ اظہار رای کی آذادی ہے اور نہ ہی نظام مملکت پر کسی قسم کی تنقید اور اعتراض کی اجازت ،اس ملک میں رہنے والے نہ کھل کر اپنے مزہبی رسومات پر عمل کرسکتے ہیں اور نہ ہی سیاسی اور اجتماعی معاملات میں مداخلت کرنے کا حق رکھتے ہیں ، یہ ملک نہ احترام انسانیت کا قائل ہے اور نہ ہی قوانین اسلام کا پابند ـ

شئیر
28 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5427

خلاصہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں اسلام کا نام ہی رہ گیا ہے ،خادم الحرمین کے دعویدار اسلام کے ساتھ وہ کھیل کھیلے جارہے ہیں جو بنی امیہ اور بنی عباسیہ کی سلطنت کے سیاہ ادوار کی یاد تازہ کررہے ہیں ، وہ سارے مظالم جو ان کی شناخت اور پہچان کے طور پر تاریخ میں ثبت وضبط ہوئے ہیں ایک ایک کرکے آل سعود اور ان کے ہم نوالے تکرار کرکے سیاہ تاریخ رقم کرتے جارہے ہیں ـ
تاریخ کا مطالعہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ بنی امیہ کی حکومت تقریبا ستر برس پر مشتمل رہی ،اس پورے عرصے میں اسلام کے حیات بخش قوانین اور دستورات پر ظلمت اور تاریکی کا سایہ چھایا رہا، بنی امیہ کے خلفاء نے اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کیا ،دین کا حلیہ بگاڑنے میں ایک سے بڑھ کر ایک نے کردار ادا کیا ،اپنی خواہشات کے مطابق آئین اسلام میں تحریف کرڈالی ،نص قرآن سے ٹکرانے والی بے شمار روایات کو جعل کروائی ،انہیں پیغمبر سے منسوب کروانے میں جعلی راویوں کا سہارا لیا، منصب سلطنت کی طاقت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے خلفاء امویہ نے اپنے کارندوں کے ذریعے طرح طرح کی بدعتوں کو معاشرے میں عام کروانے کے لئے خوب سرمایہ خرچ کیا، مختصر یہ کہ اموی خلفاء کے سیاہ ادوار میں ہر قسم کا ظلم و ستم جائز تھا، ایک محقق کے بقول اس دور کو ایک ڈکٹیٹر شپ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا اسلامی حکومت کا اس پر صرف ایک لیبل تھا ـ آج آل سعود بھی ہوبہو خلفاء بنو امیہ وبنو عباسیہ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ،آل سعود کی جنایات سے یوں تو تاریخ بھری پڑی ہے سرفہرست قبرستان بقیع پر حملہ کرنا ہے ، پہلی بار ۱۲۲۰ ہجری قمری اور دوسری مرتبہ ۸ شوال ۱۳۴۴ ہجری قمری میں آل سعود نے قبرستان بقیع کو نشانہ بنایا جب کہ یہ کسی عام لوگوں کا قبرستان نہیں تھا بلکہ دختر لخت جگر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا سمیت آپ ص کے سب سے قریبی باعظمت شخصیات جیسے حضرت امام حسن علیہ السلام ، امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام مدفون ہیں۔ اس کے باوجود نسل یہود نے اسے مسمار کیا اور آج تک بالواسطہ یا بلاواسطہ آل سعود کے مظالم کا سلسلہ چلا آرہا ہے ـ
سنہ ۶۱ھ میں یذید اور اس کے خاندان نے کربلا کو مقدس ہسیوں کا مقتل گاہ بنایا اور آج آل سعود نے یمن کو کربلا بنایا ہوا ہے ، وہاں ابوسفیان کے خاندان سے تعلق رکھنے والوں نے چھے ماہ کا ننھا سا مجاہد علی اصغر تک پر رحم نہیں کیا اور کربلائے یمن میں بھی آل سعود کے نمک خوار چھوٹے چھوٹے بچوں کو ذبح اور قتل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہے ہیں ،کربلا میں ناموس کا ہتک حرمت کیا اور آج یمن کے اندر بھی سعودی افواج کے ہاتھوں عورتوں کی عزت اور احترام محفوظ نہیں، وہاں یزید پلید کی منطق یہ تھی کہ بشریت کی ہدایت کے لئے نہ کوئی قرآن آیا ہے اور نہ وحی آئی ہے یہ بنی ہاشم کا ڈھونگ کھیل اور تماشا ہے ،ویسے ہی آل سعود نے اس منطق کو حرز جان بنائی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے خانہ کعبہ پر قابض رہ کر خادم الحرمین کے لقب سے مشہور رہنا کافی ہے اور مادی مفادات کے حصول کے لئے عملی زندگی میں کفار کی گود میں بیٹھکر ان کے ناپاک اہداف کی تکمیل کے لئے مسلمانوں کا قتل عام کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ،اسی بے بنیاد منطق کے بل بوتے پر چار سال قبل امریکہ کے اشارے سے سعودی عرب نے یمن پر جنگ مسلط کی اور آج تک یہ آگ خاموش ہونے کام نہیں لے رہی جس کے نتیجے میں یمن کے سارے اہم مقامات کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ،وسیع پیمانے پر مالی اور جانی نقصانات ہوئے، ایک اطلاع کے مطابق پچاسی ہزار سے زیادہ فقط بچے لقمۂ اجل بن چکے ہیں اس کے علاوہ لاتعداد بے گناہ مردوں اور عورتوں کو بموں کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ سعودی عرب نے آیت اللہ نمر اور معروف قلمکار قاشقچی سمیت ہزاروں افراد کو آل سعود کے مظالم کے خلاف آواز حق بلند کرنے کے جرم میں شھید کردیا گیا حد یہ ہے کہ سعودی عرب کے دسترخوان پر پلنے والے اسلام کے ماتھے پر بدنما داغ مفتیوں نے دس سالہ نابالغ بچہ مرتجی القریریص کو بھی سزائے موت سنا کر انسان دشمنی کا ثبوت پیش کیا، اس بچے کا تعلق قطیف سے تھا جس پر الزام تھا کہ اس نے سائیکل پر اپنے 30 ساتھی بچوں کے ساتھ حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی ہے یہ مظاہرے 2011 میں کئے گئے تھے اس کے علاوہ اس پر الزام لگایا گیا ہے کہ یہ دہشتگرد تنظیم کا حصہ ہے یہ سعودی عرب کے مظالم کی نت نئی داستانوں کے کچھ نمونے ہیں ـ
سوال یہ ہے کہ ہمارے قلمکار اور کالم نگار دوستوں کو سعودی عرب کی جنایات کیوں دکھائی نہیں دیتے؟ انہیں آل سعود کے ظلم وستم کی چکی میں پسے ہوئے مظلوموں کے دفاع میں قلم چلانے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی ؟ کیا نابالغ بچے کو سزائے موت دینا انسانیت کی تذلیل نہیں ؟ کیا دس سالہ نوجوان کو مجرم قرار دے سزائے موت دلوانا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں؟ کیا قلمی طاقت کا درست استعمال مظلوم کی حمایت میں لکھنا نہیں ؟ کیا آل سعود کے جرائم پر نوک قلم کو جنبش نہ دینا خیانت نہیں؟ اور ہزاروں سوالات …. غور کیجئے گا ـ

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *