شب قدر میں ملائکہ کہاں نازل ہوتے ہیں؟
شب قدر
شب قدر میں ملائکہ کہاں نازل ہوتے ہیں؟
ہمیشہ سے میرا خیال یہ تھا کہ شب قدر قرآن نازل ہونے کی رات ہے لہذا نزول قرآن کے سبب سے شب قدر کو فضیلت حاصل ہے۔ لیکن ایک دن شب قدر کی کسی محفل میں ایک استاد سے بہت سی باتیں سننے کو ملیں۔ ان باتوں نے میرے ذہن میں خلجان پیدا کردیا۔ استاد سورہ قدر کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے:
کیا نزول قرآن کے سبب سے شب قدر کو فضیلت حاصل ہوئی ہے؟! یا شب قدر بذات خود بافضیلت تھی تب قرآن اس رات میں نازل ہوا؟!
جس طرح سے کوئی اہم کام مثلا شادی بیاہ کسی بابرکت دن میں انجام دیتا ہے، یہاں شادی کی وجہ سے وہ دن بابرکت نہیں بنا، اسی طرح نزول قرآن نہایت ہی اہم اور بڑا با برکت واقعہ ہے لیکن یہ شب قدر میں واقع ہوا۔چنانچہ سورہ قدر میں اس کا تذکرہ یوں ملتا ہے: انا انزلناہ فی لیلہ القدر۔۔۔۔۔(ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا) یعنی پہلے قدر والی رات تھی بعد میں اس میں قرآن نازل ہوا۔
اس سورے کی بعد والی آیات ہمارے مدعی پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں۔ لیلہ القدر خیر من الف شھر، تنزل الملائکہ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر، سلام ھی حتی مطلع الفجر۔
یہاں پر “انزلناہ” عربی گرائمر کے لحاظ سے ماضی کا فعل ہے۔ یعنی ہم نے قرآن کو نازل کیا اور بس۔ لیکن جب شب قدر کی خصوصیت بیان کی گئی تو یہاں “تنزل” مضارع کا فعل استعمال کیا گیا۔ یعنی (نزول ملائکہ)اب بھی استمرار کے ساتھ جاری ہے۔ یعنی نزول ملائکہ ایسا عمل ہے جو اس رات کی عظمت کی وجہ سے ہر سال وقوع پذیر ہوتا ہے۔
“الملائکہ” یعنی سارے ملائک، کیونکہ عربی زبان کے قاعدہ و اصول کے مطابق “الف اور لام” “کل اور تمام” کے معنی دیتے ہیں اور “الروح” سے مراد وہی ملائکہ کا سردار ہیں۔ قدر والی رات میں یہ سارے ملائک زمین پر نازل ہوتے ہیں۔
ملائک کے نزول سے کیا واقعہ پیش آتا ہے؟ اس رات میں اللہ کے یہ فرشتے کیوں زمین پر نازل ہوتے ہیں؟
ہر سال؟ تمام ملائک؟ سارے آسمانوں سے؟ زمین کی جانب رخ کرتے ہیں؟
یعنی اس رات میں عالم بالا میں کوئی خبر نہیں بلکہ زمین پر کچھ ہے جس کی وجہ سے ملائک اس کی طرف رخ کرتے ہیں!
یہاں بنیادی سوال ہے کہ یہ سارے ملائک کس پر نازل ہوتے ہیں؟
نازل ہونے کی جگہ کونسی ہے؟ کہاں پر آتے ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے بہتر ہے کہ ایک اور سوال کا جواب دیں۔
وہ سوال یہ کہ: یہ سارے ملائک زمین پر کیوں آتے ہیں؟
سورے میں موجود جملے”من کل امر” کا کیا مطلب ہے؟
یعنی ہر چیز کے بارے میں مصمم ارداہ کرنے کی خاطر،
یہاں امر سے مراد تکوینی امر ہے۔یعنی کائنات میں موجود ہر وجود کو معلوم ہو کہ اس رات میں کہاں آنا ہے۔
“من کل امر” یہاں امر سے کیا مراد ہے؟
پورے قرآن میں دو جگہوں پر “امر” کا ذکر آیا ہے۔
1۔ “انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول کن فیکون”
2۔ “ائمہ یھدون بامرنا”
مفسر قرآن علامہ طباطبائی پہلی والی آیت میں موجود “امر” کے بارے میں لکھتے ہیں:
امر سے مراد تکوینی امر ہے یعنی کائنات میں ہر موجود چیز۔
دوسری آیت کے متعلق علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ائمہ کی خصوصیت یوں بیان ہوئی ہے کہ ائمہ تمام موجوادت عالم کی تکوینی لحاظ سے ھدایت کرتے ہیں اور شب قدر میں ہر موجود کے بارے میں اندازہ گیری اور اسے معین کیے جانے والا عمل ترتیب پاتا ہے۔
پوری کائنات کا حقیقی اور ذاتی مالک اور لازوال ہستی اللہ ان تمام ملائک کو زمین پر موجود اپنے خلیفہ کی جانب ارسال فرماتا ہے اور وہ خلیفہ “ولی عصر ارواحنا لہ الفدا ” ہیں۔ سارے کے سارے مقدرات اور معلق اور منجز ارادے امام عصر کے دست مبارک سے جاری ہوتے ہیں۔
لہذا شب قدر کا تعلق امام عصر سے ہے۔
پس اگر کوئی اس رات میں صبح تک مناجات اور عمل قرآن میں مشغول رہے لیکن امام عصر سے غافل رہے تو گویا وہ انحرافی راستہ پر جا نکلا، کوئی بھی عمل
یا صاحب الزمان
کی فریاد کے ساتھ الحاق نہ ہو فائدہ مند نہیں ہوگا، بلکہ یہ عمل گمراہی کی طرف قدم شمار ہوگا۔
راستہ بھٹکے اور پریشان لوگوں کے لیے نجات کا راستہ امام عصر عج سے منسلک ہونے میں ہے، بعض لوگ سرے سے خواب غفلت میں ہیں اور بے حرکت ہیں اور بعض دوسرے لوگ حرکت میں ہیں لیکن حرکت کی جہت سے غافل ہیں۔
حرکت اور درست جہت صرف امام عصر کے ساتھ متمسک ہونے میں ہے
شاید اللہ کی کوئی خاص حکمت ہوگی کہ ولایت و امامت کا مرد مجاہد امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت اسی رات میں واقع ہوئی ہے۔
استاد نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا:
دین کی حقیقت امام اور حجت خدا کی معرفت سے عبارت ہے۔ شب قدر خلیفہ اللہ کی خلافت کی تجلی کی رات ہے۔ یعنی اس کی خلافت اسی رات متجلی ہوتی ہے۔ کائنات کے امور کو چلانے والے تمام ملائک “من کل امر”اسی رات اسی خلیفہ اللہ پر نازل ہوتے ہیں۔
ان ملائک میں سے جبرائیل اسی رات پیامبر خدا پر اللہ کی طرف سے قرآن کا تحفہ لیکر نازل ہوا۔ یہاں سے قرآن کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
پس کہیں ایسا نہ ہو کہ سارے ملائک اس رات میں امام عصر کی جانب رواں دواں ہوں اور ہم امام سے غافل!
ممکن نہیں ہم امام کو سلام کریں اور وہ جواب نہ دے۔تاریخ میں کہیں نہیں ملتا کہ کوئی امام عصر کی جانب دست دراز کرے اور امام اسے خالی ہاتھ لوٹائے۔
ترجمہ و ترتیب: محسن عباس مقپون
دیدگاهتان را بنویسید