کربلاکاسرمدی پیغام اورہماری ذمہ داریاں
مقدمہ
ارشادخداوندی ہورہاہے۔”کنتم خیرامۃاخرجت للناس تامرون باالمعرون وتنھون عن المنکروتومنون بااللہ ” (1) تم بہترین امت ہوجسے لوگوں کیلئے منظرعام پرلایاگیاہے تم لوگوں کونیکیوں کاحکم دیتے ہواوربرائیوں سے روکتےہواوراللہ پرایمان رکھتے ہو۔
خالق کائنات نے امت اسلامیہ کوبہترین امت بناکرپیداکیاہے۔لیکن امت کی بہتری کیلئےتین علامتیں اس آیہ کریمہ میں ذکرفرمایاہے:
۱۔ لوگوں کے فائدے کیلئے کام کرے۔
۲۔ نیکیوں کاحکم دے اوربرائیوں سے منع کریں۔
3۔ان سب کے پیچھے ایمان بااللہ کاجذبہ ہو۔
اگریہ تین علامات نہ ہوتوامت خیرکہے جانے کے قابل نہیں ہے اورجواس قانون پرجس قدرشدت سے عمل پیرارہے گاوہ اسی قدر خیراوربہتری کا حامل ہوگا۔اسی لئےروایات میں ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی تمام ترزندگی امرباالمعروف اورنہی عن المنکرمیں بسر ہوئی ہےاور انہوں نے قاتلوں کوبھی نیکیوں کاحکم دیا اورقریب ترین دوستوں کوبھی برائیوں سے روکاہے۔
یہیں سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ اپنے انفرادی فرائض کی بجاآوری سے آگے بڑھ کرمعاشرے میں انقلاب اوراسلامی قوانین کی بنیادپرعوام الناس کی اصلاح بھی ہماری ذمہ داری ہے۔جب کہ مولاعلی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشادفرماتے ہیں۔”اتقواللہ فی عبادہ و بلادہ فانکم مسئولون حتی عن البقاع والبھائم”(2) اللہ سے ڈرواس کے بندوں اورشہروں کےبارے میں اس لئے کہ تم سے ہرچیز کےبارے میں سوال کیاجائے گایہاں تک کہ زمینوں اورچوپاوں کے بارے میں بھی۔
اکثریت اجتماعی امورسے بے تعلق ہے بیشترلوگوں کی سوچ اورجدوجہد ذاتی مفادکےحدودسے باہرنہیں نکلتی کچھ لوگ انتہائی اچھی ملازمت اوربلند عہدہ حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں پھرآراستہ گھر،گاڑی،اورخوبصورت شریک حیات کاحصول ان کانصب العین بن جاتاہے۔
اگرکسی کواپنےذاتی کاروبار کاموقع ملے تووہ شب روزاسکی لامحدودوسعت کی فکرمیں رہتااسکے بعدفرصت کےکچھ لمحات میسرآتے ہیں توانہیں مہنگے ہوٹلوں اوربہترین خوش مزہ کھانوں کےنذرکردیتاہے۔ان تمام سرگرمیوں کےدوران اسکے پاس کوئی وقت نہیں ہوتاجس میں وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں اورمعاشرے کے حوالے سے اپنے فرائض میں غورفکرکرے اپنے دین ،اپنے وطن ،اورانسانیت کومصائب ومشکلات رنج والم سے نجات دلانے بارے میں سوچے۔بعض کےنزدیک ہرفردکی ذمہ داری فقط یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح کریں پابندی سے نماز پڑھے ،حقوق شرعی اداکرے اورمحرمات سے پرہیزکرے جب کبھی یہ لوگ معاشرے کی گمراہیوں اورلغزشوں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تو،ہائے افسوس، لاحول ولاقوۃ،اورزنجیدہ لہجے میں میں” اناللہ واناالیہ راجعون” جیسےکلمات زبان پرجاری کرنے پراکتفاکرتےہیں اورخداکاشکراداکرتے ہیں کہ خدانے ہمیں ان گمراہیوں ،لغزشوں اورکٹھن حالات سے محفوظ رکھا۔
سوال یہ پیداہوتاہےکہ کیاانہیں دینی بھائیوں کی مشکلات پریشانیوں اورمصائب دیکھنے کےباوجودصرف تاسف کےاظہارپراکتفاکرناچاہیے ؟ جبکہ آیت کےمطابق اللہ تعالی کےنزدیک بہترین امت وہ ہے جونیکیوں کاحکم دیتے ہیں اوربرائیوں سے روکتے ہیں۔
کربلا کاسرمدی پیغام
اس مختصرسےمقدمے کےبعدہم یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کربلاکا بنیادی اوراساسی پیغام کیاتھا؟جس کی طرف امام حسین علیہ السلام نےاسی آیت کی منظر کشی کرتے ہوئے اشارہ فرمایا:
” وانی لم اخرج اشراولابطراولامفسدا ولاظالماوانما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی ارید ان آمرباالمعروف وانھی عن المنکر واسیربسیرۃ جدی وابی ۔۔۔۔”
امام علیہ السلام نے اپنے اس وصیت نامے میں توحید،نبوت اورقیامت میں اپناعقیدہ بیان کرنے کےبعد اپنے قیام کے مقصداورہدف کویوں بیان فرمایا:(مدینے سے)میرانکلناخودپسندی اورتفریح کی غرض سے ہے اورنہ فساداورظلم میرامقصدہےمیں توصرف اس لئے نکلاہوں کہ اپنے ناناکی امت کی اصلاح کروں میں چاہتاہوں کہ امرباالمعروف اورنہی عن المنکرانجام دوں (اس انجام دہی میں)اپنے نانااوروالدگرامی کی سیرت کی پیروی کروں۔
امام حسین علیہ السلام اپنے قیام کے بنیادی ترین پیغام کی جانب اشارہ فرمارہے ہیں جو امرباالمعروف اورنہی عن المنکرہے وسیع پیمانے پرپھیلی ہوئی برائیوں اور یزیدی حکومت کے غیراسلامی طرزعمل کی مخالفت ہے یہی امام علیہ السلام کی جدوجہد کابنیادی مقصدہےجسے خودامام نے اپنی زبان سے بیان فرمایاقرآن مجیدبھی امرباالمعروف اورنہی عن المنکرپرعمل نہ کرنے کوانبیاء کے لائے ہوئے قوانین کی نابودی کابنیادی سبب قراردیتاہے۔اورنہج البلاغہ میں بھی باقی تمام اعمال کوایک قطرہ امرباالمعروف اورنہی عن المنکرکو”کاالبحراللجی”ایک دریاکےمانندقراردیاہے۔
لہذا امام علیہ السلام نے ہمارے لئے بھی یہی پیغام دیاہےکہ اگرمعاشرے میں سنت ختم ہورہی ہو،دین کی آبروریزی ہورہی ہو،باطل کی حمایت ہورہی ہوتواس وقت اس معاشرے کے ہرعالم ہرطالب علم ہرمقرر بلکہ ہرجاننے والے پرضروری ہےکہ وہ امرباالمعروف اورنہی عن المنکرکیلئے قیام کریں۔بالخصوص جب علماء کی خاموشی لوگوں کی بدگمانی کاسبب ہو،ظالم کی گستاخی کاسبب ہو،مسلمانوں کےعقائد میں سستی کاسبب ہو،فکری گمراہی اوربدعت کووسعت بخشنےکاسبب ہوتوخاموشی کوتوڑدینا چاہیے۔چاہے انسان کونقصان ہی کیوں نہ پہنچے۔
حدیث میں آیاہے:
“اذاظھرت البدع فعلی العالم ان یظھرعلمہ والافعلیہ لعنۃ اللہ”
یعنی جب کسی امت میں بدعتیں پیداہوجائیں تواس وقت عالم پرضروری ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی اصلاح کرے اگرایسانہ کریں تواس پراللہ کی لعنت ہے۔
پس یہی ہمارے لئے بھی پیغام ہے امام حسین علیہ السلام کی امرباالمعروف اورنہی عن المنکر کامقصدفقط کربلاکے میدان تک محدودنہیں تھامدینہ سے لیکرکربلاتک جتنی منزلیں آئیں جہاں آپ نے خطبے بیان کیےبالخصوص خطبہ منااورامام علیہ السلام نے کوفہ اوربصرہ والوں کےلئےجوخط بھیجا ان خطوط میں امرباالمعروف اورنہی عن المنکرکی نہ فقط تاکیدکی بلکہ آپ نے قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے درس دیکرگئےاورساتھ ساتھ ہماری ذمہ داریوں کومشخص فرمایاہے۔
کربلاکےمتعلق ہماری ذمہ داریاں
راہ کربلا سے منحرف اس بے دینی ، گمراہی اور بد تہذیبی و خرافات سے لبریز ماحول میں یہ سوال کہ کربلا ہم سے کیا چاہتی حقیتاً انسانی اقدار سے عاری ، احکام وافکار سے بے بہرہ ، مفید و ثمر بخش اعمال و اقدامات سے کوسوں دور اور بے انصافی ، مفاد پرستی ، بربریت و بہیمیت نیز تمام برائیوں پر کمر بستہ اس دور میں اس ہدایت و ارشاد اور اس احساس افزارآواز کی گونج ایسی ہی ہے جیسے نرغہ اعداء میں استغاثہ ” ھل من ناصر ینصرنا “۔
حسینیو اور کربلاوالو! اٹھو اور اب کربلا کی حسرتوں سے بھری آغوش کو اس سوال کے حقیقی جواب سے بھر دو ۔ چونکہ کربلا آج بھی بہت پیاسی ہے ۔ اگر ہم نے اس کی سیرابی کی فکر نہ کی تو پھر کون کرے گا ؟ کربلا بڑی آس بڑی امید کے ساتھ ہماری طرف دیکھ رہی ہے اور ہم سے اپنے کچھ اہم مطالبات کو پورا کرانا چاہتی ہے ۔
یاد رکھئے کربلا سے انحراف و اعتزال کرکے جینا زندگی نہیں بلکہ غیر محسوس خود کشی ہے اور ایک ایسا بھیانک ” فریب نفس” ہے کہ قرآنی زبان میں جس کا نام خسران مبین ہے ۔
لہذا اب ہمیں صرف مقام فکر و نظر تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ حرکا مقلد بن کر “بسم اللہ و باللہ و علی ملة رسول اللہ” کہتے ہوئے کربلا کی ملکوتی بارگاہ میں اپنی تمام تر کوتاہیوں ، غلطیوں ، جسارتوں اور بے ادبیوں کی معافی مانگنا ہے اور بہر صورت شہادت گاہ الفت میں قدم رکھتے ہوئے کربلاکےاہداف کو معلوم کرنا ہے ۔
اجمالی طور پر کربلاکےمتعلق ہماری اہم ذمہ داریاں یہ ہیں کہ جن کا مفاد حقیقت میں ہماری طرف ہی پلٹتا ہے ۔
۱۔ کربلاکےمتعلق ہماری پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ “ارید ان آمربالعروف و انھی عن المنکر”(3) کہ نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے ظاہر ہے ہماری ذمہ داری بھی یہی ہے لیکن اظہر من الشمس ہے کہ نیکیوں کا حکم وہی دے سکتا ہے جو خود برائیوں سے کنارہ کش ہو،اور زہیر وحبیب کی طرح امام علیہ السلام کے معاون و مددگار بن جائے چونکہ قرآن مجید اعلان کررہا ہے ” تعاونوا علی البرو التقوی ولاتعاونوا علی الاثم و العدوان “(4)
2۔ کربلاکےمتعلق ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ” انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی”(5) کہ اصلاح امت کی جائے چاہے وطن ، سرزمین ، دولت ، مال ، اسباب اور نفس و اولاد سب کچھ قربان کیوں نہ کرنا پڑے ۔ امام کےاس کلام سے معلوم ہوتاہےکہ ہم ابھی اس منزل میں نہیں ہیں کہ اتنی عظیم قربانی دے سکیں لیکن کم از کم خواہشوں کی قربانی تو دے ہی سکتے ہیں اس لئے کہ ” لن تنالو البر حتی تنفقوا مما تحبون”(6) نیکیوں کی دستیابی کے لئے ایک اٹل اور محکم اصول ہے۔
گویا امام ہم سے یوں مخاطب ہے کہ دیکھو ! بھولے سے بھی اپنی خواہشوں کے آلودہ پاؤں سے میرے مقدس و مطہر اصولوں کوپامال نہ کردینا اس لئے کہ یہ در حقیقت تمہاری پامالی ہے بلکہ اپنے ہرہر لمحہ حیات کو میرے حیات بخش اصولوں کے زیر سایہ گزارنے کی کوشش کرنا اور مکمل میرے ہو کر فخر سے یہ نعرہ بلند کرنا ” ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین(7) “
3۔ کربلاکےمتعلق ہماری تیسری ذمہ داری ” ان کان دین محمد لم یستقم الا بقتلی فیا سیوف خذینی “(8) صرف دیندار بننا کافی نہیں ہے بلکہ امام عالی مقام گویا کہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ اے میرے نقش قد م پر چلنے والو میری بڑی چاہت ہے کہ تم پہلے سچے اور اچھے دین شناس بنو تا کہ اس کے بعد دیندار بننا ہمہ جہت مفید ثابت ہو اور اگر دین پر کوئی وقت آجائے تو دشمنوں کے پرے اور تلوروں کے تند و تیز حملے تمہارے منتظر نہ ہوں بلکہ تم ان کے انتظار میں بیچین نظر آؤ ۔ اگر یہ عزم ہے تو فخر سے کربلائی کہلاؤ لیکن اگر فکر و ذہن اس جرٲت و ہمت سے یکسر خالی ہوں تو اپنی ذات کو میری طرف نسبت دینے سے گھبراؤ اس لئے کہ میرا مکمل قدردان ، مرتبہ شناس اور حقیقی وارث زندہ و پائندہ ہے اور ذوالفقار ایک مدت سے اس کے ہاتھوں میں عدالت کے جوہر دکھانے کے لئے پیچ و تاب کھارہی ہے ۔
4۔ کربلاکےمتعلق ہماری چوتھی ذمہ داری “الموت اولی من رکوب العار “(9) امام عالی مقام کے ابدی اور سرمدی پیغامات میں ہماری اہم ذمہ داریوں کی طرف یوں اشارہ ہے کہ :ذلت کی زندگی سے عزت و آبرو کی موت کہیں بہتر ہے ۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میرے لق ودق صحرا میں حسین (ع) اور اصحاب حسین (ع( نے تو کیا ششما ہے بچے نے بھی ذلت کی زندگی کا ایک لمحہ گزارنا گوارانہ کیا ، شدت کی بھوک ، پیاس اور مسلسل قیامت خیز ، کلیجہ پھاڑ دینے والے مظالم بڑے بڑے دل گردے والے انسانوں کو درست و نادرست ہر کام پر آمادہ کردیتے ہیں مگر میرے نونہالوں کو دیکھو کہ دودھ پیتے بچوں نے بھی ایک لمحہ کے لئے دامن عزت و حرمت پرحرف نہیں آنے دیا اور کوئی ایسا اقدام نہیں کیا کہ جس میں شرمندگی و ندامت کا ذرہ برابر بھی شائبہ پایا جاتا ہو اور صرف یہی نہیں بلکہ حشر خیز ہنگام میں بھی اپنے احساس اور نصرت حق کے جذبہ کو اس قدر بیدار رکھا کہ ایک استغاثہ کو سنتے ہی نڈھال تشنہ لب بے شیر علی اصغر (ع) نے اپنے کو جھولے کی بلندی سے زمین پر گرایا شدت عطش کی بنا پر جو بچہ چند لمحہ پہلے جنبش دست و پاپر بھی قدرت نہ رکھتا ہو ولولہ نصرت حق سے سرشار ہو کر اس کا شہادت گاہ الفت میں مچل کر آجانا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ تاریخ جرٲت و ہمت کا وہ عظیم الشان و شجاعت آفریں اقدام ہے جو ہمیشہ حق و حقیقت سے وابستہ افراد کے وجود میں جذبہ نصرت حق کی روح پھونکتا رہے گا اور باطل کے خلاف تا قیامت مخاذ آرائی و حماسہ خیزی پر ابھارتارہے گا ۔
یہ ہےامام عالی مقام کے ابدی اور سرمدی پیغامات میں ہماری اہم ذمہ داریوں کا اجمالی خاکہ جو سنہ 1424ھ کے ماہ محرم ہی میں نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ان کی ذمہ داریوں کومشخص فرمایاہے ۔ کاش ہمارے گوش سماعت سے غفلتوں کے پردے ہٹیں اور ہر صبح و شام امام علیہ السلام کا درد ودل ہم تک منتقل ہوتا رہے ” والسلام علی من اتبع الھدی “(10)
آئیے اب ہم مل کر احساس ذمہ داری کے مکمل جذبہ کے ساتھ امام عالی مقام کےساتھ عہد کرتے ہیں کہ آپ کی ہر صدا کاہم جان و دل سے استقبال کریں گے اور لبیک کہتے ہوئے ایسے آگے بڑھیں گے جیسے مدتوں کا پیاسا آب حیات کی طرف لپکتا ہے ہم ضرور نیکیوں کے پابند بن کر لوگوں کو ان کا پابند بنائیں گے اور تمام برائیوں سے بچ کر ہر برائی کے خلاف ضرور علم احتجاج بلند کریں گے تا کہ ہم صالح بن کر اصلاح امت کا فریضہ انجام دے سکیں بعونہ تعالی ہم دین خدا اور مذہب محمدآل محمد (ع) کی خاطر آمادہ نظر آئیں گے ۔
آخر میں اللہ تعالی سےدعاکرتے ہیں کہ ہم سب کواپنی ذمہ داریوں پرعمل کرنے اورکربلاکے سرمدی پیغامات کولوگوں تک پہنچانے کی توفیق عطافرمائیں۔
آمین یارب العالمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1.آل عمران: آیہ ۱۱۰
2.نہج البلاغہ:خطبہ ۱۶۵
3. بحار ج44 ص 329
4. مائدہ: آیہ 2
5. بحار ج44 ، ص329
6. آل عمران :آیہ 92
7. انعام :آیہ 162
8. سیرہ ابن ہشام 75
9. مناقب شہر آشوب ج4 ، ص 67
10. طہ: آیہ ۱۶
کاوش: ذاکرحسین ثاقب ڈوروی
دیدگاهتان را بنویسید