تازہ ترین

امام باقر علیہ السلام

حضرت اما م محمد باقر علیہ السلام کا نصب مبارک ” والدین ” کی طرف سے حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ،حضرت علی علیہ السلام حضرت اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا سے ملتا ہے ۔

شئیر
87 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5530

کیونکہ آپ کے والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرزند امام حسین علیہ السلام ۔ اور آپ کی والدہ ماجدہ ” ام عبدللہ ” حضرت امام حسن علیہ السلام کی صاحبزادی تھیں ۔

ہر ایک کی زبان پر حضرت علیہ السلام کی عظمت و بزرگی کا چرچا تھا ، اور جب کبھی ہاشمی ،علوی اور فاطمی خاندن کی شرافت و بلند کرداری کا تذکرہ ہوتا تو لوگ آپ کو تنہا ان خاندانوں کا وارث تصور کرتے تھے

اور آپ کو ہاشمی ،علوی اور فاطمی کے القاب سے یاد کرتے تھے ۔ لہجے کی صداقت چہرے کی جاذبیت اور فیاضی اور سخاوت آپ کی خصوصیات تھیں ۔
عظمت امام باقر علیہ السلام:
پیغمبر کرامی اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک بہت پارسا صحابی جناب جابر ابن عبدللہ انصاری سے ارشاد فرمایا ” اے جابر ! خدا وند عالم نے تم کو طول عمر عطاء فرمائی ہے اور تمہیں میرے فرزند ( محمد ابن علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب) کی زیارت نصیب ہوگی ، جس کا نام باقر علیہ السلام ہے ۔ جب تمہیں زیارت کا شرف حاصل ہو تو تم میرا سلام پہنچا دینا ۔”
پیغمبر اسلام وفات پا گئے اور جابر کو ایک طویل عمر نصیب ہوئی ۔ ایک دن آپ امام زین العابدین علیہ السلام کے گھر گئے اس وقت امام محمد باقر علیہ السلام کم سن تھے ۔ جس وقت جابر کی نگاہ امام باقر علیہ السلام پر پڑی فوراً کہا ” ادھر تشریف لائیں ! ” پھر کہا ۔ ” زرا پیچھے تشریف لے جائیں امام پیچھے تشریف لے گئے۔ یہ دیکھ کر جابر نے کہا ” خداوند کعبہ کی قسم ! یہ تو ہوبہو رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر ہیں ۔” پھر امام زین العابدین علیہ السلام سے پوچھا ” یہ کون ہے ؟ ” امام علیہ السلام نے فرمایا ” یہ میرے فرزند محمد باقر ہیں ( جو میرے بعد تمہارے امام ہونگے ) ” یہ سن کر جابر اٹھے اور امام محمد باقر علیہ السلام کے قدم مبارک کا بوسہ لیا اور کہا ” میں آپ پر فدا ہو جائوں اے فرزند رسول ! آپ کے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سلام کہلایا ہے ۔”
یہ سن کر اما م محمد باقر علیہ السلام کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا ” جد بزرگوار پر لاکھوں بار درود وسلام جب تک کہ زمین اور آسمان قائم ہیں ، اور تم پر بھی اے جابر میرا سلام ہو کہ تم نے مجھ تک یہ سلام پہنچایا ۔”
علم امام محمد باقر علیہ السلام :
امام محمد باقر علیہ السلام بھی دوسرے اماموں کی طرح سرچشمہ وحی سے سیراب ہوئے تھے ان حضرات نے نہ تو کسی استاد کے سامنے زانوں تہہ کیا ، اور نہ ہی کسی دنیاوی مدرسے میں تعلیم حاصل کی ، کیونکہ یہ تمام حضرات دنیا والوں کو علم و حکمت کی تعلیم دینے آئے تھے ، ان سے کچھ بھی حاصل کرنے نہیں آئے تھے۔
جابر ابن عبد اللہ انصاری امام کے خدمت اقدس میں حاضر ہوتے اور اپنی علمی تشنگی امام کے سرچشمہ علم و کمال سے حسب ظرف بجھاتے رہتے اور برابر امام کو ” باقر العلوم ” کے نام سے یاد کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ آپ اس خود رسائی میں بھی وحی الہی سے سرشار ہیں۔
“عبد اللہ بن عطار مکی ” کا بیان ہے کہ میں نے بڑے بڑے دانشوروں کو کسی کے سامنے اس قدر سبک نہیں دیکھا جتنا کہ امام محمد باقر کے نزدیک ” حکم ابن عیتبہ ” جس کی علمی دھاک تمام لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی ،لیکن جس وقت وہ امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا تو ایسا لگتا تھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ ایک عظیم استاد کے سامنے بیٹھا ہوا ہے ۔
امام کی عظمت و بزرگی کا کلمہ ہر زبان پر جاری تھا ” جاہر بن یزید جعفی ” امام سے روایت نقل کرتے وقت کہا کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وارث علوم انبیاء حضرت محمد بن علی بن حسین علیھم السلام نے ارشاد فرمایا۔ ”
ایک شخص عبد اللہ بن عمر کے پاس آیا اور ایک سوال کر بیٹھا ۔ عبد اللہ ابن عمر سے کوئی جواب نہ بن پڑا ۔ امام محمد باقر علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا ، جائو اور ان سے سوال کرو اور جو وہ جواب دیں اسے مجھے بھی مطلع کرو۔
وہ شخص امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا سوال دہرایا ۔ امام علیہ السلام نے سوال سنتے ہی فورا اسے اطمنان بخش جواب دیا ۔ اس شخص نے جواب عبد للہ بن عمر کے لئے نقل کردیا ۔
جواب سن کر عبد اللہ بن عمر نے کہا ” بخدا یہ لوگ اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کا علم خداداد ہے ”
ابو بصیر کا بیان ہے کہ ” ایک روز میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ہمراہ مسجد گیا ہوا تھا ۔ لوگوں کا ہجوم تھا ، امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا لوگوں سے یہ دریافت کرتے رہو آیا وہ مجھے دیکھ رہے ہیں ۔ میں ہر ایک سے ہوچھتا رہا تم نے امام علیہ السلام کو دیکھا ہے ، ہر ایک شخص یہی جواب دیتا کہ ہم نے نہیں دیکھا ۔ جبکہ امام علیہ السلام میرے پہلو میں تشریف فرما تھے ۔ ابھی میں لوگوں سے معلوم کر رہا رھا کہ اتنے میں ” ابو ہارون ” جو امام کے حقیقی چاہنے والوں میں سے تھے ، وارد ہوے (یہ یاد رہے کہ ابو ہاروں بلکل نابینا تھے ) امام نے مجھ سے کہا ، ذرا ابو ہارون سے بھی دریافت کرو ، میں نے ابو ہارون سے پوچھا تم نے امام ابو جعفر علیہ السلام کو دیکھا ہے ؟
ابو ہارون نے فوراً جواب دیا ۔۔ ” کیا یہ تمہارے پہلو میں تشریف فرما نہیں ہیں ؟”
میں نے دریافت کیا ” آخر تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟”
ابو ہارون نے جواب دیا ،” میں کیوں کر انہیں نہیں پہچانوں ، در حالیکہ وہ نور درخشندہ ہیں ۔”
یہ راویت بھی ابو بصیر سے نقل ہوئی ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک افریقی سے اپنے دوست ” راشد ” کے حالات دریافت کئے ۔ افریقی نے جواب دیا : الحمد للہ بخیر ہے اور آپ علیہ السلام کی خدمت اقدس میں سلام عرض کیا ہے ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : ” خدا اس پر رحمت نازل کرے “!
اس نے تعجب سے پوچھا : “کیا اس کا انتقال ہو گیا ؟ ”
امام نے فرمایا : ” ہاں ” !
اس نے دریافت کیا :” کب اس کا انتقال ہوا ؟ “
امام نے فرمایا : ” تمہارے آنے کے دو دن بعد !”
اس کے کہا : ” بخدا وہ بیمار بھی نہیں تھا ”
امام نے فرمایا : ” کیا جتنے بھی مرنے والے ہیں وہ سب مریض ہوتے ہیں ؟”
اس وقت ابو بصیر نے راشد کے بارے میں سوال کیا ۔
امام نے فرمایا :” وہ ہمارے دوستوں اور چاہنے والوں میں تھا ۔۔۔۔ کیا تمھارا یہ خیال ہے کہ ہماری نگاہیں تمہارے اعمال پر نہیں ہیں ؟ تمہاری حرکتیں ہمارے کانوں تک نہیں پہونچتیں ؟ ۔۔۔۔۔۔ کس قدر غلط ہے یہ خیال ۔۔۔۔۔۔ بخدا تمہاری پوری زندگی ہماری نگاہوں کے سامنے ہے ، تمہاری ہر جنبش نگاہ پر ہماری نظر ہے ۔۔۔۔ ہمیشہ اچھے اعمال و کردار کی عادت ڈالو تاکہ تمہارا شمار اہل خیر میں ہو اور اسی کے زریعے پہچانے جائو ۔ اسی بات کا میں تمام شیعوں کو حکم دیتا ہوں۔ ”
ایک شخص کا بیان ہے کہ میں کوفے میں ایک عورت کو قرآن پڑھاتا تھا ، ایک روز اسے مزاق کر بیٹھا اس کے بعد امام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔
امام نے فرمایا :” جو لوگ تنہائی میں گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں کیا خدا کو اس کا علم نہیں ہیں ذرا یہ تو بتائو تم نے اس عورت سے کیا کہا تھا ۔” !
یہ سنتے ہی میں نے شرم سے گردن جھکالی اور توبہ کرلی ۔
امام نے فرمایا :” دیکھو پھر کبھی تکرار نہ کرنا ۔”
اخلاق امام باقر علیہ السلام :
ایک شامی مدینے میں رہا کرتا تھا اور برابر امام کی خدمت میں حاضر ہوتا ، ایک روز امام سے کہنے لگا ۔۔۔۔ ” میرا دل آپ کے کینے سے بھرا ہوا ہے اور اس روی زمین پر کوئی ایسا نہیں ہے جسے میں آپ سے زیادہ دشمن رکھتا ہوں ، اور مجھے اس بات کا یقین ہے اور یہی میرا عقیدہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت و خوشنودی صرف آپ کی دشمنی میں ہے ۔ اور یہ جو میں برابر آپ کے یہاں آیا جایا کرتا ہوں یہ اس بنا پر نہیں ہے کہ میں آپ کو دوست رکھتا ہوں بلکہ صرف اس لئے آتا ہوں کہ آپ ایک اچھے سخنور اور ایک بہترین ادیب ہیں اور آپ کا کلام ادبی لطافتوں سے سرشار رہتا ہے ۔”
ان تمام باتوں کے باوجود بھی امام قاعدے سے پیش آتے رہے اور آپ کی رفتار میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔۔۔۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ وہ شامی سخت مریض ہو گیا اور اسے اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب میری موت یقینی ہے جب وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا تو اس نے وصیت کی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو حضرت ابو جعفر ( امام محمد باقر علیہ السلام ) سے میری نماز جنازہ پڑھائیں ۔
رات ابھی نصف کو پہونچی تھی کہ لوگوں نے دیکھا اس کا انتقال ہو چکا تھا ۔ جب صبح ہوئی تو اس کا ولی و وارث امام کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے اور تعقیبات میں مشغول تھے ۔ اس شخص نے سارا ماجرا امام سے بیان کر دیا۔
امام نے فرمایا :” جلدی نہ کرو اس کا انتقال نہیں ہوا ہے “۔
امام نے دوبارہ وضو فرمایا ، دو رکعت نماز ادا کی ، ہاتھوں کو بلد کر کے دعا مانگی اور پھر سجدے میں چلے گئے ۔ آپ نے سجدے سے اس وقت سر اٹھایا جبکہ سورچ نکل آیا تھا ۔
امام اس شامی کے گھر تشریف لے گئے اور شامی کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس کو آواز دی ۔
اس نے فورا جواب دیا امام نے سہارا دے کر اسے بٹھایا اور تکیہ لگا دی۔ پھر امام نے شربت طلب فرمایا اور اسکو پلا دیا اور اس کے گھر والوں سے فرمایا :” اسے ٹھنڈی غذا دو ” ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ فرما کر امام واپس چلے گئے۔
ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ وہ شامی بلکل صحتیاب ہو گیا اور امام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ تمام لوگوں پر حجت خدا ہیں ”
محمد بن منکدر جن کا شمار اس وقت کے صوفیائے کرام میں ہوتا تھا ، ایک روز جبکہ بہت ہی سخت گرمی پڑ رہی تھی ، مدینے سے باہر گئے ہوئے تھے راستے مین کیا دیکھا کہ امام محمد باقر علیہ السلام دونوں غلاموں کے ساتھ چلے آرہے ہیں اور آپ پسینے میں غرق ہیں ۔ حالت بتا رہی تھی کہ آپ کھیت سے تشریف لا رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ چلو اچھا موقع ملا ہے آج ان کو ضرور نصیحت کرونگا ۔ کیونکہ یہ باتیں ان کے لئے زیبا نہیں ہیں ۔ یہ سوچ کر امام کے قریب گیا اور سلام کیا ۔۔ امام نے جواب دیا ۔
میں نے کہا : ” خدا آپ کو زندہ و سلامت رکھے اگر ایسی حالت میں آپکو موت آجائے تو پھر آپکا کیا عالم ہوگا کیونکہ یہ بات ہرگز آپ کے لئے مناسب نہیں ہے۔ ”
امام نے فرمایا :” خدا کی قسم ! اگر ایسی حالت میں موت آجائے تو اطاعت خداوندی میں موت آئے گی ۔ کیونکہ میں اپنے اس عمل سے خود کو تم جیسے لوگوں سے بی نیاز کر رہا ہوں ۔ میں صرف اس وقت موت سے گھبراتا ہوں جب خدا نہ خواستہ کسی گناہ میں ملوث ہوں ۔”
محمد بن منکدر نے کہا کہ خدا آپ پر رحمتیں نازل کرے میں نے چاہا تھا کہ آپ کو نصیحت کروں مگر آپ نے خود مجھے نصیحت فرما دی اور مجھے متنبہ کر دیا ۔
اصحاب اما م محمد باقر علیہ السلام:
١۔ زرارہ بن ا عین :
امام علیہ السلام کے خاص شاگرد تھے ، انہوں نے امام سے بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل کی ہیں ، انتہائی درجہ عالم ، فقیہ ، متکلم ، ادیب اور ثقہ تھے ، ان کی عظمت و جلالت کے لئے امام صادق کی حدیث ہی کافی ہے کہ خدا زرارہ ابن اعین پر رحمت نازل کرے ، اگر وہ نہ ہوتے تو آثار نبوت اور میرے والد گرامی کی احادیث ختم ہوجاتیں ۔
ایک مرتبہ امام صادق کی بزم میں ان کا ذکر آیاتو آپ نے اس انداز سے تذکرہ کیا جس سے پہلوئے ذم نکلتا تھا ، انہیں اطلاع ملی تو اپنے فرزند کو حضرت کی خدمت میں دریافت حال کے لئے روانہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم میرے واقعی دوست ہو لیکن کیا کروں دنیا میرے دوستوں کی دشمن ہے ، لہذا میں اس طرح ذکر کرتاہوں کہ میری دوستی کا اظہار نہ ہو اور اس طرح میرے چاہنے والے دشمنوں کے شر سے محفوظ رہیں ۔
اس سے جہاں امام کی نظر میں زرارہ کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے وہیں اس وقت کے حالات و ماحول کا خاکہ بھی واضح ہوتاہے ۔
٢۔ محمد بن مسلم ثقفی :
امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کے انتہائی مخلص اور باوفا صحابی تھے ، امام باقر علیہ السلام سے تیس ہزار اور امام صادق علیہ السلام سے سولہ ہزار حدیثیں نقل کی ہیں ۔ آپ اصل میں کوفہ کے رہنے والے تھے لیکن کسب علم و دانش کے لئے مدینہ تشریف لائے اور چار سال تک اسی شہر میں قیام فرمایا اور امام سے فیضیاب ہوتے رہے ۔ آپ کی علمی جلالت کا یہ پہلو کافی نمایاں ہے کہ آپ کو فقیہ اہل بیت کے نام سے یاد کیاجاتا ہے ، امام صادق علیہ السلام اپنے زمانے میں دینی سوالات کے لئے لوگوں کو ان کے پاس بھیجتے اور فرماتے تھے : تم لوگ محمد بن مسلم سے سوال کیوں نہیں کرتے ۔
٣۔ محمد حمران بن اعین :
مخلص شیعہ تھے ، امام باقر علیہ السلام کے ممتاز شاگردوں میں ان کا شمار ہوتاہے ؛ امام باقر علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ہیں :” انت من شیعتنا فی الدنیا والآخرة ” تم دنیا و آخرت میں میرے شیعہ ہو”۔آپ کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ امام باقر کے حضور میں ادب کے پیش نظر اس وقت تک کلام نہیں کرتے تھے جب تک امام اجازت مرحمت نہیں فرماتے تھے۔
٤۔ ابو بصیر یحییٰ بن قاسم اسدی :
ان کے والد کا نام اسحاق تھا ، خود نابینا تھے اور نہایت درجہ ثقہ اور فقیہ تھے ، بعض لوگوں نے چھ فقہاء میں ان کو شمار کیاہے اور نقل کیا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے اپنی عدم موجودگی میں ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیاتھا ۔ انہوں نے امام سے بہت سی حدیثیں نقل کی ہیں۔
٥۔ جابر بن یزید جعفی :
کوفہ کے رہنے والے تھے لیکن امام باقر کی خدمت میں آکر مدینہ میں رہ گئے تو امام نے فرمایا کہ اپنے کو کوفہ کا مت کہنا بلکہ مدینہ کا بتانا ورنہ لوگ اذیت کریں گے ۔ عرض کی کہ یہ غلط بیانی تو نہیں ہے ؟ فرمایا : ہرگز نہیں جب تک تم مدینہ میں ہو مدینہ کے رہنے والے ہو اس میں غلط بیانی کا کیا سوال پیدا ہوتاہے ۔
نعمان بن بشیر نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے جابر کو ایک خط لاکر دیا ، انہوں نے آنکھوں سے لگایا اور کھول کر پڑھا اور افسردہ ہوئے اور کوفہ روانہ ہوگئے ۔ وہاں پہونچ کر عجیب و غریب حرکات کرنے لگے کہ ایک لکڑی پر گھوڑے کی طرح سوار ہوکر بچوں کے ساتھ دوڑنے لگے ۔ لوگوں کہا: جابر دیوانے ہوگئے ہیں ، تھوڑے دنوں کے بعد ہشام بن عبدالملک کا فرمان کوفہ کے حاکم کے پاس آیا کہ جابر کو قتل کرکے ان کا سر بھیج دو ، اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک مرد فقیہ تھے لیکن فی الحال پاگل ہوگئے ہیں ، انہیں قتل کرنے سے کیا فائدہ ۔ چنانچہ اس نے اپنی رائے بدل دی اور امام کے خط کی مصلحت سامنے آگئی اور یہ معلوم ہوگیا کہ ائمہ طاہرین کس طرح اپنے چاہنے والوں کی زندگیوں کا تحفظ کیاکرتے تھے ۔
٦۔ ابان بن تغلب :
آپ کو تین امام” امام سجاد ، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام ” کی زیارت نصیب ہوئی ، علمی میدان میں ابان کی شخصیت کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے ، تفسیر ، فقہ ، حدیث ، قرائت ، لغت اور دوسرے علوم میں ید طولیٰ حاصل تھا اور آپ کی علمی شخصیت اس قدر مسلم تھی کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ”تم مسجد مدینہ میں بیٹھو اور لوگوں کو فتویٰ دو اور لوگوں کو ان کے مسائل سے آگاہ کرو ، میری دلی تمنا اور آرزو ہے کہ میں اپنے شیعوں میں تمہارے جیسے افراد دیکھوں”۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *