حدیث کساء
حدیث کساء پیغمبر خدا، علی، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام کی فضیلت میں وارد ہونے والی حدیث کو کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ زوجۂ رسول ام المؤمنین ام سلمہ کے گھر میں رونما ہوا۔ آیت تطہیر کے نزول کے وقت رسول اللہؐ اونی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور حضرت امام علی ،حضرت فاطمہ ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام بھی اس چادر تلے موجود تھے ۔ اس چادر کو “کساء” کہا جاتا تھا۔ ائمۂ شیعہ نے بارہا اپنی فضیلت اور امت مسلمہ پر ان کے حق خلافت کے اثبات کے لئے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔
عَنْ فاطِمَةَ الزَّھْراءِ عَلَیْھَا اَلسَّلَامُ بِنْتِ رَسُولِ الله قالَ سَمِعْتُ فاطِمَةَ أَنَّھا قالَتْ دَخَلَ عَلَیَّ أَبِی رَسُولُ اللهِ فِی بَعْضِ الْاََیَّامِ فَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَافاطِمَةُ فَقُلْتُ عَلَیْکَ اَلسَّلَامُ۔ اقالَ إِنِّی أَجِدُ فِی بَدَنِی ضَعْفاً۔ فَقُلْتُ لَہُ أُعِیذُکَ بِاللهِ یَا أَبَتاھُ مِنَ الضَّعْفِ۔ فَقالَ یَا فاطِمَةُ ایتِینِی بِالْکِساءِ الْیَمانِی فَغَطَّینِی بِہ ِفَأَتَیْتُہُ بِالْکِساءِ الْیَمانِی فَغَطَّیْتُہُ بِہِ وَصِرْتُ أَنْظُرُ إِلَیْہِ وَإِذا وَجْھُہُ یَتَلَأْلَأُکَأَنَّہُ الْبَدْرُ فِی لَیْلَةِ تَمامِہِ وَکَمالِہِ فَمَا کانَتْ إِلاَّساعَةً وَإِذا بِوَلَدِیَ الْحَسَنِ قَدْ أَقْبَلَ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَا أُمَّاھُ فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَاقُرَّةَ عَیْنِی و َثَمَرَةَ فُؤَادِی۔ فَقَالَ یَا أُمَّاھُ إِنَّی أَشَمُّ عِنْدَکِ رائِحَةً طَیِّبَةً کَأَنَّھا رائِحَةُ جَدِّی رَسُولِ الله فَقُلْتُ نَعَمْ إِنَّ جَدَّکَ تَحْتَ الْکِساءِ فَأَقْبَلَ الْحَسَنُ نَحْوَ الْکِساءِ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا جَدَّاھُ یَا رَسُولَ اللهِ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَدْخُلَ مَعَکَ تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا وَلَدِی وَیَا صاحِبَ حَوْضِی قَدْ أَذِنْتُ لَکَ فَدَخَلَ مَعَہُ تَحْتَ الْکِساءِ فَمَا کانَتْ إِلاَّ ساعَةً وَإِذا بِوَلَدِیَ الْحُسَیْنِ قَدْ أَقْبَلَ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَا أُمَّاھُ۔فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا وَلَدِی وَیَا قُرَّةَ عَیْنِی وَثَمَرَةَ فُؤَادِی۔ فَقَالَ لِی یَا أُمَّاھُ إِنَّی أَشَمُّ عِنْدَکِ رائِحَةً طَیِّبَةً کَأَنَّھا رائِحَةُ جَدِّی رَسُولِ اللهُ۔ فَقُلْتُ نَعَمْ إِنَّ جَدَّکَ وَأَخاکَ تَحْتَ الْکِساءِ۔ فَدَنَا الْحُسَیْنُ نَحْوَ الْکِساءِ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا جَدَّاھُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنِ اخْتارَھُ اللهُ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَکُونَ مَعَکُما تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَاوَلَدِی وَیَا شافِعَ أُمَّتِی قَدْ أَذِنْتُ لَکَ۔فَدَخَلَ مَعَھُما تَحْتَ الْکِساءِ فَأَ قْبَلَ عِنْدَ ذلِکَ أَبُو الْحَسَنِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طالِبٍ وَ قالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَابِنْتَ رَسُولِ اللهِ فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا أَبَاالْحَسَنِ وَیَاأَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ۔فَقالَ یَا فاطِمَةُ إِنِّی أَشَمُّ عِنْدَکِ رائِحَةً طَیِّبَةً کَأَنَّھا رائِحَةُ أَخِی وَابْنِ عَمِّی رَسُولِ الله۔فَقُلْتُ نَعَمْ ھَا ھُوَ مَعَ وَلَدَیْکَ تَحْتَ الْکِساءِ فَأَقْبَلَ عَلِیٌّ نَحْوَ الْکِساءِ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللهِ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَکُونَ مَعَکُمْ تَحْتَ الْکِساءِ قالَ لَہُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا أَخِی ویَا وَصِیِّی وَخَلِیفَتِی وَصاحِبَ لِوَائِی قَدْ أَذِنْتُ لَکَ فَدَخَلَ عَلِیٌّ تَحْتَ الْکِساءِ ثُمَّ أَتَیْتُ نَحْوَ الْکِساءِ وَقُلْتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَتاھُ یَارَسُولَ اللهِ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَکُونَ مَعَکُمْ تَحْتَ الْکِساءِ قالَ! وَعَلَیْکِ اَلسَّلَامُ یَابِنْتِی وَیَا بِضْعَتِی قَدْ أَذِنْتُ لَکِ فَدَخَلْتُ تَحْتَ الْکِساءِ فَلَمَّا اکْتَمَلْنا جَمِیعاً تَحْتَ الْکِساءِ أَخَذَ أَبِی رَسُولُ الله بِطَرَفَی الْکِساءِ وَأَوْمَأَ بِیَدِھِ الْیُمْنَی إِلَی السَّماءِ وَقالَ اَللّٰھُمَّ إِنَّ ھَؤُلاءِ أَھْلُ بَیْتِی وَخاصَّتِی وَحامَّتِی لَحْمُھُمْ لَحْمِی وَدَمُھُمْ دَمِی یُؤْلِمُنِی مَا یُؤْلِمُھُمْ وَیَحْزُنُنِی مَا یَحْزُنُھُمْ أَنَاحَرْبٌ لِمَنْ حارَبَھُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سالَمَھُمْ وَعَدُوٌّ لِمَنْ عَاداھُمْ وَمُحِبٌّ لِمَنْ أَحَبَّھُمْ إِنَّھُمْ مِنِّی وَأَنَا مِنْھُمْ فَاجْعَلْ صَلَواتِکَ وَبَرَکاتِکَ وَرَحْمَتَکَ وَغُفْرانَکَ وَرِضْوانَکَ عَلَیَّ وَعَلَیْھِمْ وَأَذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْھِیراً۔ فَقالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ یَا مَلائِکَتِی وَیَا سُکَّانَ سَمٰوَاتِی إِنَّی مَا خَلَقْتُ سَماءً مَبْنِیَّةً وَلاَ أَرْضاً مَدْحِیَّةً وَلاَ قَمَراً مُنِیراً وَلاَ شَمْساً مُضِییَةً وَلاَ فَلَکاً یَدُورُ وَلاَ بَحْراً یَجْرِی وَلاَ فُلْکاً یَسْرِی إِلاَّ فِی مَحَبَّةِ ھَؤلاءِ الْخَمْسَةِ الَّذِینَ ھُمْ تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ الْاَمِینُ جَبْرائِیلُ یَارَبِّ وَمَنْ تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ عَزَّ وَجَلَّ ھُمْ أَھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنُ الرِّسالَةِ ھُمْ فاطِمَةُ وَأَبُوھاوَبَعْلُھاوَبَنُوھا۔فَقالَ جَبْرائِیلُ یَارَبِّ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَھْبِطَ إِلَی الْاَرْضِ لاِکُونَ مَعَھُمْ سادِساً فَقالَ قَدْ أَذِنْتُ لَکَ۔ فَھَبَطَ الْاَمِینُ جَبْرائِیلُ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللهِ الْعَلِیُّ الْاَعْلی یُقْرِئُکَ السَّلامَ وَیَخُصُّکَ بِالتَّحِیَّةِ وَالْاِکْرامِ وَیَقُولُ لَکَ وَعِزَّتِی وَجَلالِی إِنَّی مَا خَلَقْتُ سَماءً مَبْنِیَّةً وَلاَ أَرْضاً مَدْحِیَّةً وَلاَ قَمَراً مُنِیراً وَلاَ شَمْساً مُضِیئَةً وَلاَ فَلَکاً یَدُورُ وَلاَ بَحْراً یَجْرِی وَلاَ فُلْکاً یَسْرِی إِلاَّ لاِجْلِکُمْ وَمَحَبَّتِکُمْ وَقَدْ أَذِنَ لِی أَنْ أَدْخُلَ مَعَکُمْ فَھَلْ تَأْذَنُ لِی یَا رَسُولَ الله فَقالَ رَسُولُ الله وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا أَمِینَ وَحْی اللهِ إِنَّہُ نَعَمْ قَدْ أَذِنْتُ لَکَ۔ فَدَخَلَ جَبْرائِیلُ مَعَنا تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ لاِبِی إِنَّ اللهَ قَدْ أَوْحَی إِلَیْکُمْ یَقُولُ إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیراً۔فَقالَ عَلِیٌّ لاِبِی یَا رَسُولَ الله أَخْبِرْنِی مَا لِجُلُوسِنا ھذَا تَحْتَ الْکِساءِ مِنَ الْفَضْلِ عِنْدَالله فَقالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَالَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ نَبِیَّاًوَاصْطَفانِی بِالرِّسالَةِ نَجِیّاً مَا ذُکِرَ خَبَرُنا ھذَا فِی مَحْفِلٍ مِنْ مَحافِلِ أَھْلِ الْاََرْضِ وَفِیہِِ جَمْعٌ مِنْ شِیعَتِنا وَمُحِّبِینا إِلاَّ وَنَزَلَتْ عَلَیْھِمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْ بِھِمُ الْمَلائِکَةُ وَاسْتَغْفَرَتْ لَھُمْ إِلی أَنْ یَتَفَرَّقُوا۔ فَقالَ عَلِیٌّ إِذنْ وَاللهِ فُزْنَا وَفازَ شِیعَتُنا وَرَبِّ الْکَعْبَةِ۔ فَقالَ أَبِی رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ یَا عَلِیُّ وَالَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ نَبِیّاً وَاصْطَفَانِی بِالرِّسالَةِ نَجِیّاً مَا ذُکِرَ خَبَرُنا ھذَا فِی مَحْفِلٍ مِنْ مَحَافِلِ أَھْلِ الْاَرْضِ وَفِیہِ جَمْعٌ مِنْ شِیعَتِنا وَمُحِبِّینا وَفِیھِمْ مَھْمُومٌ إِلاَّ وَفَرَّجَ اللهُ ھَمَّہُ وَلاَ مَغْمُومٌ إِلاَّ وَکَشَفَ اللهُ غَمَّہُ وَلاَ طالِبُ حاجَةٍ إِلاَّ وَقَضَی اللهُ حاجَتَہُ۔ فَقالَ عَلِیٌّ إِذن وَالله فُزْنا وَسُعِدْنا وَکَذلِکَ شِیعَتُنا فازُوا وَسُعِدُوا فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ
ترجمہ :
جابر بن عبدالله انصاری بی بی فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا)بنت رسول الله ﷺ سے روایت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ میں جناب فاطمة ا لزہراء (سلام اللہ علیھا) سے سنا ہے کہ وہ فرما رہی تھیں کہ ایک دن میرے بابا جان جناب رسول خدا میرے گھر تشریف لائے اور فرمانے لگے: ” سلام ہو تم پر اے فاطمہ(ع)“ میں نے جواب دیا:”آپ پر بھی سلام ہو“۔ پھر آپ نے فرمایا:” میں اپنے جسم میں کمزوری محسوس کررہا ہوں“ میں نے عرض کی:” باباجان خدا نہ کرے جو آپ میں کمزوری آئے“ آپ نے فرمایا:”اے فاطمہ(ع)! مجھے ایک یمنی چادر لاکر اوڑھا دو“ تب میں یمنی چادر لے آئی اور میں نے وہ بابا جان کو اوڑھادی اور میں دیکھ رہی تھی کہ آپکاچہرہ مبارک چمک رہا ہے جس طرح چودھویں رات کو چاند پوری طرح چمک رہا ہو ، پھر ایک ساعت ہی گزری تھی کہ میرے بیٹے حسن(ع) وہاں آگئے اور وہ بولے سلام ہو آپ پر اے والدہ محترمہ(ع)! میں نے کہا اور تم پر سلام ہو اے میری آنکھ کے تارے اور میرے دل کے ٹکڑے۔ وہ کہنے لگے امی جان(ع) ! میں آپکے ہاں پاکیزہ خوشبو محسوس کر رہا ہوں جیسے وہ میرے نانا جان رسول خدا کی خوشبو ہو۔ میں نے کہا ہاں وہ تمہارے نانا جان چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ اس پر حسن(ع) چادر کی طرف بڑھے اور کہا سلا م ہو آپ پر اے نانا جان، اے خدا کے رسول! کیا مجھے اجازت ہے کہ آپ کے پاس چادر میں آجاؤں؟ آپ نے فرمایا تم پر بھی سلام ہو اے میرے بیٹے اور اے میرے حوض کے مالک میں تمہیں اجازت دیتا ہوں پس حسن(ع) آپکے ساتھ چادر میں پہنچ گئے پھر ایک ساعت ہی گزری ہوگی کہ میرے بیٹے حسین(ع) بھی وہاں آگئے اورکہنے لگے: سلام ہو آپ پر اے والدہ محترمہ(ع)۔ تب میں نے کہا اور تم پربھی سلام ہو اے میرے بیٹے، میرے آنکھ کے تارے اور میرے لخت جگر۔ اس پردہ مجھ سے کہنے لگے:امی جان(ع)! میں آپ کے ہاں پاکیزہ خوشبو محسوس کررہا ہوں جیسے میرے نانا جان رسول خدا کی خوشبو ہو۔ میں نے کہا: ہاں تمہارے نانا جان اور بھائی جان اس چادرمیں ہیں۔ پس حسین(ع) چادر کے نزدیک آئے اور بولے: سلام ہو آپ پر اے نانا جان! سلام ہو آپ پر اے وہ نبی جسے خدانے منتخب کیا ہے۔ کیا مجھے اجازت ہے کہ آپ دونوں کیساتھ چادر میں داخل ہوجاؤں؟ آپ نے فرمایا اور تم پر بھی سلام ہو اے میرے بیٹے اوراے میری امت کی شفاعت کرنے والے ہیں۔ تمہیں اجازت دیتا ہوں ۔ تب حسین(ع) ان دونوں کے پاس چادر میں چلے گئے اس کے بعد ابوالحسن(ع) علی بن ابیطالب(ع) بھی وہاں آگئے اور بولے سلام ہو آپ پر اے رسول خدا کی دختر! میں نے کہا آپ پر بھی سلام ہو اے اورابولحسن (ع)، اے مومنوں کے امیر وہ کہنے لگے اے فاطمہ(ع)! میں آپ کے ہاں پاکیزہ خوشبو محسوس کر رہا ہوں جیسے میرے برادر اور میرے چچا زاد ،رسول خدا کی خوشبو ہو میں نے جواب دیا ہاں وہ آپ کے دونوں بیٹوں سمیت چادر کے اندر ہیں پھر علی چادر(ع) کے قریب ہوئے اور کہا سلام ہوآپ پر اے خدا کے رسول۔ کیا مجھے اجازت ہے کہ میں بھی آپ تینوں کے پاس چادر میں آجاؤں؟ آپ نے ان سے کہا اور تم پر بھی سلام ہو، اے میرے بھائی، میرے ،قائم مقام ،میرے جانشین اور میرے علم بردار میں تمہیں اجازت دیتا ہوں ۔پس علی(ع) بھی چادر میں پہنچ گئے ۔ پھر میں چادر کے نزدیک آئی اور میں نے کہا: سلام ہو آپ پر اے بابا جان، اے خدا کے رسول کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ کے پاس چادر میں آجاؤں؟ آپ نے فرمایا: اور تم پر بھی سلام ہو میری بیٹی اور میری پارہ اے جگر، میں نے تمہیں اجازت دی تب میں بھی چادر میں داخل ہوگئی۔ جب ہم سب چادر میں اکٹھے ہوگئے تو میرے والد گرامی رسول الله نے چادر کے دونوں کنارے پکڑے اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: اے خدا! یقیناً یہ ہیں میرے اہل بیت(ع) ، میرے خاص لوگ، اور میرے حامی،ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے جو انہیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انہیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے ۔ جو ان سے لڑے میں بھی اس سے لڑوں گا جو ان سے صلح رکھے میں بھی اس سے صلح رکھوں گا، میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمت اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے اور ان کیلئے قرار دے، ان سے ناپاکی کو دور رکھ، انکو پاک کر، بہت ہی پاک اس پر خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: اے میرے فرشتو اور اے آسمان میں رہنے والو بے شک میں نے یہ مضبوط آسمان پیدا نہیں کیا اور نہ پھیلی ہوئی زمین، نہ چمکتا ہوا چاند، نہ روشن تر سورج، نہ گھومتے ہوئے سیارے، نہ تھلکتا ہوا سمندر اور نہ تیرتی ہوئی کشتی، مگر یہ سب چیزیں ان پانچ نفوس کی محبت میں پیدا کی ہیں جو اس چادر کے نیچے ہیں۔ اس پر جبرائیل(ع) امین نے پوچھا اے پروردگار! اس چادر میں کون لوگ ہیں؟ خدائے عز وجل نے فرمایاکہ وہ نبی کے اہلب(ع)یت اور رسالت کا خزینہ ہیں۔ یہ فاطمہ(ع) اور ان کے بابا، ان کے شوہر(ع)، اور ان کے دو بیٹے(ع) ہیں۔ تب جبرئیل(ع) نے کہااے پروردگار! کیا مجھے اجازت ہے کہ زمین پر اتر جاؤں تا کہ ان میں شامل ہوکر چھٹا فردبن جاؤں؟ خدائے تعالیٰ نے فرمایا: ہاں ہم نے تجھے اجازت دی، پس جبرئیل امین زمین پر اتر آئے اور عرض کی: سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول! خدا ئے بلند و برتر آپ کو سلام کہتا ہے، آپ کو درود اور بزرگواری سے خاص کرتا ہے، اور آپ سے کہتا ہے مجھے اپنے عزت و جلال کی قسم کہ بے شک میں نے نہیں پیدا کیا مضبوط آسمان اور نہ پھیلی ہوئی زمین، نہ چمکتا ہوا چاند، نہ روشن تر سورج نہ گھومتے ہوئے سیارے، نہ تھلکتا ہوا سمندر اور نہ تیرتی ہوئی کشتی مگر سب چیزیں تم پانچوں کی محبت میں پیدا کی ہیں اور خدا نے مجھے اجازت دی ہے کہ آپ کے ساتھ چادر میں داخل ہو جاؤں تو اے خدا کے رسول کیا آپ بھی اجازت دیتے ہیں؟ تب رسول خدا نے فرمایاباباجان سے کہا کہ یقیناً کہ تم پر بھی سلام ہو اے خدا کی وحی کے امین(ع)! ہاں میں تجھے اجازت دیتا ہوں پھر جبرائیل (ع)بھی ہمارے ساتھ چادر میں داخل ہوگئے اور میرے خدا آپ لوگوں کو وحی بھیجتا اور کہتا ہے واقعی خدا نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ لوگوں سے ناپاکی کو دور کرے اے اہل بیت(ع) اور آپ کو پاک و پاکیزہ رکھے تب علی(ع) نے میرے باباجان سے کہا:اے خدا کے رسول مجھے بتایئے کہ ہم لوگوں کا اس چادر کے اندر آجانا خدا کے ہاں کیا فضیلت رکھتا ہے؟ تب حضرت رسول خدا نے فرمایا اس خدا کی قسم جس نے مجھے سچا نبی بنایااور لوگوں کی نجات کی خاطر مجھے رسالت کے لیے چنا۔ اہل زمین کی محفلوں میں سے جس محفل میں ہماری یہ حدیث بیان کی جائے گی اور اسمیں ہمارے شیعہ اوردوست دار جمع ہونگے تو ان پر خدا کی رحمت نازل ہوگی فرشتے ان کو حلقے میں لے لیں گے اور جب تک وہ لوگ محفل سے رخصت نہ ہونگے وہ ان کے لیے بخشش کی دعا کریں گے۔ اس پر علی(ع) بولے: خدا کی قسم ہم کامیاب ہوگئے اور رب کعبہ کی قسم ہمارے شیعہ بھی کامیاب ہوں گے تب حضرت رسول نے دوبارہ فرمایا:اے علی(ع) اس خدا کی قسم جس نے مجھے سچا نبی بنایا اور لوگوں کی نجات کی خاطر مجھے رسالت کے لیے چنا، اہل زمین کی محفلوں میں سے جس محفل میں ہماری یہ حدیث بیان کی جائے گی اور اس میں ہمارے شیعہ اور دوستدار جمع ہوں گے تو ان میں جو کوئی دکھی ہوگا خدا اس کا دکھ دور کر دے گا جو کوئی غمز دہ ہوگا، خدا اس کو غم سے چھٹکارا دے گا، جو کوئی حاجت مند ہوگا خدا اس کی حاجت پوری کرے گا تب علی(ع) کہنے لگے بخدا ہم نے کامیابی اور برکت پائی اور رب کعبہ کی قسم کہ اسی طرح ہمارے شیعہ بھی دنیا و آخرت میں کامیاب و سعادت مند ہوں گے۔
دیدگاهتان را بنویسید