تازہ ترین

انسان کی آزادی و اختیار

خداوند متعال کی حکمت کاتقاضا ہے کہ کائنات کی خلقت با ہدف اور بامقصد ہو کیونکہ فاعل حکیم سے کسی بھی فعل کاکسی مقصداورمعقول ہدف کےبغیر سرزد ہونا محال ہے۔قرآن مجید کی آیتوں سےیہ بات واضح طور پر ثابت ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَ الْأَرْضَ وَ مَا بَيْنهَمَا لَاعِبِين}1اور ہم نے آسمان ،زمین اور ان کے درمیان کی تما م چیزوں کو کھیل تماشے کے لئے نہیں بنایاہے ۔{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَ الْأَرْضَ وَ مَا بَيْنهَمَا بَاطِلا}2اور ہم نےآسمان ،زمین اوران دونوں کے درمیان کی مخلوقات کو بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔

شئیر
34 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5631

مذکورہ آیات نیز ان سے مشابہ آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نےکائنات کو بیہودہ خلق نہیں کیا ہے بلکہ کائنات کی تخلیق حکیمانہ طور پر ہوئی ہے ۔ قرآن کریم کی بعض آیتوں میں صراحتا بیان ہوا ہے کہ کائنات کی خلقت انسانوں کے لئے ہوئی ہے جیساکہ ارشاد ہوتاہے : {هُوَ الَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فىِ الْأَرْضِ جَمِيعًا}3خدا وہ ہے جس نے زمین کے اندرموجود تمام ذخیروں کوتم ہی لوگوں کے لئےپیدا کیا ہے جب کہ انسان کی خلقت کا مقصد آخرت ہے ۔ جیساکہ ارشاد ہوتاہے :{أَ فَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَ أَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُون}4کیا تم نےیہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں بیکارپیدا کیا ہےاورتم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائےجاوٴ گے؟جبکہ کمال مطلوب، خدا کی عبادت و بندگی کے نتیجے میں حاصل ہوتاہے:{وَ مَا خَلَقْتُ الجْنَّ وَ الْانسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون}5میں نے جنات اور انسانوں کوصرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔
خداوند متعال کی حکمت اور عدل کا تقاضا ہے کہ انسان پرجن کاموں کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ان میں وہ آزاد وخود مختار ہوکیونکہ انسان پر ایسے کاموں کی ذمہ داری ڈالنا جواس کی طاقت اور توان سے باہر ہو ،غلط ہے جیساکہ کسی کو ایسے کام کی سزا دینا جس کے ترک کرنے پر وہ قادر نہ ہو۔ یہ سزا دینےکے معاملے میں عدل خداوند ی کے ساتھ منافات رکھتا ہے ۔قرآن کریم اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے :{إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا}6یقینا ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے۔ چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا بن جائے ۔ انسان شکر گذار بنے یا کفران نعمت کرنےوالا یہ انسان کے آزاد و خود مختار ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام ان لوگوں کے غلط تصور کے بارے میں جو قضا وقدر الہیٰ کو مستلزم جبر قرار دیتے تھے ،فرماتے ہیں :{ و لو کان کذلک لبطل الثواب والعقاب،والامروالنهی، ولسقط معنی الوعدوالوعید}7اگر انسان کوکسی کام پر مجبور کیاجائے تو اس صورت میں امر و نہی، وعد و عید اور جزا و سزا سب بے معنی ہو کر رہ جائیں گے ۔
کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےپوچھا : کیا خدا نے انسان کو مختلف کاموں پر مجبور کیا ہے ؟امام ؑنے فرمایا:خداوند متعال عادل ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی شخص کو کسی کام پر مجبور کرے پھراسے اس کی سزا بھی دے ۔8
انسان کے مختار ہونے کو درک کرنے کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ انسان اپنے ضمیر کی مختلف حالتوں پر غور و فکر کرےنیز دیکھے کہ وہ اپنے کاموں کے بارے میں خود فیصلہ کرتا ہے کیونکہ انسان کاضمیر اس امر کی گواہی دیتاہے کہ وہ کسی کام کے انجام دینے یا ترک کرنےمیں سےکسی ایک کا انتخاب کر سکتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود وجودی لحاظ سے وہ خود مختار نہیں ہے بلکہ اپنے وجود میں محتاج ہے ۔ ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایتوں میں مذکورہ مطالب { یعنی انسان کے آزادا ور مختارہونے نیز وجودی لحاظ سے وابستہ ہونے}کی تعبیر {امر بین الامرین} سے ہوئی ہے ۔ امرین سے مراد ایک طرف سےنظریہ جبر اور دوسری طرف سے نظریہ تفویض ہیں ۔یعنی نہ انسان کے مجبور ہونے کا عقیدہ صحیح ہے اورنہ تفویض کا بلکہ صحیح نظریہ [الامربین الامرین] کا نظریہ ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{لاجبرولا تفویض بل امر بین الامرین}9نہ جبردرست ہے اور نہ تفویض بلکہ ان دو امور کے درمیان ایک تیسری چیز۔ انسان کی آزادی و اختیار ایک واضح سی حقیقت ہے جسے مختلف طریقوں سے درک کیا جا سکتا ہے ۔
الف: ہر انسان کا ضمیر و وجدان اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ وہ کسی بھی فعل کو انجام دینے یا ترک کرنے میں سے کسی ایک کو انتخاب کر سکتا ہے اوراگر کوئی شخص اس واضح و مسلم ادراک کے بارے میں بھی شک و شبہ کرے تواسے کسی بھی واضح حقیقت کو قبول نہیں کرنا چاہیے ۔
ب:انسانی معاشرے میں مختلف افراد کے سلسلے میں کی جانی والی تعریف و تمجید یا ملامت و مذمت {دینی و غیر دینی} اس بات کی دلیل ہے کہ تعریف یا مذمت کرنے والا شخص فاعل کو اس کے افعال میں مختار جانتاہے ۔اگر وہ کسی کام پر مجبور ہو تو تعریف اور مذمت کرنے کاکوئی معنی نہیں بنتا۔
ج: اگر انسان کی آزادی و اختیار کی حقیقت کونظرانداز کیا جائے توشریعت کا نظام بیہودہ و بے ثمر ہو گا کیونکہ اگر انسان اس امر پر مجبور ہو کر وہ اس راہ پر چلے جواس کے لئے قبل از وقت معین ہو چکی ہے اور اس سے ذرہ برابر تجاوز اور خلاف ورزی نہیں کر سکتا تو اس صورت میں امر و نہی،وعد ووعید اور جزا و سزا سب بے معنی ہو کر رہ جائیں گے ۔
د:تاریخ انسانیت میں ہمیں ایسے انسان ملتےہیں جنہوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی معاشرے کی اصلاح کے لئے جدوجہد کی ہے اور اس کے نتائج بھی حاصل کئے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ امر انسان کے مجبور ہونے کے ساتھ موافقت نہیں رکھتا ،کیونکہ جبر کی صورت میں یہ ساری جد و جہد بیہودہ و بیکار ہوں گے ۔بنابریں انسان ہر کام اپنے اختیارو ارادہ کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ 10
لغت میں قضاحتمیت و قطعیت اور قدر اندازہ و مقدارکے معنی میں ہے ۔11قضا وقدر اسلام کے قطعی اور ناقابل تنسیخ عقائد میں سےایک ہے جس کاذکر قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ آیا ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :{إِنَّا كلُ‏ شىَ‏ءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَر}12بےشک ہم نے ہر شئے کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے ۔
کبھی یہ خیال کیا جاتاہے کہ قضاو قدرپر عقیدہ رکھنا انسان کے مختار و آزاد ہونے کے ساتھ منافات رکھتاہے لیکن اس مسئلے پر غور وفکر کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ قضا و قدر کا لازمہ انسان کا مجبور ہونا نہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ انسان کا مختار و آزادہونا خود قضا وقدر کی تجلی ہے کیونکہ قدر الہیٰ یہی ہے کہ وہ ہر موجود کو کچھ خاص شرائط اور اندازے کے ساتھ خلق کرتا ہے جبکہ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں کے انتخاب اور انجام دینے میں آزاد ومختار ہے ۔قرآن کریم اس بارےمیں ارشاد فرماتا ہے:{وَ الَّذِى قَدَّرَ فَهَدَى}13جس نے تقدیر معین کی اور پھر ہدایت دی”۔ یعنی تقدیر الہیٰ کا لازمہ ہدایت ہے اور انسان ہدایت تکوینی کے علاوہ ہدایت تشریعی کا بھی حامل ہے جبکہ ہدایت تشریعی کی بنیاد انسان کے مختار اور آزاد ہونے پر ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا}14یقینا ہم نےاسے راستے کی نشاندہی کی ہے چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والابن جائے ۔
قضائےالہیٰ سے مراد یہ ہے کہ کائنات پر کچھ اٹل ،ناقابل تغییراور قطعی قوانین حاکم ہیں جبکہ انسان کی زندگی پر حاکم دائمی اور حتمی نظام یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں اپنے علم وارادےسے انجام دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جب انسان کسی کام کے کرنے کےبارےمیں قطعی فیصلہ کرتا ہےاور اس حوالےسےکوئی مانع بھی نہ ہوتو وہ کام حتما انجام پاتا ہے۔لہذا یہ قطعیت انسان کےاپنےاختیار سے وجود میں آئی ہے جو کسی بھی طریقے سے قضاکے ساتھ منافات نہیں رکھتی ۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:قدر کے معنی کسی چیز کا بقاء و فنا کے لحاظ سے اندازہ کرنا ہے اور قضا سےمرادکسی چیز کی قطعیت و حقیقت حاصل ہونا ہے ۔15
مذکورہ مباحث سے واضح ہوا کہ علم ازلی اور ارادہ ازلی دونوں قدرت و خالقیت الہیٰ کی طرح کسی بھی طریقے سے انسان کےمختار ہونےکے ساتھ منافات نہیں رکھتے۔کیونکہ خدا کا ازلی ارادہ اور علم،انسان کے ان افعال سے تعلق پیدا کرتےہیں جنہیں وہ اپنی مرضی سے انجام دیتا ہے ۔خداوند متعال کی خالقیت و قدرت حکیمانہ و عادلانہ ہیں جو کبھی بھی انسان کے اختیاری نظام کو تبدیل نہیں کرتیں کیونکہ یہ عدل و حکمت الہیٰ کے مطابق ہے ۔ قضا وقدر اور ان جیسے مسائل کی جزئیات کی وضاحت ان افراد کےلئے جو ایسے سخت مسائل کو درک کرنےیاسمجھنے کی صلاحیت وقدرت نہیں رکھتے، ضروری نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایسےافراد اپنےعقیدے کے بارے میں غلط فہمی اور شک و تردید سے دوچار ہوجائیں ۔اسی بناپر حضرت علی علیہ السلام ایسےافراد سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :{طریق مظلم فلا تسلکوه ،وبحرعمیق فلا تلجوه وسر الله فلاتتکلفوه}یہ ایک تاریک راستہ ہے اس پر نہ چلیں،یہ ایک عمیق سمند ر ہے اس میں غوطہ زن نہ ہو جائے یہ ایک سرالہی ہے اسے کشف کرنے کے لئے اپنےآپ کو زحمت میں نہ ڈالے ۔16
حوالہ جات:
۱۔انبیاء ،16۔
۲۔ص،27۔
۳۔بقرۃ،29۔
۴۔مومنون،115۔
۵۔ذاریات،56۔
۶۔انسان،3۔
۷۔توحید شیخ صدوق ،باب قضاوقدر ،روایت 28۔
۸۔توحیدشیخ صدوق ،باب نفی جبر و تفویض،روایت 6۔
۹۔بحار الانوار ،ج5،ص57۔
۱۰۔جعفر سبحانی ،عقائد امامیہ ،ص 151۔
۱۱۔مقائیس اللغۃ ج2 ص63۔مفردات راغب ،مادہ قضا و قدر۔
۱۲۔قمر،49۔
۱۴۔اعلی ، 3۔
۱۵۔انسان،3۔
۱۶۔اصول کافی،ج1،ص 158۔
۱۷۔نہج البلاغۃ،کلمات قصار،287۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *