تازہ ترین

 حضرت فاطمه سلام الله علیها کے نمایان صفات اور کمالات

دفاع ولاىت کى راه مىں جو قربانىاں آپ نے دى هے وه تارىخ مىں کسى سے پوشىده نهىں هے اس راه مىں آپ نے نه فقط ولاىت کا بلکه ولى خدا کا بھى دفاع کىا
شئیر
62 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5671

اگر ہم فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اپنی زندگی کے لئے نمونہ اور  اسوہ قرار دیتے ہیں  اور اس کے مطابق اپنی طرز زندگی کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں تو ، ہمیں ان کی زندگی کی تفصیلات اور اس کی اخلاقی خصوصیات ، کمالات ، اقدامات اور حتی کہ اس کے رد عمل سے بھی آگاہ ہونا چاہئے۔  آج کے اس پر آشوب دور میں ضروری ہے کہ اس شخصیت  کے مختلف  صفات اورکمالات کو  بیان کیا جائے  ،  زندگی کے مختلف   پہلووں  پر روشنی ڈالی جائے تا کہ اس پر عمل کر کے مادی و معنوی کمالات کو حاصل کرسکے ۔قرآن مجید اور مستند روایتوں کے ذریعے سے ، ہم ان کی طرز زندگی  ، ان کی سیرت کو حاصل کرسکتے ہیں ۔

اسلام  مىں خواتىن کا مقام اور کردار
اسلام نے شروع هى سے نظرىاتى اور عملى دونوں اعتبار سے خواتىن کو جس مقام اور منزلت سے نوازا هے اس کا احاطه نهىں کىا جاسکتا کمالات معنوى اور درجات کمالى کے حصول مىں مرد اور عورت دونوں صفات الهى کے مظهر بن سکتے هىں مقالے کى تنگدامنى کے پىش نظرخواتىن کے مقام ومنزلت اور معاشرے مىں ان کے کردار کے بارے مىں کچھ نکات ىهاں پىش کئے جاتے هىں:

الف۔ خدا کے تذکرے کے ساتھ خواتىن کا تذکره
قرآنى متعدد آىات  مىں جهاں خدا کى عبادت ٬شکراور ىادآورى کا تذکره  هواهے  ساتھ  خواتین کابھى تذکره هواهے ۔لارىب ذات کے ساتھ مختلف زواىے سے ماؤں کا بھى  تذکره  هونا اس بات کى دلىل هے که خواتىن کا مقام اسلام مىں غىرمعمولى هے۔قرآن  نے انسان کى خلقت کا فلسفه ،عبادت قرار دىا هے۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون  (ذارىات،  56) ؛ اور مىں نے جن وانس کو خلق نهىں کىا مگر ىه که وه مىرى عبادت کرىں ۔کلمه (الا) کے ذرىعے خلقت کا مقصد صرف عبادت پر منحصر کردىا گىا هے ىعنى انسان کى تمام سرگرمىاں صرف الله کى عبادت پر منحصر هوں اىک بار پھر سوره بنى اسرائىل مىں اس مطلب کى تاکىد هوتى هے که   انسان فقط اور فقط الله کى عبادت کرے لىکن ىهاں  الله کے ساتھ جس هستى کا تذکره کىا که انسان اس کے سامنے  کس طرح سے پىش آنا چاهئے  اس مىں ماں کا تذکره ملتا هے  جهاں خدا کى اطاعت مقصد خلقت هے وهاں  ماؤں کے ساتھ حسن سلوک بھى مقصد خلقت قرار پاىا هے کىونکه ىه بھى عىن اطاعت هے  اگرعظمت  مقام خدا کا لازمه  پرستش هے تو  عظمت مقام ماں  کا لازمه حسن سلوک  هے۔

وَقَضى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْااِلَّااِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْن ِاِحْسَانًااِمَّا  يَبْلُغَنّ َعِنْدَكَ الْكِبَرَاَحَدُهُمَااَوْکلاهُمَافَلَا تَـقُلْ لَّهُمَا اُفٍّ وَّلَاتَنْهَرْهُمَاوَقُلْ لَّهُمَاقَوْلًا كَرِيْمًا ؛ (بنی اسرائیل 23)

تیرے رب نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو سوائے خدا کے اور  والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔ اگر تمہاری زندگی میں  ان میں سے کوئی ایک ، یا دونوں ، بوڑھے ہو جائىں  تو انہیں اُف تک نہ کہو نه هی جھڑکى دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ پىش آو۔

ب۔ عظىم هستىوں کے تذکرے کے ساتھ خواتىن  کا تذکره
کائنات کى اس دھرتى پر کچھ هستىاں اىسى هىں جن کو خصوصى طور پر خالق کى طرف سے رسالت اور نبوت کا عظىم مقام  عطاکىا گىا  ان مىں سر فهرست انبىاء الهى هىں ان پاک هستىوں نے  خدا کى طرف سے معاشره سازى کا هدف لىکر  پخته عزم  کے ساتھ اس دھرتى پر   قدم رکھا  اور جهاں اس تحرىک کى کامىابى مىں انبىاء علىهم السلام پىش قدم هىں وهاں خواتىن  بھى نظر آتى هىں ازواج کى اهمىت ان کے کردار کے پىش نظر خدا کى نگاه مىں اهم تھى لهذا انبىاء کے ساتھ ان کا بھى تذکره هوتا هے ۔ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا؛ (رعد38)

تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے ازواج سے نوازا۔

ج۔ صاحبان عزم هستىاں اور خواتىن کى همراهى
نبىوں مىں کچھ اىسے نبى بھى هىں  جن کو خاص  منزلت حاصل هے جنهىں انبىائے  اولوالعزم کے نام سے  ىاد کىا جاتا هے ان کا مقام اور کردار دونوں خاص اهمىت کے حامل هىں۔ انبیاء کے ساتھ اور  ان بے مثال هستىوں کے ضمن مىں  خواتىن کا  تذکره کىا جانا ان کى عظىم حىثىت اور اونچى منزلت کى  واضح دلىل هے۔ حضرت حوا٬حضرت هاجره٬حضرت موسى علىه السلام  کى ماں٬بهن اور همسر ٬ حضرت مرىم٬  حضرت بلقىس سلام الله علىهم اور  اسى طرح حضرت  خدىجه٬حضرت زهرا سلام الله علىهما اور دىگر خواتىن کا اسلامى تعلىمات مىں اىک خاص حىثىت کےساتھ ذکر هونا اس بات کى دلىل هے که خواتىن کا مقام ومرتبه نهاىت اهم اور نماىاں هے۔

حضرت فاطمہ  کی  پرورش اور تربیت
معاشرے مىں شخصىتوں کا غم زىاده زىاده چند هى دنوں کے لئے مناىا جاتا هے اىرانى معاشرے مىں جب  امام خمینی کا انتقال هوا تو ایرانی قوم نے ملکی سطح پر چالىس دن سوگ کا اعلان کىا جب که چوده سو سال پهلے حضرت خدىجه سلام الله علىها کا انتقال هوا هے تو کائنات کى سب سے بڑى  هستى جس کا وجود کائنات کے لئے خوشى اور سکون کا باعث هے ان  کى وفات پر آپ نے اس سال کو عام الحزن قرار دىا ۔اور اسى نام سے تارىخ اسلام مىں همىشه کے لئے ثبت کردىا گىا۔

حضرت خدىجه کو  اىک خاص کىفىت کے ساتھ آپ ىاد کرتے تھے  اس طرح سے ىاد  کرنا اس بات کى روشن  دلىل هےکه  آپ کو اس بات کا علم تھا که انسانى تارىخ   کى بے مثال معاشره سازى   کى تحرىک کے آگے بڑھنے مىں جو حضرت خدىجه کا کردار نماىاں تھا وه ان کے بعد ناقابل جبران هے ام سلمه فرماتى هے :

فلماذكرناخديجة بكى رسول الله ثم قال: خديجة  وأين مثل خديجة، صدقتني حين كذَّبني الناس ووازرتني على دين الله و أعانتني عليه بما لها؛ (ابوالحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح اربلی،كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط – القديمة) ، ج‏1 ، 360)

جب بھى هم حضرت خدىجه کو ىاد کرتے تھےتو  رسول خدا روتے هوئے  فرماتے تھے:خدىجه ٬کهاں هے خدىجه کى طرح ؟ خدىجه وه هے جس نےمىرى اس حالت مىں تصدىق کى جب سب مجھے جھٹلارهے تھے اور جب سب  چھوڑرهے تھے تو اىسے مىں خدىجه نے اپنے مال سے مىرى مدد کى ۔زهرا سلام الله علىها کے نور قدسى کى پرورش اور تربىت کى خاطر شاىسته اور باکمال ظرف بننے کے لئے نگاه قدسى کو جناب خدىجه کے علاوه کائنات مىں کوئى دوسرى خاتون نظر نه آئى که اس پاک رحم مىں جناب زهرا مرضىه سلام الله علىها کے مادى مراحل کے رشد پانے کا سلسله انجام پائے  اور سنت الهى کے مراحل طے کرنے کے بعد معاشرے مىں قدم رکھے تاکه بعد مىں اىک بىٹى٬بىوى اور  ماں کى حىثىت سے معاشرے مىں نماىاں کردار ادا کرے حضرت خدىجه کى آغوش کو تربىت گاه بننے کى توفىق هوئى که جهاں حضرت زهرا کى تربىت هوجائے اور ان کے توسط سے  معاشرے مىں اىسے پاک ٬ معصوم اور تربىت ىافته هستىاں قدم رکھے جن کے هاتھوں قىامت تک کے لئے معاشره سازى کى باگ ڈور هو۔قرآنى طرز زندگى کے تحقق مىں خواتىن کے کردار کے ثبوت کے لئے صرف حضرت خدىجه سلام الله کى زندگى کافى اور بهترىن نمونه هے ۔ وجود حضرت خدىجه باعث بنتا هے که اىک طرف سے رسالت الهى کى تصدىق اور حماىت کرے تاکه  دىن کى تاسىس اور تشهىر هوجائے تو دوسرى طرف سے دىن اورتعلىمات دىن کو ابدىت بخشنے اور دشمنوں کى دشمنىوں سے بچانے کے لئےمدافعان اور محافظان دىن الهى کا بند وبست وجود زهرا اور اولاد زهرا کے ذرىعے کرے ۔حضرت  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  جنت کی سبھی عورتوں کی سردار ہیں اور آپ    نہ صرف عورتوں کے  لئے بلکہ تمام بشریت کے لئے   الگو ، اسوہ اور رول ماڈل ہیں۔ آپ  میں بہت بے شمار خصوصیات اور کمالات پائے  جاتے ہیں ۔ آج کے اس پر آشوب دور میں ضروری ہے کہ اس شخصیت کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف  صفات اورکمالات کو  بیان کیا جائے  ،  زندگی کے مختلف   پہلووں  پر روشنی ڈالی جائے  تا کہ اولادِ آدم آپ کی سیرت کو بطریقِ احسن سمجھ کر اس پر عمل کر کے مادی و معنوی کمالات کو حاصل کرسکے۔  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  میں بے شمار صفات اور کمالات  پائے جاتے ہیں  یہاں پر  آپ کے بعض صفات اور کمالات بیان  کئے جاتے هىں:

مددگار اور مدافع ولایت
خواتىن کےکردار کى اهمىت کے لئے اتنا کافى هے جب مولا سے پوچھا گىا که آپ نے حضرت زهرا سلام  الله علىها کوکىسے پاىا تو فرماىا:

نعم العون علی طاعه الله۔( القاضي السيّد ناصح الدين أبو الفتح عبد الواحد محمّد ابن المحفوظ، ابن‏ عبد الواحد، التميمي الآمدي‏، تصنيف غرر الحكم و درر الكلم ، ص320)

فاطمہ بہترین  مددگار ہے اطاعت خدا کی راہ میں ۔طاعت  خدا سىروسلوک کا وه عظىم سفر هے جس کى لمبائى ٬ چوڑائى اور گهرائى کو مادى ترازو اور پىمانے  مىں نهىں ناپا اور تولا جاسکتا هے اس کى بلندىوں کى طرف پرواز کرنے کے لئے جن دو پروں کى ضرورت هىں ان مىں سے اىک عورت هے مولا نے فرماىا :نعم العون على طاعه الله ۔

دفاع ولاىت کى راه مىں جو قربانىاں آپ نے دى هے وه تارىخ مىں کسى سے پوشىده نهىں هے اس راه مىں آپ نے نه فقط ولاىت کا بلکه ولى خدا کا بھى دفاع کىا اس راه مىں آىه لن تنالوالبر حتى تنفقوا مما تحبون(آل عمران 92)

پر عمل کرتے هوئے اپنى جوانى اور جان بھى گنوادى  ۔ لهذا تارىخ گواه هے که اس مددگار  کى جدائى نے نفس نبى  کو بھى اپنے فراق مىں  سوگوار اورمغموم بناىا ۔

شوہر کی  عزت  اور اطاعت 
حضرت على او رحضرت زهرا سلام الله علىهما کے وجود مبارک نے اىک اىسا خوشگوار گھرىلو ماحول پىش کىا جو منه بولتا عملى قرآن تھا جس مىں خوشى٬ صداقت٬ امانت٬ دکھ درد مىں شرىک  اور عىن قرآنى  تعلىمات کے مطابق زندگى بسر کرنے کے سوا کچھ نظر نهىں آتاهے۔ سوره هل اتى اس بات کى گواهى دىتاهے۔

وَ يُطْعِمُونَ‏الطَّعامَ‏ عَلى‏ حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً (انسان ، 8)

گھرىلو زندگى مىں ان هستىوں نے وه کردارپىش کىا جس مىں خدا کى راه مىں روزه رکھنے ٬ انعام دىنے ٬غرىبوں کى مدد کرنے اور اىثار کے سوا کچھ نظر نهىں آتا۔

حضرت علی علیه السلام نے فرمایا :وَلَقَدْ کنْتُ أَنْظُرُ إِلَیْهَا فَتَنْکشِفُ عَنِّی الْهُمُومُ وَالْأَحْزَان ۔( مجلسی، بحار الانوار ، ج 43، ص 134۹ )

فاطمہ ایسی خاتون تھی   کہ جب بھی میں اس کی طرف دیکھتاتھا  میرے سارے دکھ اور غم دور ہوجاتے تھے ۔ حضرت على علىه السلام فرماتے هىں:

فوالله ما اغضبتها ولااکرهتها علی امر حتی قبضها الله ولا اغضبتنی ولا عَصَت لی امرا ولقد کنتُ انظرالْْيها فتنکشفُ عنّی الهموم والاحزان۔( ابوالحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح اربلی،كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط – القديمة) ، ج‏1 / 363  ؛ شيخ عباس قمي ، بيت الاحزان، ص44)

خدا کى قسم کبھى بھى مىں نے فاطمه کو ناراض کىا هے اورنه کبھى کسى کام پر مجبور کىا هےىهاں تک که خدا سے جاملے اور اسى طرح فاطمه نے بھى  مجھے ناراض نهىں کىا هے نه مىرى کسى کام مىں مخالفت کى هے جب بھى ان کى طرف دىکھتا تھا غم واندوه کے پهاڑ مجھ سے ٹل جاتے تھے۔

کچھ اسى طرح کى عبارت حضرت زهرا سلام الله علىها کى طرف سے بھى ہے  جس مىں آپ فرماتى هىں:

ثُمَّ قَالَتْ يَا ابْنَ عَمِّ مَا عَهِدْتَنِي كَاذِبَةً وَ لَا خَائِنَةً وَ لَا خَالَفْتُكَ مُنْذُ عَاشَرْتَنِي فَقَالَ ع مَعَاذَ اللَّهِ أَنْتِ أَعْلَمُ بِاللَّهِ وَ أَبَرُّ وَ أَتْقَى وَ أَكْرَمُ وَ أَشَدُّ خَوْفاً مِنَ اللَّهِ أَنْ أُوَبِّخَكِ غَداً بِمُخَالَفَتِي‏ فَقَدْ عَزَّ عَلَيَّ بِمُفَارَقَتِكِ وَ بِفَقْدِكِ إِلَّا أَنَّهُ أَمْرٌ لَا بُدَّ مِنْهُ وَ اللَّهُ جَدَّدَ عَلَيَّ مُصِيبَةَ رَسُولِ اللَّهِ (محمد بن احمدفتال نيسابوري، روضه الواعظين، : انتشارات رضى‏،مكان چاپ ايران؛،قم‏، 1375 ش‏،چاپ ا ول‏،ص151)

ىا على زندگى کے اس  دوران نه  کبھى  مىں نے آپ سے جھوٹ  بولا  هے او رنه کبھى مىں نے جان بوجھ کر  خىانت کى هےاور نه  مىں نے کبھى آپ کى مخالفت کى هے جب حضرت زهرا سلام الله علىها نے حلالىت طلب کى تو مولا نے فرماىا:پناه برخدا اے زهرا آپ کى ذات نىک ترىن٬پرهىزگا رترىن ٬کرامت ترىن اورخشىت خدا سے لبرىزتھى کس طرح سے ممکن هے که آپ سے خطا سرزد هوجائےىا زهرا آپ کى جدائى مىرے لئے بهت بڑا صدمه اورناقابل برداشت هے۔حضرت على اور حضرت زهرا سلام الله علىهما کى زندگى کے بارے مىں مولا امام صادق علىه السلام  فرماتے هىں:

کان اميرالمومنين يحتطب ويسقی ويکنِسُ وکانت فاطمه تَطحَنُ وتَعجِنُ وتَخبُزُ  (كليني ، كافي ،ج5،ص86)

روز کا معمول ىه تھا که  لکڑى لانا٬ جاڑو دىنا  اور پانى فراهم کرنا حضرت على علىه السلام  کے ذمه تھے جب که آٹا گوندنا٬خمىربنانا اور تندور مىں روٹى پکا نا حضرت زهرا سلام الله علىها کى ذمه دارى تھى ۔

فقر اورتنگدستی میں زهرا کا  صبراورتحمل
شادی سے شهادت تک کے اس عرصے مىں بهت سے اىسے دن زهرا سلام الله علىها نے دىکھىں  که جن  مىں بھوک اور پىاس کو شدت سے محسوس کىا اس کے باوجود آپ نے کبھى بھى  شکاىت نهىں  کى هے جب حضرت على علىه السلام نے  پوچھا ىا زهرا چند دنوں سے گھر مىں چولهے نهىں جلے هىں اور آپ نے  بتاىا تک نهىں تو جواب مىں فرماىا: ىا على خدا سے شرم محسوس کىا اور مىرے والد گرامى نے فرماىا تھا اے زهرا خبردار على سے کوئى اىسى چىز طلب نه کرنا جس کى رسائى على کے لئے مشکل هو۔ (محمد باقر بن محمد تقى، بحار الانوار،( ط- بيروت)محقق ، مصحح: جمعى از محققان‏،  دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏، 1403 ق‏،چاپ دوم‏،ج43،ص31)

اگر قرآنى طرز زندگى کے حصول مىں خواتىن کا کردار دىکھنا هے تو زهرا کے در پر رجوع کرنا هوگا جهاں همىں قرآنى طرز زندگى کے عملى نمونے ملتے هىں۔

عبادت اور بندگی
حضرت زہرا  سلام اللہ علیہا کی ایک اور فضیلت، آپ کی عبادت ہے۔ فاطمہ کی عبادت ، مقدار کے لحاظ سے ، اس قدر وسیع ہے کہ وہ ان کی زندگی کے ہر لمحے میں نمایاں ہوتی ہے۔ اس کے کردار ، گفتار، اس کی تقریر ، اس کی نگاہیں ، اس کی کوششیں ، اس کی سانسیں عبادت تھی۔ ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی  علیہ السلام  سے پوچھا:آپ نے اپنی بیوی کو کیسے پایا؟ انہوں نے کہا: بہترین ساتھی خدا کی اطاعت (اور بندگی) میں۔ اور اس کے بعد فاطمہ سے علی کے بارے میں پوچھا۔  جواب دیا: وہ بہترین شوہر ہیں۔ ( حسینی، قاضی نورالله  ،  احقاق الحق، ج10  ،ص 401 ،طهران، مکتبة  الاسلامیة)

ایک اور روایت میں ، خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:إِنَّ ابْنَتِی فَاطِمَةَ مَلَأَ اللَّهُ قَلْبَهَا وَجَوَارِحَهَا إِیمَاناً إِلَی مُشَاشِهَا تَفَرَّغَتْ لِطَاعَةِ اللَّه   ۔ (کلینی، محمدبن یعقوب (1407ق). الکافی، ج 1 ،  ص 461،  تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دارالکتب الاسلامیه)

اللہ نے میری بیٹی فاطمہ کے دل  و جوارح کو ایمان سے بھردیا ہے اور وہ ہمیشہ اللہ کی  اطاعت میں  مشغول ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں امام حسن مجتبی علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے اپنی والدہ فاطمہ (ع) کو دیکھا  جمعہ کی رات ، وہ اپنے بستر سے علیحدہ ہو گئی ،عبادت کرنا شروع کیا اور طلوع آفتاب تک عبادت کر رہی تھی  ، اور خدا سے رار و نیاز کر رہی تھی  ، اور  اس نے ایک لمحہ کے لئے بھی رکوع اور سجود کو نہیں چھوڑا۔   (شیخ حر عاملی، محمدبن حسن ،  1409ق، وسائل الشیعة،  ج 7، ص 113  ،قم، مؤسسة آل البیت علیهم السلام)

امام حسن نے یہ بھی فرمایا: مَا کانَ فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ أَعْبَدُ مِنْ فَاطِمَةَ کانَتْ تَقُومُ حَتَّی تَوَرَّمَ قَدَمَاهَا ۔ (مجلسی، محمدباقر ، بحارالانوار، ج 43، ص 12،بیروت، داراحیاء التراث العربی)

فاطمہ سے بڑھکر دنیا میں کوئی متقی نہیں تھی۔ اس نے اتنی عبادت کی کہ اس کے مبارک پاؤں پھول گئے۔امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: کانَتْ إِذَا قَامَتْ فِی مِحْرَابِهَا زَهَرَ نُورُهَا لِأَهْلِ السَّمَاءِ کمَا یَزْهَرُ نُورُ الْکوَاکبِ لِأَهْلِ الْأَرْضِ۔ (همان، 49)

جب فاطمہ  محراب میں  پر کھڑی ہوجاتی  تھی  تو اس کا نور   آسمان والوں کو  اتنی روشنی دیتا تھا   جتنا آسمان  کے ستارے  اہل زمین کو   روشنی دیتے تھے۔

محدثہ  ہونا
شیعہ اور سنی علمائے کرام متفقہ طور پر یہ مانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے بعد محدث  تھا    مگر مصداق میں اختلاف  ہے ۔ محدث کی تعریف میں   کہتے ہیں: المحدث یسمع الصوت ولا یری شیئا (مجلسی، محمدباقر ، بحارالانوار، ج 26،ص75-76)

محدث  فرشتہ کی آواز سنتا ہے ، لیکن کچھ نہیں دیکھتا ہے۔

امام صادق (ع) نے فرمایا:  فاطمہ  سلام اللہ علیہاحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد 75 دن سے زیادہ زندہ نہیں رہی  اور  والد کی رحلت  کی وجہ سے  مغموم تھی ۔ اور جبریل  بار بار اس پر نازل ہوتے تھے اور  فاطمہ کی خدمت میں  تسلیت اور تعزیت  پیش کرتے تھے۔( بحار الانوار، ج 14، ص 206 و ج 43، ص 78)

حضرت فاطمہ  سلام اللہ علیہا  کی  زیارت میں ہم یہ بھی پڑھتے ہیں: السلام علیک ایتها المحدثه العلیمہ۔( اصول کافی، ج 1، ص 241 و بحارالانوار، ج 22، ص 546، و ج 26، ص 41) سلام ہو تم پر ، یا محدثہ ، یا عالمہ ۔

قناعت
حضرت فاطمه سلام الله علیها   قناعت  کے ساتھ سادہ زندگی گزارتی تھی   آپ اعلی سہولیات سے استفادہ کرسکتی تھی کیونکہ آپ پیغمبر کی بیٹی تھی  اور  پیغمبر اکرم نے آپ کو  باغ   فدک دیا تھا  جس کی اچھی آمدنی تھی۔ (کلینی، محمدبن یعقوب ،  الکافی،ج 2 ، ص 714 ،تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دارالکتب الاسلامیه)

اور  حضرت  علی علیہ السلام بھی کام کرتے تھے اور  آپ کو  بھی آمدنی حاصل تھی  اور اپنی بیوی اور بچوں کے لئے بہترین زندگی مہیا کرسکتے تھے لیکن حضرت علی علیہ السلام اپنی ساری آمدنی محتاجوں کے لئے صرف  کرتے تھے۔

امام باقر (ع) سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا گھر کے کاموں کو انجام دیتی تھی  اپنے  ہاتھوں سے چکی  پیستی تھی اور آٹا تیار کرتی تھی  روٹی   پکاتی تھی ، جھاڑو   دیتی تھی اور   حضرت علی علیه السلام گھر کے باہر کے امور کو انجام دیتے تھے  مثال کے طور پر لکڑیاں لانا ، گندم لانا  ، یہ چیزیں     حضرت علی علیه السلام کی ذمہ داری تھی ۔ ایک دن حضرت علی نے حضرت زہرا سے فرمایا ، کیا ہمارے پاس گھر میں کھانے کے لئے کچھ ہے؟ فاطمہ نے کہا: خدا کی قسم جس نے آپ کو عظمت عطا کی ہے  ، تین دن ہوچکے ہیں کہ ہمارے پاس کھانے  کے لئے کچھ نہیں ہے حضرت علی نے  نے فرمایا: پھر تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے متنبہ کیا ہے کہ آپ سے کچھ نہ مانگوں ، اور پیغمبر نے فرمایا کہ جب تک وہ آپ کے لئے کچھ نہ لائے  علی سے کچھ نہیں مانگنا ۔ (مجلسی، محمدباقر (1403 ق). بحارالانوار، ج43 ، ص31، بیروت، داراحیاء التراث العربی)

بچوں کی تربیت
بچوں کی تربیت کے سلسلے میں حضرت زہرا (س) اسوہ  اور  نمونہ تھیں اور ایک ماں کی ذمہ داریوں کو خوب نبھاتی تھیں۔ اولاد کی تربیت کے سلسلے میں  انسان کو مختلف نکات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ان میں سے ایک نکتہ بچوں کی فطری اور طبیعی ضروریات  ہیں   کیونکہ  بچوں کے لئے روحانی ضروریات کے ساتھ ساتھ  جسمانی ضروریات بھی  ہیں اس طرح  اولاد کی تربیت کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ اولاد کے درمیان عدالت سے کام لینا ہے  آپ کی زندگی میں یہ تمام تربیتی نکات پائے جاتے ہیں۔   ہم     اس مختصر مقالے میں دونمونے  پیش کرتے ہیں۔بچوں کی فطری اور طبیعی ضروریات میں سے ایک ضرورت کھیلنا ہے کیونکہ ان کے لیے جسمی اور فکری ورزش دونوں ضروری ہیں۔ اس لیے کہ کھیل بچوں  کی روح اور جان کو فرحت بخشتا ہے اور ان میں نشاط پیدا کرتا ہے۔ حضرت زہرا (س) جو کہ اس نکتے سے بخوبی آگاہ تھیں ، اپنے فرزند گرامی امام حسن (ع) کو ہاتھوں پر لے کر اوپر کی طرف اچھالتیں اور فرماتیں : اے میرے بیٹے : اپنے والد بزرگوار کی طرح بننا اور حق سے ظلم کی رسی کو دور پھینک دینا ، خدا جو کہ تمام نعمتوں کا مالک ہے اس کی عبادت کریں اور تاریک دل افراد کے ساتھ تعلق نہ رکھیں۔ (اعیان الشیعہ ، سید محسن امین ، ج 1، ص 563 ، دار التعارف  للمطبوعات ، بیروت لبنان ،1403)

اس طرح اولاد کی تربیت کے سلسلے میں قابل توجہ نکات میں سے ایک نکتہ آپ کا اولاد کے درمیان عدالت سے کام لینا ہے۔ یہ واقعہ اسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے:

امام حسن (ع) و امام حسین (ع) اپنے جد گرامی رسول خدا (ص) کے سامنے کشتی لڑ رہے تھے ، رسول خدا حسن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مسلسل فرما رہے تھے :حسن بیٹا ! اٹھیں اور حسین کو زمین پر گرا دیں۔حضرت زہرا (س) یہ منظر دیکھ کر حیران ہوئیں اور پوچھا : پدر جان ! حسن بڑا ہے اور حسین چھوٹا ہے اور آپ بڑے کی حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں ؟رسول خدا (ص) نے فرمایا : یہ جبرائیل حسین کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور میں اس کے مقابلے میں حسن کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوں۔ (بحار الانوار ، مجلسی، ج 43، ص 265 و 268)

فاطمہ کا اخلاص
حضرت فاطمہ   سلام اللہ علیہا کی خصوصیات میں سے  ایک نمایاں  اور اہم    خصوصیت آپ کا  اخلاص ہے۔ خدا نے بار بار آپ کے  ایمان اور خلوص  کی تعریف کی ہے ، فاطمہ سلام اللہ علیہا   اخلاص کے  اس مقام پر پہنچی ہیں جہاں وہ صرف خدا کو دیکھتی  ہیں۔ قرآنی آیات حضرت فاطمہ کے اخلاص کی طرف اشارہ کر رہی ہیں : وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا   – إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا  ۔ (انسان، 8-9)

اوراپنی خواہش کےباوجود مسکین، یتیم اور اسیرکو کھانا کھلاتے ہیں۔ (وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔  یہ  آیت   اہل بیت  کے اخلاص  پر دلالت کرتی ہے  اس  آیت  کے مطابق علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا  نے  صرف اللہ کی خشنودی کے لئے لوگوں کی مدد کی ہے  معاوضے اور اجر کے لئے نہیں۔شیعہ مفسرین کا اجماع  ہے  اور  اہل سنت کے اکثرعلماء  کا  کہنا ہے کہ مذکورہ یہ آیات  امام علی اور فاطمہ (س) کے نذر کے بارے میں ہیں امام علی اور فاطمہ (س)  نے   تین دن روزے رکھے  اور ستحق افراد کو  مخلصانہ طور پر کھانا کھلایا ۔ (الکشاف ، ج 4 ، ص 670؛ مجمع البیان ، جلد 9-10 ، ص 611-612)

روحی اورباطنی طهارت
شیعہ مفسرین اور بہت سے سنی علماء  اور مفسرین کی متعدد روایات کے مطابق ، آیہ تطہیر «إِنَّما یُریدُ اللهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ أهلَ البَیتِ و یُطَهِّرَکُم تَطهِیراً»  ( احزاب،  33)

امیر المومنین علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہ السلام کے بارے  نازل ہوئی ہے۔ (امالی طوسی، ج ۱، ص 254 و ص 269 و 270؛ امالی صدوق، ص 381 ـ 382  ؛ اصول کافی، ج ۱، ص 287  ؛  شیخ مفید، الفصول المختاره، چاپ قم، ص 29-30)

پیغمبر اکرم (ص) کے  اہل بیت سے مراد  یہ پانچ ہستیاں  ہیں ، اور جیسا کہ بڑے مفسرین نے لکھا ہے ، یہ آیت  اہل بیت کی عصمت پر دلالت کرتی ہے یہاں ہم ایک روایت نقل کرتے ہیں : نافع ابن ابی الحمرا کہتے ہیں: میں آٹھ مہینے (مدینہ منورہ) میں حاضر تھا اور میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جو ہر روز جب صبح کی نماز کے لئے نکلتے تھے اور فاطمہ (س) کے در پر جاتے تھے اور کہتے تھے: السّلام عَلَیکُم یا اَهلَ البیتِ و رحمهًُْ اللهِ و بَرَکاتهُ، الصَّلاهًْ، إِنَّما یُریدُ اللهُ لِیُذهِبَ عَنکُم الرِّجسَ أهلَ البیتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطهیراً:سلام ہو آپ  پر ای   اہل بیت ، آپ پر اللہ کی رحمت  ہو۔ اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ (کشف الغمّه، ج 2، ص 13  ؛ امالی طوسی، ج 1، ص 88  ؛امالی مفید، ص 188،  امالی صدوق، ص 124)

فاطمہ کا علم
جسے اللہ نے علم عطا  کیا ہے دوسرے الفاظ میں  جس کا  علم  ذات الہی سے متصل ہے،اس علم کی کوئی محدودیت نہیں ہے۔ ماضی اور حال تک ہی محدود نہیں ہوگا؛ بلکہ  ہمیشگی اور دائمی ہے  حضرت فاطمہ  سلام اللہ علیہا کا علم اسی نوعیت کا ہے۔

سلمان کہتے ہیں: عمار نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں حیرت کن کوئی بات بتاؤں عمار! میں نے کہا: بتاؤ۔ عمار نے کہا:  ایک دن  ہم فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیہا کی خدمت میں گئے ۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے علی علیہ السلام کی طرف دیکھا  اور آپ نے فرمایااُدْنُ لاُِحَدِّثَکَ بِما کانَ وَبِما هُوَ کائِنٌ وَبِما لَمْ یَکُنْ اِلی یَوْمِ الْقِیامَةِ حِیْنَ تَقُومُ السّاعَة  ؛پیارے علی ماضی میں ہونے والے واقعات   یعنی  جو واقع ہوا ہے اور جو ہو رہا ہے اور جو نہیں ہوا ، جو آئندہ میں  واقع ہوگا ،قیامت تک واقع ہونے والے   حادثات کے بارے میں آپ کو مطلع کروں ؟ امیر المومنین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابا الحسن! قریب آؤ۔علی علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے۔ اس کے بعد؛ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں بتاؤں یا  آپ  بتائیں گے ؟ امام نے  فرمایا: آپ کی زبان سے سننا بہتر ہے ۔  پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  شرح حال کو بیان کیا جو علی کے اوپر گزر چکا تھا۔ علی (ع) نے فرمایا: کیا فاطمہ کا نور ہمارے نور میں سے ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  فرمایا : کیا آپ نہیں جانتے؟ پھر علی نے شکر کا سجدہ کیا۔پھر امام علی (ع) فاطمہ (س) کے پاس آئے اور انہوں نے علی (ع) سے کہا: ایسا لگتا ہے کہ آپ میرے والد کے پاس گئے تھے اور  آپ نے  انہیں بتایا کہ میں نے کیا کہا؟ علی (ع) نے کہا: جی ہاں   فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیہا نے فرمایا:  ابا الحسن! خدا نے میرا نور پیدا کیا … میں نے اپنے نور سے ماضی ، مستقبل اور حال کو جان لیا۔ اے ابا الحسن مومن  اللہ  تعالی کی روشنی سے دیکھتا ہے (اور چھپی ہوئی چیزوں سے واقف ہوجاتا ہے)۔( مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ج 43، ص‏8)

خدا کی راہ میں انفاق
پیغمبر خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے   شادی کی رات کو حضرت زہرا (س) کو ایک نئی قمیص دی تا کہ وہ اسے اس رات پہن سکے، شب زفاف آپ مصلائے عبادت پر بیٹھی خداوند متعال سے راز و نیاز کر رہیں تھیں کہ اتنے میں ایک سائل نے دروازہ کھٹکھٹایا اور بلند آواز سے کہا، نبوت و رسالت کے گھرانے سے میں ایک پرانے لباس  مانگنے کے لئے آیا ہوں ۔حضرت زہرا (س) نے چاہا کہ سائل کو اس کے سوال کے مطابق پرانا لباس دیں، اچانک آپ کوقرآن کریم کی یہ آیت یاد آئی جس میں خداوند متعال فرماتے ہیں کہ :لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون؛تم ہر گز نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو۔ (آل عمران، 92   )

آپ نے اس آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے   نئےلباس سائل کو دے دیا۔ دوسرے دن جب رسول خدا (ص) نے حضرت زہرا کے جسم اطہر پر نیا  پیراہن  نہیں دیکھا تو پوچھا کہ اے میرے جگر کے ٹکڑے ! آپ نے نیا پیراہن کیوں نہیں زیب تن کیا ؟ فاطمہ (س) نے جواب دیا کہ وہ میں نے سائل کو دے دیا ہے۔ اور عرض کیا : بابا جان  میں نے یہ روش آپ سے سیکھی ہے ، جب میری مادر گرامی حضرت خدیجہ(س) آپ کی شریک حیات بنیں تو انھوں نے آپ کے راستے میں اپنی ساری دولت و ثروت فقراء و غرباء کے درمیان تقسیم کر دی   یہاں تک   کہ جب ایک سائل آپ کے دروازے پر آیا اور اس نے ایک پرانے لباس کا سوال کیا تو گھر میں کوئی پرانا لباس تک موجود نہیں تھا، جو اسے دیا جاتا   آپ نے اپنا پیراہن اتارا   اور سائل کے حوالے کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی:و لا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا۔  (اسراء،  29)

رسول خدا (ص) اپنی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اخلاص سے بہت  متاثر ہوئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔( علل الشرایع، شیح صدوق، نجف الحیدریہ،1385 ق، ج 1، ص 178)

عفاف اور حجاب
عفاف اور حجاب کے حوالے سے فاطمہ زہرا  کی  زندگی میں  مختلف نمونے پائے جاتے  ہیں   فاطمہ نے پوری دنیا کو عفاف اور حجاب کا پیغام دیا ۔ آپ کی سیرت اور طرز  زندگی  زندگی میں ہماری خواتین کے لئے بہترین نمونے  ہیں ۔ حجاب کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہیں  جس پر  سیدہ نے  خصوصی توجہ دی۔ اس کے اندھے بوڑھے کے سامنے حجاب کرنا  اور آپ کی پریشانی  بیماری کے دوران کہ کہیں  آپ کاجسم تابوت میں  میں نظر آئے  یہ  سب   حجاب کی اہمیت کی مثالیں  ہیں۔ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد میں موجود مسلمانوں سے پوچھا: خواتین کے لئے زندگی کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے سلمان کے توسط سے کہا ، عورتوں کے لئے یہ بہتر ہے کہ غیر محرم مرد انہیں  نہ دیکھیں  اور  وہ نامحرم مردوں کو نہ دیکھیں۔( مجلسی ، محمد باقر ، ج 43، ص 54)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے حجاب اور عفت  کی طرف بہت توجہ دی اور غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہیں نکلی ہے  اور ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ غیر ضروری طور پر نامحرموں سے ملنا ، بات کرنا مذموم ہے۔  مگر مختلف معاشرتی اور سیاسی میدانوں میں ،خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں خواتین کی موجودگی موثر ہے ، وہان ان کا میدان میں حاضر ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے غصب فدک کے حوالے سے اور امامت کے دفاع میں عملی میدان میں قدم رکھا اور تقریر کی ۔

مسلم خواتین کو اپنے فردی، معاشرتی اور خاندانی زندگی میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی پیروی کرنی  چاہئے ، علم ، معرفت ، حجاب، بصیرت عبادت ، جدوجہد ، مختلف میدانوں میں ، ہر حوالے سے۔ نیک بچوں کی پرورش اور تربیت  کے لحاظ سے ، ہر حوالے سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا الگو اور اسوہ ہیں اورہمیں ان کی سیرت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

فہرست منابع:

القرآن الکریم
ابن بابویہ قمی ، محمد بن علی، علل الشرایع ، نجف، المکتبہ الحیدریہ، 1385 ق ۔
الاربلی، ابو الحسن على بن عيسى بن ابي الفتح ، كشف الغمة في معرفة الائمة ، مكتبه الحيدريه، ۱۴۲۷ق.
تميمى آمدى، عبد الواحد بن محمد ، محقق و مصحح: رجائى، سيد مهدى‌ ‏، تصنيف غرر الحكم و درر الكلم ، دار الكتاب الإسلامي‌ ، چ 2  ، قم – ایران ، 1410ق ۔
حسینی، قاضی نورالله ،  احقاق الحق وازهاق الباطل ، طهران، مکتبہ   الاسلامیہ ۔ 1396 هـ ق.
زمخشری، محمود بن عمر ،الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل في وجوه التأویل، دارالکتاب العربی ، بیروت – لبنان ، 1407۔
شیخ حر عاملی، محمدبن حسن ، تفصیل وسائل الشیعة    إلی تحصیل مسائل الشریعة ،قم، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث  ، قم  ، 1409ق۔
شیخ صدوق  ابن بابویہ  ، محمد بن علی  ،امالی صدوق،  موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت – لبنان ، 1430ق۔
شیخ مفید ، محمد بن حسن ، تحقيق السيد علي مير شريفي ، الفصول المختاره من العیون و المحاسن ، المؤتمر العالمي لالفیہ  الشيخ المفيد، بیروت – لبنان ، چ 2  ، 1414  ہ ق۔
طبرسی ، فضل بن حسن ، مجمع البیان  فی تفسیر القرآن ، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات ، چ اول   ، بيروت – لبنان ، 1415ق۔
طوسي، محمدبن حسن، محقق قسم الدراسات الاسلامیہ مؤسسة البعثہ ، امالی طوسی،  دار الثقافہ ،قم – ایران ، 1414 ق ۔
عاملی ،سید محسن امین ، اعیان الشیعہ ، دار التعارف للمطبوعات ، بیروت لبنان ،1403۔
قمي ، شيخ عباس ، بيت الاحزان، قم، دارالحکمة، ۱۴۱۲ق.
کلینی، محمدبن یعقوب ، الکافی،تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران – ایران، دارالکتب الاسلامیه ، 1407 ق ۔
محمد باقر بن محمد تقى، بحار الانوار، محقق ، مصحح: جمعى از محققان‏، دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏، چاپ  2‏ ، 1403 ق‏۔
محمد بن احمدفتال نيسابوري، روضه الواعظين، : انتشارات رضى‏، قم – ايران  ‏، چ  اول ،  1375 ش۔
مفيد، محمد بن محمد ، امالی مفید، كنگره جہانی شيخ مفيد، قم‌، ۱۴۱۴ق۔

تحریر: حجت الاسلام ڈاکٹر شجاعت علی کریمی

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *