تازہ ترین

کمیل بن زیاد صحابی امام علی (ع)

کمیل بن زیاد صحابی امام علی (ع)
تحریر: امجد علی اسدی

سوانح
کمیل ابن زیاد کا تعلق قبیلۂ نَخَع سے ہے اور والد کا نام زیاد بن نَہِیک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ نخع کے لیے دعا فرمائی ہے کہ: اَللّہمَ بارِك فِی النَخَع۔(1) کمیل کا سالِ پیدائش کسی قدیمی ماخذ میں موجود نہیں، البتہ خیر الدین الزرکلی (متوفی 25 نومبر 1976ء( نے اپنی تصنیف الاعلام الزرکلی میں سال پیدائش 12ھ مطابق 633ء لکھا ہے۔(2) شارح نہج البلاغہ محمد دستی نے لکھا ہے کہ کوفہ میں طفلان مسلم بن عقیل کا قاتل حارث بن زیاد (جو عبیداللہ ابن زیاد کا ساتھی تھا) کمیل ابن زیاد کا بھائی تھا۔ (3)

شئیر
45 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5863

امام علی(ع) کا دور
کمیل امام علی(ع) اور امام حسن(ع) کے اصحاب میں سے ہیں۔(4) وہ ان شیعیان اہل بیت میں سے ہیں جنہوں نے امیرالمؤمنین علی(ع) کی خلافت کے پہلے دن ہی بیعت کی اور جنگ صفین سمیت آپ(ع) پر مسلط کردہ جنگوں میں شریک تھے۔(5) وہ امیرالمؤمنین(ع) کے اصحاب سِرّ میں بھی شامل تھے۔
کمیل اور عمرو بن زرارہ بن قیس نخعی ان اولین افراد میں شامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کے معاملات سلجھانے کے لئے عثمان کی معزولی اور امام علی(ع) کی خلافت کی تجویز دی تھی۔(6) کمیل ان 10 افراد میں شامل تھے جنہیں عثمان نے اپنی خلافت کے دوران جلاوطن کرکے شام بھجوا دیا۔ (7)
علی(ع) کے والی
کمیل امیرالمؤمنین(ع) کے دور خلافت میں شہر ہیت کے والی تھے جو بغداد کی جانب واقع تھا۔ یہ شہر ہِیت کہلاتا تھا جو شام کی سرحد پردریائے فرات کے ساحل پر واقع ہے۔ موجودہ زمانے میں عراقی صوبہ الرمادی میں شامل ہے۔عراق اور سرزمین عرب کے جنوبی علاقوں کے قافلے ہیت کے راستے سے شام کے شہر حلب کا سفر اختیار کرتے تھے۔ ہیت ایک آباد شہر تھا جو مضبوط حصار میں گھرا ہوا تھا۔ (8)
کمیل کو معلوم ہوا کہ معاویہ کا لشکر سفیان بن عوف کی سرکردگی میں ہیت پر یلغار کا ارادہ رکھتا ہے تو انھوں نے گماں کیا کہ دشمن قرقیسیا میں ہے چنانچہ اپنی فوج کے صرف 50 افراد کو شہر کی حفاظت پر مامور کیا اور باقی افراد کو لے کر قرقیسیا کی جانب عازم ہوئے۔ دشمن کے لشکر نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ہیت پر حملہ کیا جس کی بنا پر ایک مراسلے کے ذریعے امیرالمؤمنین(ع) کی سرزنش کا نشانہ بنے۔ (9)نہج البلاغہ میں سرزنش پر مبنی اس مکتوب کا شمارہ 61 ہے۔ (10)
کمیل امام علی(ع) کی شہادت کے بعد امام حسن مجتبی(ع) کے اصحاب میں شامل تھے۔ (11)
دعائے کمیل
حضرت کمیل بن زیاد حضور اکرم کے تابعین اور امام علی اور امام حسن مجتبیٰ کے اصحاب خاص میں سے ہیں تھے۔ آپ کے وصال کے وقت کمیل 18 برس کے تھے۔ وہ ان شیعیان اہل بیت میں سے ہیں جنہوں نے امیر المؤمنینؑ کی خلافت کے پہلے روز ہی آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی اور جنگ صفین سمیت امیرالمومنین کی جنگوں میں حاضر تھے۔ کمیل بن زیاد ان 10 افراد میں سے ہیں جنہیں خلیفہ وقت نے کوفہ سے شام جلاوطن کیا تھا۔ حضرت کمیل ابن زیاد کو نفس رسول مولا علیؑ سے محبت اور حمایت کی پاداش میں بہت اذیتیں سہنی پڑی۔ اور 82ھ میں امیہ کے خلیفہ الحجاج بن یوسف نے ان کا سر قلم کر دیا۔ ان کاجسد مبارک وادی اسلام میں نجف اور کوفہ کے درمیان ہے، وہاں پر دفن ہے۔
حضرت کمیل بن زیاد مزاج کے نرم دل اور علم کی جستجو انہیں مولا علی کے ارد گرد رکھتی تھی۔ وہ ان سے اکثر سوال پوچھا کرتے۔ ایک دن حضرت کمیل ابن زیاد نے مولائے کائنات علیؑ ابن طالب سے پوچھا کہ”مجھے بتایئے آپ اللہ اور اس کے رازوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔۔ مولا علی علیہ السلام نے فرمایا”کمیل اللہ کا نور تم پر چھینٹوں کی طرح پڑتا ہے اور مجھ پر آبشاروں کی طرح گرتا ہے “۔ کمیل نے پھر کہا امیر المومنین کچھ اور بتایئے۔ حضرت علی علیہ السلام پھر گویا ہوئے اور کمیل ابن زیاد بتاتے تھے کہ مولا علی علیہ السلام نے مغرب سے لے کر فجر تک اللہ پاک کے بارے میں جو پانچ باتیں بتائیں وہ مجھے کبھی سمجھ نہیں آئیں۔
مولا علی علیہ السلام فرماتے تھے “مجھ سے پوچھ لو اس سے پہلے کہ میں نہ رہوں کیونکہ مجھے زمین سے زیادہ آسمانوں کے رستوں کا معلوم ہے “۔ کمیل ابن زیاد کہتے ہیں ایک دن میں نے مولا علیؑ سے پوچھا کہ آپ اللہ پاک سے کیسی باتیں کرتے ہیں ۔۔
کیا مانگا کرتے ہیں۔۔
اور کس طرح مانگا کرتے ہیں۔۔
مولا علیؑ نے حضرت کمیل بن زیاد کو دعا مانگنا سکھایا۔۔ اور یہ وہی دعا تھی جس کے بارے میں سید بن طاؤس اپنی کتاب اقبال الاعمال میں لکھتے ہیں کہ کمیل بن زیاد کہتے ہیں: “ایک دن میں، مسجد بصرہ میں، اپنے مولا علیؑ کی خدمت میں بیٹھا تھا اور آپؑ کے بعض دوسرے اصحاب بھی حاضر تھے ؛ مولا علیؑ سے پوچھا کہ اس آیت میں ارشاد ربانی کا کیا مطلب ہے۔۔
آیت کا ترجمہ۔۔
اس (رات) میں فیصلہ ہوتا ہے ہر حکیمانہ بات کا۔ (12)
تو آپؑ نے فرمایا:
وہ نصف شعبان کی رات ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قدرت میں علی کی جان ہے، کوئی بھی بندہ ایسا نہیں ہے سوا اس کے کہ جو کچھ بھی نیکی اور بدی میں سے اس پر گزرتا ہے، نصف شعبان کی رات کو آخر سال تک اس کے لئے تقسیم کیا جاتا ہے ؛ اور جو بھی بندہ اس رات کو حالت عبادت میں شب بیداری کرے اور دعائے حضرت خضر کو پڑھ لے، اس کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔
کمیل کہتے ہیں کہ یہ بات کہنے کے بعد امیر المؤمنینؑ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ میں رات کے وقت آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔۔
آپؑ نے پوچھا: کس غرض سے آئے ہو کمیل
میں نے عرض کیا: دعائے خضر کی طلب میں آیا ہوں۔
امیر المومنینؑ نے فرمایا: اے کمیل! جب اس دنیا کو ازبر کر دو تو ہر شب جمعہ یا ہر ماہ ایک بار یا کم از کم اپنی پوری زندگی میں ایک بار اس کو پڑھو تا کہ تمہارے امور کی کفایت ہو۔ خداوند متعال تمہاری مدد کرتا ہے، تمہارا رزق وسیع ہو جاتا ہے اور ہاں تم ہرگز مغفرت سے محروم نہیں ہو گے۔
اس کے بعد انہوں نے فرمایا۔۔
اے کمیل! جس مدت سے تم ہمارے مصاحب ہو، یہی طویل مصاحبت ہی اس بات کا سبب بنی ہے کہ میں نے تمہیں اس قدر عظیم نعمت و کرامت دعا سے نوازا ہے۔
اس کے بعد آپ نے کہا۔۔ “اے کمیل لکھو: اَللَّھمَّ إِنِّی أَسْأَلُک بِرَحْمَتِک الَّتِی وَسِعَتْ کلَّ شَیئٍ
یوں مولائے کائنات نے “دعائے کمیل”مکمل طور پر حضرت کمیل بن زیاد کو لکھوائی اور یوں یہ دعا ہم تک پہنچی. (13)
شھادت
سال شہادت میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ متعدد روایات میں 82ھ، 83ھ اور 88ھ موجود ہے۔ مؤرخ خلیفہ بن خیاط نے بھی سال وفات 82ھ لکھا ہے۔ مؤرخین کا اتفاق 82ھ (مطابق 701ء) بیان کیا ہے۔علامہ ابن حجر عسقلانی نے یحییٰ بن معین کا بیان نقل کیا ہے کہ کمیل ابن زیاد کی وفات 88ھ میں ہوئی۔علامہ ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ وقت شہادت آپ کی عمر 70 سال تھی۔مؤرخ اسلام شمس الدین الذہبی نے المدائنی (متوفی 843ء) کا قول نقل کیا ہے کہ آپ کی عمر 90 سال تھی۔ آپ کو اُموی والی حجاز و عراق حجاج بن یوسف الثقفی نے قتل کروایا۔حجاج نے کمیل کو بلوایا تو وہ فرار ہو گئے لیکن جب حجاج نے ان کے قبیلے اور اعزاء و اقارب کو تنگ کرنا شروع کیا تو کمیل حجاج کے پاس پہنچے اور مختصر سی گفتگو کے بعد حجاج نے ان کے قتل کا حکم جاری کیا۔ شیعی منابع کے مطابق حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب نے کمیل کی شہادت کی خبر دی تھی۔ کمیل کا مزار نجف اور کوفہ کے راستے میں علاقۂ ثوّیہ (حی الحنانہ) میں مسجد حنانہ کے قریب واقع ہے۔ (14)

حوالہ جات:
1- ابن اثیر جزری: اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، جلد 1، صفحہ 75
2-خیر الدین الزرکلی: الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء، جلد 5، صفحہ 234
3۔ محمد دشتی: ترجمہ نہج البلاغہ، صفحہ 599
4 ۔مفید،اختصاص،ص 7
5۔ همان،ص 108
6۔ البلاذری،انساب الاشراف،ج 5،ص 517.
7۔ تاریخ طبری،ترجمه،ج 6ص 2195
8۔ محمد دشتی: ترجمہ نہج البلاغہ، صفحہ591۔
9۔ شمس الدین الذہبی: تاریخ الاسلام، جلد 6، صفحہ 177۔
10۔ محمد دشتی: ترجمہ نہج البلاغہ، صفحہ 599، مکتوب نمبر61
11۔ شیخ طوسی، رجال الطوسی، صفحہ97۔
12. سورہ دخان، آیت نمبر4
13- www.punjnud.com
14۔ احمد علوی: راہنمای مصور سفر زیارتی عراق

 

منابع
1. قرآن کریم
2. ابن اثیر جزری: اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،دار احیاء التراث العربی،بیروت،لبنان،بی تا.
3. خیر الدین الزرکلی: الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء،دارالعلم للملایین،قاهره،1972.
4. محمد دشتی: ترجمہ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 61 کا پاورقی حاشیہ۔مطبوعہ قم، 1379 ہجری شمسی۔
5. احمد بن یحییٰ البلاذری: أنساب الأشراف،دائره معارف اسلامی،بیروت،لبنان،2012.
6. سید شریف رضی: نہج البلاغہ، مکتوب نمبر61، مترجم مفتی جعفر حسین، مطبوعہ،لاہور، 2003ء۔
7. شیخ طوسی، رجال الطوسی، مطبوعہ،قم، 1415ھ۔
8. شمس الدین الذہبی: تاریخ الاسلام،انتشارات دارالمعارف،قاهره،1994م.
9. احمد علوی: راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، مطبوعہ قم، ایران، 1389 شمسی ہجری۔
10. www.punjnud.com

 

 

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *