تازہ ترین

مغربی دنیا کو سب سے زیادہ اسلامی آئیڈیالوجی سے خطرہ ہے، علامہ امین شہیدی

جامعہ روحانیت بلتستان پاکستان کے زیر اہتمام عظیم الشان تحلیلی نشست “وطن عزیزپاکستان کی تازہ ترین حالات کا جائزہ”سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ امت واحدہ پاکستان حجت الاسلام و المسلمین علامہ امین شہیدی نے کہا کہ پورے پاکستان میں ثقافتی، اجتماعی، دینداری کے حوالے سے جو اہمیت گلگت بلتستان خصوصا بلتستان کی ہے وہ کسی اور خطے کی نہیں۔اس حوالے سے ماضی کے تمام علماء کی امانتوں کے پاسبان قم اور نجف میں مقیم علماء کرام ہیں۔پوری دنیا کے اندر ساڑھے سات ارب انسانوں کو جو پیغام مل رہا ہے سب سے زیادہ فطرت کے مطابق اسلام کا پیغام ہے۔

شئیر
49 بازدید
مطالب کا کوڈ: 6025

جو فکر سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے وہ اسلامی فکر ہے۔ ان کے اپنے مطابق ہر روز ایک مسجد میں اضافہ اور ایک کلیسا گر رہا ہے۔اگر اس بات کو ہم سمجھ سکیں کہ مغربی دنیا کو سب سے زیادہ فکر اور اسلامی آئیڈیالوجی سے خطرہ ہے۔ باوجود اس کے کہ تمام دنیا کے اقتصاد، معادن، تیل و۔۔۔ پر ان کا تسلط ہے، ان کو اس بات کا ہمیشہ خوف رہتا ہے کہ یہ طرز فکر ہمیں نیست و نابود کر سکتا ہے۔
چونکہ ان کی دنیا میں تمام مادی وسائل اور سہولیات ہونے کے باوجود اندرونی اطمینان اور راحت حاصل نہیں ہے۔ ایسے میں ان تمام قوتوں کو جس شدید چیلنج کا سامنا ہے وہ شیعیت اور مکتب اہلبیت کا طرز فکر اور اسلام ناب محمدی ہے۔چونکہ مکتب اہل بیت کی فکر اور پیغام زمینی سرحدوں میں محدود نہیں۔ بلکہ ایک آسمانی پیغام اور طرز فکر ہے جو انسانی دل و دماغ سے مربوط ہے۔لہذا اس وقت پوری دنیا کی توجہ اس طرز فکر پر جو سرمایہ دارانہ نظام کیلئے حقیقی خطرہ ہےاسی لئے دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو، اگر اس طرز فکر کو کوئی خطرہ ہے، تو یقینی طور پر اس کا تھنک ٹینک استعماری اور سرمایہ دارانہ قوتیں ہیں جو شیعی طرز فکر کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہیں ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ دشمن کو صحیح معنوں میں سمجھیں، حقیقی دشمن کی شناخت حاصل کریں۔ کیونکہ استعماری طاقتوں کا ہدف یہ ہے کہ ایسے کسی گروپ کو جو ظاہرا مذہبی ہوگا اس کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں ان سے الجھائیں اور اصلی دشمن سے غافل رکھیں۔اس لئے اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ فکر کو وسیع کریں، سیاسی بیداری پیدا کریں، دنیا کے مستضعفین کا سوچیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دین اور سیاست کی جدائی کے نعرے کی زد میں آکر گوشہ نشینی اختیار کریں اور مسجد و محراب و خانقاہ تک محدود ہو کر رہ جائیں۔
انہوں نے کہاکہ دنیا میں ہونے والے مظالم کے خلاف کم از کم جو کام کرسکتے ہیں وہ صدائے احتجاج بلند کرنا ہے۔ سعودی عرب، یمن، شام، عراق، نائیجیریا، پاکستان کے چپے چپے میں ہونے والے ظلم و ستم پر صدای احتجاج بلند کرنا ہمارا اخلاقی، دینی اور انسانی فریضہ ہے۔اندرونی اختلافات کو زیادہ ہوا نہ دیں، بلکہ ان کو زیر پا روند کر اسلام، مسلمانوں، شیعوں اور مستضعفین کی حمایت کیلئے اٹھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ استعماری طاقتوں کی ابھی یہ سرتوڑ کوشش جاری ہے کہ شیعوں کو تنہا کیا جائے، ان کو باقی اسلامی مذاہب سے الگ کیا جائے، نہ صرف یہی بلکہ اندرونی اختلافات کے ذریعے شیعوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم نادانستہ طور پر ان سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں اور اصل دشمن سے غافل ہیں۔
علامہ امین شہیدی نے مزید کہاکہ دشمن دو طرح کے ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ایک گرم ہتھیار جس کے ذریعے بدن کو ختم کیا جاتا ہے، جو روح کی بیداری اور گرمی کا باعث ہے۔ یہ ذاتی زندگی میں شہدا کے لیے سب سے بڑا انعام ہے۔ اسی شہادت نے تمام شیعیان حیدر کرار کو بیدار کیا۔ لہذا گرم ہتھیار سے ہمیں زیادہ خطرہ نہیں ہے۔ بیداری جیسی نعمت انسانوں کو ملتی ہے۔ دشمن کا دوسرا ہتھیار سرد ہتھیار ہے، ثقافتی یلغار، باطل روشن فکری ، بے راہ روی کے اسباب، وغیرہ کا استعمال ہے۔ لیکن اس ہتھیار کے سامنے ہم بے بس، غافل اور نہ سمجھتے ہوئے اس کی زد میں آرہے ہیں اور کچھ اثر بھی ہمارے اوپر نہیں ہورہا اور دشمن کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں۔ معاشرے کی بیداری کیسے ممکن ہے؟ بیداری کیلئے ہماہنگی، اتحاد، ایک دوسرے کی خامیوں سے چشم پوشی اور حقیقی دشمن کی شناخت ضروری ہے۔دشمن نے مختلف گروپس بنا کر ان کے ذریعے شیعوں کے اندر اختلاف ایجاد کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم نہ سمجھتے ہوئے ان کے بنائے ہوئے متن، مسیجیز، نوٹس اپنے گروپس میں شئیر کرتے ہیں اور غفلت میں دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور بن رہے ہیں۔جن علاقوں میں شیعہ اکثریت ہے وہاں جوانوں کو اخلاقی اور معنوی بے راہ روی کا شکار کرنے کیلئے دشمن باقاعدہ بجٹ لگا رہا ہے۔ آپ کے نظام تعلیم میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس مداخلت کیلئے دشمن نے معمم، دینی، اور مذہبی لوگوں کو استعمال کیا اور دیندار لوگ نا سمجھی میں ان کی سازش کا حصہ بنے۔ دشمن کیوں آپ کو مسجد اور مدرسہ بنا کر دینا چاہتا ہے؟ اس حوالے سے ہمیں شعور اور بیداری کے ساتھ ان امور کو ڈیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا ہدف جوانوں کو پھنسانا، اخلاقی برائیوں میں دھکیلنا ہے اور ہم غفلت کا شکار ہو کر انہی کے آلہ کار بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دشمن سے نظریاتی انسان بھی ہضم نہیں ہوتا۔ چونکہ وہ لوگوں کی بیداری کا باعث بنتا ہے، وہ دشمن کی سازشوں کو برملا کرتا ہے۔ لہذا اس نظریاتی انسان اور اس کی آواز کو بند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلے مادی طمع اور لالچ پھر اگر کارگر نہ ہو تو اس کی گردن اڑانے کے مرحلے پر اترتا ہے۔ایسے میں ہمیں خود سے بیدار اور معاشرے میں بیداری کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اجتماعی اور فردی دشمنوں کی شناخت کے ساتھ ان کی سازشوں سے مقابلہ کرنے کیلئے کمر ہمت باندھنے کی اشد ضرورت ہے۔ خداوند ہم سب کو ان اہداف کے حصول کیلئے کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *