تازہ ترین

علامہ عارف الحسینی کی حکمت عملی

عالمی سیاست کے بت شکن خمینی ؒ نے بعض علمائے دین کو مایہ ناز، سچا، حقیقی اور گراں قدر کہا اور یہ سبھی تنظیمی علماء تھے۔ ان شہداء کی شان میں یہ بھی فرمایا کہ ان کے دل اسلام کے لئے تڑپتے تھے اور یہ حقیقی محمدی اسلام کے فروغ کی انتھک جدوجہد کرنے والے تھے اور انہیں ہی ہمیشہ ظالموں نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔

شئیر
31 بازدید
مطالب کا کوڈ: 660

ان کے نام نہیں معلوم تو پڑھئے امام خمینیؒ کا وہ پیغام تعزیت جو پاکستان کے خمینیؒ کے چہلم پر جاری کیا گیا۔ امام نے حجت الاسلام سید عارف حسین الحسینی کو اسلام و انقلاب کا شیدائی اور وفادار، محروموں اور مظلوموں کا دفاع کرنے والا اور سیدالشھداء آقا و مولا اباعبداللہ الحسین ؑ کا فرزند صادق ؒ کہا۔ اس شہادت کو امام امت نے عظیم سانحہ، مسلمانوں کے قلوب اور خاص طور پر اسلام کے حقیقی اور احساس ذمہ داری رکھنے والے علماء کرام کے لئے ایک گہرا گھاؤ قرار دیا۔ اس پیغام میں پاکستان کے باشرف اور غیور عوام کو حقیقی معنوں میں ایک انقلابی ملت، اسلامی اقدار کا پابند قرار دے کر کہا کہ ان سے ہمارا بہت قدیمی، گہرا انقلابی،ایمانی اور ثقافتی رشتہ ہے۔ خبردار کیا کہ امریکی اسلام سے مقابلے کی راہ خاصی پر پیچ اور عجیب ہے۔ اہم ترین نکتہ اس تعزیتی پیغام کا یہ تھا: ’’اور اس حقیقت کی وضاحت کہ ایک مکتب فکر اور ایک آئین میں دو متضاد انداز فکر کا وجود ممکن نہیں، یہ وضاحت ایک اہم سیاسی فریضہ ہے اور اگر یہ کام دینی مدارس کے ذریعے کیا گیا ہوتا تو قوی امکان تھا کہ ہمارے عزیز سید عارف حسین الحسینیؒ آج ہمارے درمیان ہوتے۔‘‘

کون حسینیؒ؟ وہی جو پاکستان میں خمینی تھا۔ وہی جس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ: ’’ہم اور ہمارے ساتھی اقتدار و ریاست طلب نہیں ہیں۔ ہم صرف حق و باطل کے مقابلے میں آپ کی ہمکاری اور مدد کے لئے آئے ہیں۔ ہم سب لوگوں کو یہ بات ذہن سے نکال دینی چائیے کہ معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ ٹھیک ہے کہ ہمارا اقتدار اور ریاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔۔۔۔ جب تک وہ ظلم کو باقی رکھتے ہیں اور ہمارے دینی، قومی اور ہر قسم کے اجتماعی حقوق پر غلبہ کرنا چائیں گے، ہم میدان میں موجود اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں گے۔‘‘ ہاں وہ حسینی جس نے کہا : ’’آج میں انجمن والوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا ان افراد کو اجر عظیم دے۔ آج ہماری فیڈریشن کے یہ نوجوان سر سے پاؤں تک ایمان سے پر ہیں۔ ان نوجوانوں کو میں یہ دعا دیتا ہوں کہ خدا ان کو اور ان کے دین کو ترقی دے اور ان کی توفیق میں اضافہ عطا فرمائے۔ ہمارے علماء جو اس تحریک کی قیادت اور اس تحریک کے ساتھ صد در صد ہمکاری اور تعاون کر رہے ہیں ان کو اجر دے۔‘‘

اے کاش کہ آمریت شکن حسینی کو ان کے اپنے الفاظ میں ہی سمجھ لیا جائے: ’’اگر کوئی کام ملت کے مفاد میں نہیں ہے یا شریعت مقدسہ اس کام کی اجازت نہیں دیتی تو میں وہ کام ہرگز نہیں کروں گا، چاہے آپ مجلس عاملہ والے سب مل کر اس کے حق میں رائے دیں۔ میں صرف وہ کام کروں گا جو شرعاً بھی جائز ہو اور ملت کے بھی مفاد میں ہو۔ ہماری تنظیم ایک عوامی تنظیم ہے۔ یہ سب کچھ ہم عوام کی توقعات کے مطابق کر رہے ہیں۔ جب تک ہمارے ساتھ عوام نہیں ہوں گے، ہم کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔‘‘ (تنظیمی اجلاس سے خطاب، میثاق خون)۔
’’ہمارا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے تو میں آپ سے یہی گزارش کروں گا کہ آپ میرے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں تو پہلے مجھے تنظیمی ڈھانچہ دیں۔ جب تک ہم منظم نہیں ہوں گے، اس وقت تک کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ جب تک تنظیمی ڈھانچہ نہیں بنتا، نہ ہی کوئی مسئلہ پریس میں جائے گا اور نہ ہی اخبار میں آئے گا اور نہ ہی کسی کے کانوں تک پہنچے گا۔ پس میں آخر میں یہ عرض کروں گا کہ آپ تنظمیی ڈھانچہ بنائیں (حوالہ: ایضاً)۔‘‘

1984ء میں کراچی میں ایک خطاب میں فرمایا: ’’ہم نے تو پہلے سے طے کیا ہے اور 6 جولائی کو ہمارے شہید نے اپنے خون کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں کہ شیعوں کے لئے پاکستان میں صرف اور صرف فقہ جعفریہ ہی نافذ ہوگی نہ کہ کوئی اور چیز۔ شورکوٹ پنجاب میں جولائی 1985ء میں فرمایا: ’’شور کوٹ کے جوان فرزند شہید محمد حسین شاد ؒ کہ جو اس مرتبے کے لائق تھے اور وہ اس مقام تک پہنچ چکے تھے کہ خدا کی طرف سے (بلاوے کی) آواز آئی اور ان کی روح اپنے بدن سے پروز کرکے شہدائے کربلا، شہدائے بدر و احد اور دیگر شہدائے اسلام کے ساتھ شامل ہوگئی۔‘‘ وہیں مزید فرمایا: ’’ہمارے دشمن صرف اور صرف اہل کفر، امریکا، روس اور اسرائیل ہیں اور ان کے بعد دشمن ان کے ڈائریکٹ وہ چمچے ہیں، جو ہمارے حقوق پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ ’’اور ساتھ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہماری یہ تحریک ہمارے سنی بھائیوں کے خلاف نہیں ہے، وہ تو ہمارے بھائی ہیں۔‘‘

کراچی میں اوائل قیادت کے دوران خطاب میں فرمایا: ’’میں اپنے خدا کی طرف متوجہ ہوکر اپنے آقایان، پیشوایان، آئمہ اطہار ؑ بالخصوص ناموس دہر، قلب عالم امکان، رابطہ فیض بین خالق و مخلوق، مہدی موعود ؑ کی طرف متوجہ ہو کر گدائی کا ہاتھ بلند کرتا ہوں۔‘‘ ’’اگر میرا دنیاوی مقصد ہو تو میرے سر پر خاک ہوکہ میں آپ کے ان پاک احساسات و جذبات سے مادی اور ناجائز فائدہ اٹھاؤں۔‘‘  ’’اے ملت محرومہ! اے ملت جعفریہ! کون ہے کہ آپ کی مظلومیت دیکھ کر اس کا دل بے چین نہ ہوسکے۔ وہ کون سا دل ہوگا جو آپ کی حالت پر نہ روئے۔ وہ کون سی آنکھیں ہوں گی جو آپ کی بے کسی پر اشک جاری نہ کریں۔‘‘ ’’اولاً! میرا خدا پر توکل ہے، میں ہر وقت محمد (ص) و آل محمد(ع) بالخصوص حضرت ولی عصر ؑ کی خدمت میں استغاثہ کرتا ہوں۔‘‘ ’’ہمارے ساتھ آپ مستضعفین ہیں، آپ نوجوانان ہیں۔ آپ محمد باقر الصدر کے شاگرد ہیں۔ آپ شہیدہ بنت الہدیٰ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ آپ خمینی عظیم کے فرزندان ہیں تو پھر ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ یقیناً جس طرح وہ میدان عمل میں سرافراز اور سربلند ہوگئے، ہم بھی اسی طرح انشاءاللہ سرفراز اور سربلند ہوں گے۔‘‘

’’شیعہ وہ ہوتا ہے جو اہل بیت ؑ کے قول پر عمل کرتا ہے۔ اگر اہل بیت ؑ کے قول کے ہوتے ہوئے وہ اس کو چھوڑ کر کسی اور کے قول پر عمل کرے تو وہ شیعہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔‘‘ امام زمانہ علیہ السلام کا قول مقدس بیان کیا کہ: ’’اے شیعو! جب آپ حادثات زمانہ سے دو چار ہوجائیں تو پھر گھبرانا نہیں، کسی سیاسی (شخصیت) کے در پر نہ جانا، غیروں کی طرف ہاتھ کو نہ بڑھانا، مشرق سے مغرب سے مدد نہ لینا بلکہ ان افراد کے در پر جانا جن کے حوالے ہم نے تم کو کیا ہے۔ پس تم رجوع کرو، ان فقہاء اور مجتہدین کی طرف جو جامع الشرائط ہیں۔‘‘ پھر بھی واضح کر دیا کہ : ’’اگر فقیہ جامع الشرائط نے مجھ کو کہہ دیا کہ تمہارا وظیفہ شرعی یہ ہے کہ اس میدان کو چھوڑ کر امام بارگاہ کے مورچے سے خدمت کرو یا مدرسے کے یا مسجد کے مورچے سے تو میں اس جگہ خدا کے حضور دو رکعت نماز شکرانہ پڑھ کر عرض کروں گا کہ الٰہی میں نے اپنی امانت کو اہل کے حوالے کر دیا۔‘‘ انتخابات میں شرکت کے بارے میں فرمایا: ’’ہم نے 6 جولائی کو جو پریس کانفرنس کی تھی، اس میں ہم نے اپنے موقف کی وضاحت کی تھی کہ ہم سیاست میں حصہ لیں گے، لیکن وہ پارٹی جو اسلامی فکر رکھتی ہو، جو ملت جعفریہ کے جتنے بھی حقوق ہیں وہ ہمیں دیں گے تو ایسے افراد کے ساتھ، ایسی پارٹی کے ساتھ تعاون کریں گے۔‘‘

پاراچنار میں جمعیت طلبہ جعفریہ کے اجلاس سے خطاب میں موضوع سخن تھا، پاکستان میں ہماری مشکلات اور ان کا حل: ’’لوگوں کے ذہنوں میں ہم نے یہ بات ڈال دی کہ شاید پاکستان کی سیاست میں مداخلت کرنا شیعوں کے لئے شجر ممنوعہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ہمیشہ دوسروں کے دست نگر اور محتاج ہوگئے۔‘‘ ’’ہمیں اپنے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہئے، مثلاً اسمبلیوں میں ہم اپنے نمائندے بھیجیں۔‘‘ ’’آپ کے جو ڈھائی کروڑ شیعہ ہیں، ان کے تو ہزاروں مسائل ہیں، ان کی مشکلات ہیں تو آپ نے ان کے لئے کیا کیا؟ وہ بے چارے اپنی مشکلات کہاں سے حل کریں۔ لہٰذا ہم نے یہ نعرہ بلند کرکے اشتباہ کیا ہے کہ ہمیں وزارت چاہئے نہ حکومت۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا یہ نعرہ غلط تھا اور ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہئے تھا۔‘‘ ’’ایک منظم تنظیم اور تشکیلات کے ذریعے ہم نوجوان مرد و خواتین کی صلاحیتوں کو کافی حد تک پاکستان میں شیعت کے مسائل حل کرنے میں بروئے کار لاسکتے ہیں۔‘‘

حوزہ علمیہ قم میں خطاب میں فرمایا: ’’اگر ہم نے کہہ دیا اور برادر بزرگوار آقائے موسوی نے بھی تذکرہ کیا کہ مثلاً سیاست میں حصہ لیں گے تو آپ کو تسلی ہونی چاہئے کہ ہم ولی فقیہ کے پیرو ہیں۔ ہم کوئی ایسا قدم جو اسلام کے خلاف ہو، جس پر ولی فقیہ راضی نہ ہوں، نہیں اٹھائیں گے۔‘‘ رضویہ یونیورسٹی مشہد مقدس میں خطاب میں فرمایا: ’’پاکستان کی تشکیل کے بعد شیعیان پاکستان کو شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ ہم ایک جھنڈے تلے جمع ہوں اور ہمارا تنظیمی ڈھانچہ ہونا چاہئے کہ جو پاکستان میں شیعہ حقوق کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتا رہے۔ اس بناء پر تحفظ حقوق شیعہ کے نام سے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح شیعہ ڈسٹرکٹ کونسل اور پھر مرحوم سید محمد دہلوی کے زمانے میں شیعہ مطالبات کمیٹی جیسی تنظیمیں تھیں، کوئی تحریک اور جماعت نہ تھی۔ جنہوں نے پاکستان میں شیعہ حقوق کے تحٖفظ کے لئے جدوجہد کی، خداوند عالم سے ہم ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔‘‘

مسجد عسکری کراچی میں خطاب میں فرمایا: ’’ آپ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنی اپنی تنظیموں کو فعال بنائیں اور تنظیم کے اندر سب سے پہلے اس کے اصول و ضوابط کی پابندی خود کریں اور اس کے قوانین پر عمل پیرا ہوں۔‘‘ ساہیوال میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے اغراض و مقاصد بیان کئے: ’’اگر ہم نے یہ تین مرحلے طے کئے، پہلا مرحلہ تھا سارے مومنین کو اعتماد میں لینا۔ دوسرا مرحلہ تھا ایک فعال وسیع اور منظم تنظیم ملکی سطح پر قائم کرنا۔ نمبر تین اختلافات یا ختم کرنا یا ان کو کم سے کم کرنا۔ جب ہم نے یہ تین مرحلے طے کئے تو مقصد تک پہنچنا یقینی ہے۔‘‘ امام خمینی نے ایک مکتب فکر اور ایک آئین میں میں دو متضاد انداز فکر کے وجود کو ناممکن کہہ کر مسئلہ حل کر دیا۔ خمینیؒ بت شکن اور پاکستان میں امام خمینی ؒ کے عزیز فرزند علامہ عارف حسینیؒ کی فکر آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے۔
(نوٹ: خطابات کی تفصیل کیلئے کتاب ’’میثاق خون‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔)

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *