تازہ ترین

مذہب تشیع کی بقا کے عوامل/ زکزاکی نے لاکھوں افراد کو شیعہ کیا

عالمی یوم القدس کو نائجیریا کے شہر زاریا کے دردناک واقعے کے شہداء کی ایصال ثواب اور ۳۳ روزہ دار شیعوں کو بغیر کسی جرم کے قتل عام کئے جانے کی مذمت کے سلسلے میں گزشتہ شب جمعرات کو آستانہ حرم فاطمہ معصومہ(ع)، جامعۃ المصطفیٰ (ص) العالمیہ، ادارہ بین الاقوامی امور برائے حوزہ ہائے علمیہ اور اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی جانب سے سرزمین قم کی مسجد اعظم میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔

شئیر
25 بازدید
مطالب کا کوڈ: 664

اس پروگرام میں حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر ناصر رفیعی نے خطاب کرتے ہوئے کہا: نائجیریا میں ۳۰ سے زیادہ شیعہ جو فلسطین اور غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت میں یوم القدس کو میدان میں آکر خود مظلوم واقع ہوئے اور انہیں دردناک طریقے سے شہید کر دیا گیا نے اپنے خون سے اس ملک میں شجر اسلام کی آبیاری کر دی۔
جامعۃ المصطفیٰ(ص) کی علمی کمیٹی کے رکن نے کہا: ان شہداء کے درمیان حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ ابراہیم زکزاکی کے تین جوان بیٹے بھی شامل ہیں شیخ زکزاکی جنہوں نے نائجیریا میں شیعہ کلچر اور تعلیمات اہلبیت(ع) کی ترویج کی۔
ڈاکٹر رفیعی نے طول تاریخ میں شیعوں کی مظلومیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: رحلت پیغمبر اسلام(ص) سے ۷ صدی ہجدی تک بنی امیہ اور بنی عباس کا ظالمانہ دور حکومت رہا جنہوں نے شیعوں کو نابود کرنے کے لیے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اس کے باوجود آج شیعہ پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے شیعوں کی بقا کے عوامل گنواتے ہوئے کہا: پہلا عامل جس نے تشیع کو اب تک باقی رکھا ہے وہ ائمہ اطہار(ع) کا وجود ہے یہ وہ شخصیات ہیں جن کی مثال کسی مذہب و ملت میں مل ہی نہیں سکتی۔
انہوں نے کہا: آیت اللہ خوئی نے اپنی کتاب الرجال میں لکھا ہے کہ ’’ابوحنیفہ نے اپنی ایک کتاب میں کہا ہے کہ اگر امام صادق (ع) نہ ہوتے تو لوگ احکام حج نہ جان سکتے‘‘ اور تمام فرقے اس بات پر متحد ہیں اور امام صادق علیہ السلام کی عظمت کے معترف ہیں۔
انہوں نے شیعوں کی بقا کے دوسرے عامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شیعوں کے پاس ایسا علمی سرمایہ ہے جو کسی بھی مذہب کے پاس میسر نہیں ہے نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ، دوسری احادیث کی کتابیں، جو ائمہ معصومین سے منقول ہیں کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی شیعوں کے پاس جو علمی سرمایہ ہے یہ عقلی، منطقی اور عمیق ہے یہاں تک کہ ابن ابی الحدید کہتا ہے کہ میں نے نہج البلاغہ کے ۲۲۱ ویں خطبے کو ہزار بار پڑھا یا ’’محمد عبدہ‘‘ کا کہنا ہے کہ نہج البلاغہ کے ایک جملے نے مجھے نجات دی اور میں نے ارادہ کر لیا کہ میں اس عظیم کتاب کی شرح لکھوں۔
حجۃ الاسلام رفیعی نے تیسرے عامل کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ تیسرا عامل شیعہ معارف کو محفوظ کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کرنے میں علماء کا کردار ہے جنہوں نے اس راہ میں اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے۔
انہوں نے چوتھے عامل کو تقیہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام صادق علیہ السلام ان شیعوں پر گلہ کرتے تھے جو تقیہ کی رعایت نہیں کرتے تھے۔
حوزہ علمیہ کے استاد نے تشیع کی بقا کے پانچویں عامل کو مھدویت اور امام حاضر پر عقیدہ قرار دیتے ہوئے کہا: ہمارا جو مھدویت پر یہ عقیدہ ہے کہ لولا الحجۃ لساخت الارض باھلھا کہ اگر حجت خدا زمین پر نہ ہوتو زمین نابود ہو جائے یہ عقیدہ مذہب تشیع کو حجت الہی اور خود خداوند متعال سے جوڑتا ہے جبکہ یہ چیز کسی دوسرے مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
ڈاکٹر رفیعی نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں نائجیریا کے یوم القدس کے واقعے کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا: نائجیریا میں عالمی قدس کے روز ۳۰ افراد سے زیادہ کو شہید کیا گیا جن میں شیخ زکزاکی کے تین بیٹے بھی شامل تھے۔
انہوں نے شیخ زکزاکی کی چند خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا کہ شیخ ابراہیم کی ایک اہم ترین خصوصیت اخلاص ہے جو اللہ کے دین کی تبلیغ کی راہ میں ان کی کامیابی کی علامت ہے جس کی وجہ سے انہوں نے لاکھوں افراد کو مذہب اہلبیت(ع) کی طرف جذب کیا ہے یہ ان کا اہل بیت(ع) کی نسبت خلوص ہے جب ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انہیں دی گئی تو انہوں نے کہا کہ امام حسین(ع) کے مصائب کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔
حجۃ الاسلام رفیعی نے شیخ زکزاکی کی دوسری خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اندر ایک صفت یہ پائی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے لیے نیکی اور خیر کا منبع ہیں چاہے عیسائی ہوں یا سنی یا دوسرے غیر مسلمان وہ ہمیشہ سب کی مدد کرتے اور ان کی مشکلات کو حل کرتے ہیں۔
انہوں نے آخر میں کہا: شیخ زکزاکی نے اپنے بیٹوں کی شہادت کے واقع کے بعد انتہائی منطقی اور عاقلانہ کردار نبھایا اور زاریا کو ایک عظیم خون خرابے اور فساد سے بچا لیا ورنہ جو دشمن کی چال تھی وہ ایک دائمی قتل و غارت کا بازار گرم کرنا تھا۔
اس پروگرام میں نائجیریا کے اس واقعے کے سلسلے میں اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا۔ کے ذریعے تیار کیا گیا ایک خصوصی مجلہ بھی تقسیم کیا گیا۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *