مسئلہ فلسطین، امام خمینی(رح) کے افکار سے واقفیت کا باعث
مسئلہ فلسطین،امام خمینی(رح) کے افکار سے واقفیت کا باعث بنا
ترجمہ و ترتیب: ضامن علی چندوی
31 سالہ جمی کری کینیڈا میں پیدا ہوئے لیکن اصل میں وہ لبنانی نژاد ہیں۔عیسائی مذہب چھوڑ کر دینِ اسلام کو قبول کرنے والے جمی کری نے اپنا نام جمی کری سے بدل کر علی کاظم رکھا ہے،اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے شہر قم میں ساکن اور دینی طالب علم ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علی کاظم طالب علمی اختیار کرنے اور قم المقدسہ کی جانب ہجرت کرنے سے قبل کینیڈا کی ایک ایئر لائن میں بطور ملازم کام کرتے تھے۔
علی کاظم نے اپنے اسلام قبول کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میرا خاندان عیسائی ہے اور جن عوامل کی وجہ سے میں نے اسلام قبول کیا ان میں سے ایک سیاسی مسئلہ تھا۔میں مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے بہت ہی حساس تھا اور میں خطے میں حزب اللہ لبنان جیسی مقاومتی اور مزاحمتی تحریکوں کے توسط سے انقلاب اسلامی ایران سے واقف ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے امام حسین(ع)کے بارے میں علم نہیں تھا اور جب میں نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں تحقیق اور جستجو کرنا شروع کی تو میں امام علیہ السلام کے ذریعے امام علی(ع)،پیغمبر اکرم (ص) اور قرآن مجید تک پہنچ گیا۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ عیسائیت میں معنویت اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی اسلام میں ہے اور عیسائیت میں جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں،کہا کہ دین اسلام میں، میں نے باطل کے خلاف حق کی استقامت کو درک کیا،اسلام کے خلاف کوئی بھی باطل تحریک تباہ ہو جاتی ہے لہذا ان باتوں کے پیش نظر میں نے سیاسی طور پر اسلام قبول کرنے کا ارادہ کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا تو میں 21 یا 22 سال کا ایک نوجوان تھا،میرا عقیدہ کمزور اور دینی و معنوی اعتبار سے کم درجے پر فائز تھا،کافی تحقیق اور جستجو کے بعد،میں نے سیاسی طور پر اسلام قبول کرنے کا عزم کر لیا اور بعد میں، میں سماجی اور معنوی اعتبار سے دینِ اسلام کی طرف زیادہ مائل ہو گیا۔
علی کاظم نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ کینیڈا میں حجاب اور باپردہ خواتین کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں،اس بات کی نشاندہی کی کہ میڈیا نے وہاں کے لوگوں کی ایک خاص ذہنیت بنائی ہے اور ان کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات ہیں وہ ٹیلی ویژن پر نشر کئے جاتے ہیں۔
انہوں پردہ دار خواتین سے کینیڈا میں کئے جانے والے امتیازی سلوک پر مبنی اپنی ایک یادداشت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب میں ائیرپورٹ پر کام کرتا تھا تو وہاں پر اگر کوئی پردہ دار خاتون شاپنگ کرنے آتی تو میرے ساتھ دفتر میں کام کرنے والے ساتھی پیٹھ پیچھے طرح طرح کی توہین آمیز باتیں کرتے، لیکن میں ان کا دفاع کرتا تھا۔
میں علامہ طباطبائی(رح) کی کتابوں کے توسط سے نہج البلاغہ سے واقف ہوا
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ میں اپنی تحقیقات کو وسعت دینے کے بعد اسلام کی معنویت سے مزید واقف ہوا،کہا کہ آہستہ آہستہ میں نے علامہ طباطبائی(رح) کی کتابیں اور دیگر فلسفی اور عرفانی کتب کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔مجھے ان کتابوں کا مطلب زیادہ سمجھ نہیں آتا تھا،میں صرف ان کتابوں کو پڑھنے اور ان کے ذریعے اسلامی ثقافت سے زیادہ واقف ہونے کی کوشش کر رہا تھا یہاں تک کہ میں نے نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام کی احادیث پڑھ لیں۔
علی کاظم نے مزید کہا کہ امام علی علیہ السلام کی احادیث اور نہج البلاغہ کو سمجھ کر، میں اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ دینِ اسلام میں علم کا ایک گہرا سمندر ہے اور میں نے تاریخِ اسلام سے جو کچھ سمجھا وہ یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد جہالت پر نہیں ہے اور میں آیۃ اللہ علامہ طباطبائی(رح) کے عرفانیات سے بہت متأثر ہوا۔
مسئلہ فلسطین،امام خمینی(رح) کے افکار سے واقفیت کا باعث بنا
علی کاظم نے کہا کہ میں نے معنویت اور امام خمینی(رح) کے بارے میں بہت سی کتابیں پڑھیں،چونکہ مجھے بچپنے سے ہی مسئلہ فلسطین میں ایک خاص دلچسپی تھی اس لئے مسئلہ فلسطین امام خمینی(رح) اور سید حسن نصر اللہ کے افکار سے واقفیت کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اپنی زیادہ تر تحقیق اور جستجو سائبر اسپیس کے ذریعے کیا،چونکہ میں اصل میں لبنانی ہوں،اس اصلیت کی وجہ سے میں نے فلسطین کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی۔امام خمینی(رح) اور سید حسن نصر اللہ کے افکار پر مشتمل بہت ساری کتابوں اور پیش آنے والے واقعات پر کافی مطالعہ کرنے کے بعد،یہ تحقیق مجھے اس مرحلے پر لے آئی کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام قبول کروں گا۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں میں اپنے سیاسی فیصلے کے علاوہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جہنم اور جنت موجود ہے اور اسلام کے بغیر جینا کوئی معنی نہیں رکھتا،یقین اور ذاتی تحقیق کے ساتھ میں اسلام کی حقانیت کو درک کر چکا تھا میں نے احساس کیا کہ مجھے مسلمان ہونا چاہئے تاکہ اسلام کی مدد کروں اور مجھے اس بات کا علم بھی ہوا کہ دینِ اسلام کے بغیر جہنم کے سوا کچھ نہیں ہے۔
علی کاظم نے کہا کہ دینِ اسلام کے بارے میں ابتدائی تحقیقات کے دوران،میں کسی مسلمان کو نہیں جانتا تھا اور اگر میں کسی مسلمان سے ملتا تھا تو مجھے معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں،یہاں تک کہ مجھے مسلمان ہونے کے بعد بہت سے مسلمان دوست ملے۔
انہوں نے اپنی یادداشت میں کہا کہ میں نے اپنے خاندان کو اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور میں ان سے اس بات کو چھپاتا تھا،کیونکہ وہ متعصب عیسائی ہیں اور میری مخالفت کرتے،لہٰذا میں ہمیشہ کوشش کرتا تھا کہ گھر والوں کے ساتھ زیادہ نہ رہوں تاکہ وہ متوجہ نہ ہوں لیکن آہستہ آہستہ انہیں میرے رہن سہن اور کھانوں سے معلوم ہو گیا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں اور میں نے انہیں مسلمان ہونے کے چند سالوں بعد بتا دیا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں۔
میرے سور کا گوشت نہ کھانے سے گھر والوں کو معلوم ہوا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں
علی کاظم نے کہا کہ میرے گھر والوں کو شک ہونے کے عوامل میں سے ایک میرا سور کا گوشت نہیں کھانا تھا کیونکہ میں سور کا گوشت کھانے سے انکار کرتا تھا یا رمضان کے مقدس مہینے میں،میں روزہ رکھتا تھا اور کچھ نہیں کھاتا تھا۔
انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کے حوالے سے اپنے گھر والوں کی مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب میرے گھر والوں کو پتا چلا تو انہوں نے میری سخت مخالفت کی اور میرے ساتھ امتیازی سلوک کرنا شروع کردیا تو میرا اپنے گھر والوں سے کچھ عرصے کے لئے رابطہ منقطع ہو گیا یہاں تک کہ میں ایک سال قبل کینیڈا گیا اور اپنے والدین سے میں نے دوبارہ رابطہ برقرار کردیا۔
نوجوان طالب علم نے اپنی تحقیق اور جستجو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے تحقیق شروع کی تو مجھے کوئی ایسا مرکز نہیں ملا جو میری مدد کرتا،اس وقت میں صرف مسجد جاتا تھا،مسجد میں نماز ادا کرتا تھا اور اپنی زیادہ تر تحقیق انٹرنیٹ پر کرتا تھا۔آن لائن گفتگو اور لیکچرز میں اگر کسی کتاب پر بات ہوتی تو میں اسے پڑھتا اور زیادہ سے زیادہ مکمل معلومات حاصل کرنے کے لئے نئی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا۔
علی کاظم نے بیان کیا کہ مسلمان ہونے کے بعد میں نے قم آنے اور یہاں رہنے کا فیصلہ کیا اور علامہ طباطبائی کی زندگی سے متأثر ہو کر حوزہ علمیہ قم کو حصول علم کے لئے انتخاب کیا اور معنویت بھرا شہر قم میں رہنے اور دینی طالب علم کی حیثیت سے درس پڑھنے سے میں ایک معنوی ثقافت میں غرق ہو چکا ہوں اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بچے مستقبل میں یورپ میں پروان چڑھیں، اسی لئے میں نے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی بیوی سے ہندوستان میں ملا اور وہ شروع سے ہی مسلمان تھی،وہ بھی قم آکر تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ہم نے 26 سال کی عمر میں شادی کی اور قم آگئے۔
میں کینیڈا میں بہترین مالی حالت پر طالب علمی کو انتخاب کر کے حاصل ہونے والے ذہنی اور معنوی سکون کو زیادہ ترجیح دیتا ہوں
انہوں نے طالب علموں کی معاشی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا میں ملازمت اور آمدنی کے لحاظ سے مجھے جو سکون حاصل تھا، اس کے باوجود میں طالب علمی کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ میں یہاں ثقافت،سلامتی اور معنویت کے لحاظ سے پُر سکون ہوں۔
وہ نہج البلاغہ کے اپنی روح اور نفسیات پر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نہج البلاغہ کا متن دل کو چھونے والا اور بہت متأثر کن تھا۔
انہوں نے اس سوال کے جواب میں،کونسی چیز اقتصادی مسائل اور پابندیوں کے باوجود ایران کو اپنی رہائش گاہ کے طور پر منتخب کرنے کا باعث بنی؟کہا کہ میں ایران کے اندر کسی ایسے مسئلے کا مشاہدہ نہیں کرتا،یہاں اگر کوئی چھوٹا سا واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو اسے میڈیا بڑا بنا کر پیش کرتا ہے،دشمن نفسیاتی جنگ کی تلاش میں ہیں،جب کہ اگر کچھ اچھا واقعہ رونما ہوتا ہے تو اسے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے برعکس،کینیڈا اور دیگر ممالک میں،اگر کوئی مشکل پیش آ جاتی ہے،تو وہ اسے چھپاتے ہیں اور اچھی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف یورپ کی اقتصادی اور ثقافتی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے اندر مشکلات معمولی ہیں اور یورپ ممالک میں بہت سے مشکلات اور مسائل ہیں،بڑے بڑے شہروں میں لوگوں کے پاس رہنے کے لئے گھر نہیں ہے اور اسکولوں میں سرعام منشیات کا استعمال ہوتا ہے، لیکن میڈیا اس پر پردہ ڈالتا ہے۔
مجھے رضاکاروں کے ساتھ لوگوں کی مدد کر کے دلی سکون ملتا ہے
انہوں نے اپنی رضاکارانہ سرگرمیوں میں شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے رضاکار طلباء کے ساتھ سیستان اور بلوچستان کا بہت سفر کیا ہے اور صوبۂ لرستان کے پُلِ دختر شہر کے سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کی مدد کے لئے شرکت کرنا ان جہادی گروپوں میں میرا ایک اور اچھا تجربہ تھا۔
علی کاظم نے کہا کہ پُلِ دختر سیلاب ایک بڑا سانحہ تھا،میں وہاں کے لوگوں کی مدد کے لئے بھی حاضر ہوا اور پہلی بار میں رضاکارانہ سرگرمیوں میں حصہ لے رہا تھا اور مجھے وہاں پر رضاکارانہ سرگرمیاں سرانجام دے کر دل میں ایک اچھی کیفیت کا احساس ہوا۔
میں مستقبل میں ایران میں ہی رہنا پسند کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو اپنا فرض سمجھ کر کرتا رہوں گا
انہوں نے ایران اور کینیڈا میں کی جانے والی مدد کے درمیان اختلافات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ کینیڈا کے ایک گاؤں میں آگ لگ گئی اور لوگ معمولی مدد کے لئے بھی وہاں نہیں گئے اور صرف خبروں کے ذریعے آگاہی حاصل کرتے رہے جبکہ ایران میں دوستی کا جذبہ اقدار اور انسانیت کا مظہر ہے۔
انہوں نے آخر میں بیان کیا کہ مستقبل میں،میں اسلامی جمہوریہ ایران میں ہی رہوں گا اور سائبر سپیس اور انٹرنیٹ کے ذریعے دینِ اسلام کی تبلیغ فرض سمجھ کر کرتا رہوں گا۔
دیدگاهتان را بنویسید