تازہ ترین

کیا عقل بھی گنہگاروں کی توبہ قبول کرنے کی نصیحت کرتی ہے ؟

اگر چہ توبہ قبول کرنے اور عذر خواہی کو عقل واجب اور ضروری نہیں سمجھتی لیکن دنیا کے عقلاء کا نظریہ یہ ہے کہ اگر کوئی غلط کام انجام دے اور پھر عذر خواہی کرنے کیلئے تیار ہوجائے
شئیر
91 بازدید
مطالب کا کوڈ: 7021

کیا عقل بھی گنہگاروں کی توبہ قبول کرنے کی نصیحت کرتی ہے ؟
تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ اگر توبہ جامع الشرائط ہو تو وہ خدا کی بارگاہ میں مقبول ہے اور آیات و روایات بھی واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں لیکن اس سلسلہ میں بہت سی بحثیں ہوئی ہیں کہ توبہ کو قبول کرنا عقلی ہے یانقلی یا عقلائی ہے ۔
تمام علماء کا اعتقاد ہے کہ توبہ کے بعد عقاب اور مجازات کے ساقط ہونے میں خدا کے فضل و احسان کا پہلو پایا جاتا ہے ، اگر خداوندعالم ارادہ کرلے کہ توبہ کے بعد اپنے بندہ کے گناہ کو نہ بخشے تو ممکن ہے جس طرح لوگوں کے درمیان رائج ہے کہ جب کوئی کسی کے حق میں ظلم کرتا او رپھر عذر خواہی کرتا ہے تو وہ اس کو بخشے یا نہ بخشے۔
جبکہ دوسرے بعض علماء توبہ کے ذریعہ عقاب کے ساقط ہونے کو واجب اور ضروری سمجھتے ہیں ، یہاں تک کہ مجرم کے عذر خواہی کرنے کے بعد توبہ کے قبول نہ کرنے کو برا اور ناپسند سمجھتے ہیں اور یہ کام حقیقت میں خداوندعالم پر جائز نہیں ہے ۔
ممکن ہے یہاں پر تیسرے نظریہ کو قبول کرلیا جائے اور وہ یہ ہے کہ توبہ قبول کرنے کا ضروری ہونا عقلی امر ہے یعنی اگر چہ توبہ قبول کرنے اور عذر خواہی کو عقل واجب اور ضروری نہیں سمجھتی لیکن دنیا کے عقلاء کا نظریہ یہ ہے کہ اگر کوئی غلط کام انجام دے اور پھر عذر خواہی کرنے کیلئے تیار ہوجائے اور اپنے غلط کاموں کے تمام برے آثار کی اس طرح تلافی کرے کہ گناہ کی کوئی چیز باقی نہ رہے ، اگر کسی کی عزت و آبرو چلی گئی ہو تو اس کی عزت و آبرو کو واپس لائے ، اگر کسی کا کوئی حق پائمال ہوگیا ہو تو اس کے حق کو کامل طور پر تلافی کرے اور اگر سامنے والا ناراض ہوگیا ہو تو مختلف طریقوں سے اس کی ناراضگی کو دور کرے ، ایسے حالات میں دنیا کے تمام عقلاء کا نظریہ ہے کہ اس کی توبہ او رعذر کو قبول کرلینا چاہئے اور اگر کوئی قبول نہ کرے تو اس کو کینہ توز اور انسانیت و اخلاق سے خارج سمجھتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قادر مطلق اور ہر چیز سے بے نیاز خدا وند عالم کے لئے سزاوار ہے کہ وہ اس طرح کے امور میں توبہ کرنے والوں کی توبہ اور عذرخواہی کو قبول کرے او ران کے عقاب کو نظر انداز کرے ۔
بلکہ ممکن ہے کہ اس سے آگے قدم بڑھایا جائے اور توبہ کے قبول کرنے کو عقلی شمار کیا جائے اور اس کو ”قاعدہ قبح نقض غرض” پرحمل کیا جائے۔یعنی ہم جانتے ہیں کہ خداوندعالم بندوں کی اطاعت اور عبادت سے بے نیاز ہے اور تکالیف الہی ، بندوں کی تربیت اور کمال حاصل کرنے کیلئے ایک لطف ہے ، نماز ، روزہ اور تمام عبادات ہماری روح و جان کی پرورش کرتی ہیں اور روزانہ خدا سے نزدیک کرتی ہیں ، تمام واجبات او رمحرمات ہمارے کمال میں بہت زیادہ موثر ہیں۔
مفصل جواب:
توبہ کو قبول کرنا ایک عقلی امر ہے ، یعنی اگر چہ توبہ قبول کرنے اور عذر خواہی کو عقل واجب اور ضروری نہیں سمجھتی لیکن دنیا کے عقلاء کا نظریہ یہ ہے کہ اگر کوئی غلط کام انجام دے اور پھر عذر خواہی کرنے کیلئے تیار ہوجائے اور اپنے غلط کام کے تمام برے آثار کی تلافی کرے تو اس کے عذر اور توبہ کو قبول کرلیتے ہیں اور اگر کوئی قبول نہ کرے ، اس کو کینہ توز اور انسانیت و اخلاق سے خارج سمجھتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قادر مطلق اور ہر چیز سے بے نیاز خدا وند عالم کے لئے سزاوار ہے کہ وہ اس طرح کے امور میں توبہ کرنے والوں کی توبہ اور عذرخواہی کو قبول کرے او ران کے عقاب کو نظر انداز کرے ۔

بشکریہ: https://makarem.ir/

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *