تازہ ترین

داستان ان کی ہے قلم میرا

آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر علمائے کرام نے بھی آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے سے تحریک جعفریہ پاکستان کے سربراہوں کی توجہ بھی اپنی طرف مبذول کرائی۔
شئیر
109 بازدید
مطالب کا کوڈ: 7199

داستان ان کی ہے قلم میرا
(سوانح حیات حجۃ الاسلام شہید منیٰ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین)
تحریر: ایس ایم شاہ
انسانی زندگی پانچ ادوار پر مشتمل ہے: بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی اور بڑھاپا۔ ان تمام ادوار کے آپس میں ایک منطقی رابطہ قائم ہے۔ اس اٹوٹ رشتے کے ذریعے سے یہ پانچ مراحل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ بنابریں جسے بچپن میں صحیح تربیت ملے اس کا لڑکپن کافی حد تک بہتر گزرتا ہے۔ جس کا لڑکپن معاشرے کی کثافتوں کی نذر نہ ہو تب اس کی نوجوانی بھی بہتر گزر جاتی ہے۔ جو شخص نوجوانی میں غلط سوسائٹی، برےمعاشرے، برے گھرانے اور برے مربّی سے محفوظ رہے اس کی جوانی ہوا و ہوس کے سیلاب میں غرق نہیں ہوتی۔ جس کی جوانی تمام آفتوں سے بچ کر گزر جائے تو اس کا بڑھاپا تو سنور ہی جاتا ہے۔
البتہ ان تمام مراحل میں انسان کی اپنی ذاتی استعداد اور رجحانات کا دخل بھی ضرور ہوتا ہے۔ بالخصوص اگر کوئی بچہ غیرمعمولی صلاحیتوں کا حامل ہو تو اس کے رجحانات بھی منفرد قسم کے ہوتے ہیں۔ ایسے باصلاحیت بچوں کو جب مطلوبہ وسائل فراہم ہو جاتے ہیں تو جوان ہوکر وہ نا صرف اپنی ذات کو تمام بلاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو بھی سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بسا اوقات تو پورے علاقے اور ملک کو برائیوں اور مصیبتوں سے نجات دلانے کے لئے اپنے حصے کی شمع روشن کرتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے تربیت یافتہ افراد بڑے عرصے کے بعد خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسے ہی افراد میں سے ایک منفرد اور چمک دار ستارہ حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین قدس اللہ سرّہ بھی تھے۔
موصوف نے 22نومبر 1971ء کو قمراہ سکردو میں آنکھیں کھولیں۔ آپ کے والد حاجی مہدی مرحوم صوم و صلاۃ کے پابند ہونے کے ساتھ ساتھ مداح اہل بیت علیھم السلام بھی تھے۔ علاوہ ازیں والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کے ناطے آپ کو ایک خاص شفقت و محبت نصیب ہوئی۔ لہذا آپ کی تربیت کے لیے بنیادی درسگاہ بہترین گھرانہ قرار پائی۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے آبائی گاؤں قمراہ میں ہی حاصل کی۔ اس دوران میں بھی آپ کو دین دار اساتذہ سے کسب فیض کرنے کا سنہری موقع ملا۔ بعد ازاں نوجوانی کے عالم میں جب آپ اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے سکردو آئے تب آپ کو آئی ایس او جیسا بہترین پلیٹ فارم ملا۔ آپ آئی ایس او بلتستان ڈویژن کے صدر بھی رہے۔ آپ نے نا صرف اس پلیٹ فارم کی بدولت اپنی ذات کو معاشرے کی آلودگیوں سے بچائے رکھا بلکہ اپنے ہم عمر دوستوں کو بھی اس پلیٹ فارم کی طرف راغب کرکے ان کی تربیت کی اور ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
ڈگری کالج سکردو سے ایف اے اور بی اے اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد چونکہ آپ کو قرآن مجید اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کے ساتھ ایک خاص شغف تھا اور اپنے مافی الضمیر کو دوسروں تک پہنچانے کا شوق بھی بھرپور طریقے سے پایا جاتا تھا۔ لہذا آپ نے اپنے فن سخنوری کا لوہا بھی اسی دور میں ہی منوا لیا۔
آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر علمائے کرام نے بھی آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے سے تحریک جعفریہ پاکستان کے سربراہوں کی توجہ بھی اپنی طرف مبذول کرائی۔ آپ نے اس ملکی سطح کی تنظیم میں خلوص نیت اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ حریم اہل بیت علیھم السلام کا بھرپور دفاع کیا۔
علوم محمد و آل محمد علیھم السلام سے آپ کی چاہت اور بعض علما کے مفید مشوروں بالخصوص امام جمعہ امامیہ جامع مسجد سکردو حجۃ الاسلام شیخ محمد حسن جعفری صاحب کی پدرانہ ہمدردی کے باعث آپ کو عُشّ آل محمد علیھم السلام قم المقدّسہ میں جیّد علما کے محضر میں زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا بہترین موقع نصیب ہوا۔ حوزے کے اساتذہ کو جب آپ کی صلاحیتوں کا ادراک ہوا تو انھوں نے بھی آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے ان قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ کیا۔ کم وقت میں آپ نے مختلف فنون میں مہارت حاصل کی۔ سطحیات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے بعد آپ نے مختلف مراجع عظام کے دروس خارج میں بھی بھرپور شرکت کی۔
آپ جہاں ایک بہترین خطیب تھے وہیں ایک منفرد محقق بھی تھے۔ سیاسی ایشوز کی تحلیل میں تو آپ اپنی مثال آپ تھے۔ جب آپ کسی اہم سیاسی ایشو پر تبصرہ کرنا شروع کرتے تھے تو جی کرتا تھا کہ گھنٹوں سنتا ہی رہے، آپ حقائق کو الفاظ کا ایسا لبادہ پہناتے تھے کہ واقعیّت مجسم ہوکر سامنے آجاتی تھی۔ آپ ایک عالمی فکر کے حامل عالم دین تھے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں اگر کسی پر ظلم ہوتا تھا تو آپ بے چین ہوجاتے تھے۔
آپ نے منجی عالم بشریت امام زمان عجّل اللہ فرجہ الشریف سے خصوصی عقیدت کی بنا پر اپنے ایم فل تھیسسز کا عنواں ہی “احادیث تطبیقی مہدویت در صحاح ستہّ و کتب اربعہ” انتخاب کیا اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ بعد ازاں آپ کی گوناگوں تبلیغاتی مصروفیات کے باوجود بھی آپ نے قرآن و حدیث میں پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھان لی۔ آپ نے معینہ کلاسیں ختم کرنے کے بعد پی ایچ ڈی تھیسسز ” نقد و بررسی آراء قرآنیون در مورد قرآن و سنت ” (یعنی؛ قرآن و سنت کے بارے میں قرآنیوں کے نظریات کا تنقیدی جائزہ) کے موضوع پر لکھا۔ تھیسز کے دفاع کا منظر دیدنی تھا۔ ہم نے خود اس تھیسز ڈیفنس سیشن میں شرکت کی۔ آپ نے ایسے علمی انداز سے پروفیسر حضرات کے اشکالات کا جواب دیئے کہ اس ڈیفنس سیشن میں موجود مخاطبین آپ کے علمی مطالب اور اسے پیش کرنے کا منفرد انداز دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ایڈوائزی بورڈ کے اراکین نے بھی آپ کی شخصیت کو ایک منفرد شخصیت اور تھیسسز کو بھی نہایت عمیق اور مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی تحقیقات بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔
تھیسز میں آپ نے 98.75% نمبر لے کر تحقیقی دنیا میں پاکستان اور اسلام کا نام روشن کیا۔ علاوہ ازیں آپ کی مزید دو کتابیں بعنوان “مہدویت اور انسان کا مستقبل ” اور “قرآنی زندگی” چھپ چکی ہیں۔ بعض دوسری کتابیں بھی زیرِ طبع ہیں۔ ان میں سے ایک اہم کتاب “ولایت فقیہ ” بھی ہے۔
آپ اپنی عمر کے آخری دو سال سرزمین قم المقدسہ میں مجلس وحدت المسلمین کے سیکریڑی جنرل کے عنوان سے بھی دینی خدمات انجام دیتے رہے۔ بنابریں موصوف ایک ایسی شخصیت ہیں کہ جس نے ہر پلیٹ فارم سے عالمِ اسلام کی خدمت کی ہے اور عالمِ اسلام کی رہبری اور فلاح و بہبود کے لئے کام کیا ہے۔
آپ اپنی شہادت سے پہلے بھی مسلسل تین سالوں سے تبلیغ کے سلسلے میں حج کے ایام میں حج بیت اللہ سے مشرّف ہو رہے۔ شہادت کے سال بھی آپ اپنے خالق حقیقی سے لو لگانے گئے تھے۔ آخر کار اعمال حج کی بجاآوری کے دوران میں آل سعود کی نااہلی، ان کی انتظامی کمزوری، بے اعتنائی اور بدنظمی یا پھر سازش کے باعث 24 ستمبر 2015، بمطابق 10ذی الحجۃ 1436 کو منیٰ کے مقام پر احرام کے اُجلے ملبوس میں لبیک اللہم لبیک کی صداؤں کی گونج میں اپنے حقیقی معشوق سے جا ملے۔
یوں ہم ایک عالم باعمل، محقق کم نظیر، خطیب توانا، پیکر تقویٰ، مدرس بے بدیل، تابناک ماضی، امیدِ مستقبل، عالمِ بصیر و مبارز سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ آپ کے مقدس جسدِ خاکی کو مکہ مکرمہ میں ہی قبرستانِ مِنیٰ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
آخر میں خدا کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالٰی انہیں بہشت بریں میں جوارِ ائمہ معصومین علیھم السلام میں جگہ عنایت کرے اور ہمیں ان کے پاکیزہ مشن کو احسن طریقے سے جاری رکھنے کی توفیق دے آمین!

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *