امن کا گہوارہ گلگت بلتستان اور سانحۂ غواڑی
تحریر: ایس ایم شاہ
گلگت بلتستان امن و امان کا گہوارہ تھا، گہوارہ ہے اور گہوارہ رہے گا۔ امن و امان کے باعث یہاں کے لوگ الحمد للہ زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کر رہے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں پنجاب کو پیچھے چھوڑا ہے، ایک سے ایک اچھے ڈاکٹرز اور انجنیئرز بن کے آرہے ہیں۔ سوشل سائنسز کی طرف بھی نئی نسل کا رجحان بڑھ رہا ہے؛کیونکہ ملک کو چلانے والے نہ ڈاکٹرز ہیں اور نہ انجنیئرز بلکہ سائنس کے بجائے آرٹس مضامین پڑھ کر اسی شعبے میں آگے نکلنے والے بیوروکریٹس ہیں۔ جن کے ہاتھ میں پورے ملک کی باگ ڈور ہوتی ہے۔ ایک سے ایک ماہر قانون بن کر آرہا ہے۔ یہ شعبہ بھی نہایت اہمیت کا حامل شعبہ ہے کیونکہ ملک کا تیسرا بڑا ستون عدلیہ ہے۔
سیاحت کے شعبے میں تو یہاں کے قدرتی حسن کے سامنے سوزرلینڈ کی خوبصورتی بھی ہیچ نظر آتی ہے۔ قدرتی حسن اور امن و امان نے تو گلگت بلتستان کو پورے ملک کا سیاحتی مرکز بنا دیا ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ گلگت بلتستان کے عوام سیاسی حوالے سے بھی کافی باشعور ہوچکی ہے۔ جس کے باعث یہاں کے عوام لسانی، مذہبی اور علاقائی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر ایک ملت بن کے ابھر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں آئینی حقوق کے حصول کا مطالبہ، گندم سبسڈی سمیت دیگر اہم ایشوز پر جی بی کے عوام متحد ہوچکی ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں یہاں کے عوام کی پیشرفت ایک خاص ٹولے کے لئے ناقابل ہضم ہے۔ یقینا اس میں بعض نادیدہ طاقتوں کا ہاتھ بھی ہے جو گنگچھے کی2% آبادی کو 98%کے مقابلے میں لاکھڑی کرنے کے درپے ہے۔
اس ٹولے کے تانے بانے وہاں سے ملتے ہیں جہاں پاک فوج کے جوانوں کو شہید کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو گھسیٹا جاتا ہے اور ان کے سروں سے کھیلا جاتا ہے۔ جس کی واضح مثال شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کے آپریشن ضربِ عضب اور ردّالفساد کے دوران میں رونما ہونے والے سانحات ہیں۔ تحریک طالبان کا ترجمان خالد خراسانی بھی اسی ٹولے کا سرغنہ تھا۔ پاکستان کی مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں اور سکولوں پر حملے کے نتیجے میں 80000 اسی ہزار بے گناہ شہری جو شہید ہوئے یہ سب بھی اسی دہشتگرد ٹولے کی کارستانیاں ہیں۔
ان کی تربیت ملک کے ان 24000مدارس میں ہوتی ہے جن کی مکمل فنڈنگ بیرون ملک سے ہوتی ہے۔ فقط جنوبی پنجاب میں امریکی ڈکٹیشن پر سعودی عرب اور عرب امارات مذہبی انتہاپسندی کے فروغ اور دہشتگردی کے لئے سالانہ 10ملین ڈالر فراہم کر رہے ہیں اور چند سال پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ وہابی مکتب فکر کی ترویج کے لئے 100 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ اس طرح کے تمام چشم کشا حقائق کا ثبوت اس لنک پر مشاہدہ کرسکتے ہیں👇
(www.facebook.com/naimatshan.ali/videos/685246391674355/)
ان کی آئیڈیالوجی کے
مطابق خود ان کے علاوہ باقی سب کافر و مشرک ہیں، ملک کے محافظ پاک فوج سے لڑنا ان کے نزدیک سب سے بڑا جہاد ہے۔ اتحاد و اتفاق اور جوڑنے کی باتیں کرنے والے اور اس ہدف کے لئے عملی اقدام کرنے والے ان کے نزدیک غدار ہیں۔ بے گناہ مسافرین کو بسوں سے اتار کر ذبح کرنا یہ لوگ بہادری سمجھتے ہیں، جس کی واضح مثال سانحۂ کوہستان اور سانحہ چلاس ہے۔ اگر سانحۂ کوہستان اور سانحۂ چلاس کے مجرموں کو قرار واقعی سزا مل جاتی تو حال ہی میں گلگت میں دو بے گناہ شیعہ مسلمان جام شہادت نوش نہ کر جاتے اور نا ہی سانحۂ غواڑی رونما ہوتا۔
خپلو کے نوربخشی برادری کو آپس میں دست و گریباں کرنے میں بھی اسی ٹولے کا کلیدی کردار ہے۔ جس کی واضح مثال انہیں صوفیہ اور امامیہ میں تقسیم کرنا ہے۔ اس ٹولے کی کوشش ہے کہ ان محبین اہل بیت میں بھی ناصبیت کی بیج بوئی جائے۔ جس کی واضح مثال شگر گلاب پور سے تعلق رکھنے والے علی محمد ہادی کے ذریعے بنیادی مذہبی اقدار کی توہین کرانا اور اپنے مدارس کے طلبا کے ذریعے نوربخشی کی روپ میں ان کے مساجد پر قبضہ جمانے کی کوشش کرنا ہے۔ بیرونی امداد سے یوگو کے سادہ لوح عوام کو انھوں نے سعودی فنڈنگ سے مکمل وہابی بنا دیا ہے۔
بنابریں غواڑی میں جلوس عزا کو روکنا فقط ان کا ہدف نہیں بلکہ ان کے ناپاک عزائم بہت ہی خطرناک ہیں۔ ورنہ
حضرت امام حسین علیہ السلام کو مسلمان تو کیا غیر مسلم بھی مانتے ہیں۔ محرم الحرام کے جلوس دنیا کے ہر ملک میں نکلتا ہے خواہ وہ ملک اسلامی ہو یا غیر مسلم
اور ہر ملک اسے اپنے شہریوں کا ایک جمہوری حق سمجھتا ہے۔ انڈیا میں اتنے شدت پسند ہندو حکومت ہونے کے باوجود بھی جلوس عزا بڑے احترام سے نکلتے ہیں اور ہندو انتہا پسند وزیر اعظم مودی ہر سال عاشورا پر عظمت امام حسین علیہ السلام اور عاشورا کی مناسبت سے اپنا پیغام نشر کرتا ہے۔ ہندو اور سکھ ان جلوسوں کی سکیورٹی انجام دیتے ہیں اور عزاداروں کی خدمت کو اپنے لئے شرف سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے دیگر غیر مسلم ممالک میں بھی جلوس عزا نکالنے پر کوئی پابندی نہیں۔ ہمارا ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور ہمارے آئین میں ہی تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہبی رسومات مکمل آزادی کے ساتھ ادا کرنے کا حق حاصل ہے۔ غواڑی گاؤں ضلع گنگچھے میں واقع ہے۔ یہاں کی اکثریت اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے جبکہ شیعہ امامیہ اور شیعہ نوربخشی بھی کافی تعداد میں ہیں۔ گزشتہ سال محبین اہلبیت نے دس محرم الحرام کو جلوس عزا نکالا تو ایک خاص ٹولے نے مکمل پلاننگ کے تحت ان پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ زخمی ہوئے۔ ان حملہ آوروں نے جو نعرے لگائے وہ قلمبند کرنے کے لائق نہیں۔ درحقیقت یہ فقط ایک جلوس عزا کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ٹولہ اسی مسئلے کو بہانہ بناکر گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کی آگ لگانا چاہتا تھا؛ تاکہ امن عامہ مکمل خراب ہوجائے، سکردو، شگر، کھرمنگ اور روندو والے غواڑی والوں سے انتقام لینے کے درپے ہو جائیں اور دیامر اور چلاس والے ماضی قریب کی یاد دوبارہ تازہ کرکے بے گناہ مسافرین کو پھر سے نشانہ بنانے لگ جائیں۔ دوسرے شہروں سے گلگت بلتستان سیر و تفریح کے لئے آنے والے لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں محسوس کرکے گلگت بلتستان سے اپنا رخ موڑ لیں۔ یوں سیاحتی شعبہ تباہ و برباد ہوجائے، تعلیمی ادارے بند ہونے کے باعث یہ ادارے کھنڈرات میں بدل جائیں اور بچوں کو تعلیم و تربیت میسر نہ ہونے کے باعث ایک جاہل نسل پروان چڑھے اور ان کا مستقبل تاریک ہوجائے۔ یہاں کے عوام آپس میں اس طرح دست و گریباں ہو جائے کہ دوبارہ مشترکہ ایشوز کے لئے آواز اٹھانے کی پوزیشن میں ہی نہ رہے۔ نہ آئینی حقوق کی بات ہو، نہ گندم سبسڈی جیسے اہم ایشوز پر کوئی مشترکہ بیانیہ سامنے آئے، نہ بجلی بحران پر کوئی متفقہ فیصلہ کرسکے اور نا ہی پانی کے بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت اور اداروں پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں رہے۔
بعد ازاں بلتستان بھر کے علما و عمائدین کی کاوشوں سے فریقین میں صلح صفائی ہوگئی اور مستقبل کے حوالے سے یہ طے پایا کہ آئندہ فریقین میں سے ہر ایک اس بات کا پابند ہوگا کہ دوسرے مذہب کے پیروکاروں کی مذہبی رسومات کا مکمل احترام کرے اور معینہ راستے سے آئندہ سے باقاعدہ پرامن جلوس برآمد ہوگا۔ اس اسسٹم پیپر پر سرکاری عہدہ داروں سمیت فریقین کے ذمہ دار علما نے دستخط بھی کئے۔
اس سال محرم الحرام نزدیک ہوتے ہی یہ حل شدہ ایشو منظم انداز سے دوبارہ بحال ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں گلگت میں محرم الحرام سے ایک دن پہلے ہی علم کشائی کے لئے جانے والے قافلے پر اچانک اسی ٹولے کے ہم فکر افراد نے حملہ کیا۔ جس کے نتیجے میں شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے دو بے گناہ خوبصورت جوان جام شہادت نوش کرگئے۔ آغا سید راحت حسین الحسینی نے بہترین قائد اور مدبر لیڈر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے نہ فقط تمام لوگوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیا بلکہ اہل سنت برادری کو باقاعدہ مجالس عزا میں بھرپور طریقے سے شرکت کی دعوت بھی دی۔ جس کے بعد گلگت کی سطح پر حالات کنٹرول میں آگئے تو بلتستان میں دوبارہ غواڑی ایشو کو اٹھایا گیا۔ اس مسئلے کو اتنا الجھایا گیا کہ نو محرم الحرام تک شاہراہ سیاچن پر جلوس عزا نکالنے کے حوالے سے فریق مخالف کی جانب سے مکمل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان کے شیعہ برادری کی جانب سے سخت مگر پرامن رد عمل سامنے آتا رہا۔ بعدازاں شیعہ علما اور عمائدین نے امن عامہ کی خاطر جلوس کو محدود کرنے اور اسوہ پبلک سکول سے جلوس نکال کر اسی سکول سے تھوڑے ہی فاصلے پر سڑک کی دوسری جانب واقع مسجد امام رضا پر جلوس کو اختتام پذیر کرنے پر اتفاق کیا۔ یوں گلگت میں جس طرح آغا سید راحت حسین الحسینی کی بابصیرت قیادت نے گلگت بلتستان کو ایک بہت بڑے بحران سے نجات دلا دی اسی طرح بلتستان میں علامہ شیخ محمد حسن جعفری کی بابصیرت قیادت اور دیگر علما و عمائدین کی وسعت قلبی اور وسعت فکری کے باعث مفاد عامہ میں گلگت بلتستان کو ایک بار پھر فرقہ واریت کی آگ سے نجات مل گئی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کے امن و سکون کو سبوتاژ کرنے کے درپے شرپسند عناصر کا حقیقی معنوں میں سراغ لگا کر انہیں قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ ہر شعبے میں ترقی کرتا ہوا گلگت بلتستان اپنی ترقی کی راہوں کو مزید بہتر انداز سے طے کرسکے۔
سلام گلگت بلتستان۔
سلام مملکت عزیز پاکستان
دیدگاهتان را بنویسید