دنیا اور انسان کا باہمی تعلق نہج البلاغہ کی روشنی میں
مختصر سی تمہیدی وضاحت کے بعد مادہ پرستوں اور شہوت پرستوں کے اعتراضات کی روشنی میں پیدا ہونے والے سوالات کا اسلامی نقطۂ نظر سے جواب بآسانی ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ انسان اپنی نفسانی پیچیدگیوں سے ناواقفیت اور فطرتِ انسانی کے سربستہ اسرار تک نارسائی کی بنیاد پر ہرگز اس بات کا حقدار نہیں ہے
کہ وہ اصولی اور الٰہی قوانین سے قطع نظر اپنی نفسانی خواہشات کو اپنی مرضی کے مطابق پورا کرے اور نہ وہ فطری خواہشات کی تکمیل اور تشفی کے لئے اپنے آپ ہی حدود معین کر سکتا ہے۔ اپنی ذات و وجود کے حوالے سے جہالت کے پیشِ نظر انسان اْس طفلِ ناداں کی مانند کسی دانا و بینا ہستی کی سرپرستی اور ہدایت کا محتاج ہے۔ جسے قدم قدم پر والدین یا سرپرستوں کی ہدایت و سرپرستی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے سلسلے میں اخلاقی ضوابط کو سنگِ راہ تصّور کرنے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ چھوٹے بچے کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کرنے میں اپنے ہی ہاتھوں وضع کردہ مادر پدر آزادی کے قائل کیوں نہیں ہیں؟ یہ بچہ بھی تو فطری رحجان کے مطابق ہر چمکیلی چیز کی جانب لپک پڑتا ہے۔ چاہے وہ ہاتھ جلا دینے والا انگارا ہی کیوں نہ ہو؟
دنیا اور انسان کا باہمی تعلق نہج البلاغہ کی روشنی میں
تحریر: فدا حسین بالہامی
دنیا کی دوغلی ماہیت:
“دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے کہ جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اْس کے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے فریب خوردہ جاہل اس کی طرف کھنچتا ہے اور ہوشمند و دانا اس سے بچ کر رہتا ہے۔ (حضرت علی۔ نہج البلاغہ) حسین، دلکش، دلفریب، جاذبِ نظر دنیا، دھوکہ باز، بےوفا، اور ہلاکت خیز ہے۔ بظاہر انسان کا مسکن مگر حقیقتاً اس کا مدفن ہے۔ اس کی بوقلمونی سے اکثر و بیشتر لوگ گمراہی کا شکار ہو گئے۔ اس کی اصل ماہیت ظاہر کرتے ہوئے امام علی نے فرمایا، “اس دنیا کا گھاٹ گدلا اور سیراب ہونے کی جگہ کیچڑ سے بھرا ہوا ہے، اس کا ظاہر خوشنما، اور باطن تباہ کن ہے۔ یہ مٹ جانے والا دھوکا، غروب ہو جانے والی روشنی، ڈھل جانے والا سایہ اور جھکا ہوا ستون ہے۔
جب اس سے نفرت کرنے والا اس سے دل لگا لیتا ہے اور اجنبی اس سے مطمئن ہو جاتا ہے تو یہ اپنے پیروں کو اٹھا کر زمین پر دے مارتی ہے اور اپنے جال میں پھانس لیتی ہے اور اپنے تیروں کا نشانہ بنا لیتی ہے اور اس کے گلے میں موت کا پھندا ڈال کر تنگ و تار قبر اور وحشت ناک منزل تکلے جاتی ہے۔”(۱)
انسان151وسیلے کا دیوانہ ہدف سے بیگانہ:
اس آزمائش گاہ یعنی دنیا کے در و دیوار ہزار ہا رنگوں سے مزّین ہیں۔ بنی نوع انسان جو امتحان دینے کی غرض سے یہاں آیا تھا۔ اس امتحانی مرکز (Centre Examination) کے خوبصورت نقش و نگار تکنے میں اس قدر محو ہوگیا کہ اْس کو اپنے مقصدِ حیات کا کچھ خیال رہا نہ اس’’پرچہ اعمال’’ کا جو اسے اپنے خالق کی طرف سے ہاتھ میں تھمایا گیا تھا۔ حضرتِ یوسفؑ کے حسن و جمال کو دیکھ کر مدہوشی کے عالم میں مصر کی رئیس خواتین نے پھلوں کی بجائے اپنے ہی ہاتھ کاٹ ڈالے (2) ٹھیک اْسی طرح آزمائش گاہِ جہاں میں حضرتِ انسان کی آنکھیں اس کی (دنیا کی) جلوہ آفرینیوں سے اس قدر چْندھیا گئیں کہ حواس باختگی کے عالم میں بےہنگم لکیروں سے اپنے پرچہ اعمال کو سیاہ کر ڈالا۔
دنیا جائے سکونت نہیں مقامِ عبرت:
اس انسان کو ظاہر بینی لے ڈوبی، نتیجتاً دنیا کے ظاہری رنگ و روغن سے مرعوب ہو کر اپنی عاقبت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ علی الرغم اس دنیا کی اصل ماہیت پر اس کی نظر جاتی تو اس کی حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے اور یوں اْسے بآسانی اس کی مرعوبیت سے نجات مل جاتی۔ عبرت آموزی کے لئے مولا علیؑ کے یہ الفاظ انتہائی پر تاثیر ہیں
“میں اس دنیا کی حالت کیا بیان کروں کہ جس کی ابتدا رنج اور انتہا فنا ہو۔ جس کے حلال میں حساب اور حرام میں سزا و عقاب ہو یہاں کوئی غنی ہو تو فتنوں سے واسطہ اور فقیر ہو تو حزن و ملال سے سابقہ رہے، جو شخص دنیا کو عبرتوں کا آئینہ سمجھ کر دیکھتا ہے، تو وہ اس کی آنکھوں کو روشن و بینا کر دیتی ہے، اور جو صرف دنیا ہی پر نظر رکھتا ہے، تو وہ اسے کور و نابینا بنا دیتی ہے۔” (3)
بہرکیف اس حقیقت کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کی رنگینیوں میں ایسی کشش و جاذبیت موجود ہے۔ جو اولادِ آدم کو زیرِ کرنے اور اْسے اپنی طرف راغب کرنے کیلئے کافی ہے۔ دوسری جانب فطرتِ انسانی میں بھی ایسے مقناطیسی عناصر پائے جاتے ہیں جو دنیا کی کشش سے میل کھاتے ہیں۔
یہ جاذبیت کیوں؟
ایک طرف انسان اور دنیا کے مابین جذب و میلان رکھا گیا ہے اور دوسری جانب انسان سے الہٰی تعلیمات نیز بزرگانِ دین کے اقوال و اعمال اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ‘‘دنیا کے دام محبت میں گرفتار ہونے سے خود کو بچائے رکھے’’۔ یہ صورتِ حال اس طرح کے سوالات کو لامحالہ جنم دیتی ہے کہ اگر انسانی فطرت میں دنیا سے رغبت و میلان کے عناصر پائے جاتے ہیں تو پھر کیوں دنیا کے ساتھ اس کی دل لگی مذموم قرار پائے؟ اس سلسلے میں مادہ پرستوں کا یہ استدلال بھی جواب طلب ہے کہ دنیا کا انسان کی خاطر جاذبِ نظر (Attractive) ہونا ہی اس کے ساتھ انسان کی والہانہ محبت کو مستحکم جواز فراہم کرتا ہے۔ یہ لوگ اس بات کو عقل و منطق کے برعکس سمجھتے ہیں کہ ایک طرف کسی شئے کو حْسن و جمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو بھی ذوقِ جمال سے نوازا جائے اور پھر نظر اٹھا کر دیکھنے کی اجازت بھی نہ ہو۔ اس نظریہ کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے مادہ پرست طویل مدت سے مختلف محاذوں پر سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔ ‘‘چنانچہ انیسویں صدی کے آخر میں’’ نومالتھس ( MALTHUSAINMOVEMENT۔NEO ) نامی ایک نظریاتی تحریک اٹھی جس کا بنیادی منشور ہی یہ تھا کہ خواہشاتِ نفس پر لگائی گئی اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی بندش کا خاتمہ ہو ’’۔ یہ تحریک انسانی رغبت و میلان ہی کے پیش نظر بلا قیدِ شرائط اور بغیر کسی روک ٹوک کے جنسی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے اہتمام کو انسانیت کی خدمت تصور کرتی تھی۔ نیز اس سلسلے میں درپیش برے نتائج کا تدارک نسل بندی (برتھ کنٹرول) جیسے اقدامات میں ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ شہوت پرستوں کی اس تحریک کا یہ طرز استدلال بھی مادہ پرستوں کے مذکورہ بالا استدلال کی حمایت کرتا ہے کہ ‘‘انسان کو فطری طور تین حاجتوں سے سابقہ پڑتا ہے ۱: غذا کی حاجت، ۲:آرام کی حاجت، ۳:شہوت۔ فطرت ان تینوں حاجتوں کی تکمیل کی ہر وقت متقاضی ہے۔’’ عقل اور منطق کا تقاضا ہے کہ آدمی ان کو بغیر کسی ہچکچاہٹ اپنے من مرضی پورا کرنے کی آزادی رکھتا ہو۔ خوش قسمتی سے پہلی دو حاجتوں کو پورا کرنے میں آدمی آزاد ہے مگر تیسری حاجت کے معاملے میں اس کا طرزِ عمل مختلف ہے اجتماعی اخلاق نے اس پر پابندی لگا دی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے میں بھی مختلف قسم کے مذہبی، اخلاقی اور ازدواجی قوانین کو ختم کیا جائے‘‘۔(4)
انسان ایک پیچیدہ اور ناشناختہ مخلوق:
مادہ پرستوں کی نارسائی کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ان غلط تاویلات کی بنیادی وجہ اس حقیقت سے ان کی چشم پوشی ہے کہ مادی ترقی اور علمی اور سائنسی پیشرفت کے باوجود انسان بذاتِ خود اپنی زندگی گزارنے کی صحیح روش کے تعین سے قاصر ہے۔ یہ اْس بچے کی مانند ہے جو ضرر رسانی اور راحت رسانی سے بےخبری کے سبب ہر شئے کی جانب لپکتا ہے۔ ایک مشہور امریکی نژاد فرانسیسی سائنس داں نے اس حقیقت کے اعتراف میں’’انسانِ نامعلوم’’ نامی کتاب تصنیف کی ہے اور بتایا ہے کہ ’’انسان کے بارے میں ہمارا علم نہ ہونے کے درجہ میں ہے اور درحقیقت انسان کے بارے میں ہم بڑی گھمبیر جہالت میں مبتلا ہیں۔(5) نوبل انعام یافتہ الیکس کارل نامی اس سائنس داں نے اپنی پوری عمر جدید علمِ طب (Modern Medical sceince) کی حصولیابی نیز تجربہ گاہوں میں ان علوم کے تجزیہ و تحلیل اور عملی تطبیق پر صرف کی۔ میڈیکل سائنس کے چند ایک شعبوں میں انہوں کے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ جدید سائنسی علوم کے ذریعے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر انسان کے متعلق حیرت انگیز انکشافات کرنے والا یہ سائنس داں بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ موجودہ دور کا ترقی یافتہ انسان اپنے بارے میں جتنا کچھ بھی جانتا ہے وہ نا ہو نے کے برابر ہے۔ یہ عظیم مفکر اور سائنسدان اپنی کتاب [Man۔The un۔known] میں مزید لکھتا ہے۔ “ممکن ہے کہ انسان اس وسیع کائنات کے ہر گوشہ و کنار پر اپنی ہمہ دانی کا تصرف جما دے اور بہت سی نامعلوم کائناتوں کو دریافت کرے لیکن اس کا اپنا وجود ہمیشہ اس کے لئے چیستان ہی رہے گا‘‘۔(6) علامہ اقبال بھی الیکس کارل کی یوں تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
محرم نہیں فطرت کے سرودِ اذلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
دراصل عہد جدید کا انسان حیرت انگیز سائنسی انکشافات سے خود فریبی میں مبتلا ہوا ہے کہ اْس نے زمین سے ہزاروں میل دور ستاروں پر کمند ڈالی ہے نیز وہ فطرت کو مکمل طور مسخر کرنے کے لئے پر تول رہا ہے لہذٰا وہ اپنے آپ کے بارے میں نیک و بد، سود و زیاں، نجات و ہلاکت، غرض روش زندگی (Life۔Pattern) کے لئے مذہب وغیرہ کا محتاج کیوں رہے؟ حالانکہ ان مادی چیزوں پر دسترس سے انسان کے روحانی و نفسیاتی پیچیدگیوں کی گرہیں ہرگز ڈھیلی نہیں پڑتیں۔ اس سلسلے میں ایک بار پھر علامہ اقبال سے رجوع کرتے ہیں۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا (8)
اعتراض کا جواب:
مختصر سی تمہیدی وضاحت کے بعد مادہ پرستوں اور شہوت پرستوں کے اعتراضات کی روشنی میں پیدا ہونے والے سوالات کا اسلامی نقطۂ نظر سے جواب بآسانی ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ انسان اپنی نفسانی پیچیدگیوں سے ناواقفیت اور فطرتِ انسانی کے سربستہ اسرار تک نارسائی کی بنیاد پر ہرگز اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ وہ اصولی اور الٰہی قوانین سے قطع نظر اپنی نفسانی خواہشات کو اپنی مرضی کے مطابق پورا کرے اور نہ وہ فطری خواہشات کی تکمیل اور تشفی کے لئے اپنے آپ ہی حدود معین کر سکتا ہے۔ اپنی ذات و وجود کے حوالے سے جہالت کے پیشِ نظر انسان اْس طفلِ ناداں کی مانند کسی دانا و بینا ہستی کی سرپرستی اور ہدایت کا محتاج ہے۔ جسے قدم قدم پر والدین یا سرپرستوں کی ہدایت و سرپرستی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے سلسلے میں اخلاقی ضوابط کو سنگِ راہ تصّور کرنے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ چھوٹے بچے کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کرنے میں اپنے ہی ہاتھوں وضع کردہ مادر پدر آزادی کے قائل کیوں نہیں ہیں؟ یہ بچہ بھی تو فطری رحجان کے مطابق ہر چمکیلی چیز کی جانب لپک پڑتا ہے۔ چاہے وہ ہاتھ جلا دینے والا انگارا ہی کیوں نہ ہو؟ جنسی خواہشات اور مادہ پرستی کی تسکین کی خاطر انسان کو مکمل طور آزاد چھوڑ دینے کے حامی اس آوارگی کے برے نتائج کو زائل کرنے کیلئے مختلف اقدامات اٹھانے کے حق میں ہیں۔ کیا ان سے یہ مطالبہ اسی اصول کے تحت نہیں کیا جا سکتا ہے کہ طفلِ شیر خوار کو بھی اس کی فطری خواہش کے مطابق کسی ضرر رساں چیز کو ہاتھ میں لینے سے قطعاً روکا نہ جائے بلکہ بعد میں اْس چیز کی ضرر رسانی کا ازالہ کیا جائے۔ مثلاً ضوفشاں انگارے کو دیکھ کر فطری طور ایک ناسمجھ بچہ اس کی جانب لپکتا ہے۔ اْس کی فطری خواہش کو پورا ہونے میں اْس کے والدین یا سرپرست کیوں بیچ میں حائل ہو جاتے ہیں؟ اسی اصول کے مطابق فطری خواہش کو پورا ہونے دیا جانا چاہیئے اور پھر اْس کے برے نتیجے یعنی ہاتھ جل جانے کا تدارک کیا جانا چاہیئے۔
رغبت و میلان کی حکمت:
حقیقتِ امر یہ ہے کہ دنیا کے ساتھ رغبت و میلان کا ہرگز یہ منشاء قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کہ انسان خود کو اس کی آغوشِ محبت کے حوالے کر دے اور خواہشات کے بےلگام گھوڑے پر بیٹھ کر اپنا اختیار کھو بیٹھے۔ بقول غالبؔ
رو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھئے تھمے
نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
خداوند کریم کی حکمت کے مطابق بنیادی طور دو طرح کے مقاصد اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اول۔ اسی رغبت و میلان سے ہی یہ دنیا اولادِ آدم سے آباد ہے۔ بےرغبتی اور فطری نفرت کی صورت میں اس دنیا کو اپنے وجود سے معمور رکھنا انسان کے لئے ناممکن تھا۔ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب شمعِ بزم جہاں یعنی انسان ہی فطری طور دنیا سے بددل، اور متنفر ہوتا تو دنیا کی حالت کیا ہوتی۔ دوم: بمطابق سورہ کہف آیت 7دنیا کی جذب و کشش میں بنی نوع انسان کے واسطے آزمائش کا سامان موجود ہے۔ تاکہ دنیا پرستی کے ماحول میں رضائے الہٰی کے طلب گار بندوں کی شناخت ہو جائے۔ نیز دنیا کی مقناطیسی کیفیت کے خلاف خداوندِ متعال کے مقرر کردہ قوانین کے تحت چل کر اْس روحانی قوت کا مظاہرہ بھی ہو۔ جو بندوں کو خالق کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے۔ چنانچہ انسان دنیا اور آخرت کے دوراہے پر کھڑا ہے اور اْسے یہ اختیار بھی ہے کہ وہ دونوں میں سے کس کا انتخاب کرے؟ عاقبت اندیشی اور دنیا کی دلپذیری اْسے ایک کشمکش میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اسی کشمکش کے ذریعے ایماں کا معیار قائم ہوتا ہے۔ خداوند کریم نے قران مجید میں صریحاً ان دو راستوں کی نشاندہی کی ہے۔ نیز یہ بھی بتایا ہے کہ منزلِ مقصود کی جانب جانے والا راستہ کون سا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ’’یقیناً ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیں اور پھر اسے سماعت اور بصارت والا بنا دیا ہے۔ یقیناً ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہو جائے یا کفرانِ نعمت کرنے والا ہو جائے‘‘۔ (8) انسان کو ایک طرف دنیا کی دلکشی، عیش پرستی پر ابھارتی ہے اور دوسری طرف الہٰی تعلیمات آخرت کی حیاتِ ابدی کو دنیاوی زندگی پر ترجیح دینے کی تلقین کر رہی ہیں۔ ایک طرف نفسِ امارہ کے چنگل میں پھنسنے کے خطرے ہیں اور دوسری جانب اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے کٹھن مراحل۔ اس رسہ کشی کے عالم میں آزمائش کا غیر منقطع سلسلہ ہے، جسے ابنائے جہاں اپنی پوری زندگی میں دوچار رہتے ہیں۔ حضرت علیؑ نے اس کشمکش و آزمائش کی کیفیت کا نقشہ ایک حسین پیرایہ میں پیش کیا ہے۔۔۔۔۔۔
‘‘دنیا و آخرت دو متفاوت دشمن اور مختلف راستے ہیں لہٰذا جو دنیا کو دوست رکھتا ہے اور اسے ہی پسند کرتا ہے وہ آخرت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ دونوں مشرق و مغرب کی مانند ہیں۔ کہ ان کے بیچ میں چلنے والا ایک سے جتنا قریب ہوتا جائے گا دوسرے سے اْتنا ہی دور ہوتا چلا جائے گا اور یہ (دنیا و آخرت) ایک دوسرے کی سوتنیں ہیں۔’’(9)
دنیا کی دلکشی سے ہی انسان دو گرہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ کچھ دنیاوی لذات کے گرویدہ اور کچھ متقی و پرہیزگار۔ نیز اسی دلکشی کی موجودگی میں تقویٰ و پرہیزگاری قدر و قیمت کی حامل بنتی ہے۔ عدمِ رغبت کی صورت میں دنیا کی آلائشوں سے پرہیز کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ ہر شخص بغیر محنت و مشقت ‘‘خود کار پرہیزگار’’ اور پیدائشی پارسا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان ‘‘خودکار پرہیزگاروں’’ میں سے کون شخص واقعی خدا کے ‘‘خوف’’ سے حرام اشیاء سے مْجتنب ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا۔ المختصر کہا جا سکتا ہے کہ رغبت کی آنکھ سے حقارت کی نظر ٹپکنا ہی قابلِ ستائش اور بندے کے لئے خدا کے حضورِ لائق اکرام و انعام والی بات ہے۔ قرآنِ مجید نے اس حکمت کو ایک آیت کے ذریعے بیان کیا ہے۔ “اور شیطان کو ان پر [لوگوں پر] اختیار حاصل نہ ہوتا مگر یہ جاننا چاہتے ہیں کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہے اور آپ کا پروردگار ہر شئے کا نگران ہے‘‘[10] اسلام کی عبادات کو بجا لانے میں انسانی نفس کو مائل کرنا پڑتا ہے اور خدا کی معصیت پر یہ اکثر اوقات تیار نظر آتا ہے۔ اس میں بھی خداوند کریم کی اور حکمتوں کے علاوہ یہی آزمائش و امتحان کا فلسفہ پوشیدہ ہے مولائے متقیان ؑ نے انسان کی اس نفسیاتی کیفیت کو مدنظر رکھ کر فرمایا ہے۔’’کیا اچھا حال ہے اس نفس کا جو خدا کی واجبات کو پوری طرح ادا کرے اور اس ضمن میں اس پر جو سختی اور مشقت وارد ہوتی ہے اسے خدا کے لئے تحمل کرے‘‘۔[11]
حضرت علیؑ کے فرمان کے مطابق اس دنیا میں انسانی آزمائش کے دو رْخ ہیں۔ آزمائش میں کامیابی کا دارومدار صبر و رضا پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے۔ صبر کے متعلق بھی حضرت کا ارشاد گرامی ہے کہ صبر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ناپسندیدہ چیزوں پر صبر اور پسندیدہ چیزوں کے لئے صبر‘‘۔ (12)
ایک سائنٹفک توجیہ:
دنیا کی کشش کا انسان کے ساتھ نفسانی تعلق [concernpsychological] بھی ہے اور اجسامی تعلق (concernPhysical) بھی۔ نفسانی کشش کا ذکر ہوا ہے۔ جس کو بنیاد بنا کر مادیت کے پرستار دنیا کے ساتھ محبت کا جواز ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کی توجیہہ انسان کو دنیا پر فریفتہ ہونے کے بجائے اعلٰی مقاصد کی جانب راغب کرتی ہے۔ سائنسی نظریہ کے مطابق اجرامِ فلکی کے جذب باہمی پر نظامِ شمسی کا دارومدار ہے۔ مادہ پرستوں کی نفسانی کشش کے بارے میں توجیہہ کا اطلاق اگر اجرام فلکی کی باہمی کشش پر کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس قوت ثقل کا یہی مدعا ہے کہ یہ سب سیارے اور ستارے آپس میں بغلگیر ہو جائیں جبکہ یہ امر نظامِ شمسی کی تباہی پر منتج ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اجسامی کشش سے تو کوئی بھی مکتبِ فکر یہ کہنے کی حماقت نہیں کرتا کہ زمین کے ساتھ اجسامی کشش کے پیش نظر انسان اس کے ساتھ چمٹ کر رہے۔ اسلام اجسامی کشش کے حوالے سے بھی نفسیاتی کشش کے موقف پر قائم ہے۔ مادہ پرستوں کی مانند یہ اپنا موقف تبدیل نہیں کرتا۔
دنیا بمقابلہ انسان:
انسان کا کسی چیز کے مقابلے میں احساس کمتری اْسے مغلوب بنا دیتی ہے۔ یہی احساسِ کمتری ہے جسے انسان اپنے گراں بہا وجود کو اس دنیاوی بازار میں چند عیش بخش لمحوں کے عوض بیچ ڈالتا ہے۔ وہ جہانِ فانی کی چھوٹی سے چھوٹی اشیاء کی نسبت اپنی حیثیت کو ہیچ سمجھتا ہے تبھی تو اپنی پوری زندگی کو ان اشیاء کی حصول یابی کے لئے وقف کرتا ہے۔ حالانکہ خالقِ کائنات نے اسے اشرف المخلوقات بنا کر تمام کائنات پر فوقیت عطا کی ہے۔ اور اس کو حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اس کی خلقت کی ندرت پر خود خالق رطب اللسان ہے۔ ‘‘ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا’’۔ (13) پروردگار نے تمام مخلوقات کے تئیں انسان کو اپنا نمائندہ (Representative) بنا کر بھیجا۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ‘‘اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نمائندہ بنانے والا ہوں’’۔(14) انسان کی بدبختی اور ناعاقبت اندیشی دیکھئے کہ پروردگار اس کو سربلندی عطا کرتا ہے لیکن یہ اپنے آپ کو پستی سے ہمکنار کردیتا ہے۔ اس سلسلے میں سید محمد باقر الصدر شہید اشرف المخلوقات کو جانوروں کی نسل سے ثابت کرنے والوں کے نظریہ پر یوں تنقید کرتے ہیں۔ ‘‘ڈارون کی تھیوری نے تو جدید دور کے انسان کے ذہن سے انسانیت پر یقین، اس کی رفعت و بلندی اور اس کے روح و وجدان کے تصّور ہی کو متزلزل کر دیا۔ کیونکہ ڈارون کا نظریہ جن تصورات اور علمی روح سے محروم خیالات پر مشتمل ہے، اس کے مطابق انسان دوسرے جانوروں سے مختلف نہیں ہے۔’’ (15) دراصل ڈارون اور اس کے ہمنواء انسانی اقدار، انسانی اخلاق اور انسانی اصول و ضوابط سے خائف ہیں اور ان کو اپنی آزادئ مطلق کے لئے بندشوں کی زنجیر کے مختلف آہنی حلقے تصّور کرتے ہیں۔ جانوروں کی طرح جنسی اور جبلی خواہشوں تک ہی خود کو محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ اور یوں خلیفتہ اللہ کے منصب کی ذمہ داریوں سے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ باقی تمام موجودات سے انسان کا سب سے بڑا امتیاز یہی ہے کہ تمام موجودات کو اسی کے لئے پیدا کیا گیا اور اْسے خالق نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اگر یہ انسان بھی باقی موجودات کی طرح یہیں کا یہیں رہ جائے اور نگرانی کے عہدے کو چھوڑ دنیا کی غلامی پر آمادہ ہو جائے۔ خدا کی عطا کردہ شرافت و بزرگی اس زینتِ جہاں سے یوں مخاطب ہے۔
نہ تو زمین کے لئے ہے نہ آسمان کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے، تو نہیں جہاں کے لئے (16)
دنیا پرستی کی بنیادی وجہ:
کسی نہ کسی جذباتی دلبستگی، لگاو، اور تعلق کے بغیر انسانی حیات خالی نہیں رہ سکتی ہے کوئی نہ کوئی ایسی شئے یا ہستی ضرور ہو گی جس کو انسان اپنے وجود سے بالاتر تصور کرے۔ حتیٰ کہ جو لوگ آزاد خیالی کے زعم میں اپنے آپ کو عبودیت، عبادت اور دین وغیرہ سے ماورا سمجھتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی چیز کے پرستار ہوا کرتے ہیں۔ شہید مرتضیٰ مطہری فرماتے ہیں “چونکہ پرستش کے یہ میلانات وجود رکھتے ہیں لہٰذا ان کی نشوونما ضروری ہے۔ اگر ان کی صحیح نشوونما نہ ہو، اور ان سے ٹھیک طرح فائدہ نہ اٹھایا جائے تو پھر یہ مخالف راستے پر چل نکلتے ہیں اور ناقابل تصور نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ بت پرستی، شخصیت پرستی، طبعیت پرستی اور ہزاروں دوسری پرستشیں اسی انحراف سے پیدا ہوتی ہیں۔” اریک فروم کہتے ہیں، “کوئی شخص دین سے بےنیاز نہیں ہر کوئی آگے بڑھنے کے لئے کسی سمت کا نیاز مند ہے۔ اور ہر کسی کو اپنی وابستگی کے لئے کوئی نہ کوئی عنوان درکار ہے \”(18)سادہ الفاظ میں یوں کہا جائے تو بات سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے کہ انسان اگر خدا پرست نہ ہو تو اس کا دنیا پرست ہونا ناگزیر ہے اور یوں دنیا انسان پر غالب آ جاتی ہے جبکہ امام علی ؑ کسی قیمت بھی پر انسان علی الخصوص مسلمان کو مغلوب نہیں دیکھنا چاہتے ہیں فرماتے ہیں۔ “جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا، اس نے اپنے آپ کو سبک کیا۔ جو شخص اپنی قدر و منزلت کو نہیں پہچانتا وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ “(19) انسان کا اپنے آپ کو کسی اور وجود کے سامنے نہایت ہی کمتر سمجھنے کا راست نتیجہ اس کی پرشتش کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے کیونکہ پرستش احساسِ کمتری کی ہی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ؑ نے جہاں وقتاً فوقتاً دنیا کی تحقیر کی ہے وہاں انسان کو بارہا اس کی قدر و قیمت کا احساس دلایا ہے۔150چنانچہ بنی آدم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ “تجھ کو گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے حالانکہ ایک بڑا عالم تجھ میں سمایا ہوا ہے۔ “(20)
انسان کو ہر قسم کی غلامی اور پرستش سے آزاد دیکھنے کے متمنی امام فرماتے ہیں۔ “خبردار دوسروں کے غلام نہ ہو جبکہ خدا نے تم کو آزاد پیدا کیا ہے۔” (21) امام علی ؑ کی نظر میں اگر قدر نا شناسی کے ہاتھوں انسان بےوقعت ہو کے رہ جائے تو اس کا ازالہ خود شناسی سے کیا جائے کیونکہ معرفتِ نفس ہی وہ واحد ذریعہ ہے کہ جس سے انسانی وجود کی ارزش عیاں ہوتی ہے۔ اپنی قدر و قیمت کا جس کسی کو بھی واقعاً احساس ہو غیر ممکن ہے کہ وہ دنیا کو خاطر میں لائے۔ فرماتے ہیں کہ “جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس کیلئے کوئی خطرہ یا دھوکے کا اندیشہ نہیں۔ “(22)
خود شناسی کا اگلا زینہ خدا شناسی ہے۔ “من عرف نفسہ فقد عرف ربہ”۔ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے خدا کو پہچانا “اور جس کسی نے اس زینے پر قدم رکھا وہ بشمول دنیا پرستی ہزار ہا قسم کی غلامی سے نجات پاتا ہے
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
عصر حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ بظاہر کائنات کو تسخیر کرنے والا انسان مادہ پرستی کا شکار ہے۔ مادہ پرستی نے اسے اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ اسے اپنی پہچان ہے نہ جہاں بینی کے گر سے وہ واقف ہے اور نہ ہی اپنے رب سے آشنا
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر؟
کہوں کیا ماجرا اس بےبصر کا!
نہ خود بین نَے خدا بیں نَے جہاں بیں!
یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا ؟ (23)
منابع و مصادر:
(1) نہج البلاغہ خطبہ۔۔ ۱۸ ص۔۹۲۲ترجمہ مفتی جعفر حسین
(2) نہج البلاغہ خطبہ۔۔ ۰۸ ص۔۶۲۲ترجمہ مفتی جعفر حسین
(3) سورہ یوسف آیت نمبر ۱۳
(4) پردہ ص۔۔ ۶۴ از سید ابوالاعلیٰ مودودی
(5) تہذیبِ جدید کے مسائل اور ان کا اسلامی حل۔۔ ص۔۔ ۴۱سید قطب شہید۔
The Man-unknown By Dr. Alexis Carrel Published by Happer and Brothers(6)
(7) ضربِ کلیم ص۔۹۶ علامہ اقبال
(8) سورہ دہر آیت ۲،۳
(9) تجلیاتِ حکمت۔باب دنیا ص۔۔۳۸۱
(10) سورہ سبا آیت ۱۲
(11) تجلیاتِ حکمت۔باب النفس ص۔۔۹۰۲
(12) تجلیاتِ حکمت۔باب الصبر ص۔۔۹۶۲
(13) سورہ تین آیت۔۴
(14) سورہ بقرہ آیت ۰۳
(15) رسالتنا۔ہمارا پیغام ص۔ ۱۰۱ ترجمہ سید رضی تقوی پاکستان
(16)بالِ جبریل ص۔۹۴ علامہ اقبال
(17) نہج البلاغہ ص۔۳۰۸ ترجمہ مفتی جعفر حسین
(18) انسان اور کائنات ص۔ ۶۴/۷۴ از شہید مرتضیٰ مطہری ترجمہ مولانا ریاض حسین جعفری۔
(19) نہج البلاغہ ص۔۳۵۸ ترجمہ مفتی جعفر حسین
(20) بحرالمعارف بحوالہء4160ہج الاسرار ص۔۷۳
(21) غررلحکم فصل۸۸ حدیث ۹۱۳
(22) نہج البلاغہ بحوالہ المرتضیٰ ۔۔سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ص ۱۹۲
{غررلحکم فصل ۷۷ حدیث ۱۰۳}
(23) کلیات اقبال ص۰۸۳۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید