تازہ ترین

’’ بچوں کی تربیت میں سزاؤں کی حدود اور احکام، اسلامی فقہ کی نگاہ میں‘‘ کے عنوان سے علمی وتحقیقی نشست کا انعقاد

شعبہ تحقیق جامعہ روحانیت بلتستان کی جانب سے مرحلہ وار برگزار ہونے والے علمی وتحقیقی نشستوں کے سلسلے کی چوتھی نشست بروز جمعہ ۲۰ جنوری ۲۰۲۳ ء کو فاطمیہ ہال حسینیہ بلتستانیہ قم میں برگزار ہوئی۔
شئیر
90 بازدید
مطالب کا کوڈ: 8522

روحانیت نیوز، شعبہ تحقیق جامعہ روحانیت بلتستان کی جانب سے مرحلہ وار برگزار ہونے والے علمی وتحقیقی نشستوں کے سلسلے کی چوتھی نشست بروز جمعہ ۲۰ جنوری ۲۰۲۳ ء کو فاطمیہ ہال حسینیہ بلتستانیہ قم میں برگزار ہوئی۔ نشست کا باقاعدہ آغاز قاری محترم حجۃ الاسلام محمد علی شریفی نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ اور سکریٹری شعبہ تحقیق جامعہ روحانیت بلتستان پاکستان جناب سجاد شاکری نے نشست کی نظامت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

اس علمی نشست سے حجۃ الاسلام ڈاکٹر غلام مرتضی انصاری نے خطاب کیا۔ انہوں نے اس علمی نشست میں اپنے پی ایچ ڈی کی تھیسز کے موضوع پر مدلل گفتگو کی۔ ان کی تھیسز کا موضوع ’’ بچوں کی تربیت میں سزاؤں کی حدود اور احکام، اسلامی فقہ کی نگاہ میں‘‘ تھا۔

انہوں نے اپنی اس عظیم تحقیقی کاوش کو ایک علمی نشست کی صورت میں پیش کرنے کا موقع فراہم کرنے پر جامعہ روحانیت کے صدر محترم اور شعبہ تحقیق کا شکریہ ادا کیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس علمی نشست میں شرکت کرنے والے علمائے کرام اور طلاب عظام کی قدردانی کی۔ انہوں نے اس طرح کی۔

ڈاکٹر غلام مرتضیٰ انصاری نے اپنے اس موضوع کی اہمیت اور ضرورت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: کہ بچپن سے ہی مختلف تعلیمی اداروں اور اسکولوں میں تعلیم اور تربیت کی خاطر اساتید بچوں کو جسمانی سزائیں دیتے ہوئے دیکھ کر ہمیشہ ذہن میں یہ سوال کھٹکتا رہتا تھا کہ کیا اس طرح سے بچوں کو مارنا، ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور توہین کرنا شریعت میں جائز ہے یا نہیں؟ والدین اور اساتیذ کو بچوں کی تربیت کے لئے کس حد تک سزائیں دینے کا حق حاصل ہے؟ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی لئے اس ذہنی الجھن کو سلجھانے کے لئے حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دوران اس موضوع پر کافی حد تک مطالعہ کیا اور اسی دغدغے کے تحت پی ایچ ڈی کی تھیسز کا موضوع بھی اسی سے مربوط انتخاب کیا۔

مذکورہ بالا پی ایچ ڈی اسکالر کا مزید کہنا تھا کہ اس تحقیق کی تکمیل کے لئے جن چند ایک سوالوں کا سہارا لیا گیا وہ یہ ہیں:

۱۔ کیا علمائے اسلام خاندانی تربیت کی خاطر جسمانی سزاؤں کو جائز سمجھتے ہیں ؟
۲۔ کیا والدین اور دوسرے لوگ بچے کو سزا دینے کا حق رکھتے ہیں؟
۴۔ کیا علمائے اسلام نے جسمانی سزؤں کے لئے کوئی شرعی اصول بیان کئے ہیں؟
۵۔ بچے کو کس قسم کی حرکت پر سزا دیا جا سکتا ہے؟

انہوں نے اپنی تحقیق سے مربوط اصطلاحات کی وضاحت کرتے ہوئے تنبیہ، تربیت، انذار، تشویق اور سرزنش وغیرہ کے لغوی اور اصطلاحی معانی پر تفصیلی گفتگو گی۔

انہوں نے اپنی تحقیقی سوالات کے جواب دیتے ہوئے بچوں کو جسمانی سزا دینا جائز ہونے اور نہ ہونے کے بارے اسلامی فقہ اور فقہائے کرام کے نظریات بیان کئے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان نظریات کے دلائل پر بھی تفصیلی گفتگوکی۔

حجۃ الاسلام مرتضی انصاری صاحب نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بچوں کو جسمانی سزا دینا ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہر ایک معاشرہ مبتلا ہے۔ والدین اور اساتید جسمانی سزاؤں کے ذریعے بچوں کو نامناسب رفتار سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔فقہاء اور مجتہدین امامیہ نے اس موضوع کی مختلف زاویے سے بحث کی ہیں جن میں سے ایک زاویہ تعلیم و تربیت ہے کہ:کیاتعلیم و تربیت کے لئے جسمانی سزا دینا جائز ہے یا نہیں؟فقہاء نے اس کو دور مرحلے میں بیان فرمایا ہے: ایک) قاعدہ اولیہ کا تقاضا کیا ہے؟ اور دو) ادلہ شرعیہ کا تقاضا کیا ہے؟انہوں نے اسلامی فقہ کے قاعدہ اولیہ کے مطابق جسمانی سزا دینا جائز نہ ہونے کا مدعا بیان کرتے ہوئے اس کے تمام دلائل پر کافی و شافی بحث کی۔ اور پھر قاعدہ ثانیہ یعنی ادلہ شرعیہ کے ذریعے جسمانی سزا کے جواز پر گفتگو کرتے ہوئے اس کے تمام ادلہ کو بھی محققانہ انداز میں بیان کیا۔

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *