تازہ ترین

مریم کربلا (س)

تحریر: سیدہ ایمن نقوی
حضرت زینب سلام اللہ علیہا امیر المومنین علی و فاطمہ علیہم السلام  کی بیٹی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی ہیں۔ آپ بہت ہی بافضیلت و باتقوا خاتون تھیں۔ آپکی فضیلتوں کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی جان عالمہ غیر معلمہ ہیں۔

شئیر
51 بازدید
مطالب کا کوڈ: 86

آپ کے کمالات صرف علم تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے مختلف حصوں میں آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو منظر عام پر آئے۔ واقعہ کربلا اور اس کے بعد کے واقعات میں آپ کی شجاعت اور فن خطابت کا مشاہدہ سب نے کیا۔  عقیلہ بنی ہاشم زینب سلام اللہ علیہا ۵ جمادی الاول سن ۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔ روایت میں ہے کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس دنیا میں تشریف لائیں تو پیغمبر اکرم (ص) مدینہ میں موجود نہیں تھے۔ لہذٰا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے امام علی علیہ السلام  کو کہا کہ آپ اس بچی کیلئے نام کا انتخاب کریں، لیکن مولائے متقیان نے اپنی پوری زندگی میں رسول خدا کے حکم کو مقدم جانا، بھلا اس اتنے اہم موقع پر یہ کام رسول اللہ کے بنا کیسے کر لیتے، جناب فاطمہ سلام اللہ کے دونوں بیٹوں حسنین علیہما السلام کے اسم مبارک بھی باذن پروردگار رسول خدا (ص) نے رکھے۔ آپ علیہ السلام نے بی بی دو عالم سے فرمایا، کہ رسول خدا (ص) کے واپس آنے کا انتظار کر لیا جائے۔ جب پیغمبر اکرم (ص) سفر سے واپس آئے تو حضرت علی علیہ السلام نے انہیں یہ خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ اس بچی کا نام بھی آپ انتخاب کریں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا نام خدا انتخاب کرے گا۔ اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ “خدا نے اس بچی کا نام زینب رکھا ہے” زینب یعنی باپ کی زینت۔ یہ بچی حقیقی معنوں میں باپ کی زینت ثابت ہوئی۔

جب رسول خدا (ص) حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے موقع پر علی (ع) و فاطمہ (س) کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی (ع) و فاطمہ (س) نے کیا دیکھا کہ رسول خدا (ص) بلند آواز سے گریہ کر رہے ہیں۔ جناب فاطمہ (س) نے آپ سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا “بیٹی، میری اور تمہاری وفات کے بعد اس پر بہت زیادہ مصیبتیں آئیں گی”۔ کتب تاریخی میں شریکۃ الحسین کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً ۶۱ ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں، عالمہ غیر معلمہ، نائبۃ الزھراء، عقیلہ بنی ھاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغری، محدثہ، کاملہ، عاقلہ، عابدہ، زاھدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسین، راضیہ بالقدر والقضاء۔

عالمہ غیر معلمہ کا بچپن معصومین کی زیرنگرانی رہا۔ آپکی خوش قسمتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی ماں سیدہ نساءالعالمین حضرت فاطمہ (س) ہیں، وہ فاطمہ جو دختر رسول ہے، جس کی رضا میں خدا راضی اور جسکے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے۔ وہ فاطمہ جو بضعۃ الرسول ہے، جو خاتون جنت ہے، وہ فاطمہ کہ جس کی عبادت پر پروردگار مباہات فرماتا ہے، وہ فاطمہ جس کی چکی جبرئیل علیہ السلام چلاتے ہیں، اگر باپ کو دیکھیں تو حیدر کرار جیسا باپ ہے، آپ نے امام علی (ع) جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پائی ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص)، جو تمام انسانوں کے لئے “اسوہ حسنہ” ہیں، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں۔ لہذٰا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا (ص)، امام علی (ع) اور فاطمہ زہرا (س) جیسی بےمثال شخصیات کی سرپرستی میں پرورش پائی۔  اسی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کس قدر بہترین اور مقدس ماحول میں ہوئی۔

آپ کی شادی ۱۷ ہجری میں آپ کے چچازاد بھائی عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ہوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند اور بنی ہاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے جن کے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں۔ (البتہ آپکی اولاد کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے) کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بےمثال واقعہ ہے۔ لہذٰا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسین (ع) اور ان کے جانثاروں  نے ایک مقدس اور اعلٰی ہدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی لیکن اگر حضرت زینب سلام اللہ علیہا  اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام قربانیان ضائع ہو جاتیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے، “کربلا در کربلا می ماند گر زینب نبود”۔ لہذٰا اگر ہم آج شہدائے کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب عقیلہ بنی ہاشم سلام اللہ علیہا کی مجاہدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجہ ہے۔ بلاشبہ اسی وجہ سے انہیں “شریکۃ الحسین ” کا لقب دیا گیا ہے۔ اگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کی راہ میں جہاد کیا تو شریکۃ الحسین سلام اللہ علیہا نے اپنے کلام اپنے خطبات کے ذریعے اس جہاد کو اس کی اصلی منزل تک پہنچایا۔ کربلا میں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ہوئی ہے اور اس کے مخالفین کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا ہے لیکن نائبۃ الحسین سلام اللہ علیہا کے پہلے ہی خطبے کے بعد اس کا یہ وہم دور ہو گیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اس کی ہمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہے اور یزید کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا اور حسین آج بھی زندہ ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اس محدثہ، فاضلہ و زاہدہ بی بی کے فضائل بیان کرنے کی تاب شاید بندہ حقیر کے قلم میں تو نہیں لیکن عظیم شاعر محترم محسن نقوی شہید نے اس بی بی کی ذات مبارکہ میں موجود فضائل کو اپنے خوبصورت حروف کی تسبیح میں کچھ اس طرح سے پرویا ہے، کہ گویا اپنی جانب سے حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ان اشعار کو اپنے قارئین کی نذر اس دعا کیساتھ کرنا چاہوں گی کہ پروردگار اس شہید کے درجات بلند فرمائے اور انہیں اہلیبیت علیہم السلام کے ساتھ محشور فرمائے۔ (آمین)
قدم قدم پر چراغ ایسے جلا گئی ہے علی کی بیٹی
یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی

کہیں بھی ایوان ظلم تعمیر ہو سکے گا نہ اب جہاں میں
ستم کی بنیاد کچھ اسطرح سے ہلا گئی ہے علی کی بیٹی

عجب مسیحا مزاج خاتوں تھی کہ لفظوں کے کیمیا سے
حسینیت کو بھی سانس لینا سکھا گئی ہے علی کی بیٹی

بھٹک رہا تھا دماغ انسانیت، جہالت کی تیرگی میں
جنم کے اندھے بشر کو رستہ دکھا گئی ہے علی کی بیٹی

دکان وحدت کے جوہری دم بخود ہیں اس معجزے پر
کہ سنگریزوں کو آبگینے بنا گئی ہے علی کی بیٹی

نہ کوئی لشکر نہ سر پہ چادر مگر نجانے ھوا میں کیونکر
غرور ظلم و ستم کے پرزے اڑا گئی ہے علی کی بیٹی

پہن کے خاک شفا کا احرام سر برہنہ طواف کر کے
حسین ! تیری لحد کو کعبہ بنا گئی ہے علی کی بیٹی

کئی خزانے سفر کے دوراں کر گئی خاک کے حوالے
کہ پتھر کی جڑوں میں ہیرے چھپا گئی ہے علی کی بیٹی

یقین نہ آئے تو کوفہ و شام کی فضاؤں سے پوچھ لینا
یزیدیت کے نقوش سارے مٹا گئی ہے علی کی بیٹی

ابد تلک اب نہ سر اٹھا کے چلے گا کوئی یزید زادہ
غرور شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی کی بیٹی

گزر کے چپ چاپ لاشِ اکبر سے پا برہنہ رسن پہن کر
خود اپنے بیٹوں کے قاتلوں کو رلا گئی ہے علی کی بیٹی
 
میں اسکے در کے گداگروں کا غلام بن کر چلا تھا محسن
اسی لئے مجھ کو رنج و غم سے بچا گئی ہے علی کی بیٹی

نائبۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی وفات 15 رجب المرجب سن 62 ہجری میں ہوئی اور آج بھی آپ کا مرقد مطہر تمام عالم اسلام کے لئے مظہر نور و آگاہی ہے۔ آج استعمار کی بھرپور کوشش ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کا نام و نشان مٹا دے، یہ کوششیں تو شروع سے لے کر اب تک جاری ہیں لیکن یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جنکے نام تاقیامت تابندہ رہیں گے، باطل چاہے انہیں مٹانے کے لئے جتنی بھی کوشش کرے،کیونکہ “جاءالحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا”۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *