محرم ۔امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کی جنگ اور قربانی
امام حسین علیہ السلام 2 محرم الحرام کو حرابن یزید ریاحی کے لشکر کے گھیرے میں سرزمین کربلا پر وارد ہوئے مورخین نے لکھا ہے دشت نینوا میں آپ کا گھوڑا چلتے چلتے خود رگ گیا آپ نے سواریاں بدلیں مگر کسی سواری نے قدم آگے نہیں بڑھایا گھوڑے سے اترے خاک سونگھی اور سمجھ گئے خاندان رسول (ص) کی یہی قربان گاہ ہے ۔
بقول شاعر:
چلتے چلتے جور کا اسپ تو بولے حضرت نہیں معلوم کہ اس دشت کو کیا کہتے ہیں
آئی ہاتف کی ندا گھوڑے سے اترو شبیر ہے یہی دشت جسے کرب و بلا کہتے ہیں
امام (ع) کے سوال پر لوگوں نے اس سرزمین کے مختلف نام لئے کسی نے نینوا کسی نے ماریہ ، کسی نے سقیہ کسی نے غاضریہ اور بالآخر کربلا کا نام لیا تو امام (ع) نے حضرت عباس (ع) کو حکم دیا کہ یہیں فرات کے ساحل پر خیمے لگائے جائیں ، ایک طرف امام اور ان کے اعزہ و اصحاب کے خیمے اور دوسری طرف حر اور اس کی سپاہ کے خیمے لگ گئے ۔4 محرم کو عمر ابن سعد چار ہزار یا ایک اور روایت کے مطابق چھ ہزار کا لشکر لے کر کربلا پہنچا اور سب سے پہلا حکم ، نہر علقمہ سے خیام حسینی کے ہٹائے جانے کا صادر کیا ، امام (ع) کےعلمدار حضرت عباس (ع) نے مخالفت کرنی چاہی مگر امام (ع) نے فرمایا ہم پانی کے لئے جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتے اور پھر نہر علقمہ سے تین میل کے فاصلے پر بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں خیام حسینی نصب ہوئے ، ظاہر ہے خیموں کا نہر سے ہٹایا جانا ہی ” بندش آب ” کے مقصد سے تھا مگر جو پانی ذخیرہ کیا جا سکا وہ ساتویں محرم تک کام آیا اسی لئے روایات میں ہے کہ حسینی لشکر نے عاشور کے دن تین دنوں کی بھوک اور پیاس میں دشمنان اسلام و قرآن سے امام وقت کا دفاع کرتے ہوئے شہادت کا جام نوش کیا ہے ۔4 محرم الحرام سے 9 محرم الحرام تک کربلا میں کوفہ ، بصرے ، دمشق اور مصر و ایران و غیرہ سے مسلسل طور پر فوجیں اکٹھا ہوتی رہیں شیث ابن ربیع کے ساتھ تقریبا” دس ہزار تک عروہ ابن قیس کے ساتھ چار ہزار ، سنان ابن انس کے ساتھ چار ہزار حصین ابن نمیر کے ساتھ چار ہزار ، شمر ذی الجوشن کے ساتھ چار ہزار اور اشعث وخولی کی مانند بیسیوں سرداروں کے ساتھ ہزار ہزار کا لشکر پسر سعد کی رکاب میں موجود تھا ۔دوسری طرف سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام میں قدرت نے امامت و سپہ سالاری کے وہ اعلیٰ ترین جوہر ودیعت کئے تھے جوکہیں اور نہیں مل سکتے اللہ کے سچے نمائندوں ، نبیوں اور اماموں کی خصوصیات سے آراستہ ہونے کے ساتھ ہی ساتھ قیادت و سپہ سالاری کے دنیوی معیارات پر بھی آپ کی گہری نظر تھی ، کوئي بھی قائد ولیڈر جماعت کی تشکیل کے لئے جب اٹھتا ہے اپنے اہداف و مقاصد اور افکار و نظریات سے قوم کو آگاہ کردیتا ہے تا کہ ایک ہموار زمین پر جماعت تشکیل دے ورنہ جماعت ، ایک بے جان بھیٹر اور بے روح اجتماع کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔اچھے رہنما ، دنیا میں جہاں بھی اپنے ہمفکر و ہم مقصد قابل اعتماد و وفادار افراد نظر آتے ہیں نظر میں رکھتے ہیں تا کہ ضرورت پر ان کو اپنی مہم میں شریک کرسکیں کسی ہدف کے ساتھ میدان میں آنے والے حامیوں کی تعداد پر توجہ نہیں دیتے ساتھیوں کے عزم و استعداد پر دھیان دیتے ہیں ۔تحریک جس قدر عظیم ، اصول پسند اور انقلابی عزائم کی حامل ہوگي اس کے بنیادی اراکین اتنے ہی مختصر اور آہنی ارادوں کے مالک ہوں گے ۔الہی انقلاب ہمیشہ خطروں سے ہوکر گزرا ہے اور خطرات میں ثبات و استقامت ہرکس و ناکس کا کام نہیں ہے حریت و آزادی کی راہ میں ایک مجاہد جان و مال و آبرو اور حیثیت کی پروا نہیں کرتا راہبر اور راہ رو دونوں ضرورت پر اپنی اور اپنی اولاد تک کی قربانی پیش کرنے پر تیار رہتے ہیں ۔امام حسین علیہ السلام نے بھی الہی قائد کے عنوان سے اپنے عظیم انقلاب کے مقدمات خود فراہم کئے اپنے علم و فضل اور عمل و کردار کے ذریعہ اپنی امامت و قیادت دلوں میں مستحکم کی کہ الہی رہبری کے مستحق ہم ہیں ۔چنانچہ زبانی اور تحریری طور پر حمایت کا اظہار کرنے والوں کی کثرت کے باوجود امام حسین (ع) نے اپنے انقلابی ارکان کی فہرست تیارکرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا ۔انقلاب کے اہم ترین رکن حضرت علی اصغر(ع) کی ولادت کے چند دنوں بعد ہی مدینہ سے نکل پڑے اور مکہ ہوتے ہوئے کربلا پہنچے اور اپنے منتخب شدہ افراد اکٹھا کئے جناب زہیرقین اور حبیب ابن مظاہر کو نصرت کی دعوت دی ، مسلم ابن عوسجہ اور وہب کلبی کو راستے سے ساتھ کرلیا حر اور اس کے بھائی بیٹے اور غلام کاصبح عاشورا تک انتظار کیا اور جب سب جمع ہوگئے تو نماز صبح کے بعد جنگ کے لئے میدان میں اترے اور ایسی مہتم بالشان قربانیاں پیش کیں جن کی مثال تاریخ بشریت پیش کرنے سے قاصر ہے ۔نواسۂ رسول (ص) نے سو افراد بھی ساتھ نہیں رکھے دس سال تک انتخاب در انتخاب کرتے رہے اور جن کو چن لیا ایسا بنادیا کہ سب حسین نظر آنے لگے ۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید