شیعیت حقیقی اسلام کا دوسرا نام
شیعہ لغت اور اصطلاح میں
لغت میں لفظ شیعہ کے دو معنی ہیں؛
۱؛ کسی بات پر دو یا چند لوگوں کا متفق ہو جانا۔
۲؛ کسی ایک شخص یا گروہ کا کسی دوسرے شخص یا گروہ کی پیروی کرنا۔ (۱)
اور اصطلاح میں مسلمانوں کے اس گروہ کو شیعہ کہا جاتا ہے جو علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت اور امامت کے معتقد ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ امام، نص شرعی کی بنا پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین ہوتا ہے۔ اور حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کی امامت نص شرعی کے ذریعے ثابت ہے۔(۲)
علی علیہ السلام کے پیروکاروں اور چاہنے والوں پر لفظ شیعہ کا اطلاق سب سے پہلے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی طرف سے ہوا ہے۔ یہ بات معتدد حدیثوں سے ثابت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سے مروی ہیں۔ جیسا کہ سیوطی نے جابر بن عبد اللہ انصاری، ابن عباس اور حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ بینہ کی ساتویں آیت «ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات اولئك هم خیر البریّه» کی تفسیر میں علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہوں گے‘‘۔ (۳)
تاریخ شیعہ میں معتدد فرقے وجود میں آئے کہ جن میں سے بہت سارے ختم ہو گئے ان کے بارے میں گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ہے شیعوں کے وہ فرقے جو موجود ہیں درج ذیل ہیں: شیعہ اثنا عشری، شیعہ زیدیہ، شیعہ اسماعیلیہ۔ ان میں سے ہر ایک کے سلسلے میں ایک الگ باب میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ہم اس مختصر تحریر میں صرف شیعہ اثنا عشری کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں:
وجہ تسمیہ
شیعوں کی اکثریت شیعہ امامیہ یا شیعہ اثنا عشری کہلاتی ہے دیگر مسلمانوں سے ان کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وہ بارہ اماموں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین مانتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں اثنا عشری یعنی بارہ امامی کہا جاتا ہے۔ بارہ اماموں کے نام اور ان کی خصوصیات ان احادیث میں مفصل بیان ہوئی ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں: ۱؛ علی بن ابی طالب (ع) ۔ ۲؛ حسن بن علی (ع) ۔ ۳؛ حسین بن علی (ع)۔ ۴؛ علی بن حسین (ع)۔ ۵؛ محمد بن علی (ع)۔ ۶؛ جعفر بن محمد (ع) ۔ ۷؛ موسی بن جعفر (ع)۔ ۸؛ علی بن موسی (ع)۔ ۹؛ محمد بن علی (ع) ۔ ۱۰؛ علی بن محمد (ع)۔ ۱۱؛ حسن بن علی (ع) ۔ ۱۲؛ حجۃ بن حسن (ع)۔
شیعہ اثنا عشری امامت کے مسئلہ پر کافی تاکید کرتے ہیں اور امام کی عصمت اور ان کی افضلیت کو دیگر امت مسلمہ پر ثابت کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف سے امامت کو پہلے تین اماموں کے علاوہ امام حسین علیہ السلام کی نسل میں منحصر جانتے ہیں۔ اس خاص عقیدہ کی بنا پر وہ ’’امامیہ‘‘ کے عنوان سے مشہور ہیں۔
شیخ مفید شیعت کی تعریف کے بعد کہ شیعہ علی علیہ السلام کی امامتِ بلا فصل پر عقیدہ رکھتے ہیں فرماتے ہیں: ’’ یہ عنوان شیعوں کے اس گروہ سے مخصوص ہے جو امام کے ہر دور میں موجود ہونے کو نص جلی سے ثابت کرتے اور ہر امام کے معصوم ہونے پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ اور امامت کو پہلے تین اماموں کے علاوہ امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں منحصر جانتے ہیں‘‘۔ (۴)
شیعت کی پیدائش کی تاریخ
اگر چہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے میں کچھ مسائل کے سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف وجود پا چکا تھا۔ (۵) لیکن وہ فرقوں کی کثرت جو آپ کے بعد وجود میں آئی وہ پہلے نہ تھی۔ آپ کی رحلت کی فورا بعد ہی امت میں اختلاف وجود میں آگیا جس کی بنا پر مسلمان فرقوں میں بٹنا شروع ہو گئے۔ اہمترین اختلاف جو ان ابتدائی ایام میں وجود میں آیا وہ سرکار دوعالم کی جانشینی اور امامت کے مسئلہ میں وجود میں آیا جس نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
ایک گروہ معتقد تھا کہ امامت بھی نبوت کی طرح ایک الہی مقام و منصب ہے اور پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین کے شرائط میں سے کم سے کم ایک شرط یہ ہونا چاہیے کہ جو پیغمبر کا جانشین ہو وہ خود آپ کی طرح ہر طرح کے گناہ اور خطا سے معصوم ہو۔ اور اس صفت کو سوائے اللہ کے کوئی کسی میں اثبات نہیں کر سکتا اور نہ اس کے بارے میں جان سکتا ہے۔ اس بنا پر امام کا تعین کرنا خود خالق کائنات کا کام ہے جس نے بشریت کی ہدایت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اس عقیدہ کی بنا پر قرآن کریم اور احادیث نبوی میں بہت ساری نصوص موجود ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم (ص) کا جانشین اور مسلمانوں کا امام ثابت کرتی ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام، بزرگ اصحاب کا ایک گروہ اور مہاجرین اور انصار کی کثیر تعداد اس نظریہ کی طرفدار تھی۔ اور یہ وہی شیعوں کا عقیدہ ہے جو وہ مسئلہ امامت میں رکھتے ہیں۔
دوسرا گروہ کہ جس کے سربراہ حضرت ابوبکر اور عمر تھے اس عقیدہ کے مالک تھے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا۔ اور اس کام کو امت کے سپرد کر دیا۔ اسی نظریہ کے پیش نظر انہوں نے مسئلہ امامت و خلافت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سرکار دوعالم کی رحلت کے فورا بعد ہی حتی آپ کے جنازے میں شرکت کو بھی ترک کر کے اس حال میں کہ حضرت علی علیہ السلام اور کچھ گنے چنے افراد آپ (ص) کی تجہیز ، تکفین و تدفین میں مشغول تھے سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین اور انصار کو جمع کر کے مسئلہ خلافت کے سلسلے میں بحث و مباحثہ کا آغاز کر لیا اور اسی گفتگو کے دوران عمر نے ابوبکر کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کر کے قصہ تمام کر دیا اور حضرت ابوبکر کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کر دیا۔ اور حاضرین مجلس میں سے اکثر نے ان کی بیعت کر لی اور کچھ نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے دنیائے اسلام کے سیاسی اور سماجی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے اور نومولود اسلام کی حیات کو باقی رکھنے اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ ڈالنے سے پرہیز کرتے ہوئے خاموشی اختیار کر لی اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے اٹھتے تو یقینا مسلمانوں کے درمیان کافی اختلاف وجود میں آجاتا جنگ و جدال و قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو موقع مل جاتا کہ وہ اسلام کو نقصان پہنچائیں۔ انہی تمام مسائل کو پیش نظر رکھ کر امیر المومنین علی علیہ السلام نے گوشہ نشینی اختیار کی اور صبر سے کام لیا۔ اگر چہ جہاں جہاں موقع ملا آپ نے اپنے حق کا مطالبہ کیا اور اپنے عقیدہ کا اظہار کیا۔ لیکن کبھی بھی کوئی جھگڑالوں بات یا اقدام نہیں کیا۔ اور خاموشی سے اسلامی سماج کی ہدایت اور رہبریت میں مشغول رہے۔ اور ضرورت پڑنے پر خلفائے وقت کی بھی رہنمائی اور مدد کرتے اور عالم اسلام کی مشکلات حل کرتے رہے۔ یہاں تک کہ خلیفہ دوم نے کئی بار کہا: ’’ اگر علی نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا‘‘ اور نیز کہا: ’’ خدایا مجھے کسی ایسے مسئلہ میں گرفتار نہ کرنا جہاں علی موجود نہ ہوں‘‘۔(۶)
بہر حال شیعہ علی علیہ السلام کے پیروکار ہونے اور ان کی خلافت بلافصل کے معتقد ہونے کے عنوان سے رحلت پیغمبر کے بعد ابتدائی دنوں میں ہی مشہور ہو گئے تھے۔ البتہ کچھ معتبر روایتیں نیز پائی جاتی ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ لفظ شیعہ پیغمبر اکرم صلی علیہ و آلہ کے زمانے میں چار صحابیوں پر اطلاق ہو چکا تھا جو عبارت ہیں سلمان فارسی، مقداد، ابوذر اور عمار یاسر سے۔ (۷)
یہ افراد منجملہ وہ لوگ ہیں جو مسئلہ امامت اور خلافت میں علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم کا بلافصل جانشین مانتے تھے اس خاصیت اور اس نظریہ کے ساتھ کہ شیعہ امامت کے مسئلہ میں امامت کو کتاب و سنت کی نصوص سے مستند کرتے ہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیعت حقیقت میں اسلام واقعی کا دوسرا نام ہے۔
منبع: علی ربانی گلپائگانی، درآمدی بر علم کلام، ص۱۷۹
حوالہ جات
[1] . الشیعه القوم الذین تجتمعوا علی امر، و كل قوم اجتمعوا علی أمر فهم شیعه، و كل قوم أمرهم واحد یتبع بعضهم رأی بعض هم شیع. لسان العرب، كلمهی شیع، المیزان، ج17، ص147.
[2] . اوائل المقالات، ص35، الملل و النحل، ج1، ص146.
[3] . الدر المنثور، ج8، ص589، ط دارالفكر. نیز به الغدیر، ج2، ص57ـ58 رجوع شود.
[4] . اوائل المقالات، ص38.
[5] . اس سلسلے میں كتاب النص و الاجتهاد، تألیف امام شرف الدین کی طرف رجوع کیا جائے۔
[6] . مزید آشنائی کے لیے کتاب الغدیر، ج1 کی طرف رجوع کیا جائے۔
[7] . فرق الشیعه، ص17ـ18، اعیان الشیعه، ج1، ص18ـ19.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید