اولاد کي تعليم و تربيت کي فکر
قرآن وحدیث میں اولاد کی تربیت اور تعلیم کے بارے میں واضح احکامات دیئے گئے ہیں اوراس کی تاکید کی گئی ہے۔ اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگروالدین نے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں کی تو یہ بڑے خطرے کی چیز ہے۔ اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور ذمہ داری والدین پرہوگی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کلکم راع و کلکم مسول عن رعیتہ
”تم سب ”راعی“ ذمہ دار ہو اور اپنی رعیت کے ذمہ دار ہو۔
بچے اور والدین
بچے کی اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعہ اچھا سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ آج سماجی الجھنیں تعلیم و تربیت کی خامیوں کی مرہونِ منت ہیں۔ موجودہ سماج میں دینوی تعلیم پر توجہ دی جارہی ہے لیکن اسلامی اخلاق و تربیت پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے تعلیم یافتہ سماج ظلم، نا انصافیوں اور حق تلفیوں کے گھناؤنے مرض کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی باپ نے اپنے بچے کو کوئی عطیہ اورتحفہ میں ادب یعنی اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا (رواہ الترمذی) دوسری جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے ”اپنے بچوں کا اکرام کرو اور انہیں اچھی تربیت دو“ ۔ بچوں کے اکرام کا مفہوم یہ ہے کہ بچوں کو پیار دیں ،ان کو تعلیم دینے کے لئے ادب سے بلائیں تاکہ وہ والدین کی جانب سے کسی توہین کا احساس نہ کریں۔
بچے عام طور پر لاڈ پیار میں زیادتی سے خراب ہوتے ہیں۔ وہ لاڈ پیار جو تربیت کی روح سے خالی ہو۔ تربیت کے معاملے میں نرمی اورسختی دونوں کی ضرورت ہوتی ہے بچے کو جھوٹ بولنے، چوری کرنے،گالی دینے، غیبت کرنے، امانت میں خیانت کرنے، وعدہ خلافی کرنے،شراب پینے، جوا کھیلنے، آوارہ پھرنے اور وقت ضائع کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور اگر ایسی کوئی بات بچے سے سرزد ہو جائے تو فوراً تنبیہ بھی کرنی چاہئے۔ تنبیہ نہ کرنے سے بچے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ سلطانہ ڈاکو ابتداء میں ایک انڈا چوری کرکے لایا تھا اس پر تنبیہ نہ کرنے کی وجہ سے اُسے جرات ہوئی اور چوری کی عادت نے اسے شہرت یافتہ ڈاکو بنا دیا۔ جب وہ گرفتار ہوا اور اس کو پھانسی دی جارہی تھی تو اس سے پوچھا گیا کہ آخری خواہش کیا ہے تو اس نے کہا کہ آخری خواہش اپنی ماں سے ملاقات کرنا ہے۔ اس کی خواہش کے احترام میں اس کی ماں کو اس کے سامنے لایا گیا۔ اس نے ماں کے قریب جا کر بجائے کچھ کہنے کے ماں کے کان کو دانتوں سے چبا لیا۔ جب اس سے دریافت کیا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اُس نے جواب دیا کہ جس وقت میں انڈا چوری کرکے لے آیا تھا اگر میری ماں نے تنبیہ کیا ہوتا تو میں ڈاکو نہ بنتا اور آج تختہ دار پر نہ لٹکایا جاتا۔
بچوں کی جسمانی تربیت
امام غزالی (رح) نے ”احیاءالعلوم “میں یہ وصیت کی ہے کہ بچے کو قرآن پاک، احادیث نبویہ اور نیک لوگوں کے واقعات سنائے اور دینی احکام کی تعلیم دی جائے، عام طور پر بچے سات سال کی عمر میں سمجھدار ہو جاتے ہیں ،اس وقت ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہئے اور ان کو نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی پختہ ہو جاتا ہے اوربلوغ کا زمانہ قریب آ جاتا ہے۔ اس لئے نماز کے بارے میں ان پر سختی کرنی چاہئے ۔ نیز اس عمر تک پہنچ جانے کے بعد انہیں الگ الگ بستروں پر لٹانا چاہئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر کے بچوں پر نماز کے لئے سختی کرو اورلیٹتے وقت الگ الگ بستروں پر لٹاﺅ۔
والدین کو چاہئے کہ بچے کے اندر قرآن پاک پڑھنے کا شغف پیدا کریں تاکہ بچہ بڑے ہونے کے بعد قرآن پاک کو اپنی زندگی کا دستور بنائے اور اس کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کرے ۔ ایسے والدین بڑے مبارک ہیں اوراللہ کے حضور میں ان کی بڑی پذیرائی ہو گی۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے قرآن پاک پڑھا اور اس پر عمل کیا اس کے والدین کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے فائق ہو گی ،پھر تو تمہارا کیا خیال اس شخص کے بارے میں جس نے اس پر خود عمل کیا ہے۔
لہٰذا والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ اسلامی تربیت دینے کی کوشش کریں تاکہ ان کے اخلاق و سلوک میں انحراف پیدا نہ ہو۔ دشمنانِ اسلام ان نونہالوں کے اخلاق و عقائد کے بگاڑنے اور انہیں اسلامی شریعت سے دور کرنے کی نت نئی قسم کی سازشیں کر رہے ہیں۔ ریڈیو ٹی وی اورفحش لٹریچر کے ذریعہ ان کے اخلاق و کردار کو برباد کرنے کی انتھک کوشش کر رہے ہیں، ایسی صورت میں ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ بچوں کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے انہیں ضائع ہونے سے بچائیں۔ ہمارے غمخوار نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان ،جس کا ذمہ دار اور رکھوالا ہے، انہیں ضائع کر دے یعنی ان کی تربیت نہ کرے۔
تحرير: محمد سليم واني
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید