روزہ اور تربیت انسانی میں اس کا کردار
مؤلف: مولانا سید تقی عباس رضوی کلکتوی زید عزه
يا ايها اَلّذ ِينَ آمَنُوا کُتِبَ عَلِيکُمْ الصِّيام کَمٰاکُتِبَ عَََََلَی الَّذِ ينَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون۔”
ا ے ایمان لانے والو! تم پر روزے فرض کردئے گئے
جیسے تم سے پہلی امتوں پر فرض تھے تاکہ تم پرہیزگا ر بن جاؤ۔”( سورہ بقرہ ١٨٣ )
مذکورہ آیہ مبارکہ اپنے بعد والی آیت کے ہمراہ ہمیں تین اہم موضوع کی طرف متوجہ کرتی ہے : روزہ ،دعا اور قرآن یہ تینوں آیت آپس میں ایسی منسجم ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتی ہیں لہذا یہ ماہ منور ایسا بابرکت مہینہ ہے جسمیں لوگوں کا رجحان صرف اور صرف عبادات الٰہی کی طرف رہتا ہے ۔جس آیہ شریفہ کو ہم نے بیان کیا ہے وہ روزہ پر ایک محکم دلیل ہے اور مبارک مہینہ بھی روزہ اور روزہ داروں سے مخصوص ہے اس لئے ہر انسان کو ان دنوں اس پر ایک خاص توجہ دینی چاہیئے کیونکہ یہ مہینہ لوگوں کے تزکیہ نفس کا ہے ۔
قرآن مجید کے خطابات کا ایک نرالہ ہی انداز ہے کبھی اس نے ”ياايهاالناس ”کہہ کرلوگوں کو خطاب کیا ہے تو کبھی ”یا اہل الکتاب ”اور کبھی ”يا ايها الذین آمنوا ”ان تمام خطابات میں سب سے لطیف لحن قرآن کا یہ ہے کہ اس نے مومنوں کو بڑے پیارے انداز میں خطاب کیا ہے کہ ”یا ایھا الذین آمنوا”اے ایمان والو!جو سب سے بہترین لحن مانا جا تا ہے ۔
دعا عہد

دعائے عہد امام صادق(ع) سے مروی ہے اور اسے سید ابن طاؤس نے مصباح الزائر میں، ابن المشہدی نے المزار الکبیر میں،[1] کفعمی نے المصباح[2] اور البلد الامین[3] اور مجلسی نے بحارالانوار[4] اور زاد المعاد[5] میں نقل کیا ہے۔ سید ابن طاؤس، کفعمی اور علامہ مجلسی جیسے اکابرِ علماء نے اس دعا کو اپنی تالیفات میں درج کرکے اس پر اپنے قوی اعتماد کا اظہار کیا ہے، اور دوسری دعاؤں میں اس دعا کے مندرجات و محتویات کی تصدیق ہوئی ہے۔
مباھلہ کا واقعه
سوال :پیغمبر اسلام نے کس طرح مباھلہ کیا؟
جواب : مباہلہ “ در اصل ” بھل“ کے مادہ سے ہے ، اس کا معنی ہے ”رہا کرنا “ اور کسی کی قید و بندکو ختم کردینا ۔
